کتاب اورکتب بینی کا فروغ
قومی ورثے سے شناسائی کسی حکومتی مہم کی منتظر نہیں ہوتی، بلکہ بحیثیت قوم ہمارا فرض ہے
قومی ورثے سے شناسائی کسی حکومتی مہم کی منتظر نہیں ہوتی، بلکہ بحیثیت قوم ہمارا فرض ہے کہ ہمیں اپنے ادبی وثقافتی اداروں سے واقفیت ہو۔ایمانداری سے بتائیں ،ہم میں سے کتنے فیصد حضرات ان اداروں کے ناموں سے بھی واقف ہیں ؟ اس سوالیہ نشان میںہی بہت کچھ پنہاں ہے۔یہی ہماری حب الوطنی کا حقیقی عکس ہے۔چودہ اگست کے دن جھنڈا لہرا لینے سے صرف حب الوطنی کے تقاضے پورے نہیں ہوتے۔
پاکستان سے غربت،جہالت اورمنفی جذباتیت کاخاتمہ اسی صورت ممکن ہے،جب اپنے ملک سے حقیقی محبت ہوگی۔جب ہم اپنی ثقافت سے روشناس ہوں گے، ہمیں اپنی علاقائی زبانوں سے تعلق خاطر ہوگا اور قومی زبان بولنے اور لکھنے پر فخر محسوس کریںگے۔ان سب پہلوئوں پر عمل کیے بغیر مشکل ہے کہ ہم مہذب قوم بن سکیں۔یہ تو ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارا قومی ورثہ ایساہے ،جس کی وجہ سے ہم دنیا کی کسی بھی قوم کے سامنے خود کو ثقافتی لحاظ سے پیش کرسکتے ہیں،مگربڑے دکھ کی بات ہے ،ہم ایک ایک کرکے وہ تمام احساسات کھورہے ہیں،جومہذب دنیا میںآپ کا تعارف ہوتے ہیں۔
پاکستان میں ادب وثقافت کے تناظر میںچند ایسے سرکاری ادارے ہیں،جن کے بارے میں جان کرحیرانی ہوتی ہے ،یہ ادارے ہمارے ہی ملک میں موجود ہیں۔عام آدمی تک ان کے بارے میں معلومات پہنچانے کا کوئی سرکاری انتظام نہیں ہے۔کئی ادارے تو ایسے ہیں،جن کا عرصہ دراز سے کوئی صدرنشیں بھی نہیں ہے۔پاکستان میں اگر ان سرکاری اداروں کی مناسب سرپرستی کی جاتی اورسفارشی لوگ تعینات نہ کیے جاتے ،تو ہمارے معاشرے میں ادب وثقافت سے شناسائی کے لیے یہ ادارے کلیدی کردار ادا کر سکتے تھے۔
پاکستان میں سرکاری سطح پر قائم کیے گئے چند بڑے اداروں ،جن میں لوک ورثہ،پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس،مقتدرہ قومی زبان،قومی کونسل برائے فروغ اردو،انجمن ترقی اردو پاکستان،اکادمی ادبیات،اردو لغت بورڈ،نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس اورنیشنل بک فائونڈیشن شامل ہیں جب کہ پاکستان کے مختلف شہروں میں قائم آرٹس کونسلوں اور میوزیمز کا ایک الگ مربوط سلسلہ ہے۔
ان سب اداروں سے تاریخ،علم وادب، زبان، ثقافت اور قومی تشخص کا ایک مضبوط رشتہ ہے،مگر جس طرح ان اداروں کو عوام سے اپنا تعلق استوار کرنا چاہیے تھا،وہ نہیں کیا گیا،یہی وجہ ہے، بیرونی ثقافتوں نے ہماری قومی شناخت پراپنے منفی اثرات مرتب کیے۔ ہمارے عوام کی اکثریت کو نہ اپنے ثقافتی ستونوں کی خبر ہے اور نہ ہی اپنے مشاہیر کا پتہ،جنہوں نے ادب وثقافت کے شعبے میں اپنی زندگیاں کھپا دیں۔ہمارے ذرایع ابلاغ بھی صرف چند ناموں کی گردان جاری رکھتے ہیں۔
یہ ہمارا قومی المیہ ہے، ہم نے ادارے بنائے،ان سے ویسا کام نہیں لیا۔ہمارے ہاں بڑی شخصیات پیدا ہوئیں،ہم نے ان کی قدرنہیں کی۔ہم نے اداروں کو چلانے کے لیے سفارشی نظام کو متعارف کروایا۔اس کے باوجود چند ایک ادارے اپنے تئیں اس جدوجہد میں مصروف ہیں کہ ملک وقوم کے لیے حقیقی معنوں میں ادب وثقافت کو محفوظ کرسکیں۔نیشنل بک فائونڈیشن بھی ایسا ہی ایک ادارہ ہے،جو کچھ برسوں سے پاکستان بھر میں کتاب اورکتب بینی کے فروغ میں کوشاں ہے۔
نیشنل بک فائونڈیشن1972میں قائم کیا گیا تھا۔یہ وفاقی ادارہ ہے،جو وزارت تعلیم کے ماتحت ہے۔اس کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں واقع ہے جب کہ چاروں صوبوں ،سندھ،بلوچستان،پنجاب اورپختونخوا میں اس کے علاقائی دفاتر قائم ہیں جو بالترتیب،کراچی،کوئٹہ،لاہور اورپشاور میں واقع ہیں۔ان کے علاوہ پاکستان کے دیگر شہروں میں نیشنل بک فائونڈیشن کی ذیلی شاخیں بھی قائم ہیں،جن میں حیدرآباد، لاڑکانہ، سکھر، جیکب آباد، خیرپور، بہاولپور، ملتان ،فیصل آباد،واہ کینٹ ،ایبٹ آباد،ڈیرہ اسماعیل خان، مظفرآباد اورگلگت شامل ہیں۔
ان کے ساتھ ساتھ مختلف مقامات پر کتابوں کی دکانیں بھی قائم کی گئی ہیں،جہاں سے اس ادارے کے متعلق نہ صرف معلومات حاصل ہوسکتی ہے، بلکہ کتابیں سستے داموں دستیاب ہیں اور اپنی مطلوبہ کتابیں منگوائی بھی جاسکتی ہیں۔اس ادارے کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے اس کی ویب سائٹ بھی دیکھی جاسکتی ہے،جسے گوگل پر صر ف'' نیشنل بک فائونڈیشن'' لکھ کر باآسانی تلاش کیاجاسکتاہے۔
ان متعلقہ شہروں اور قرب وجوار میں رہنے والے قارئین اورطالب علم نیشنل بک فائونڈیشن کی مندرجہ ذیل سہولتوں سے مستفید ہوسکتے ہیں۔سب سے پہلی اوربنیادی سہولت یہ ہے کہ نیشنل بک فائونڈیشن نے پاکستان کے 47شہروں میں ''ریڈرزکلب ''کے نام سے ممبر شب کی سہولت دے رکھی ہے،جس کو حاصل کرنے کے بعد کتابوں پر پچاس فیصد یا اس سے زاید رعایت حاصل کی جاسکتی ہے۔ کتابوں کی زیادہ قیمت کے شکوے کواس پیشکش کے ذریعے دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے،خاص طور پر طلبا جن کا بجٹ ویسے ہی بہت محدود ہوتا ہے،وہ اس کارآمد پیشکش سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
نیشنل بک فائونڈیشن کی طرف سے دوسری اہم سہولت ،مطالعے کے ختم ہوتے رجحان کو دوبارہ سے زندہ کرنا ہے،اس کے لیے انھوںنے ''بک کلب''تشکیل دیے ہیں۔یہ چلتے پھرتے کتب خانے شہروں،گائوں دیہاتوں، جیلوں ،اسپتالوں ،ریلوے اسٹیشنز اورہوائی اڈوں پر کتاب پڑھنے کی سہولت دیتے ہیں۔مثال کے طور پر آپ کراچی سے لاہور جارہے ہیں،تو کراچی کے ریلوے اسٹیشن پر نیشنل بک فائونڈیشن کی قائم کردہ کتابوں کی دکان پر اپنا قومی شناختی کارڈ جمع کرواکرپسندیدہ کتاب حاصل کریں اور لاہور پہنچ کر اسی ادارے کی کتابوں کی دکان پر وہ کتاب واپس کرکے اپنا قومی شناختی کارڈ واپس لے لیں،ایسی سہولت سے سفر کی لذت دوبالا کی جاسکتی ہے۔
نیشنل بک فائونڈیشن کی طرف سے ناخواندہ اور بینائی سے محروم افراد کے لیے بھی ایسی کتابیں شایع کی گئیں،جن سے وہ استفادہ حاصل کرسکیں۔اسپتالوں میں مریضوں ،جیلوں میں قیدیوں ،آمدورفت کے دوران مسافروں کے لیے مطالعے کی سہولت دی گئی ہے۔اسکول کے بچوں کے لیے ایسی کتب شایع کی گئی ہیں،جن کو پڑھ کر ان میں مطالعے کے رجحان میں اضافہ ہوسکے،صرف یہی نہیں بلکہ بچوں کے لیے لکھی گئی بہترین کتابوں پر صدارتی اعزاز بھی دیا جاتا ہے۔پاکستان کے تابناک مستقبل کے لیے اس طرح کے اقدامات ناگزیر ہیں۔
نیشنل بک فائونڈیشن کی طرف سے ایک کام یہ بھی کیاگیا کہ مختلف شہروں میں نامورشعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو ''کتابوں کا سفیر''مقررکیاگیا،جن کے ذریعے ان شہروں میں کتب بینی کے فروغ کے لیے ان کی بلامعاوضہ خدمات حاصل کی گئیں۔یہ ایک اچھا خیال ہے،مگر ان میں سے اکثریت ایسے سفیروں کی تھی، جنھیں کتاب اور کتب بینی کے فروغ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، اس لیے سوائے چند ایک سفیروںکے ،کسی نے اس ذمے داری کو احسن انداز میں نہیں نبھایا۔
نیشنل بک فائونڈیشن کے موجودہ صدرنشین کانام ڈاکٹر انعام الحق جاوید ہے،یہ رواں برس ہی اس ادارے سے وابستہ ہوئے ہیں۔یہ ماہرتعلیم،کئی کتابوں کے مصنف اور شاعر ہیں۔کتاب اورکتب بینی کے رموز سے بخوبی واقف ہیں ۔ گزشتہ دنوں یہ کراچی اپنے صوبائی دفترتشریف لائے،تو انھوں نے سینئر صحافیوں کو بھی مدعو کیا۔ انھوں نے نیشنل بک فائونڈیشن کے حوالے سے مستقبل کی منصوبہ بندی پراظہار خیال کیا۔
یقین کیا جاسکتا ہے کہ یہ ادارہ اب مزید ترقی کرے گا کیونکہ ڈاکٹرانعام الحق نے دفتر میں ٹھنڈی مشین کے سائے میں بیٹھ کر افسری دکھانے کی بجائے اپنے مہمانوں کو ساتھ لے جا کر اس خالی زمین کامعائنہ کروایا اور مستقبل کے منصوبوں پر روشنی ڈالی ۔ اسی ادارے کے سیکریٹری آفتاب سومرو کی ادب شناسی نے بھی بے حدمتاثر کیا ۔نیشنل بک فائونڈیشن کی ایک اوراہم کاوش'' ماہنامہ کتاب'' ہے، جس کے ذریعے ملک بھر کی ادبی وثقافتی سرگرمیوں کی خبریں اس میںپڑھنے کومل جاتی ہیں ،اسی رسالے میںکتابوں پر جامع تبصرے اورمضامین بھی شامل ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر انعام الحق جاوید زمین سے جڑے ہوئے زرخیز ذہن کے آدمی ہیں،امید یہی ہے کہ نیشنل بک فائونڈیشن ہمارے ملک میں شعور اورآگہی کے ایسے پودے لگائے گا،جو مستقبل میں تناوردرخت بن کر سرزمین پاکستان کو علمی ثمر دیں گے۔کتاب،کتب بینی،ادب وثقافت سے از سرنو مراسم قائم کرنے میں ہمیں ایسے ہی دوررس اقدامات اورایماندار اشخاص کی ضرورت ہے۔
پاکستان سے غربت،جہالت اورمنفی جذباتیت کاخاتمہ اسی صورت ممکن ہے،جب اپنے ملک سے حقیقی محبت ہوگی۔جب ہم اپنی ثقافت سے روشناس ہوں گے، ہمیں اپنی علاقائی زبانوں سے تعلق خاطر ہوگا اور قومی زبان بولنے اور لکھنے پر فخر محسوس کریںگے۔ان سب پہلوئوں پر عمل کیے بغیر مشکل ہے کہ ہم مہذب قوم بن سکیں۔یہ تو ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہمارا قومی ورثہ ایساہے ،جس کی وجہ سے ہم دنیا کی کسی بھی قوم کے سامنے خود کو ثقافتی لحاظ سے پیش کرسکتے ہیں،مگربڑے دکھ کی بات ہے ،ہم ایک ایک کرکے وہ تمام احساسات کھورہے ہیں،جومہذب دنیا میںآپ کا تعارف ہوتے ہیں۔
پاکستان میں ادب وثقافت کے تناظر میںچند ایسے سرکاری ادارے ہیں،جن کے بارے میں جان کرحیرانی ہوتی ہے ،یہ ادارے ہمارے ہی ملک میں موجود ہیں۔عام آدمی تک ان کے بارے میں معلومات پہنچانے کا کوئی سرکاری انتظام نہیں ہے۔کئی ادارے تو ایسے ہیں،جن کا عرصہ دراز سے کوئی صدرنشیں بھی نہیں ہے۔پاکستان میں اگر ان سرکاری اداروں کی مناسب سرپرستی کی جاتی اورسفارشی لوگ تعینات نہ کیے جاتے ،تو ہمارے معاشرے میں ادب وثقافت سے شناسائی کے لیے یہ ادارے کلیدی کردار ادا کر سکتے تھے۔
پاکستان میں سرکاری سطح پر قائم کیے گئے چند بڑے اداروں ،جن میں لوک ورثہ،پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس،مقتدرہ قومی زبان،قومی کونسل برائے فروغ اردو،انجمن ترقی اردو پاکستان،اکادمی ادبیات،اردو لغت بورڈ،نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس اورنیشنل بک فائونڈیشن شامل ہیں جب کہ پاکستان کے مختلف شہروں میں قائم آرٹس کونسلوں اور میوزیمز کا ایک الگ مربوط سلسلہ ہے۔
ان سب اداروں سے تاریخ،علم وادب، زبان، ثقافت اور قومی تشخص کا ایک مضبوط رشتہ ہے،مگر جس طرح ان اداروں کو عوام سے اپنا تعلق استوار کرنا چاہیے تھا،وہ نہیں کیا گیا،یہی وجہ ہے، بیرونی ثقافتوں نے ہماری قومی شناخت پراپنے منفی اثرات مرتب کیے۔ ہمارے عوام کی اکثریت کو نہ اپنے ثقافتی ستونوں کی خبر ہے اور نہ ہی اپنے مشاہیر کا پتہ،جنہوں نے ادب وثقافت کے شعبے میں اپنی زندگیاں کھپا دیں۔ہمارے ذرایع ابلاغ بھی صرف چند ناموں کی گردان جاری رکھتے ہیں۔
یہ ہمارا قومی المیہ ہے، ہم نے ادارے بنائے،ان سے ویسا کام نہیں لیا۔ہمارے ہاں بڑی شخصیات پیدا ہوئیں،ہم نے ان کی قدرنہیں کی۔ہم نے اداروں کو چلانے کے لیے سفارشی نظام کو متعارف کروایا۔اس کے باوجود چند ایک ادارے اپنے تئیں اس جدوجہد میں مصروف ہیں کہ ملک وقوم کے لیے حقیقی معنوں میں ادب وثقافت کو محفوظ کرسکیں۔نیشنل بک فائونڈیشن بھی ایسا ہی ایک ادارہ ہے،جو کچھ برسوں سے پاکستان بھر میں کتاب اورکتب بینی کے فروغ میں کوشاں ہے۔
نیشنل بک فائونڈیشن1972میں قائم کیا گیا تھا۔یہ وفاقی ادارہ ہے،جو وزارت تعلیم کے ماتحت ہے۔اس کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں واقع ہے جب کہ چاروں صوبوں ،سندھ،بلوچستان،پنجاب اورپختونخوا میں اس کے علاقائی دفاتر قائم ہیں جو بالترتیب،کراچی،کوئٹہ،لاہور اورپشاور میں واقع ہیں۔ان کے علاوہ پاکستان کے دیگر شہروں میں نیشنل بک فائونڈیشن کی ذیلی شاخیں بھی قائم ہیں،جن میں حیدرآباد، لاڑکانہ، سکھر، جیکب آباد، خیرپور، بہاولپور، ملتان ،فیصل آباد،واہ کینٹ ،ایبٹ آباد،ڈیرہ اسماعیل خان، مظفرآباد اورگلگت شامل ہیں۔
ان کے ساتھ ساتھ مختلف مقامات پر کتابوں کی دکانیں بھی قائم کی گئی ہیں،جہاں سے اس ادارے کے متعلق نہ صرف معلومات حاصل ہوسکتی ہے، بلکہ کتابیں سستے داموں دستیاب ہیں اور اپنی مطلوبہ کتابیں منگوائی بھی جاسکتی ہیں۔اس ادارے کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے اس کی ویب سائٹ بھی دیکھی جاسکتی ہے،جسے گوگل پر صر ف'' نیشنل بک فائونڈیشن'' لکھ کر باآسانی تلاش کیاجاسکتاہے۔
ان متعلقہ شہروں اور قرب وجوار میں رہنے والے قارئین اورطالب علم نیشنل بک فائونڈیشن کی مندرجہ ذیل سہولتوں سے مستفید ہوسکتے ہیں۔سب سے پہلی اوربنیادی سہولت یہ ہے کہ نیشنل بک فائونڈیشن نے پاکستان کے 47شہروں میں ''ریڈرزکلب ''کے نام سے ممبر شب کی سہولت دے رکھی ہے،جس کو حاصل کرنے کے بعد کتابوں پر پچاس فیصد یا اس سے زاید رعایت حاصل کی جاسکتی ہے۔ کتابوں کی زیادہ قیمت کے شکوے کواس پیشکش کے ذریعے دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے،خاص طور پر طلبا جن کا بجٹ ویسے ہی بہت محدود ہوتا ہے،وہ اس کارآمد پیشکش سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
نیشنل بک فائونڈیشن کی طرف سے دوسری اہم سہولت ،مطالعے کے ختم ہوتے رجحان کو دوبارہ سے زندہ کرنا ہے،اس کے لیے انھوںنے ''بک کلب''تشکیل دیے ہیں۔یہ چلتے پھرتے کتب خانے شہروں،گائوں دیہاتوں، جیلوں ،اسپتالوں ،ریلوے اسٹیشنز اورہوائی اڈوں پر کتاب پڑھنے کی سہولت دیتے ہیں۔مثال کے طور پر آپ کراچی سے لاہور جارہے ہیں،تو کراچی کے ریلوے اسٹیشن پر نیشنل بک فائونڈیشن کی قائم کردہ کتابوں کی دکان پر اپنا قومی شناختی کارڈ جمع کرواکرپسندیدہ کتاب حاصل کریں اور لاہور پہنچ کر اسی ادارے کی کتابوں کی دکان پر وہ کتاب واپس کرکے اپنا قومی شناختی کارڈ واپس لے لیں،ایسی سہولت سے سفر کی لذت دوبالا کی جاسکتی ہے۔
نیشنل بک فائونڈیشن کی طرف سے ناخواندہ اور بینائی سے محروم افراد کے لیے بھی ایسی کتابیں شایع کی گئیں،جن سے وہ استفادہ حاصل کرسکیں۔اسپتالوں میں مریضوں ،جیلوں میں قیدیوں ،آمدورفت کے دوران مسافروں کے لیے مطالعے کی سہولت دی گئی ہے۔اسکول کے بچوں کے لیے ایسی کتب شایع کی گئی ہیں،جن کو پڑھ کر ان میں مطالعے کے رجحان میں اضافہ ہوسکے،صرف یہی نہیں بلکہ بچوں کے لیے لکھی گئی بہترین کتابوں پر صدارتی اعزاز بھی دیا جاتا ہے۔پاکستان کے تابناک مستقبل کے لیے اس طرح کے اقدامات ناگزیر ہیں۔
نیشنل بک فائونڈیشن کی طرف سے ایک کام یہ بھی کیاگیا کہ مختلف شہروں میں نامورشعبوں سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو ''کتابوں کا سفیر''مقررکیاگیا،جن کے ذریعے ان شہروں میں کتب بینی کے فروغ کے لیے ان کی بلامعاوضہ خدمات حاصل کی گئیں۔یہ ایک اچھا خیال ہے،مگر ان میں سے اکثریت ایسے سفیروں کی تھی، جنھیں کتاب اور کتب بینی کے فروغ سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، اس لیے سوائے چند ایک سفیروںکے ،کسی نے اس ذمے داری کو احسن انداز میں نہیں نبھایا۔
نیشنل بک فائونڈیشن کے موجودہ صدرنشین کانام ڈاکٹر انعام الحق جاوید ہے،یہ رواں برس ہی اس ادارے سے وابستہ ہوئے ہیں۔یہ ماہرتعلیم،کئی کتابوں کے مصنف اور شاعر ہیں۔کتاب اورکتب بینی کے رموز سے بخوبی واقف ہیں ۔ گزشتہ دنوں یہ کراچی اپنے صوبائی دفترتشریف لائے،تو انھوں نے سینئر صحافیوں کو بھی مدعو کیا۔ انھوں نے نیشنل بک فائونڈیشن کے حوالے سے مستقبل کی منصوبہ بندی پراظہار خیال کیا۔
یقین کیا جاسکتا ہے کہ یہ ادارہ اب مزید ترقی کرے گا کیونکہ ڈاکٹرانعام الحق نے دفتر میں ٹھنڈی مشین کے سائے میں بیٹھ کر افسری دکھانے کی بجائے اپنے مہمانوں کو ساتھ لے جا کر اس خالی زمین کامعائنہ کروایا اور مستقبل کے منصوبوں پر روشنی ڈالی ۔ اسی ادارے کے سیکریٹری آفتاب سومرو کی ادب شناسی نے بھی بے حدمتاثر کیا ۔نیشنل بک فائونڈیشن کی ایک اوراہم کاوش'' ماہنامہ کتاب'' ہے، جس کے ذریعے ملک بھر کی ادبی وثقافتی سرگرمیوں کی خبریں اس میںپڑھنے کومل جاتی ہیں ،اسی رسالے میںکتابوں پر جامع تبصرے اورمضامین بھی شامل ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر انعام الحق جاوید زمین سے جڑے ہوئے زرخیز ذہن کے آدمی ہیں،امید یہی ہے کہ نیشنل بک فائونڈیشن ہمارے ملک میں شعور اورآگہی کے ایسے پودے لگائے گا،جو مستقبل میں تناوردرخت بن کر سرزمین پاکستان کو علمی ثمر دیں گے۔کتاب،کتب بینی،ادب وثقافت سے از سرنو مراسم قائم کرنے میں ہمیں ایسے ہی دوررس اقدامات اورایماندار اشخاص کی ضرورت ہے۔