آئی ڈی پیز سے آئی ڈی پیز تک
’’ریاست ہوگی ماں کے جیسی‘‘کی گردان سنتے سنتے ہمارا لڑکپن،جوانی میں ڈھلا۔ اب جوانی ڈھلنے کو آئی
''ریاست ہوگی ماں کے جیسی''کی گردان سنتے سنتے ہمارا لڑکپن،جوانی میں ڈھلا۔ اب جوانی ڈھلنے کو آئی لیکن اس ریاست کو دیکھنے کو آنکھیں ترس گئیں جو اپنے شہریوں کے لیے ماں کے جیسی ہو۔فیض صاحب نے جس داغ داغ اجالے اور شب گزیدہ سحرکا رونا، سن سینتالیس میں رویا تھا، اُس نے گویا انتقاماً مستقل ایسے ڈیرے ڈال دیے کہ جانے کا نام ہی نہیں لیتی۔ ہر موڑ پہ گماں ہوتا ہے کہ نجاتِ دیدہ ودل کی گھڑی آ پہنچی، پر ابھی سانس بھی نہیں لے پاتے پھر'چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی 'کی صدا آ پہنچتی ہے۔
پاکستان میں ایک بار پھر انقلاب کا غلغلہ ہے تو کہیں آزادی کی صدائیں...خبرکے نام پہ میڈیا کو چودہ اگست تک 'خوراک' کا خاصا وافر ذخیرہ مہیا ہو گیا ہے۔کم ازکم اس انقلاب کے آنے تک انھیں موضوع کی کم یابی کا معاملہ درپیش نہیں ہوگا۔ساتھ میں بیک گراؤنڈ میوزک کے بطور آئی ڈی پیز کا ذکر بھی چلتا رہے گا، کہ اسکرین پھیکی نہ لگے۔
آئی ڈی پیز کی اصطلاح اب لگتا ہے کہ پاکستان میں ایک خاص علاقے سے مخصوص ہو کے رہ گئی ہے۔ ذرا دو ہزار پانچ کا تباہ کن زلزلہ یاد کیجیے۔ ہزاروں اموات اور لاکھوں متاثر ہوئے۔ یہ لاکھوں متاثرین آئی ڈی پیز کہلائے۔ حکومت سے لے کر، مخیر حضرات اور ادارے ان کی مدد کو بروقت پہنچے حتیٰ کہ عالمی اداروں کی فوری رسائی کو بھی ممکن بنایا گیا۔اس سانحے کے کوئی دس ماہ بعد بلوچستان میں ایک تباہ کن آپریشن کے نتیجے میں ڈیرہ بگٹی اور کوہلو سے ہزاروں متاثرین بے گھر ہوئے۔
یہ لوگ اپنے قریبی اضلاع جعفرآباد، نصیرآباد، سندھ کے قریبی علاقے کشمور، جیکب آباد اور پنجاب سے ملحقہ ڈیرہ غازی خان کی طرف مراجعت کرگئے۔میں ان دنوں کوئٹہ کے ایک اخبار کے لیے فیچر لکھا کرتا تھا۔ ان متاثرین کی حالتِ زار پہ فیچر لکھنے کے لیے میں بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں مقیم ان آئی ڈی پیز کے گھروں تک گیا۔ ان کی حالتِ زار میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی اور کیمرے میں محفوظ کی۔
ایک اَسی سالہ مری بزرگ کا جملہ میں آج بھی نہیں بھولتا جس نے اپنے جھونپڑوں کے سامنے کھڑے ہو کرایک ہاتھ میں اپنا بوسیدہ شناختی کارڈ لہراتے ہوئے ٹوٹی پھوٹی اردو میں کہا تھا، 'حکومت کا ترجمان بولتا ہے، اِدھر کوہلو کا کوئی آدمی نہیں، سب یہاں کا لوکل ہے، اس کو ہمارا شناختی کارڈ دکھاؤ، بولو یہ ایک نہیں ہمارے ساتھ بیس ہزار لوگ اُدھر سے دربدر ہوا ہے، یہ سب تم کو نظر نہیں آتا!''واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے ان متاثرین کے لیے خوراک کی پیشکش کے جواب میں اُس وقت کے حکومتی ترجمان نے کہا تھا کہ کوئی مری ، بگٹی متاثر نہیں ہوا، ان اضلاع میں جو مری بگٹی موجود ہیں، وہ یہاں کے مقامی باشندے ہیں۔
یہ کوئی دو ہزار چھ کی بات ہے۔ گزشتہ آٹھ برسوں میں پاکستان میں بظاہر بہت کچھ بدل گیا۔ پر بلوچستان کے لیے لگتا ہے کچھ نہیں بدلا اور اگر بدلا تو فقط اتنا کہ پہلے مرکزی میڈیا میں یہاں کے دکھوں پہ کوئی ایک آدھ خبر آ جاتی تھی، اب وہ بھی چھپ گئی ہے۔ کیا آپ نے اس بابت کسی اخبار میں کوئی سنگل کالم خبر،کسی ٹی وی چینل پہ کوئی ایک ٹِکر ملاحظہ کیا ہے؟ ہم نہیں جانتے کہ یہ دانستہ ہے یا نادانستہ، اس کا سبب بے رحم مارکیٹ اکانومی ہے یا کوئی ضابطہ اخلاق... لیکن اس غیر پیشہ ورانہ رویے پہ اگر کوئی سوال اٹھتا یا تحفظات کا اظہار ہوتا ہے، تو اس پہ غور کرنا ہوگا۔
وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف کیے جانے والا آپریشن اور اس پہ سیاسی جماعتوں سمیت تمام سماجی طبقات کا صاد کرنا برحق، نیز وہاں کے عام متاثرین المعروف آئی ڈی پیز کے لیے ہر سطح پہ کی جانے والی کاوشیں بھی لائقِ صد تحسین، لیکن یہ سوال اپنی جگہ کہ آخر ملک کے دیگر علاقوں کے آئی ڈی پیز پر بھی توجہ دی جائے؟
آئینی اور اصولی طور پر ریاست کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اُس کے خلاف برسرپیکار قوتوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹے۔ ریاست اپنے باغیوں کے خلاف ہر قسم کی آئینی کارروائیوں کا حق محفوظ رکھتی ہے۔گو کہ وزیرستان اور بلوچستان میں ریاست سے برسرپیکارافراد یا گروہوں کا پس منظر اور نقطہ نظر یکسر مختلف ہے۔ لیکن ریاست انھیں بطور باغی ہی دیکھتی ہے تو اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ گولی کا جواب وہ گولی سے دے، اور چاہے تو ان کے خلاف بھرپور کارروائی کرے۔
بلوچستان کے مقامی اخبارات اور یہاں سے شایع ہونے والے ملکی اخبارات کے ایڈیشن کے بیک پیج پہ گوریلا تنظیموں کے لیے یک کالمی اسپیس مختص ہے، جس میں روزانہ کی بنیاد پہ 'ذمے داری قبول کر لی' کی سرخی کے ساتھ ان کی کارروائیاں شایع ہوتی ہیں، جن کا آخری فقرہ ہوتا ہے 'سرکاری ذرایع نے ان خبروں کی تردید کی ہے۔' اس سے قبل سرکاری ذرایع کی جانب سے ان کی 'کارکردگی' کی خبریں بھی شایع ہوتی تھیں، لیکن اب ایسا نہیں ہو رہا۔ رہا مرکزی دھارے کا میڈیا تو اس کے لیے، بلوچستان کے ایک دور دراز کونے میں ، پہاڑوں کے دامن میں کیا ہو رہا ہے، یہ جاننا اس کا دردِ سر ہے ہی نہیں۔ حکومت سے پوچھیں تو ان کا رٹا رٹایا ایک ہی فقرہ ہمہ وقت حاضر ہے کہ ،'بلوچستان میں کوئی آپریشن نہیں ہو رہا، معمول کی کارروائیاں ہیں۔
مکران کے علاقے میں لوگوں کے معاش کا ایک بڑا ذریعہ کھجور کے باغات ہیں۔ بالخصوص قصبات میں لگ بھگ ہر دوسرا فرد کھجور کے چھوٹے موٹے باغ کا مالک ہے یا اس کی کاشت سے وابستہ ہے۔ اور جولائی تا اگست کھجور کی فصل پک کر تیار ہونے کا موسم ہے۔ مگر یہ لوگ پریشان ہیں اور کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں۔ اس وقت صرف یہ خواہش ہے کہ بلوچستان میں ان افراد پر بھی توجہ دی جائے۔
پاکستان میں ایک بار پھر انقلاب کا غلغلہ ہے تو کہیں آزادی کی صدائیں...خبرکے نام پہ میڈیا کو چودہ اگست تک 'خوراک' کا خاصا وافر ذخیرہ مہیا ہو گیا ہے۔کم ازکم اس انقلاب کے آنے تک انھیں موضوع کی کم یابی کا معاملہ درپیش نہیں ہوگا۔ساتھ میں بیک گراؤنڈ میوزک کے بطور آئی ڈی پیز کا ذکر بھی چلتا رہے گا، کہ اسکرین پھیکی نہ لگے۔
آئی ڈی پیز کی اصطلاح اب لگتا ہے کہ پاکستان میں ایک خاص علاقے سے مخصوص ہو کے رہ گئی ہے۔ ذرا دو ہزار پانچ کا تباہ کن زلزلہ یاد کیجیے۔ ہزاروں اموات اور لاکھوں متاثر ہوئے۔ یہ لاکھوں متاثرین آئی ڈی پیز کہلائے۔ حکومت سے لے کر، مخیر حضرات اور ادارے ان کی مدد کو بروقت پہنچے حتیٰ کہ عالمی اداروں کی فوری رسائی کو بھی ممکن بنایا گیا۔اس سانحے کے کوئی دس ماہ بعد بلوچستان میں ایک تباہ کن آپریشن کے نتیجے میں ڈیرہ بگٹی اور کوہلو سے ہزاروں متاثرین بے گھر ہوئے۔
یہ لوگ اپنے قریبی اضلاع جعفرآباد، نصیرآباد، سندھ کے قریبی علاقے کشمور، جیکب آباد اور پنجاب سے ملحقہ ڈیرہ غازی خان کی طرف مراجعت کرگئے۔میں ان دنوں کوئٹہ کے ایک اخبار کے لیے فیچر لکھا کرتا تھا۔ ان متاثرین کی حالتِ زار پہ فیچر لکھنے کے لیے میں بلوچستان کے سرحدی اضلاع میں مقیم ان آئی ڈی پیز کے گھروں تک گیا۔ ان کی حالتِ زار میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی اور کیمرے میں محفوظ کی۔
ایک اَسی سالہ مری بزرگ کا جملہ میں آج بھی نہیں بھولتا جس نے اپنے جھونپڑوں کے سامنے کھڑے ہو کرایک ہاتھ میں اپنا بوسیدہ شناختی کارڈ لہراتے ہوئے ٹوٹی پھوٹی اردو میں کہا تھا، 'حکومت کا ترجمان بولتا ہے، اِدھر کوہلو کا کوئی آدمی نہیں، سب یہاں کا لوکل ہے، اس کو ہمارا شناختی کارڈ دکھاؤ، بولو یہ ایک نہیں ہمارے ساتھ بیس ہزار لوگ اُدھر سے دربدر ہوا ہے، یہ سب تم کو نظر نہیں آتا!''واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی جانب سے ان متاثرین کے لیے خوراک کی پیشکش کے جواب میں اُس وقت کے حکومتی ترجمان نے کہا تھا کہ کوئی مری ، بگٹی متاثر نہیں ہوا، ان اضلاع میں جو مری بگٹی موجود ہیں، وہ یہاں کے مقامی باشندے ہیں۔
یہ کوئی دو ہزار چھ کی بات ہے۔ گزشتہ آٹھ برسوں میں پاکستان میں بظاہر بہت کچھ بدل گیا۔ پر بلوچستان کے لیے لگتا ہے کچھ نہیں بدلا اور اگر بدلا تو فقط اتنا کہ پہلے مرکزی میڈیا میں یہاں کے دکھوں پہ کوئی ایک آدھ خبر آ جاتی تھی، اب وہ بھی چھپ گئی ہے۔ کیا آپ نے اس بابت کسی اخبار میں کوئی سنگل کالم خبر،کسی ٹی وی چینل پہ کوئی ایک ٹِکر ملاحظہ کیا ہے؟ ہم نہیں جانتے کہ یہ دانستہ ہے یا نادانستہ، اس کا سبب بے رحم مارکیٹ اکانومی ہے یا کوئی ضابطہ اخلاق... لیکن اس غیر پیشہ ورانہ رویے پہ اگر کوئی سوال اٹھتا یا تحفظات کا اظہار ہوتا ہے، تو اس پہ غور کرنا ہوگا۔
وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف کیے جانے والا آپریشن اور اس پہ سیاسی جماعتوں سمیت تمام سماجی طبقات کا صاد کرنا برحق، نیز وہاں کے عام متاثرین المعروف آئی ڈی پیز کے لیے ہر سطح پہ کی جانے والی کاوشیں بھی لائقِ صد تحسین، لیکن یہ سوال اپنی جگہ کہ آخر ملک کے دیگر علاقوں کے آئی ڈی پیز پر بھی توجہ دی جائے؟
آئینی اور اصولی طور پر ریاست کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اُس کے خلاف برسرپیکار قوتوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹے۔ ریاست اپنے باغیوں کے خلاف ہر قسم کی آئینی کارروائیوں کا حق محفوظ رکھتی ہے۔گو کہ وزیرستان اور بلوچستان میں ریاست سے برسرپیکارافراد یا گروہوں کا پس منظر اور نقطہ نظر یکسر مختلف ہے۔ لیکن ریاست انھیں بطور باغی ہی دیکھتی ہے تو اسے یہ حق پہنچتا ہے کہ گولی کا جواب وہ گولی سے دے، اور چاہے تو ان کے خلاف بھرپور کارروائی کرے۔
بلوچستان کے مقامی اخبارات اور یہاں سے شایع ہونے والے ملکی اخبارات کے ایڈیشن کے بیک پیج پہ گوریلا تنظیموں کے لیے یک کالمی اسپیس مختص ہے، جس میں روزانہ کی بنیاد پہ 'ذمے داری قبول کر لی' کی سرخی کے ساتھ ان کی کارروائیاں شایع ہوتی ہیں، جن کا آخری فقرہ ہوتا ہے 'سرکاری ذرایع نے ان خبروں کی تردید کی ہے۔' اس سے قبل سرکاری ذرایع کی جانب سے ان کی 'کارکردگی' کی خبریں بھی شایع ہوتی تھیں، لیکن اب ایسا نہیں ہو رہا۔ رہا مرکزی دھارے کا میڈیا تو اس کے لیے، بلوچستان کے ایک دور دراز کونے میں ، پہاڑوں کے دامن میں کیا ہو رہا ہے، یہ جاننا اس کا دردِ سر ہے ہی نہیں۔ حکومت سے پوچھیں تو ان کا رٹا رٹایا ایک ہی فقرہ ہمہ وقت حاضر ہے کہ ،'بلوچستان میں کوئی آپریشن نہیں ہو رہا، معمول کی کارروائیاں ہیں۔
مکران کے علاقے میں لوگوں کے معاش کا ایک بڑا ذریعہ کھجور کے باغات ہیں۔ بالخصوص قصبات میں لگ بھگ ہر دوسرا فرد کھجور کے چھوٹے موٹے باغ کا مالک ہے یا اس کی کاشت سے وابستہ ہے۔ اور جولائی تا اگست کھجور کی فصل پک کر تیار ہونے کا موسم ہے۔ مگر یہ لوگ پریشان ہیں اور کوئی ان کا پرسانِ حال نہیں۔ اس وقت صرف یہ خواہش ہے کہ بلوچستان میں ان افراد پر بھی توجہ دی جائے۔