دو صدیوں کا وزیراعظم
کیا نواز شریف دنیا کے واحد وزیر اعظم ہیں جو بیسویں اور اکیسویں صدی میں اس عہدے پر فائز رہے ہیں
کیا نواز شریف دنیا کے واحد وزیر اعظم ہیں جو بیسویں اور اکیسویں صدی میں اس عہدے پر فائز رہے ہیں؟ دلچسپ سوال ہے اور اس کا جواب بڑی حد تک ہاں میں ہے۔شریف خاندان کے حامی اب تک تین مرتبہ وزیر اعظم بننے کے حوالے سے قومی تاریخ کو دیکھ رہے ہیں۔ آج کا کالم مسلم لیگیوں کو ورلڈ ریکارڈ کی جانب توجہ دلا رہا ہے۔ ہم پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش اور انگلینڈ کے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز شخصیات کا جائزہ لیں گے تو نظر آئے گا کہ اس کپ کے حامل نواز شریف ہیں۔ دوسری خوشی کی بات رائے ونڈ کو سیاسی فیصلہ ماننے والوں کے لیے یہ ہوگی کہ یہ ریکارڈ کم ازکم سو سال تک تو کوئی نہیں توڑ سکے گا۔
باکسر محمد علی تین مرتبہ چیمپئن بنے۔ ورلڈ ہیوی ویٹ باکسنگ کا مقابلہ جیتنا اور تین مرتبہ پاکستان کا وزیر اعظم بننا کیا ثابت کرتا ہے؟ آپ دو مرتبہ ہارے بھی ہیں۔ مانا کہ شکست کے بعد آپ نے واپس اسی عہدے کا حلف اٹھایا اور چیمپئن کی بیلٹ باندھی لیکن غور کرنا ہے کہ ہارے کیوں؟ ہم پہلے دو صدیوں کی کسوٹی پر چند ممالک کے وزرائے اعظم کو پرکھیں گے اور پھر جائزہ لیں گے کہ کیا خامی ہے کہ نواز شریف اپنی میعاد مکمل نہیں کرپاتے۔
لیاقت علی خان سے ذوالفقار علی بھٹو تک بننے والے وزرائے اعظم 20ویں صدی میں حکمران تھے۔ بے نظیر بھٹو پچھلی صدی میں اسی عہدے پر فائز تھیں اور اکیسویں صدی میں واپسی پر پنڈی میں شہید کردی گئیں۔ جونیجو، جتوئی اور مزاری انتقال کرگئے ہیں جب کہ جمالی، گیلانی، شوکت عزیز اور پرویز اشرف صرف موجودہ صدی میں اس عہدے پر فائز رہے ہیں اور 22 ویں صدی میں کون زندہ ہوگا جو میاں صاحب کی برابری کرسکے؟ گویا نواز شریف یکا و تنہا پاکستانی ہیں جنھیں دو صدیوں کا وزیراعظم کہا جاسکتا ہے۔
نہرو، شاستری، اندرا اور راجیو پچھلی صدی میں وزیر اعظم رہے اور گزر گئے ہیں۔ مرارجی ڈیسائی اور چرن سنگھ بھی رخصت ہوچکے ہیں۔ من موہن اور مودی اس صدی کے وزیر اعظم ہیں اور بیسویں صدی میں حکمران نہیں تھے۔ واجپائی، دیوگوڑا زندہ ہیں لیکن اب ان کے وزیر اعظم بن کر نواز شریف کا ریکارڈ توڑنے کا ایک فیصد بھی چانس نہیں۔ بنگلہ دیش کی حسینہ واجد نے پچھلی صدی میں اور خالدہ ضیا نے اس صدی میں حلف نہیں اٹھایا۔ یوں صرف بی این پی کی خاتون رہنما خالدہ ہیں نواز شریف کے ریکارڈ کو برابر کرسکتی ہیں۔
دونوں صدیوں میں پاکستان کے پرائم منسٹر ہاؤس میں رہنے والے شخص کے مد مقابل ایک بنگالی خاتون ہیں۔ اگر اب نواز شریف کی کوئی برابری کرسکتا ہے تو وہ بنگلہ دیش کی خالدہ ضیا ہیں۔ چرچل ، اٹیلی اور مارگریٹ تھیچر پچھلی صدی میں برطانوی وزیر اعظم تھے اور انتقال کرچکے ہیں۔ اس صدی میں جان میجر اور براؤن رہے ہیں جو زندہ تو ہیں لیکن ان کے دوبارہ اس عہدے پر آنے کا چانس نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ یوں پارلیمانی دنیا کے اربوں لوگوں میں شاید ہی کوئی ہو جو نواز شریف کا دو صدیوں کے وزیر اعظم والا ریکارڈ توڑ سکے۔ ویسٹ منسٹر جمہوریت کے وہ اکلوتے شہسوار ہیں۔
نواز شریف پہلے 90-93 تک وزیر اعظم رہے۔ صدر غلام اسحق سے اختلاف کے بعد ان کی حکومت ختم کردی گئی۔ دوسری مرتبہ 97-99 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ ذرا ان ہندسوں کو غور سے دیکھیے۔ یہ نوے کی دہائی ہے۔ آپ بڑے ہندسے کو چھوٹے سے نفی کریں۔ پہلے آپ کا جواب تین آئے گا اور پھر دو۔ گویا پہلے تین سال حکمرانی کا موقع ملا اور تجربے کے بعد اس میں ایک سال کی کمی واقع ہوگئی۔
کالم کا ابتدائیہ پڑھ کر آپ کو محسوس ہوا ہوگا کہ یہ سب نواز شریف کو ریکارڈ ساز ظاہر کرنے کے لیے لکھا جا رہا ہے۔ ہم ریکارڈ کی بات اور نواز شریف کی معیاد حکمرانی کا جائزہ کیوں لے رہے ہیں؟ میاں صاحب کے حامیوں کو اس مقام پر لاکر کچھ سوچنے پر مائل کرنا مقصد ہے۔ ہم ضرور ان متوالوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک ریکارڈ ساز شخصیت کی دو صدیوں کی حکمرانی کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ ہم بیسویں اور اکیسویں صدی کے نواز شریف کو جانچیں گے کہ کیا ان کے انداز حکمرانی میں فرق آیا ہے؟ انھوں نے وقت سے کچھ سیکھا ہے؟ اس جائزے میں کہیں تعریف بھی ہوگی اور کہیں تنقید بھی۔
شریف خاندان کے حامی ستائش پر خوش ہوں گے اور نکتہ چینی کو بے رحمانہ سمجھیں گے۔ مسلم لیگ کے مخالفین نواز شریف کی تعریف کو بے جا اور تنقید کو جائز قرار دیں گے۔ ہمارے سامنے ایک وزیر اعظم کے حامی اور مخالف نہیں بلکہ کوئی اور ہے۔ اس شخصیت کو مورخ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ صاحب بغیر کسی لگی لپٹی کے لکھتے ہیں اور کسی کا لحاظ نہیں کرتے۔ پہلے تین سال اور پھر دو برس حکمرانی کرنے والے اب پہلے سال سے ہی کیوں بحران کا شکار ہوئے ہیں؟ آئیے آج کے قارئین اور کل کے مورخ کے لیے نواز شریف کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ دو صدیوں کے حکمران نے بدلتی عدلیہ و میڈیا اور صدی سے کیا سیکھا ہے؟
81 میں پنجاب کے وزیر خزانہ اور پھر چار سال بعد صوبے کے وزیر اعلیٰ بننے والے سے دنیا واقف ہے۔ جنرل ضیا کے بعد بے نظیر وزیر اعظم بنیں تو بڑے صوبے کی حکمرانی نواز شریف کے ہاتھوں میں تھی۔ بی بی سے ٹکراؤ کے بعد سن نوے میں وہ پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنے۔ نواز شریف کا ٹکراؤ غلام اسحق سے ہوا تو حکمرانی بے نظیر کا مقدر بنی۔ صدر لغاری نے اپنی پارٹی کی حکومت ختم کی تو 97 میں نواز شریف دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنے۔
تیسرا ٹکراؤ جنرل مشرف سے ہوا جس نے اقتدار اور وطن سے دوری دکھائی۔ نئی صدی کے پہلے عشرے میں پنجاب اور دوسرے عشرے میں پاکستان کا اقتدار ملا۔ یوں تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کا اعزاز اور دونوں صدیوں میں اقتدار کے ریکارڈ ہولڈر نواز شریف ہیں۔ اگر اس ریکارڈ کو ترکی کے طیب اردگان یا کوئی اور برابر کرسکتا ہے تو ہمیں ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی حکومتی معیاد کس طرح پوری کرجاتے ہیں۔
نواز شریف کو نئی صدی میں ایک مدبر کے طور پر دیکھا گیا۔ خیبر میں عمران، سندھ میں زرداری اور بلوچستان میں قوم پرستوں سے الجھے بغیر اقتدار ان کے حوالے کردیا۔ یہ سیاسی تدبر اور اعلیٰ ظرفی کی شاندار مثالیں تھیں۔ عمران کی جانب سے دھاندلیوں کے الزامات کو سنجیدگی سے نہ لینے نے شکوک کی کیفیت پیدا کی۔ 35 پنکچر کے الزامات ، نادرا کے سربراہ کی برطرفی اور چار حلقوں کی جانچ پر عدم توجہ جیسے ایشو سامنے آئے۔ جلدازجلد سیاسی تصفیے کے بجائے آرٹیکل 245 کے پیچھے چھپنے نے پاکستان کی تاریخ کو المناکی سے دوچار کیا تھا۔
وزارت عظمیٰ سے بے دخلی، قید، جلاوطنی، واپسی و اقتدار ملنے تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ صدی کے ساتھ عدلیہ اور میڈیا بھی بدل چکے ہیں۔ مورخ نواز شریف کو پرکھے گا۔ وہ بیسویں اور اکیسویں صدی کی شخصیت کو خورد بین لگاکر جانچے گا۔ اگر تیسری مرتبہ ٹرم پوری نہ ہوسکی تو ادھوری میعاد کی ہیٹ ٹرک ہو جائے گی۔ یاد رکھیے عوام کو جمہوریت اور خوشحالی چاہیے۔ پاکستانیوں کو اس سے کوئی مطلب نہیں کہ یہ تیسری مرتبہ کے تجربے کار وزیراعظم کے ہاتھوں انجام پاتا ہے۔ انھیں عزت و انصاف چاہے۔ لوگوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ یہ کچھ انھیں اس کے ہاتھوں ملتا ہے جو ہے دو صدیوں کا وزیر اعظم۔
باکسر محمد علی تین مرتبہ چیمپئن بنے۔ ورلڈ ہیوی ویٹ باکسنگ کا مقابلہ جیتنا اور تین مرتبہ پاکستان کا وزیر اعظم بننا کیا ثابت کرتا ہے؟ آپ دو مرتبہ ہارے بھی ہیں۔ مانا کہ شکست کے بعد آپ نے واپس اسی عہدے کا حلف اٹھایا اور چیمپئن کی بیلٹ باندھی لیکن غور کرنا ہے کہ ہارے کیوں؟ ہم پہلے دو صدیوں کی کسوٹی پر چند ممالک کے وزرائے اعظم کو پرکھیں گے اور پھر جائزہ لیں گے کہ کیا خامی ہے کہ نواز شریف اپنی میعاد مکمل نہیں کرپاتے۔
لیاقت علی خان سے ذوالفقار علی بھٹو تک بننے والے وزرائے اعظم 20ویں صدی میں حکمران تھے۔ بے نظیر بھٹو پچھلی صدی میں اسی عہدے پر فائز تھیں اور اکیسویں صدی میں واپسی پر پنڈی میں شہید کردی گئیں۔ جونیجو، جتوئی اور مزاری انتقال کرگئے ہیں جب کہ جمالی، گیلانی، شوکت عزیز اور پرویز اشرف صرف موجودہ صدی میں اس عہدے پر فائز رہے ہیں اور 22 ویں صدی میں کون زندہ ہوگا جو میاں صاحب کی برابری کرسکے؟ گویا نواز شریف یکا و تنہا پاکستانی ہیں جنھیں دو صدیوں کا وزیراعظم کہا جاسکتا ہے۔
نہرو، شاستری، اندرا اور راجیو پچھلی صدی میں وزیر اعظم رہے اور گزر گئے ہیں۔ مرارجی ڈیسائی اور چرن سنگھ بھی رخصت ہوچکے ہیں۔ من موہن اور مودی اس صدی کے وزیر اعظم ہیں اور بیسویں صدی میں حکمران نہیں تھے۔ واجپائی، دیوگوڑا زندہ ہیں لیکن اب ان کے وزیر اعظم بن کر نواز شریف کا ریکارڈ توڑنے کا ایک فیصد بھی چانس نہیں۔ بنگلہ دیش کی حسینہ واجد نے پچھلی صدی میں اور خالدہ ضیا نے اس صدی میں حلف نہیں اٹھایا۔ یوں صرف بی این پی کی خاتون رہنما خالدہ ہیں نواز شریف کے ریکارڈ کو برابر کرسکتی ہیں۔
دونوں صدیوں میں پاکستان کے پرائم منسٹر ہاؤس میں رہنے والے شخص کے مد مقابل ایک بنگالی خاتون ہیں۔ اگر اب نواز شریف کی کوئی برابری کرسکتا ہے تو وہ بنگلہ دیش کی خالدہ ضیا ہیں۔ چرچل ، اٹیلی اور مارگریٹ تھیچر پچھلی صدی میں برطانوی وزیر اعظم تھے اور انتقال کرچکے ہیں۔ اس صدی میں جان میجر اور براؤن رہے ہیں جو زندہ تو ہیں لیکن ان کے دوبارہ اس عہدے پر آنے کا چانس نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ یوں پارلیمانی دنیا کے اربوں لوگوں میں شاید ہی کوئی ہو جو نواز شریف کا دو صدیوں کے وزیر اعظم والا ریکارڈ توڑ سکے۔ ویسٹ منسٹر جمہوریت کے وہ اکلوتے شہسوار ہیں۔
نواز شریف پہلے 90-93 تک وزیر اعظم رہے۔ صدر غلام اسحق سے اختلاف کے بعد ان کی حکومت ختم کردی گئی۔ دوسری مرتبہ 97-99 تک اس عہدے پر فائز رہے۔ ذرا ان ہندسوں کو غور سے دیکھیے۔ یہ نوے کی دہائی ہے۔ آپ بڑے ہندسے کو چھوٹے سے نفی کریں۔ پہلے آپ کا جواب تین آئے گا اور پھر دو۔ گویا پہلے تین سال حکمرانی کا موقع ملا اور تجربے کے بعد اس میں ایک سال کی کمی واقع ہوگئی۔
کالم کا ابتدائیہ پڑھ کر آپ کو محسوس ہوا ہوگا کہ یہ سب نواز شریف کو ریکارڈ ساز ظاہر کرنے کے لیے لکھا جا رہا ہے۔ ہم ریکارڈ کی بات اور نواز شریف کی معیاد حکمرانی کا جائزہ کیوں لے رہے ہیں؟ میاں صاحب کے حامیوں کو اس مقام پر لاکر کچھ سوچنے پر مائل کرنا مقصد ہے۔ ہم ضرور ان متوالوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ایک ریکارڈ ساز شخصیت کی دو صدیوں کی حکمرانی کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ ہم بیسویں اور اکیسویں صدی کے نواز شریف کو جانچیں گے کہ کیا ان کے انداز حکمرانی میں فرق آیا ہے؟ انھوں نے وقت سے کچھ سیکھا ہے؟ اس جائزے میں کہیں تعریف بھی ہوگی اور کہیں تنقید بھی۔
شریف خاندان کے حامی ستائش پر خوش ہوں گے اور نکتہ چینی کو بے رحمانہ سمجھیں گے۔ مسلم لیگ کے مخالفین نواز شریف کی تعریف کو بے جا اور تنقید کو جائز قرار دیں گے۔ ہمارے سامنے ایک وزیر اعظم کے حامی اور مخالف نہیں بلکہ کوئی اور ہے۔ اس شخصیت کو مورخ کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ صاحب بغیر کسی لگی لپٹی کے لکھتے ہیں اور کسی کا لحاظ نہیں کرتے۔ پہلے تین سال اور پھر دو برس حکمرانی کرنے والے اب پہلے سال سے ہی کیوں بحران کا شکار ہوئے ہیں؟ آئیے آج کے قارئین اور کل کے مورخ کے لیے نواز شریف کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ دو صدیوں کے حکمران نے بدلتی عدلیہ و میڈیا اور صدی سے کیا سیکھا ہے؟
81 میں پنجاب کے وزیر خزانہ اور پھر چار سال بعد صوبے کے وزیر اعلیٰ بننے والے سے دنیا واقف ہے۔ جنرل ضیا کے بعد بے نظیر وزیر اعظم بنیں تو بڑے صوبے کی حکمرانی نواز شریف کے ہاتھوں میں تھی۔ بی بی سے ٹکراؤ کے بعد سن نوے میں وہ پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنے۔ نواز شریف کا ٹکراؤ غلام اسحق سے ہوا تو حکمرانی بے نظیر کا مقدر بنی۔ صدر لغاری نے اپنی پارٹی کی حکومت ختم کی تو 97 میں نواز شریف دوسری مرتبہ وزیر اعظم بنے۔
تیسرا ٹکراؤ جنرل مشرف سے ہوا جس نے اقتدار اور وطن سے دوری دکھائی۔ نئی صدی کے پہلے عشرے میں پنجاب اور دوسرے عشرے میں پاکستان کا اقتدار ملا۔ یوں تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کا اعزاز اور دونوں صدیوں میں اقتدار کے ریکارڈ ہولڈر نواز شریف ہیں۔ اگر اس ریکارڈ کو ترکی کے طیب اردگان یا کوئی اور برابر کرسکتا ہے تو ہمیں ان سے سیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی حکومتی معیاد کس طرح پوری کرجاتے ہیں۔
نواز شریف کو نئی صدی میں ایک مدبر کے طور پر دیکھا گیا۔ خیبر میں عمران، سندھ میں زرداری اور بلوچستان میں قوم پرستوں سے الجھے بغیر اقتدار ان کے حوالے کردیا۔ یہ سیاسی تدبر اور اعلیٰ ظرفی کی شاندار مثالیں تھیں۔ عمران کی جانب سے دھاندلیوں کے الزامات کو سنجیدگی سے نہ لینے نے شکوک کی کیفیت پیدا کی۔ 35 پنکچر کے الزامات ، نادرا کے سربراہ کی برطرفی اور چار حلقوں کی جانچ پر عدم توجہ جیسے ایشو سامنے آئے۔ جلدازجلد سیاسی تصفیے کے بجائے آرٹیکل 245 کے پیچھے چھپنے نے پاکستان کی تاریخ کو المناکی سے دوچار کیا تھا۔
وزارت عظمیٰ سے بے دخلی، قید، جلاوطنی، واپسی و اقتدار ملنے تک پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ صدی کے ساتھ عدلیہ اور میڈیا بھی بدل چکے ہیں۔ مورخ نواز شریف کو پرکھے گا۔ وہ بیسویں اور اکیسویں صدی کی شخصیت کو خورد بین لگاکر جانچے گا۔ اگر تیسری مرتبہ ٹرم پوری نہ ہوسکی تو ادھوری میعاد کی ہیٹ ٹرک ہو جائے گی۔ یاد رکھیے عوام کو جمہوریت اور خوشحالی چاہیے۔ پاکستانیوں کو اس سے کوئی مطلب نہیں کہ یہ تیسری مرتبہ کے تجربے کار وزیراعظم کے ہاتھوں انجام پاتا ہے۔ انھیں عزت و انصاف چاہے۔ لوگوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ یہ کچھ انھیں اس کے ہاتھوں ملتا ہے جو ہے دو صدیوں کا وزیر اعظم۔