عمران اور قادری کی احتجاجی سیاست کیا رنگ لائے گی

وطن عزیز آج جس نازک صورتحال سے دوچار ہے اس میں سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ آمریت نے بھی پورا پوار کردار ادا کیا ہے


Irshad Ansari August 05, 2014
جہاں ایک طبقہ چودہ اگست کو موجودہ جمہوری حکومت کے خاتمہ کے آغاز سے تعبیر کر رہا ہے، وہیں بعض سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ عمران کا شو دیوانے کی بڑ ثابت ہوگا۔ فوٹو : فائل

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اختلافات جمہوریت کا حسن ہے لیکن یہ حسن اس وقت تک ہے جب تک یہ حدود و قیود میں رہے ورنہ گہنا جاتا ہے اور اختلافات سے سوائے تباہی کے کچھ نہیں ملتا پھر ان ہی اختلافات کی شدت کی کوکھ سے آمریت جنم لیتی ہے جو کسی طور بھی ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔

وطن عزیز آج جس نازک صورتحال سے دوچار ہے اس میں سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ آمریت نے بھی پورا پوار کردار ادا کیا ہے اور جس قدر ممکن ہوسکا مملکت خداداد کو مسائل میں دھکیلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اور آج جب وطن عزیز کو قائم ہوئے 67 سال مکمل ہونے جارہے ہیں اور پوری قوم 68 واں یوم آزادی منانے جا رہی ہے، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس اہم دن کے موقع پر پوری دنیا کو محبت، بھائی چارے اور اتفاق و اتحاد کا پیغام دیا جاتا، دنیا کو بتایا جاتا کہ پاکستانی عوام اور حکمران بند مُٹھی کی مانند ہیں اورملک و قوم کی بقاء و سالمیت و حفاظت کیلئے جان پر کھیلنے والے اس دھرتی کے جانثاروں کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں مگر اقتدار کی ہوس نے سیاستدانوں کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی ہے، ہر چھوٹی بڑی جماعت اپنی اڑھائی اینٹ کی مسجد بنائے اپنا فلسفہ بیچ رہی ہے۔

ان اختلافات و نفرتوں کے سیاسی افق پر سیاسی گدھ مُنڈلا رہے ہیں جو اس امید پر ہیں کہ کب یہ طفل جمہوریت دم توڑتا ہے اور اقتدار کی ہوس کے مارے ان سیاسی گدھوں کو اپنے سیاسی پیٹ کا دوزخ بھرنے کا موقع ملتا ہے۔

ان کی حالت ماہی بے آب کی مانند ہے جو اقتدار کے سمندر سے باہر تڑپ تو رہی ہے مگر اتنی ہمت، طاقت اور سکت نہیں رکھتی ہے کہ وہ اپنے بل بوتے پر عوام کی حمایت سے اقتدار میں آسکے اس لئے وہ ناصرف آس لگائے بیٹھے ہیں کہ کب جمہوریت کی بساط لپیٹی جاتی ہے اور کب انہیں چور راستے سے اقتدار میں آنے کا موقع ملے گا بلکہ چور راستے سے اقتدار میں آنے کے لئے انھوں نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور یہ ایک طرف پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم کو استعمال کر رہے ہیں تو دوسری طرف علامہ طاہرالقادری کی پیٹھ تھپک رہے ہیں اور انہیں پھٹے پر چڑھانے کیلئے قدم بڑھاؤ قادری ہم تمھارے ساتھ ہیں کی نعرے بازی کررہے ہیں۔

قادری صاحب کا تعلق جھنگ سے ہے اور وہ اس سے قبل جھنگ کی احرار پارک میں عملی طور پر یہ نمونہ دیکھ چُکے ہیں جنہوں نے اس وقت قادری صاحب کو یہی ہلی شیری دے کر آگے کیا تھا، وقت آنے پر وہ دوربین سے بھی دکھائی نہیں دیتے تھے اور قادری صاحب کو جھنگ سے بوریا بستر گول کرکے شریف فیملی کی مسجد میں امامت اور لاہور میں ڈیرہ لگانا پڑا، جہاں انھیں اپنے سالہاسال پُرانے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے آگے بڑھنے کا موقع ملا ۔ آخر کار مولانا طاہر القادری کے لئے وہ دن بھی آئے جس کا انہیں انتظار تھا جھنگ کی جامع مسجد پیپلیانوالہ سے شروع کیا گیا سفر برطانیہ، ناروے، کینیڈا سے ہوتا ہوا واپس ماڈل ٹاون لاہور تک پہنچ گیا ہے اور قادری صاحب نے دس اگست کو یوم شہداء ریلی منانے کا اعلان کردیا ہے۔

دوسری جانب ریاستی ادارے ایف بی آر نے ادارہ منہاج القرآن کے سولہ سے زائد سرگرم رہنماوں سے چالیس کروڑ روپے کے ٹیکس واجبات کی وصولی کے اسیسمنٹ آرڈر بھی جاری کردیئے ہیں اور جوں جوں چودہ اگست قریب آرہی ہے تو حکومت بھی اپنے کارڈ شو کرنا شروع ہوگئی ہے۔

حکومت نے پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی طرف سے لانگ مارچ و طاہر القادری کے انقلاب سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی طے کرلی ہے جس کے تحت فیصلہ کیا گیا ہے کہ کسی کو بھی قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ حکومت جمہوریت پر یقینی رکھتی ہے اور کسی کو عوامی مینڈیٹ چرانے کی اجازت نہ دی جائے۔ تاہم وزیر اعظم نے کہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ(ن) جمہوریت پر یقین رکھتی ہے اورہماری خواہش ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت اپنی مدت پوری کرے جبکہ اجلاس میں یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی طرف سے قانون کی حدود میں رہ کر احتجاج اور لانگ مارچ کیلئے جو اقدام کئے جا رہے ہیں۔

ان میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی جائے گی مگر عمران خان کی طرف سے عوام کو بغاوت پر اکسانے سمیت دیگر غیر آئینی اقدامات سے بھی قانون کے مطابق نمٹا جائے اورعوام کو بغاوت پر اکسانے پر عمران خان کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کی جائے، تاہم پاکستان مسلم لیگ(ن) نے آئندہ چندروز میں دوبارہ اجلاس بُلانے کا فیصلہ کیا ہے جس میں عمران خان کے عوام کو بغاوت پر اکسانے کے حوالے سے دیئے جانے والے بیانات سمیت دیگر غیر آئینی اقدامات کا بھی جائزہ لیا جائے گا اور اس حوالے سے قانونی ماہرین سے بھی رائے لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ اقدامات اپنی جگہ یقیناً درست ہوں گے اور ملک میں امن و امان کے قیام کیلئے کسی بھی منتخب حکومت کو اقدامات کرنے کا حق ہوتا ہے۔

مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ حکومت بڑے پن کا ثبوت دیتی اور آج طاہر القادری اور عمران خان سے رابطوں کی جو باتیں کی جارہی ہیں یہ رابطے شروع میں ہی کر لئے جاتے اور انہیں قائل کرلیا جاتا تو شائد نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔

جہاں ایک طبقہ چودہ اگست کو موجودہ جمہوری حکومت کے خاتمہ کے آغاز سے تعبیر کر رہا ہے، وہیں بعض سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ عمران کا شو دیوانے کی بڑ ثابت ہوگا اور عمران خان کا سارا معاملہ انتخابی اصلاحاتی کمیٹی میں لپیٹ دیا جائے گا۔ البتہ ایک بات طے ہے کہ عمران خان کو آگے نہیں چانا چاہیے تھا اور اب جتنا آگے چلے گئے ہیں اس میں ان کے لئے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے ۔ اگر اب وہ اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب نہ ہوئے تو ڈر ہے کہ عمران خان بھی کہیں اصغر خان نہ بن جائیں اور تاریخ کی سیاہی میں گُم ہوکر نہ رہ جائیں۔

کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان ملکی سیاست میں ایک مثبت اور اچھی متبادل قیادت کے طور پر ابھرے ہیں جس سے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی اجارہ داری کو خطرات لاحق ہیں، اب ایسے میں اپنے جذباتی پن سے اگر عمران خان تاریخ کی سیاہی میں گُم ہوکر رہ جاتے ہیں تو یقیناً فائدہ تو ان ہی بڑی سیاسی جماعتوں کو ہوگا جو سالہا سال سے سیاسی اُفق پر چھائی ہوئی ہیں مگر اس تمام صورتحال کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور یہ کہ اس لانگ مارچ وانقلاب کے شور سے ملک میں بجلی،گیس کی لوڈ شیڈنگ،مہنگائی میں اضافہ، بیروزگاری، بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی سمیت وہ تمام مسائل دب کر رہ گئے ہیں۔

جو ماضی میں حکومتوں کیلئے سب سے زیادہ وبال جان بنے رہے ہیں کیونکہ حکومت کی طرف سے جب سے رواں مالی سال کے وفاقی بجٹ کا اعلان کیا گیا ہے اور اس بجٹ پر عملدرآمد شروع کیا گیا ہے حکومت کے اپنے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ اس وقت سے اب تک مسلسل مہنگائی کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اور بجٹ میں جو بھاری ٹیکسیشن کی گئی ہے اس کے اثرات آنے والے دنوں میں مزید گہرے ہوں گے لیکن حکومت کو ان مسائل کے حوالے سے عوام کی طرف سے کسی قسم کی کوئی پریشانی کا سامنا نہیں ہے کیونکہ عوام لانگ مارچ اور انقلاب کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے اور وہ اس بوجھ سے نکلے گی تو حقیقی مسائل کی طرف توجہ دے پائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں