فلسطین بے یار و مددگار ہے
ترک وزیراعظم رجب اردوان کا یہ کہنا بجا ہے کہ اسرائیلیوں نے ہٹلر کی بربریت کو مات دے دی ہے۔
ABU DHABI:
ترک وزیراعظم رجب اردوان کا یہ کہنا بجا ہے کہ اسرائیلیوں نے ہٹلر کی بربریت کو مات دے دی ہے۔ صیہونی ریاست میں کچھ لوگوں کی ذہنیت نازی رہنما ایڈولف ہٹلر سے ملتی ہے، اسرائیلیوں کا کوئی ضمیر، غیرت یا خودداری نہیں ہے، وہ ہٹلر پر صبح شام لعن طعن کرتے ہیں مگر خود انھوں نے ہٹلرکی بربریت کو بھی مات دے دی ہے۔ اسرائیلی حملوں پر امریکا کیسے آنکھیں بند کرسکتا ہے، سلامتی کونسل کے رکن کی جے ایٹ سے اسے مناسب اقدام کرنا چاہیے۔
اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے، صیہونی ریاست سے تعلقات میں بہتری کا امکان نہیں۔ غزہ پر اسرائیلی وحشیانہ بمباری سے قیامت صغریٰ برپا ہے۔ گھر،عمارتیں، سڑکیں، مساجد، اسپتال، ایمبولینسیں، مہاجر کیمپ، ماہی گیروں کی کشتیاں، کھیل کے میدان، موٹرگاڑیوں کے علاوہ فلسطین کی ایسی کوئی اور جگہ نہیں بچی ہے جہاں اسرائیلی بری اور فضائی فورسز طیاروں اور ٹینک کے ذریعے دلخراش بمباری نہ کر رہے ہوں۔
اسرائیلی ٹینکوں کے ساتھ زمینی دستے بھی غزہ میں قتل و غارت گری میں مسرت محسوس کر رہے ہیں۔ زمینی فورسز کو ایئرفورس، بحریہ اور انٹیلی جنس کی مدد حاصل ہے اور وہ چن چن کر اپنے اہداف کو نشانہ بنا رہی ہیں اور اسرائیل اس زمینی آپریشن کی توسیع کرچکا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے زمینی، فضائی اور بحری کارروائی میں بمباری اتنی شدید ہے کہ ایمبولینسوں کی نقل و حرکت بھی محدود ہوکر رہ گئی ہے۔
اندھا دھند بمباری کے سبب عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئی ہیں، علاقے میں ہر طرف دھوئیں کے سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں، ملبے تلے مزید سیکڑوں مسلمان فلسطینیوں کی لاشیں دبی ہوئی ہیں، اسرائیلی جیٹ طیارے ایمبولینسوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں جس میں سوار 2 زخمی بچے، طبی عملے کا کارکن اور ایک میڈیا کیمرا مین شہید ہوجاتے ہیں، ٹینکوں کی گولہ باری سے انسانی اعضا فضا میں بکھر رہے ہیں، گھر و املاک تباہ و برباد کیے جا رہے ہیں، انسانی بنیادوں پر چند گھنٹے کی جنگ بندی کے دوران بھی اسرائیلی بمباری جاری رہتی ہے۔
ہر دردمند دل اشکبار ہے، سڑکوں پر اور گلیوں میں لاشیں بکھری پڑی ہیں، اسپتال شہیدوں اور زخمیوں سے بھر گئے ہیں، اسپتالوں میں ادویات ناپید ہیں اور سیکڑوں زخمی علاج کے منتظر ہیں۔ جب خان یونس میں ایک اور 3 منزلہ عمارت سے ایک ہی خاندان کے 23 افراد کی لاشیں نکالی گئیں تو خاندان کے ایک فرد صابری ابو جامعہ نے میڈیا کو بتایا کہ ''کیا اس سے صاف ظاہر نہیں ہوتا کہ اسرائیل ظالم ہے؟ اس کا ثبوت یہاں مردہ خانے کے فریجوں میں موجود ہے۔'' غزہ میں اسرائیلی بمباری سے ایک بچے کا پورا خاندان شہید ہوگیا۔
معصوم بچے نے اپنی کہانی سنائی تو میڈیا رپورٹرز بھی رو پڑا، خون آلود اور پٹیوں میں لپٹے بچے نے بتایا کہ اسرائیلی درندوں نے اس کے گھر پر میزائل داغے اور ماں، دونوں بھائی شہید کردیے اور وہ دنیا میں اکیلا رہ گیا، اس پر صحافی کی آواز بھی بھرا گئی۔ اور وہ اتنا ہی کہہ پایا کہ ''بیٹا پڑھو! حسبی اللہ و نعم الوکیل'' ایرانی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل غزہ میں بائیولوجیکل ہتھیار استعمال کر رہا ہے، طبی حکام کے مطابق اسرائیلی فورسز کی جانب سے زہریلی گیسز کا استعمال ہو رہا ہے جو پھیپھڑوں کو ناکارہ بنادیتی ہے۔
اب تک 28 روز سے جاری اسرائیلی بربریت کے باعث شہدا کی تعداد 18سو کے لگ بھگ جب کہ زخمیوں کی تعداد 6 ہزار کے قریب ہوچکی ہے۔ اب تک ایک لاکھ فلسطینی بے گھر ہوچکے ہیں، ان حملوں میں اب تک 1370 گھر تباہ ہوئے ہیں اور تباہی کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اسرائیل غزہ پر مکمل کنٹرول دوبارہ سنبھالنے کا فیصلہ کرچکا ہے خدشہ ہے کہ اسرائیل جنگ بندی سے قبل وہ بدترین بمباری کرکے شہر کو کھنڈر بنادے گا۔ جب کہ اسرائیلی حکومت کے جنگی جنون سے اسرائیلی شہری بھی عاجز آگئے ہیں۔
غزہ پر مسلسل جارحیت کے خلاف چند اسرائیلی نوجوان امن بس اور امدادی سامان لے کر غزہ کی جانب روانہ ہوئے لیکن انھیں راستے میں ہی روک لیا گیا۔ واضح رہے کہ حماس کے راکٹ حملوں میں اب تک 33 صیہونی فوجیوں سمیت 35 اسرائیلی ہلاک ہوئے ہیں جب کہ 90 صیہونی فوجی زخمی ہوچکے ہیں۔ یہ 2006 میں لبنان جنگ کے بعد اسرائیل کا سب سے بڑا جانی نقصان تصور کیا جا رہا ہے۔
ادھر اقوام متحدہ میں فلسطین کے مندوب ریاض منصور سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں غزہ کی صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرط جذبات سے رو پڑے۔ انھوں نے بھرائی ہوئی آواز میں اپنی بات جاری رکھتے ہوئے استفسار کیا کہ ''اپنے دفاع کا یہ کیسا حق ہے کہ جو اہل غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹاکر پورا کیا جا رہا ہے، فلسطینی عوام کو تحفظ فراہم کیا جائے اور غزہ میں اسرائیلی جنگی جرائم پر صیہونی مملکت کا کڑا محاسبہ کیا جائے۔''
اسرائیل پر راکٹ حملے ناقابل معافی اور اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، تشدد اور دہشت گردی کرنے والے دنیا کی تعمیر کے بجائے اس کی تخریب چاہتے ہیں، اس لیے میں بڑے صاف انداز سے کہتا ہوں کہ کوئی ملک یہ قبول نہیں کرسکتا کہ اس کے شہریوں پر راکٹ چلائے جائیں، اس وجہ سے ہم اسرائیل کے حق دفاع کے حوالے سے بھی بہت واضح ہیں، میں سمجھتا ہوں اسرائیل پر راکٹ حملے ناقابل معافی ہیں، فلسطینیوں کا جاں بحق اور زخمی ہونا ایک المیہ ہے۔'' (امریکی صدر باراک اوباما کا وائٹ ہاؤس میں مسلم سفیروں کے اعزاز میں سالانہ دعوت افطار کے موقعے پر خطاب، بدھ 16 جولائی 2014)۔
یعنی دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کا علمبردار امریکا جسے ہر وقت انسانی حقوق کا خیال رہتا ہے خاص طور پر اسلامی ممالک کے حوالے سے لیکن اسے اسرائیل کی جارحیت بالواسطہ طور پر جائز لگتی ہے۔ واہ رے واہ امریکا! تیرا جواب نہیں۔ امریکا کو اسرائیل پر حماس کے معمولی راکٹ حملے سنگین جرم لگتا ہے اور اسے ناقابل معافی قرار دیتا ہے۔ تو دوسری طرف ہمارے مسلم حکمران جن کے دین نے مسلمانوں کو بھائی بھائی قرار دیا ہے۔
غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کے وحشیانہ حملوں میں معصوم شہریوں کے قتل عام کو برداشت کر بیٹھے ہیں اور ان کے نمایندے سفیران مزے لے لے کر امریکی دعوت افطار نوش کرجاتے ہیں ان میں اتنی بھی جرأت نہیں تھی کہ وہ اسلامی ملی غیرت کے نام پر اس دعوت افطار کا شریفانہ بائیکاٹ کرتے۔ بقول شخصے زمینی آقا کے سامنے یہ ہمت بھلا کیونکر کرتا، مانگے تانگے حکمرانی کا جو سوال ٹھہرا۔ آج شدت کے ساتھ علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آرہا ہے:
یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے
دنیائے عالم کے ممالک اور اقوام کی سلامتی و تحفظ کا ضامن امریکی اور اسرائیلی اقوام متحدہ کا کام صرف اعدادوشمار بیان کرنا رہ گیا ہے، کہیں ڈھکی چھپی تو کہیں سرعام یہ بھی جارح اسرائیل کا محافظ ہے۔ بظاہر یہ جنگ بندی کرانے کے لیے مشرق وسطیٰ کا دورہ کرتا رہا لیکن جب اس ادارے کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد جو مشترکہ پریس کانفرنس کی اس کی چیدہ چیدہ باتیں ملاحظہ کریں۔
''اسرائیل حملے کم کرے، اسرائیل اور حماس لڑائی روک کر بات چیت شروع کریں، فوجی کارروائی اسرائیل کی سلامتی کا دور رس حل نہیں، فلسطینی عدم تشدد کا راستہ اختیار کریں، اسرائیل کو تسلیم کریں اور سابقہ معاہدوں کا احترام کریں۔'' دوسری جانب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ہنگامی اجلاس میں مذمتی قرارداد منظور کرنے سے انکار کرتے ہوئے محض جنگ بندی کا مطالبہ کردیا۔ اردن کی درخواست پر سلامتی کونسل کا بند کمرے میں اجلاس ہوا جس میں ہلاکتوں پر شدید خدشات کا اظہار کیا گیا اور بین الاقوامی انسانی حقوق کا احترام کرنے اور عام شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے پر زور دیا۔
بی بی سی کے مطابق سلامتی کونسل نے ایک دوسرے پر حملوں میں فوری کمی کرنے پر زور دیا تاہم عرب ممالک کی حمایت سے تیار کی جانے والی اس قرارداد کی توثیق نہیں کی جس میں اسرائیل کی شدید مذمت کی گئی تھی۔ اس طرح دنیا کے طاقت ور ترین ادارے نے محض جنگ بندی کا مطالبہ کرکے اپنی ذمے داری سے جان چھڑا لی ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے فلسطین کی جانب سے اسرائیل کے خلاف تحقیقات کے لیے پیش کی گئی قرارداد منظور کرلی ہے۔
چین اور روس سمیت قرارداد کے حق میں 29 ممالک نے ووٹ دیے۔ امریکا واحد ملک تھا جس نے مخالفت میں ووٹ دیا جب کہ کچھ مغربی ملکوں نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ یہ کونسل غزہ پر حالیہ اسرائیلی حملے کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرے گی۔ بلاشبہ اسرائیلی فوج جنگی جرائم کی مرتکب ہوئی ہے لیکن اسرائیل کا اقوام متحدہ کی کسی بھی قسم کی تحقیقات سے تعاون کرنے کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ اس جنگ میں اسرائیل کو بڑی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے اور فلسطین بے یارومددگار ہے۔
ترک وزیراعظم رجب اردوان کا یہ کہنا بجا ہے کہ اسرائیلیوں نے ہٹلر کی بربریت کو مات دے دی ہے۔ صیہونی ریاست میں کچھ لوگوں کی ذہنیت نازی رہنما ایڈولف ہٹلر سے ملتی ہے، اسرائیلیوں کا کوئی ضمیر، غیرت یا خودداری نہیں ہے، وہ ہٹلر پر صبح شام لعن طعن کرتے ہیں مگر خود انھوں نے ہٹلرکی بربریت کو بھی مات دے دی ہے۔ اسرائیلی حملوں پر امریکا کیسے آنکھیں بند کرسکتا ہے، سلامتی کونسل کے رکن کی جے ایٹ سے اسے مناسب اقدام کرنا چاہیے۔
اسرائیل فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہا ہے، صیہونی ریاست سے تعلقات میں بہتری کا امکان نہیں۔ غزہ پر اسرائیلی وحشیانہ بمباری سے قیامت صغریٰ برپا ہے۔ گھر،عمارتیں، سڑکیں، مساجد، اسپتال، ایمبولینسیں، مہاجر کیمپ، ماہی گیروں کی کشتیاں، کھیل کے میدان، موٹرگاڑیوں کے علاوہ فلسطین کی ایسی کوئی اور جگہ نہیں بچی ہے جہاں اسرائیلی بری اور فضائی فورسز طیاروں اور ٹینک کے ذریعے دلخراش بمباری نہ کر رہے ہوں۔
اسرائیلی ٹینکوں کے ساتھ زمینی دستے بھی غزہ میں قتل و غارت گری میں مسرت محسوس کر رہے ہیں۔ زمینی فورسز کو ایئرفورس، بحریہ اور انٹیلی جنس کی مدد حاصل ہے اور وہ چن چن کر اپنے اہداف کو نشانہ بنا رہی ہیں اور اسرائیل اس زمینی آپریشن کی توسیع کرچکا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے زمینی، فضائی اور بحری کارروائی میں بمباری اتنی شدید ہے کہ ایمبولینسوں کی نقل و حرکت بھی محدود ہوکر رہ گئی ہے۔
اندھا دھند بمباری کے سبب عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئی ہیں، علاقے میں ہر طرف دھوئیں کے سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں، ملبے تلے مزید سیکڑوں مسلمان فلسطینیوں کی لاشیں دبی ہوئی ہیں، اسرائیلی جیٹ طیارے ایمبولینسوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں جس میں سوار 2 زخمی بچے، طبی عملے کا کارکن اور ایک میڈیا کیمرا مین شہید ہوجاتے ہیں، ٹینکوں کی گولہ باری سے انسانی اعضا فضا میں بکھر رہے ہیں، گھر و املاک تباہ و برباد کیے جا رہے ہیں، انسانی بنیادوں پر چند گھنٹے کی جنگ بندی کے دوران بھی اسرائیلی بمباری جاری رہتی ہے۔
ہر دردمند دل اشکبار ہے، سڑکوں پر اور گلیوں میں لاشیں بکھری پڑی ہیں، اسپتال شہیدوں اور زخمیوں سے بھر گئے ہیں، اسپتالوں میں ادویات ناپید ہیں اور سیکڑوں زخمی علاج کے منتظر ہیں۔ جب خان یونس میں ایک اور 3 منزلہ عمارت سے ایک ہی خاندان کے 23 افراد کی لاشیں نکالی گئیں تو خاندان کے ایک فرد صابری ابو جامعہ نے میڈیا کو بتایا کہ ''کیا اس سے صاف ظاہر نہیں ہوتا کہ اسرائیل ظالم ہے؟ اس کا ثبوت یہاں مردہ خانے کے فریجوں میں موجود ہے۔'' غزہ میں اسرائیلی بمباری سے ایک بچے کا پورا خاندان شہید ہوگیا۔
معصوم بچے نے اپنی کہانی سنائی تو میڈیا رپورٹرز بھی رو پڑا، خون آلود اور پٹیوں میں لپٹے بچے نے بتایا کہ اسرائیلی درندوں نے اس کے گھر پر میزائل داغے اور ماں، دونوں بھائی شہید کردیے اور وہ دنیا میں اکیلا رہ گیا، اس پر صحافی کی آواز بھی بھرا گئی۔ اور وہ اتنا ہی کہہ پایا کہ ''بیٹا پڑھو! حسبی اللہ و نعم الوکیل'' ایرانی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل غزہ میں بائیولوجیکل ہتھیار استعمال کر رہا ہے، طبی حکام کے مطابق اسرائیلی فورسز کی جانب سے زہریلی گیسز کا استعمال ہو رہا ہے جو پھیپھڑوں کو ناکارہ بنادیتی ہے۔
اب تک 28 روز سے جاری اسرائیلی بربریت کے باعث شہدا کی تعداد 18سو کے لگ بھگ جب کہ زخمیوں کی تعداد 6 ہزار کے قریب ہوچکی ہے۔ اب تک ایک لاکھ فلسطینی بے گھر ہوچکے ہیں، ان حملوں میں اب تک 1370 گھر تباہ ہوئے ہیں اور تباہی کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اسرائیل غزہ پر مکمل کنٹرول دوبارہ سنبھالنے کا فیصلہ کرچکا ہے خدشہ ہے کہ اسرائیل جنگ بندی سے قبل وہ بدترین بمباری کرکے شہر کو کھنڈر بنادے گا۔ جب کہ اسرائیلی حکومت کے جنگی جنون سے اسرائیلی شہری بھی عاجز آگئے ہیں۔
غزہ پر مسلسل جارحیت کے خلاف چند اسرائیلی نوجوان امن بس اور امدادی سامان لے کر غزہ کی جانب روانہ ہوئے لیکن انھیں راستے میں ہی روک لیا گیا۔ واضح رہے کہ حماس کے راکٹ حملوں میں اب تک 33 صیہونی فوجیوں سمیت 35 اسرائیلی ہلاک ہوئے ہیں جب کہ 90 صیہونی فوجی زخمی ہوچکے ہیں۔ یہ 2006 میں لبنان جنگ کے بعد اسرائیل کا سب سے بڑا جانی نقصان تصور کیا جا رہا ہے۔
ادھر اقوام متحدہ میں فلسطین کے مندوب ریاض منصور سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں غزہ کی صورتحال پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرط جذبات سے رو پڑے۔ انھوں نے بھرائی ہوئی آواز میں اپنی بات جاری رکھتے ہوئے استفسار کیا کہ ''اپنے دفاع کا یہ کیسا حق ہے کہ جو اہل غزہ کو صفحہ ہستی سے مٹاکر پورا کیا جا رہا ہے، فلسطینی عوام کو تحفظ فراہم کیا جائے اور غزہ میں اسرائیلی جنگی جرائم پر صیہونی مملکت کا کڑا محاسبہ کیا جائے۔''
اسرائیل پر راکٹ حملے ناقابل معافی اور اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے، تشدد اور دہشت گردی کرنے والے دنیا کی تعمیر کے بجائے اس کی تخریب چاہتے ہیں، اس لیے میں بڑے صاف انداز سے کہتا ہوں کہ کوئی ملک یہ قبول نہیں کرسکتا کہ اس کے شہریوں پر راکٹ چلائے جائیں، اس وجہ سے ہم اسرائیل کے حق دفاع کے حوالے سے بھی بہت واضح ہیں، میں سمجھتا ہوں اسرائیل پر راکٹ حملے ناقابل معافی ہیں، فلسطینیوں کا جاں بحق اور زخمی ہونا ایک المیہ ہے۔'' (امریکی صدر باراک اوباما کا وائٹ ہاؤس میں مسلم سفیروں کے اعزاز میں سالانہ دعوت افطار کے موقعے پر خطاب، بدھ 16 جولائی 2014)۔
یعنی دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کا علمبردار امریکا جسے ہر وقت انسانی حقوق کا خیال رہتا ہے خاص طور پر اسلامی ممالک کے حوالے سے لیکن اسے اسرائیل کی جارحیت بالواسطہ طور پر جائز لگتی ہے۔ واہ رے واہ امریکا! تیرا جواب نہیں۔ امریکا کو اسرائیل پر حماس کے معمولی راکٹ حملے سنگین جرم لگتا ہے اور اسے ناقابل معافی قرار دیتا ہے۔ تو دوسری طرف ہمارے مسلم حکمران جن کے دین نے مسلمانوں کو بھائی بھائی قرار دیا ہے۔
غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کے وحشیانہ حملوں میں معصوم شہریوں کے قتل عام کو برداشت کر بیٹھے ہیں اور ان کے نمایندے سفیران مزے لے لے کر امریکی دعوت افطار نوش کرجاتے ہیں ان میں اتنی بھی جرأت نہیں تھی کہ وہ اسلامی ملی غیرت کے نام پر اس دعوت افطار کا شریفانہ بائیکاٹ کرتے۔ بقول شخصے زمینی آقا کے سامنے یہ ہمت بھلا کیونکر کرتا، مانگے تانگے حکمرانی کا جو سوال ٹھہرا۔ آج شدت کے ساتھ علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آرہا ہے:
یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے جو روح کو تڑپا دے
دنیائے عالم کے ممالک اور اقوام کی سلامتی و تحفظ کا ضامن امریکی اور اسرائیلی اقوام متحدہ کا کام صرف اعدادوشمار بیان کرنا رہ گیا ہے، کہیں ڈھکی چھپی تو کہیں سرعام یہ بھی جارح اسرائیل کا محافظ ہے۔ بظاہر یہ جنگ بندی کرانے کے لیے مشرق وسطیٰ کا دورہ کرتا رہا لیکن جب اس ادارے کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے مقبوضہ بیت المقدس میں اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو سے ملاقات کے بعد جو مشترکہ پریس کانفرنس کی اس کی چیدہ چیدہ باتیں ملاحظہ کریں۔
''اسرائیل حملے کم کرے، اسرائیل اور حماس لڑائی روک کر بات چیت شروع کریں، فوجی کارروائی اسرائیل کی سلامتی کا دور رس حل نہیں، فلسطینی عدم تشدد کا راستہ اختیار کریں، اسرائیل کو تسلیم کریں اور سابقہ معاہدوں کا احترام کریں۔'' دوسری جانب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ہنگامی اجلاس میں مذمتی قرارداد منظور کرنے سے انکار کرتے ہوئے محض جنگ بندی کا مطالبہ کردیا۔ اردن کی درخواست پر سلامتی کونسل کا بند کمرے میں اجلاس ہوا جس میں ہلاکتوں پر شدید خدشات کا اظہار کیا گیا اور بین الاقوامی انسانی حقوق کا احترام کرنے اور عام شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے پر زور دیا۔
بی بی سی کے مطابق سلامتی کونسل نے ایک دوسرے پر حملوں میں فوری کمی کرنے پر زور دیا تاہم عرب ممالک کی حمایت سے تیار کی جانے والی اس قرارداد کی توثیق نہیں کی جس میں اسرائیل کی شدید مذمت کی گئی تھی۔ اس طرح دنیا کے طاقت ور ترین ادارے نے محض جنگ بندی کا مطالبہ کرکے اپنی ذمے داری سے جان چھڑا لی ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے فلسطین کی جانب سے اسرائیل کے خلاف تحقیقات کے لیے پیش کی گئی قرارداد منظور کرلی ہے۔
چین اور روس سمیت قرارداد کے حق میں 29 ممالک نے ووٹ دیے۔ امریکا واحد ملک تھا جس نے مخالفت میں ووٹ دیا جب کہ کچھ مغربی ملکوں نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ یہ کونسل غزہ پر حالیہ اسرائیلی حملے کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرے گی۔ بلاشبہ اسرائیلی فوج جنگی جرائم کی مرتکب ہوئی ہے لیکن اسرائیل کا اقوام متحدہ کی کسی بھی قسم کی تحقیقات سے تعاون کرنے کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ اس جنگ میں اسرائیل کو بڑی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے اور فلسطین بے یارومددگار ہے۔