سندھی افسانہ…
اصل میں افسانہ ناول کی پسلیوں سے نکلا ہے، ناول اٹھارویں صدی عیسوی میں اپنی مکمل شکل میں منظرعام پر آیا،
اصل میں افسانہ ناول کی پسلیوں سے نکلا ہے، ناول اٹھارویں صدی عیسوی میں اپنی مکمل شکل میں منظرعام پر آیا، جس کی شروعات سیموئل رچرڈسن نے ''پامیلا'' سے کی۔ انیسویں صدی میں انگلینڈ کے چارلس ڈکنز نے ''ٹیل آف ٹوسٹیز'' ہارڈی نے ''ریٹرن آف دی نیٹو'' اور روس کے ٹالسٹائی نے ''وار اینڈ پیس'' لکھ کر ناول کو فن کی بلندیوں تک پہنچایا لیکن جیسے ہی یورپ صنعتی انقلاب کی طرف کود پڑا تو معاشرتی تبدیلیاں رونما ہوئیں، یوں ناول کے ساتھ افسانے نے بھی جنم لیا، جس کی شروعات امریکی افسانہ نگار ایڈگر ایلن پو نے کی۔
اس طرح سندھی افسانے نے بھی انگریزی افسانے سے اثر لیا۔ شروع میں لوک کہانیاں، قصے اور رزمیہ شاعری ہمیں ملتی ہے لیکن بیسویں صدی عیسوی میں ہمیں سندھی افسانہ نظر آتا ہے۔ کچھ محققین کا خیال ہے کہ پہلا سندھی افسانہ میراں محمد شاہ اول نے کرشنا دتا کے لکھے ہوئے سندھی افسانے سو اور کبودی کا سندھی ترجمہ ''سدھا توری ائیں کدھا توری جی گالھ'' کیا، تاہم یہ افسانے کے مکمل لوازمات پورے نہیں کر رہا تھا۔ اس طرح پھر مرزا قلیچ بیگ نے بھی طبع زاد لکھے اور ترجمے کیے، تاہم بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں اصل سندھی افسانہ میدان میں آیا جو افسانے کے مکمل لوازمات پورے کررہا تھا، یوں سندھی افسانہ ایک نئے دور میں داخل ہوا۔
اس دور کے سندھی افسانہ نویس مرزا نادر بیگ، امر لال ہنگورانی، جیٹھل پرس رام، گوبند مالہی اور گوبند پنجابی وغیرہ شامل تھے، جنھوں نے ''بھاجائی جی مضمون نویسی، سس رستم جی، چمڑا پوش جوں آکھانیوں، ادو عبدالرحمان'' جیسے افسانے لکھے۔ 1936 میں سندھ کے ادیبوں پر سوشلسٹ تحریک کا اثر ہوا تو اس دور کے افسانوں میں ترقی پسندی کی جھلک بھی ہمیں نظر آتی ہے، گوبند مالہی کے افسانے ''ہاری حقدار'' سے لے کر حیدر بخش جتوئی کے مختلف افسانوں تک یہ رنگ ہمیں ملتا ہے۔
پاکستان بننے کے بعد سندھی ہندو ہجرت کرکے ہندوستان چلے گئے تو سندھی افسانے میں ایک خلا پیدا ہوا، لیکن 1950 میں سندھی افسانے نے ایک بار پھر رینگنا شروع کیا۔ محمد عثمان ڈیپلائی نے تقریباً دو سو افسانے لکھے جن میں اکثر کا موضوع پیری مریدی تھا، یوں سندھی افسانہ تخلیق اور شہرت کے عروج پر پہنچا، جمال ابڑو، غلام ربانی آگرو، ایاز قادری، تنویر عباسی، نسیم کھرل، امر جلیل، عبدالقادر جونیجو، خیرالنسا جعفری، علی بابا اور نورالہدیٰ شاہ جیسے افسانہ نگاروں نے خوبصورت افسانے لکھے، جسے سندھی افسانے کا سنہری دور کہا جاسکتا ہے۔ 80 کی دہائی کے بعد سندھی افسانے میں وہ دم خم نہ رہا اور معیار کے لحاظ سے زوال پذیری کی جانب رواں دواں ہوا، جو ابھی اسی حال میں ہے۔
کچھ سال پہلے خیرپور میں سندھی افسانے کے مایہ ناز لکھاری نسیم کھرل کی برسی کے موقعے پر پاکستان کے ممتاز ڈرامہ نگار اور افسانہ نویس عبدالقادر جونیجو نے کچھ کھری باتیں کیں کہ ''اس میں کوئی شک نہیں ہمارے ہاں سندھی زبان میں اچھے افسانے لکھے جا رہے ہیں لیکن جسے عظیم یا مہان افسانہ کہتے ہیں وہ شاید ابھی ختم ہوچکا ہے۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ بیسویں صدی کی ابتدا میں جب چیخوف ٹی بی کی بیماری کی وجہ سے وفات پاگئے اس دن مغربی افسانہ بھی وفات پاگیا لیکن اچھے افسانے لکھے جارہے ہیں، بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں جب عابد حسن منٹو دنیا سے چلا گیا تو اردو کے عظیم افسانے کا بھی اختتام ہوگیا، میں کہتا ہوں کہ جب اندھیری رات میں چھوٹی عمر میں نسیم کھرل کو گولی لگی تو اسی رات سندھی زبان کا عظیم افسانہ بھی الوداع کرگیا یا مختصر یہ کہ یورپ میں عظیم افسانہ ٹی بی کی وجہ سے فوت ہوگیا، اردو کے افسانے نے خودکشی کرلی اور سندھی کا مہان افسانہ گولی کا شکار ہوگیا''۔
ان الفاظ پر سندھ کے ادبی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی، توپوں کے رخ جونیجوکی طرف کردیے گئے، ان کے بیان سے عظیم لفظ غائب کرکے افسانے پر طبع آزمائی ہوتی رہی، وہ جو کہتے ہیں کہ سانپ نکل گیا لکیریں پیٹی جارہی ہیں، کئی ادیب حضرات تو آپے سے باہر ہوگئے کہ سندھی افسانہ مرا کب ہے؟ ارے بھائی بات عظیم سندھی افسانے کی ہو رہی ہے اور آپ سندھی افسانہ افسانہ کرکے تھک گئے ہیں۔ کس نے انکار کیا ہے کہ سندھی افسانہ لکھا نہیں جارہا، بلکہ سندھی افسانہ تو تھوک کے حساب سے لکھا جا رہا ہے، البتہ سوال یہ ہے کہ ساٹھ کی دہائی سے لے کر اسی کی دہائی تک جمال ابڑو، نسیم کھرل، امر جلیل، علی بابا، عبدالقادر جونیجو، نورالہدیٰ شاہ ، خیرالنسا جعفری وغیرہ نے جو افسانے لکھے، کیا ابھی اس طرح کے شاہکار افسانے لکھے جا رہے ہیں؟
موجودہ دور میں صدیق منگیو، منور سراج، منظور کوہیار، رسول میمن وغیرہ بھی سندھی افسانے میں اپنا آپ نبھا رہے ہیں، لیکن یہاں بات معیار کی ہورہی ہے، کیوں کہ 2013 کا ادب کا نوبل پرائز کافی عرصے بعد شاندار افسانے لکھنے والی الائس منرو کو دیا گیا ہے۔ تو دنیا کے ادبی حلقوں میں ایک بار پھر افسانے پر بحث چھڑگئی ہے۔ کیا سندھی میں اب بھی ایسے افسانے لکھے جا رہے ہیں؟ جو جمال ابڑو کے ''پشو پاشا'' یا نسیم کھرل کے ''چوٹیہوں در'' کی طرح معیاری ہوں، یا پھر موجودہ دور میں تاملی، ہندی، بنگالی، ترکش، انگریزی، عربی زبانوں کے لکھاریوں یا ان زبانوں میں تخلیق ہونے والے افسانے کے معیار کا مقابلہ کرسکیں؟
آج کل سندھی زبان میں جتنے اخبار اور ادبی رسالے وغیرہ نکلتے ہیں وہ شاید ہی کسی اور پاکستان کی علاقائی زبان میں نکلتے ہوں، دوسرا یہ کہ سندھی ادب کو بھی نمایاں جگہ دی جاتی ہے، اس کے باوجود بھی سندھی افسانہ اسی طرح پل بڑھ نہیں رہا۔ میں حال ہی میں وی ایس نائپال کی بائیوگرافی The World is what it is پڑھ رہا تھا، اس میں نائیپال نے جدید تقاضوں کے مطابق فکشن لکھنے کے گر دیے ہوئے تھے کہ کس طرح ایک اچھے افسانے یا ناول کو لکھا جاسکتا ہے، جس میں نائیپال مرکزی خیال سے لے کر چھوٹے چھوٹے جملوں تک کی بات کرتا ہے، لیکن وہ دو چیزوں کو خصوصی اہمیت دیتا ہے، ایک تخلیقی پاور دوسرا مطالعہ اور مشاہدہ۔ میں جب بھی موجودہ سندھی افسانے کو پڑھتا ہوں تو ان چیزوں کی کمی نظر آتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارا موجودہ سندھی افسانہ کسی اور ہمعصر زبان کے افسانے کے مقابلے میں اتنا طاقتور نظر نہیں آتا۔ وہ افسانہ جس میں تخلیقیت کا عنصر ٹھاٹھیں مارتا دکھائی دے، جس میں لفاظی کم اور معنی خیز جملے زیادہ ہوں اور ہر پڑھنے والے کے ذہن میں کوئی سوال پیدا کرے، وہی شاہکار افسانہ ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہمارے ہاں وہ نقاد بھی نہیں رہے، نہ ہی معیاری تنقید کے وہ اصول، جن کی بنا پر تخلیقات کا جاندار تجزیہ کیا جا سکے۔
ہمارے ہاں تو تنقیدی نشست کے بجائے کتاب کی رونمائی پر زیادہ زور رہتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ مقررین نے تخلیقات پر بات کرنے کے بجائے صاحب کتاب کی صرف واہ واہ کرنی ہے یا پھر اگر کسی کے من میں آجائے تو وہ اپنے نظریاتی چشمے یا ذاتی تعلقات کی بنیاد پر تصانیف کی چیر پھاڑ کرتا ہے اور اپنی کم عقلی اور کم علمی کی بنا پر شخصی تنقید پر اکتفا کرتا ہے، اور اپنے خیالات اور نظریات دوسروں پر ٹھونستا ہے۔
کیا ایسے ادبی رجحانات کسی زبان کے ادب کی مثبت تعمیر کرسکتے ہیں؟ کیا ہم اپنی تصنیفات اور دنیا کے ہمعصر لکھاریوں کی تصنیفوں کا موازنہ کرکے کوئی معیاری ادب تخلیق نہیں کرسکتے یا صرف امریکیوں کی طرح اپنی ناک سے آگے دیکھنا نہیں چاہتے، یا ہماری سوچ یہ ہے کہ صرف اپنی چھوٹی سی دنیا میں رہ کے اپنا معیاری ادب تخلیق کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں سندھی افسانے میں جدید ادبی تقاضوں کے مطابق کسی مثبت تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے؟
اس طرح سندھی افسانے نے بھی انگریزی افسانے سے اثر لیا۔ شروع میں لوک کہانیاں، قصے اور رزمیہ شاعری ہمیں ملتی ہے لیکن بیسویں صدی عیسوی میں ہمیں سندھی افسانہ نظر آتا ہے۔ کچھ محققین کا خیال ہے کہ پہلا سندھی افسانہ میراں محمد شاہ اول نے کرشنا دتا کے لکھے ہوئے سندھی افسانے سو اور کبودی کا سندھی ترجمہ ''سدھا توری ائیں کدھا توری جی گالھ'' کیا، تاہم یہ افسانے کے مکمل لوازمات پورے نہیں کر رہا تھا۔ اس طرح پھر مرزا قلیچ بیگ نے بھی طبع زاد لکھے اور ترجمے کیے، تاہم بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں اصل سندھی افسانہ میدان میں آیا جو افسانے کے مکمل لوازمات پورے کررہا تھا، یوں سندھی افسانہ ایک نئے دور میں داخل ہوا۔
اس دور کے سندھی افسانہ نویس مرزا نادر بیگ، امر لال ہنگورانی، جیٹھل پرس رام، گوبند مالہی اور گوبند پنجابی وغیرہ شامل تھے، جنھوں نے ''بھاجائی جی مضمون نویسی، سس رستم جی، چمڑا پوش جوں آکھانیوں، ادو عبدالرحمان'' جیسے افسانے لکھے۔ 1936 میں سندھ کے ادیبوں پر سوشلسٹ تحریک کا اثر ہوا تو اس دور کے افسانوں میں ترقی پسندی کی جھلک بھی ہمیں نظر آتی ہے، گوبند مالہی کے افسانے ''ہاری حقدار'' سے لے کر حیدر بخش جتوئی کے مختلف افسانوں تک یہ رنگ ہمیں ملتا ہے۔
پاکستان بننے کے بعد سندھی ہندو ہجرت کرکے ہندوستان چلے گئے تو سندھی افسانے میں ایک خلا پیدا ہوا، لیکن 1950 میں سندھی افسانے نے ایک بار پھر رینگنا شروع کیا۔ محمد عثمان ڈیپلائی نے تقریباً دو سو افسانے لکھے جن میں اکثر کا موضوع پیری مریدی تھا، یوں سندھی افسانہ تخلیق اور شہرت کے عروج پر پہنچا، جمال ابڑو، غلام ربانی آگرو، ایاز قادری، تنویر عباسی، نسیم کھرل، امر جلیل، عبدالقادر جونیجو، خیرالنسا جعفری، علی بابا اور نورالہدیٰ شاہ جیسے افسانہ نگاروں نے خوبصورت افسانے لکھے، جسے سندھی افسانے کا سنہری دور کہا جاسکتا ہے۔ 80 کی دہائی کے بعد سندھی افسانے میں وہ دم خم نہ رہا اور معیار کے لحاظ سے زوال پذیری کی جانب رواں دواں ہوا، جو ابھی اسی حال میں ہے۔
کچھ سال پہلے خیرپور میں سندھی افسانے کے مایہ ناز لکھاری نسیم کھرل کی برسی کے موقعے پر پاکستان کے ممتاز ڈرامہ نگار اور افسانہ نویس عبدالقادر جونیجو نے کچھ کھری باتیں کیں کہ ''اس میں کوئی شک نہیں ہمارے ہاں سندھی زبان میں اچھے افسانے لکھے جا رہے ہیں لیکن جسے عظیم یا مہان افسانہ کہتے ہیں وہ شاید ابھی ختم ہوچکا ہے۔
کہنے والے کہتے ہیں کہ بیسویں صدی کی ابتدا میں جب چیخوف ٹی بی کی بیماری کی وجہ سے وفات پاگئے اس دن مغربی افسانہ بھی وفات پاگیا لیکن اچھے افسانے لکھے جارہے ہیں، بیسویں صدی کی پانچویں دہائی میں جب عابد حسن منٹو دنیا سے چلا گیا تو اردو کے عظیم افسانے کا بھی اختتام ہوگیا، میں کہتا ہوں کہ جب اندھیری رات میں چھوٹی عمر میں نسیم کھرل کو گولی لگی تو اسی رات سندھی زبان کا عظیم افسانہ بھی الوداع کرگیا یا مختصر یہ کہ یورپ میں عظیم افسانہ ٹی بی کی وجہ سے فوت ہوگیا، اردو کے افسانے نے خودکشی کرلی اور سندھی کا مہان افسانہ گولی کا شکار ہوگیا''۔
ان الفاظ پر سندھ کے ادبی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی، توپوں کے رخ جونیجوکی طرف کردیے گئے، ان کے بیان سے عظیم لفظ غائب کرکے افسانے پر طبع آزمائی ہوتی رہی، وہ جو کہتے ہیں کہ سانپ نکل گیا لکیریں پیٹی جارہی ہیں، کئی ادیب حضرات تو آپے سے باہر ہوگئے کہ سندھی افسانہ مرا کب ہے؟ ارے بھائی بات عظیم سندھی افسانے کی ہو رہی ہے اور آپ سندھی افسانہ افسانہ کرکے تھک گئے ہیں۔ کس نے انکار کیا ہے کہ سندھی افسانہ لکھا نہیں جارہا، بلکہ سندھی افسانہ تو تھوک کے حساب سے لکھا جا رہا ہے، البتہ سوال یہ ہے کہ ساٹھ کی دہائی سے لے کر اسی کی دہائی تک جمال ابڑو، نسیم کھرل، امر جلیل، علی بابا، عبدالقادر جونیجو، نورالہدیٰ شاہ ، خیرالنسا جعفری وغیرہ نے جو افسانے لکھے، کیا ابھی اس طرح کے شاہکار افسانے لکھے جا رہے ہیں؟
موجودہ دور میں صدیق منگیو، منور سراج، منظور کوہیار، رسول میمن وغیرہ بھی سندھی افسانے میں اپنا آپ نبھا رہے ہیں، لیکن یہاں بات معیار کی ہورہی ہے، کیوں کہ 2013 کا ادب کا نوبل پرائز کافی عرصے بعد شاندار افسانے لکھنے والی الائس منرو کو دیا گیا ہے۔ تو دنیا کے ادبی حلقوں میں ایک بار پھر افسانے پر بحث چھڑگئی ہے۔ کیا سندھی میں اب بھی ایسے افسانے لکھے جا رہے ہیں؟ جو جمال ابڑو کے ''پشو پاشا'' یا نسیم کھرل کے ''چوٹیہوں در'' کی طرح معیاری ہوں، یا پھر موجودہ دور میں تاملی، ہندی، بنگالی، ترکش، انگریزی، عربی زبانوں کے لکھاریوں یا ان زبانوں میں تخلیق ہونے والے افسانے کے معیار کا مقابلہ کرسکیں؟
آج کل سندھی زبان میں جتنے اخبار اور ادبی رسالے وغیرہ نکلتے ہیں وہ شاید ہی کسی اور پاکستان کی علاقائی زبان میں نکلتے ہوں، دوسرا یہ کہ سندھی ادب کو بھی نمایاں جگہ دی جاتی ہے، اس کے باوجود بھی سندھی افسانہ اسی طرح پل بڑھ نہیں رہا۔ میں حال ہی میں وی ایس نائپال کی بائیوگرافی The World is what it is پڑھ رہا تھا، اس میں نائیپال نے جدید تقاضوں کے مطابق فکشن لکھنے کے گر دیے ہوئے تھے کہ کس طرح ایک اچھے افسانے یا ناول کو لکھا جاسکتا ہے، جس میں نائیپال مرکزی خیال سے لے کر چھوٹے چھوٹے جملوں تک کی بات کرتا ہے، لیکن وہ دو چیزوں کو خصوصی اہمیت دیتا ہے، ایک تخلیقی پاور دوسرا مطالعہ اور مشاہدہ۔ میں جب بھی موجودہ سندھی افسانے کو پڑھتا ہوں تو ان چیزوں کی کمی نظر آتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارا موجودہ سندھی افسانہ کسی اور ہمعصر زبان کے افسانے کے مقابلے میں اتنا طاقتور نظر نہیں آتا۔ وہ افسانہ جس میں تخلیقیت کا عنصر ٹھاٹھیں مارتا دکھائی دے، جس میں لفاظی کم اور معنی خیز جملے زیادہ ہوں اور ہر پڑھنے والے کے ذہن میں کوئی سوال پیدا کرے، وہی شاہکار افسانہ ہوتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہمارے ہاں وہ نقاد بھی نہیں رہے، نہ ہی معیاری تنقید کے وہ اصول، جن کی بنا پر تخلیقات کا جاندار تجزیہ کیا جا سکے۔
ہمارے ہاں تو تنقیدی نشست کے بجائے کتاب کی رونمائی پر زیادہ زور رہتا ہے۔ جس کا مطلب ہے کہ مقررین نے تخلیقات پر بات کرنے کے بجائے صاحب کتاب کی صرف واہ واہ کرنی ہے یا پھر اگر کسی کے من میں آجائے تو وہ اپنے نظریاتی چشمے یا ذاتی تعلقات کی بنیاد پر تصانیف کی چیر پھاڑ کرتا ہے اور اپنی کم عقلی اور کم علمی کی بنا پر شخصی تنقید پر اکتفا کرتا ہے، اور اپنے خیالات اور نظریات دوسروں پر ٹھونستا ہے۔
کیا ایسے ادبی رجحانات کسی زبان کے ادب کی مثبت تعمیر کرسکتے ہیں؟ کیا ہم اپنی تصنیفات اور دنیا کے ہمعصر لکھاریوں کی تصنیفوں کا موازنہ کرکے کوئی معیاری ادب تخلیق نہیں کرسکتے یا صرف امریکیوں کی طرح اپنی ناک سے آگے دیکھنا نہیں چاہتے، یا ہماری سوچ یہ ہے کہ صرف اپنی چھوٹی سی دنیا میں رہ کے اپنا معیاری ادب تخلیق کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں سندھی افسانے میں جدید ادبی تقاضوں کے مطابق کسی مثبت تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے؟