بات کچھ اِدھر اُدھر کی کاش میں ’’ٹی وی‘‘ ہوتا
بچے پھول کی طرح نازک ہوتے ہیں ہماری ذرا سی بے توجہی اور انہیں کی بات کو اہمیت نا دینا انہیں مرجھا دیتا ہے۔
لاہور:
اسکول میں سالانہ تقسیم انعامات کی تقریب تھی۔پچھلے چار سالوں کی طرح اس سال بھی دوسری پوزیشن آئی۔ خوشی خوشی سرٹیفیکیٹ اور انعام لے کر گھر پہنچےتو امی کو کچن میں کھانا پکاتے پایا اور گھر پہنچے ہی فوراً اُن کو یہ اچھی خبر سنائی؛
انہوں نے ایک نظر دیکھا اچھا کہا اور اپنے کام میں مصروف ہو گئیں۔
بظاہر تو امی کا رویہ اِس قدر بُرا نہیں تھا لیکن امتحانات میں شدید محنت کے بعد آنے والے اچھے نتیجے میں حوصلہ افزائی نہ ہو تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہت کچھ اندر ہی اندر ٹوٹ گیا ہے۔
بعض بچے بہت حساس ہوتے ہیں اور ذرا ذرا سی بات کو محسوس کرتے ہیں۔ والدین کی توجہ اور اہمیت دینا انہیں زندگی میں کسی بڑے مقام پر پہچانے کا سبب بن سکتی ہے ۔ آج بچپن کی یادوں میں سے یہ بات کچھ یوں یاد آئی کہ کلاس میں ایک بچے کا ہوم ورک چیک کرتے ہوئے کاپی میں لکھے ہوئے ان چند فقروں ہر نظر پڑی۔ اس کا شمار کلاس کے ذہین بچوں میں ہوتا ہے مگر جب بھی گھر سے ہوم ورک کر کے لاتا تو اس میں بے شمار غلطیاں ہوتیں تھیں۔سمجھ نہیں آتی تھی کہ اس کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ مگر ان چند جملوں نے سب کچھ واضح کر دیا۔لکھا تھا!
کاش! میں ٹی وی ہوتا۔ ابو آفس سے جتنی مرضی تھکے ہوئے آئیں۔ ٹیوی ضرور دیکھتے ہیں کہ سارا دن کام کر کے آرہا ہوں کچھ دیر تو ریلیکس کروں۔امی ڈرامے کی آواز بھی کم کرنا پسند نہیں کرتیں اور کہتی ہیں کہ ''خاموش رہو''۔ بھائی کرکٹ کمنٹری سنتے ہوئے کہتا ہے''یہ سننے سے انگلش اچھی ہوتی ہے''۔ بہن نیشنل جیو گرافک دیکھتے ہوئےبات کا جواب دینا بھی پسند نہیں کرتی۔
سب ٹی وی کو کتنی اہمیت دیتے ہیں، یہ ہمارے گھر میں ایک ایسے فرد کی طرح ہے جو سب سے زیادہ بولتا ہے۔ لیکن مجھے کوئی اہمیت نہیں دیتا۔
جب میں نے یہ سب کچھ پڑھا تو پھر اُس بچے کے والدین سے بات کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک اوسط آمدنی والے گھرانے میں ٹی وی ایک واحد تفریح ہے اسکی اہمیت اور ضرورت اپنی جگہ مگر رشتوں پر اسے فوقیت دینا سراسر زیادتی ہے اور بچے تو خصوصی توجہ کے طالب ہوتے ہیں ان کی شخصیت کی تعمیر میں والدین کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ بہت سے والدین بچوں کو بنیادی ضروریات فراہم کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے لیکن وہ اِس بات کا تدارک نہیں کرتے کہ بچوں سے بات کرنا ان کے مسائل کو سمجھنا انہیں وقت دینا بھی والدین کے لیے انتہائی ناگزیر ہے ۔
آج کل کی مصروف زندگی میں جب انسان روزگار کے چکر میں خود مشین بن چکا ہے اس کے پاس ان باتوں کی طرف توجہ دینے کا خیال بھی نہیں آتا۔ بچے پھول کی طرح نازک ہوتے ہیں ہماری ذرا سی بے توجہی اور انہیں نظر انداز کرنا ان کی بات کو اہمیت نا دینا انہیں مر جھا دیتا ہے۔ یہ ہمارا مستقبل ہیں ہمارا آنے والا کل۔اگر ہم اُنہیں اپنا آج انہیں دیں گے تو وہ کل ہمارے مستقبل میں ہمارے ساتھ نہیں ہوں گے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اسکول میں سالانہ تقسیم انعامات کی تقریب تھی۔پچھلے چار سالوں کی طرح اس سال بھی دوسری پوزیشن آئی۔ خوشی خوشی سرٹیفیکیٹ اور انعام لے کر گھر پہنچےتو امی کو کچن میں کھانا پکاتے پایا اور گھر پہنچے ہی فوراً اُن کو یہ اچھی خبر سنائی؛
''امی! دیکھیں انعام ملا ہے''
انہوں نے ایک نظر دیکھا اچھا کہا اور اپنے کام میں مصروف ہو گئیں۔
بظاہر تو امی کا رویہ اِس قدر بُرا نہیں تھا لیکن امتحانات میں شدید محنت کے بعد آنے والے اچھے نتیجے میں حوصلہ افزائی نہ ہو تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بہت کچھ اندر ہی اندر ٹوٹ گیا ہے۔
بعض بچے بہت حساس ہوتے ہیں اور ذرا ذرا سی بات کو محسوس کرتے ہیں۔ والدین کی توجہ اور اہمیت دینا انہیں زندگی میں کسی بڑے مقام پر پہچانے کا سبب بن سکتی ہے ۔ آج بچپن کی یادوں میں سے یہ بات کچھ یوں یاد آئی کہ کلاس میں ایک بچے کا ہوم ورک چیک کرتے ہوئے کاپی میں لکھے ہوئے ان چند فقروں ہر نظر پڑی۔ اس کا شمار کلاس کے ذہین بچوں میں ہوتا ہے مگر جب بھی گھر سے ہوم ورک کر کے لاتا تو اس میں بے شمار غلطیاں ہوتیں تھیں۔سمجھ نہیں آتی تھی کہ اس کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ مگر ان چند جملوں نے سب کچھ واضح کر دیا۔لکھا تھا!
کاش! میں ٹی وی ہوتا۔ ابو آفس سے جتنی مرضی تھکے ہوئے آئیں۔ ٹیوی ضرور دیکھتے ہیں کہ سارا دن کام کر کے آرہا ہوں کچھ دیر تو ریلیکس کروں۔امی ڈرامے کی آواز بھی کم کرنا پسند نہیں کرتیں اور کہتی ہیں کہ ''خاموش رہو''۔ بھائی کرکٹ کمنٹری سنتے ہوئے کہتا ہے''یہ سننے سے انگلش اچھی ہوتی ہے''۔ بہن نیشنل جیو گرافک دیکھتے ہوئےبات کا جواب دینا بھی پسند نہیں کرتی۔
سب ٹی وی کو کتنی اہمیت دیتے ہیں، یہ ہمارے گھر میں ایک ایسے فرد کی طرح ہے جو سب سے زیادہ بولتا ہے۔ لیکن مجھے کوئی اہمیت نہیں دیتا۔
جب میں نے یہ سب کچھ پڑھا تو پھر اُس بچے کے والدین سے بات کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ حقیقت ہے کہ ایک اوسط آمدنی والے گھرانے میں ٹی وی ایک واحد تفریح ہے اسکی اہمیت اور ضرورت اپنی جگہ مگر رشتوں پر اسے فوقیت دینا سراسر زیادتی ہے اور بچے تو خصوصی توجہ کے طالب ہوتے ہیں ان کی شخصیت کی تعمیر میں والدین کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔ بہت سے والدین بچوں کو بنیادی ضروریات فراہم کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے لیکن وہ اِس بات کا تدارک نہیں کرتے کہ بچوں سے بات کرنا ان کے مسائل کو سمجھنا انہیں وقت دینا بھی والدین کے لیے انتہائی ناگزیر ہے ۔
آج کل کی مصروف زندگی میں جب انسان روزگار کے چکر میں خود مشین بن چکا ہے اس کے پاس ان باتوں کی طرف توجہ دینے کا خیال بھی نہیں آتا۔ بچے پھول کی طرح نازک ہوتے ہیں ہماری ذرا سی بے توجہی اور انہیں نظر انداز کرنا ان کی بات کو اہمیت نا دینا انہیں مر جھا دیتا ہے۔ یہ ہمارا مستقبل ہیں ہمارا آنے والا کل۔اگر ہم اُنہیں اپنا آج انہیں دیں گے تو وہ کل ہمارے مستقبل میں ہمارے ساتھ نہیں ہوں گے۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔