تحریک انصاف نواز لیگ جنگ اور طاقت کا مرکز
سیاست کوہمیشہ ممکنات کاکھیل کہا جاتا ہے مگر جب بات چیت کے امکانات معدوم کر دیے جائیں تو اس سے خون خوار کھیل کوئی نہیں
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12
سیاسی منظر نامہ انتہائی دلچسپ اگرچہ خطرناک شکل اختیار کرگیا ہے۔ اخبارات اور بیانات ایک ایسے میدان جنگ کی تصویر پیش کر تے ہیں جس میں مخالف فوجیں ٹکراؤ کے بالکل قریب پہنچ چکی ہوں۔ پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کے بعد عمومی اتفاق رائے کے درمیان میں دھاندلی کے الزامات کو بنیاد بناتے ہوئے ایک لکیر کھینچ دی ہے ۔ جس کے ایک طرف ان کے خیال کے مطابق حق اور دوسری طرف ان کے الزام کے مطابق باطل قوت موجود ہے۔
سیاست کو ہمیشہ ممکنات کا کھیل کہا جاتا ہے۔ مگر جب بات چیت کے امکانات معدوم کر دیے جائیں تو اس سے خون خوار کھیل کوئی اور ہے نہیں ۔ جن جھگڑوں کی جڑیں سیاسی بد امنی میں گڑی ہوتی ہیں وہ کبھی حل نہیں ہوتے ، بلکہ بڑھ کر تمام نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں، ملک ٹوٹ جاتے ہیں ۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی سیاسی جھگڑے کا نتیجہ تھی ۔ لیبیا میں لڑائی اختیارات کی تقسیم پر ہے، عراق کے تین ٹکڑے منتخب نمایندگان نے اپنی تعصب کی تلواریں چلا کر کیے ہیں۔ شام میں سیاسی مخاصمت ملک کی سرحدوں کو تبدیل کرنے کا باعث بنی ہے ۔
جنوبی سوڈان ہو یا نائجیریا نام نہاد ا م جمہوریت برطانیہ جہاں پر آئر لینڈ اپنے لیے علیحدہ شناخت تلاش کر رہا ہے ۔ ہر جگہ سے ایک ہی خبر سامنے آتی ہے ۔سیاست کو ممکنات کی دنیا سے نکال کر نا ممکن کے نہاں خانوں میں لے جانے کا نتیجہ فساد کے سوا بہت کم کچھ اور نکلتا ہے ۔ مگر تحریک انصاف کی قیادت کا خیال ہے کہ وہ اس سیاسی جنگ سے پاکستان کو حقیقی آزادی دلوانے میں کامیاب ہو جائے گی۔
ایک ایسا نظام بنے گا جس میں عام انتخابات جنت کے پانی کی لہروں جیسے شفاف ہوں گے ۔ جہاں پر اصول ہیرا پھیری پر حکومت کریں گے اور خلق خدا راج کرے گی ( یعنی عمران خان وزیر اعظم بن جائیں گے)۔ تحریک انصاف کی تمام قیادت اس نقطہ فکر سے شاید اتفاق نہ کرتی ہو لیکن عمران خان کی جانب سے اس موقف کے حق میں حتمی ووٹ ڈالے جانے کے بعد اب ان کے لیے راستہ ایک ہی ہے ، یعنی چودہ اگست کو اسلام آباد میں دھرنا۔
اگرعمران خان وہ تمام نتائج حاصل کر پائے جن کے بارے میں وہ گاہے بگاہے بیان دیتے رہتے ہیں اور جن کی وضاحت وہ آج سہ پہر پریس کانفرنس میں کریں گے ۔ تو ان کے لیے سیاسی جیت اتنی بڑی ہو گی کہ شاید ذوالفقار علی بھٹو بھی آسمان پر ان سے حسد کرنے لگیں ۔ مگر دوسری طرف اگر دھرنے کے باوجود حکومت کا بال بھی بیکا نہ ہوا اور مطالبات کو منوانے کے لیے روایتی سیاسی بات چیت کا سہارا لینا پڑا تو پاکستان تحریک انصاف کے لیے سیاسی دھچکا ایسا ہی ہو گا جیسے پاکستان مسلم لیگ ق کے لیے 2013 کا انتخاب تھا ۔ عمران خان ممکنہ فوائد و حقیقی سیاسی نقصانات سے یقیناً واقف ہوں گے ۔ لہذا ان کی طرف سے اسلام آباد پر دھاوا ایک بڑے سیاسی جوئے سے کم نہیں ، یا آر یا پار۔
پاکستان مسلم لیگ نواز کے لیے بھی معاملات واضح ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ وہ وقت گزر گیا جب حکومت صرف یہ کہہ کر گزارا کرلیتی کہ جب ہو گا تب دیکھ لیں گے ۔ وقت کا گھوڑا سر پِٹ بھاگ رہا ہے ، بات چیت کی دعوت اگرچہ کار آمد ثابت نہیں ہوئی تھی مگر پھر بھی حکومت کی طرف سے اس میں کوئی خاص دلچسپی نظر نہیں آئی ۔ ایک دو مرتبہ رابطے کرنے سے سیاسی گرہیں نہیں کھلتی ۔
ویسے بھی نواز لیگ میں یہ تصور گہرا ہو گیا ہے کہ عمران خان کا مقدمہ بے جان ہے۔ وہ اپنی سیاسی طاقت کو نظام کی اصلاح کے لیے نہیں بلکہ حکومت کو گرانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں، لہذا ان سے بات چیت لا حاصل ہے ۔ حکومت کو اب فیصلہ تیرا اور چودہ اگست کو انتظامی امور کے حوالے سے کرنا ہے ۔ اسلام آباد کی طرف آتے ہوئے جلوسوں کو روکنے سے لے کر دارالحکومت میں اکھٹا ہونے کے بعد تحریک انصاف کے کارکنوں کو سنبھالنا وہ معاملات ہیں جن سے متعلق کیے گئے فیصلے گہرے سیاسی نتائج کا باعث بن سکتے ہیں۔
ماضی کی روایات کو چھوڑ کر حکومت صفر مزاحمت کی پالیسی اپنا سکتی ہے ۔ اگر ایسا ہوا تو تحریک انصاف کا ایک احتجاج زائل ہو جائے گا جو ایسے موقع پر تمام مخالف جماعتیں عموما اختیار کرتی ہیںاور وہ یہ کہ حکومت نے ان کے کارکنوں کو روک کر ان کے جلسے کا حجم کم کر دیا ۔ مگر دوسری طرف کھلی چھوٹ دینے کا مطلب خطرات کو دعوت دینا ہے ۔ جس میں سب سے بڑا خطرہ ممکنہ دہشت گردی کی واردات سے متعلق ہے۔
ملک بھر سے چلنے والے قافلوں کا سفر اور ان کی منزل اور پھر منزل پر قیام بدترین خطرات سے اٹا ہوا ہے ۔ فی الحال سیاسی تنائو کی اس کیفیت میں کوئی ان خطرات پر توجہ نہیں دے رہا جو ایک پریشان کن حقیقت ہے ۔ ایک ایسا ملک جس میں سیاسی قیادت دہشت گردوں کا خصوصی نشانہ رہی ہو اتنے بڑے سیاسی اجتماع کے وقت اس خوفناک پہلو کو نظر انداز کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ کسی بڑے حملے کی صورت میں حکومت الزامات کی زد میں آئے گی اور تحریک انصاف رد عمل کو کنٹرول نہیں کر پائے گی ۔
ان حالات میں نہ معاملہ نواز لیگ سدھار سکے گی اور نہ ہی تحریک انصاف ۔سیاسی مسائل کو طاقت کی جنگ میں تبدیل کرکے وقتی جوش اور جذبہ تو پیدا کیا جا سکتا ہے مگر ایسے اقدامات ملک کو مفلوج بھی کر سکتے ہیں۔ اس وقت جب ہر کوئی جمہوریت کو بچانے کا دعویٰ کر رہا ہے یہ تلخ حقیقت عیاں ہوتی جا رہی ہے کہ طاقت کا اصل مرکز بنی گالہ اور جاتی عمرہ سے ہٹ کر راولپنڈی کی طرف منتقل ہو رہا ہے اور اگر کسی کو یہ سچ سمجھ نہیں آ رہا تو پھر اس کی نادانی کا کوئی علاج نہیں ۔