دنیا بھر سے تنہائی تباہی کا سبب بن سکتی ہے
اسرائیلی مظالم پرعالم اسلام خاموش تماشائی بن کر سارا کھیل دیکھتی رہا اور مذمت سے ایک قدم آگے بڑھانے کی جسارت نہیں کی
اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں پر ظلم کی انتہا کردی، مگر افسوس نہیں ہوا۔ 8 جولائی سے جاری حملوں میں تقریباً 1834فلسطینی شہید ہوئے اور 9500 زخمی ہوئے ۔ بچوں پر تو ڈھونڈ ڈھونڈ کر حملے کیے گئے کہ اسرائیل کا مقصد ہی فلسطینیوں کی نسل کشی تھا مگرحیرانگی نہیں کیونکہ اسرائیل تو دشمن ہے اور دشمن کا کام ہی نقصان پہنچانا ہے اور بھلائی کی امیدتو ہرگز نہیں۔بات صرف اسرائیل کی تو نہیں ہے کیونکہ ا مریکہ بھی تو اسرائیل کی بربرییت پر خاموش رہا اور ساتھ ہی امریکی کانگرس ارکان نے اسرائیلی ڈیفنس سسٹم کے لئے ایک امدای بل منظور کیا ، لیکن یہ بھی پریشانی کی بات نہیں کیونکہ امریکا و اسرائیل کا تو ہمیشہ سےہی گٹھ جوڑ ہے ۔
دل خون کے آنسو اس وقت رویا جب پوری عالم اسلام خاموش تماشائی بن کر یہ سارا کھیل دیکھتی رہی اور مذمت سے آگے مجال ہے کہ ایک قدم تک آگے بڑھانے کی جسارت کی ہو۔ اور مذمت کے لئے بھی مناسب الفاظ کو تلاش کرتے رہے کہیں ان کے دوست ناراض نہ ہو جائیں۔پرنادان دل کو اس وقت سب سے زیادہ دھچکا لگا جب مصر جو فلسطین سے قریب تر ہے وہ بھی خاموش رہااور سکے نئے صدر الفتح السیسی نے نگاہیں دوسری طرف کرلیں۔اس کو مورسی کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگ تو نظر آئے تھے اور ظلم ہوتا ہوا نظر آیا تھا مگر اپنے ملک کے بارڈ رفع پر نہتے فلسطینی مرتے نظر نہیں آئے اور نہ ہی ان پر ہوتے ہوئے فضائی حملے بھی نظر آئے ۔دل میں صاف ہے اِس لیے سوچتا ہوں کہ شاید مصر بھی فلسطین کی ہی طرح کمزور ہے یا پھر کیا پتہ مصر کا ریڈار سسٹم ہی کام نہ کر رہا ہو اور اگر کوئی مجبوری تھی توبتا دینی چا ہیے تھی ۔ لیکن پھر سوچتا ہوں کہ اگر مصر یہ سوچ رہا تھا کہ وہ تو فلسطینی ہیں کوئی مصری تھوڑی ہیں جو اُن کے لیے فضول میں اسرائیل سے پنگا لیا جائے لیکن میں اُن کی گزارش میں کہنا چاہتا ہوں کہ کیا ہوا کہ اگر وہ آپ کے ملک کے نہیں لیکن مسلمان تو ہیں۔ آپ کے پاس تو بری، بحری اور فضائی فوج اور جدے اسلحہ بھی ہے مگر ڈرہے تو کس بات کا۔اگر یہ فوج ا پنے لوگوں کے خلاف استعمال ہو سکتی ہے تو دشمنوں کے خلاف کب استعمال ہو گی؟۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر مصری حکومت جرت کا مظاہرہ کرلیتی تو ہو سکتا تھا کہ باقی اسلامی ملکوں کی بھی غیرت جاگ اٹھتی۔ یہ عین ممکن تھا کہ اسرائیل بھی سوچ سمجھ کر کوئی قدم اٹھاتا اور کئی لوگ یتیم ہونے سے بچ جاتے ، کئی سہاگ بھی اجڑنے سے بچ سکتے تھے اور مزید یہ کہ غزہ شہر ویران ہونے بچ سکتا تھا اور پھر جو پوری دنیا کو پیغام جانا تھا وہ یہ کہ فلسطینی کوئی الگ نہیں بلکہ ہم سب ایک ہے۔اور ہم عالم اسلام کے خلاف ہر سازش کے خلاف متحد ہیں پھر امریکی صدربھی اسرائیلی بربریت کے خلاف لب کشائی کرتے اور اقوام متحدہ بھی بے بس نظر نہیں آتا اور کمزور اسلامی ملکوں کوبھی یہ پیغام نہ جاتا جو غزہ میں مرنے والے فلسطینی دے رہے ہیں ۔ جینا ہے تو اکٹھے اور مرنے کے لئے اکیلے اکیلے۔
لیکن اگر مصر فلسطین کو الگ ہی سمجھتا تھا تو ٹھیک ہے یہ اُس کی مرضی ہے لیکن آخر وہ کیونکر وہ اپنی سرحد پر غیر ملکی جارحیت پر بھی خاموش رہا ۔۔۔۔ اگر معاملہ یہی رہا تو پھر یہ بات ہم سب کو یاد رکھنی چاہیے کہ آج تو فلسطین کا نمبر آچکا ہے ۔۔۔۔ کوئی بعید نہیں کہ کل مصر اور پھر ایک ایک کرکے تمام مسلم ممالک ایسی ہی کسی بربریت کا نشانہ بن جائیں۔ اگر اِن حالات سے بچنا ہے تو پھر موجودہ حالات کا تقاضا تو یہ ہے کہ سارے اسلامی ملک بالحصوص بڑے اسلامی ملک جن میں پاکستان اور ایران بھی شامل ہے سب مل بیٹھ اس مسئلے کو ہر فورم پر اٹھائیں اور اس کا مستقل حل تلاش کرنے میں اپنا اپنا کردار اداکریں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
دل خون کے آنسو اس وقت رویا جب پوری عالم اسلام خاموش تماشائی بن کر یہ سارا کھیل دیکھتی رہی اور مذمت سے آگے مجال ہے کہ ایک قدم تک آگے بڑھانے کی جسارت کی ہو۔ اور مذمت کے لئے بھی مناسب الفاظ کو تلاش کرتے رہے کہیں ان کے دوست ناراض نہ ہو جائیں۔پرنادان دل کو اس وقت سب سے زیادہ دھچکا لگا جب مصر جو فلسطین سے قریب تر ہے وہ بھی خاموش رہااور سکے نئے صدر الفتح السیسی نے نگاہیں دوسری طرف کرلیں۔اس کو مورسی کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگ تو نظر آئے تھے اور ظلم ہوتا ہوا نظر آیا تھا مگر اپنے ملک کے بارڈ رفع پر نہتے فلسطینی مرتے نظر نہیں آئے اور نہ ہی ان پر ہوتے ہوئے فضائی حملے بھی نظر آئے ۔دل میں صاف ہے اِس لیے سوچتا ہوں کہ شاید مصر بھی فلسطین کی ہی طرح کمزور ہے یا پھر کیا پتہ مصر کا ریڈار سسٹم ہی کام نہ کر رہا ہو اور اگر کوئی مجبوری تھی توبتا دینی چا ہیے تھی ۔ لیکن پھر سوچتا ہوں کہ اگر مصر یہ سوچ رہا تھا کہ وہ تو فلسطینی ہیں کوئی مصری تھوڑی ہیں جو اُن کے لیے فضول میں اسرائیل سے پنگا لیا جائے لیکن میں اُن کی گزارش میں کہنا چاہتا ہوں کہ کیا ہوا کہ اگر وہ آپ کے ملک کے نہیں لیکن مسلمان تو ہیں۔ آپ کے پاس تو بری، بحری اور فضائی فوج اور جدے اسلحہ بھی ہے مگر ڈرہے تو کس بات کا۔اگر یہ فوج ا پنے لوگوں کے خلاف استعمال ہو سکتی ہے تو دشمنوں کے خلاف کب استعمال ہو گی؟۔
میرا ذاتی خیال ہے کہ اگر مصری حکومت جرت کا مظاہرہ کرلیتی تو ہو سکتا تھا کہ باقی اسلامی ملکوں کی بھی غیرت جاگ اٹھتی۔ یہ عین ممکن تھا کہ اسرائیل بھی سوچ سمجھ کر کوئی قدم اٹھاتا اور کئی لوگ یتیم ہونے سے بچ جاتے ، کئی سہاگ بھی اجڑنے سے بچ سکتے تھے اور مزید یہ کہ غزہ شہر ویران ہونے بچ سکتا تھا اور پھر جو پوری دنیا کو پیغام جانا تھا وہ یہ کہ فلسطینی کوئی الگ نہیں بلکہ ہم سب ایک ہے۔اور ہم عالم اسلام کے خلاف ہر سازش کے خلاف متحد ہیں پھر امریکی صدربھی اسرائیلی بربریت کے خلاف لب کشائی کرتے اور اقوام متحدہ بھی بے بس نظر نہیں آتا اور کمزور اسلامی ملکوں کوبھی یہ پیغام نہ جاتا جو غزہ میں مرنے والے فلسطینی دے رہے ہیں ۔ جینا ہے تو اکٹھے اور مرنے کے لئے اکیلے اکیلے۔
لیکن اگر مصر فلسطین کو الگ ہی سمجھتا تھا تو ٹھیک ہے یہ اُس کی مرضی ہے لیکن آخر وہ کیونکر وہ اپنی سرحد پر غیر ملکی جارحیت پر بھی خاموش رہا ۔۔۔۔ اگر معاملہ یہی رہا تو پھر یہ بات ہم سب کو یاد رکھنی چاہیے کہ آج تو فلسطین کا نمبر آچکا ہے ۔۔۔۔ کوئی بعید نہیں کہ کل مصر اور پھر ایک ایک کرکے تمام مسلم ممالک ایسی ہی کسی بربریت کا نشانہ بن جائیں۔ اگر اِن حالات سے بچنا ہے تو پھر موجودہ حالات کا تقاضا تو یہ ہے کہ سارے اسلامی ملک بالحصوص بڑے اسلامی ملک جن میں پاکستان اور ایران بھی شامل ہے سب مل بیٹھ اس مسئلے کو ہر فورم پر اٹھائیں اور اس کا مستقل حل تلاش کرنے میں اپنا اپنا کردار اداکریں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔