ہو رہے گا کچھ نہ کچھ…
خواہش کرنے میں کوئی حرج نہیں، مگر وزیر اعظم اپنی طاقت قومی اسمبلی سے حاصل کرتا ہے
اسلام آباد کے وہ لوگ جنھیں میں کافی باخبر سمجھتا ہوں اور جن کا تعلق پاکستان مسلم لیگ نون سے ہرگز نہیں ہے اس بات پر بضد ہیں کہ 14 اگست آئے گا اور خیر و عافیت سے گزر جائے گا۔ نواز شریف صاحب کی حکومت فی الحال قائم رہے گی مگر ان کی قوت و اختیار میں بے تحاشہ کمی ہو جائے گی۔ دس دن کی چھٹیوں میں جان بوجھ کر میں نے ایک لمحے کو بھی ٹیلی وژن نہیں دیکھا۔ دھندے کی طرف واپس آنے سے پہلے ریموٹ اُٹھا کر ٹی وی چینلوں کا تعاقب کیا تو سیاسی محاذ مگر خوب گرم ہوتا محسوس ہوا۔
علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب اپنے تئیں انقلاب برپا کرنے کے معاملے میں عمران خان سے بازی لیتے ہوئے بھی نظر آئے۔ 10اگست کو انھوں نے اپنے کارکنوں کو لاہور میں تحریکی ہیڈکوارٹر پر بلا لیا ہے۔ مقصد تو تاریک راہوں میں مارے جانے والے کارکنوں کو یاد کرنا بتایا گیا ہے، لیکن فاتحہ کے بجائے زیادہ زور قصاص پر دیا گیا ہے۔ ساتھ میں یہ دعویٰ بھی کہ اگست 2014 کے اختتام تک نواز حکومت فارغ ہو جائے گی۔ اس کے بعد کیا ہو گا اس کی تفصیلات علامہ صاحب نے بیان نہیں کی ہیں اگرچہ تاثر کچھ ایسا دیا ہے کہ پھر ان کی بنائی انقلابی کمیٹیاں ریاستی انتظام و انصرام سنبھال لیں گی۔
اقتدار و اختیار حاصل کرنے کے بعد یہ کمیٹیاں موجودہ پولیس اور عدالتی نظام کے ذریعے ہی اپنے انقلابی ایجنڈے پر عمل درآمد کروائیں گی یا ''ستا اور فوری انصاف'' مہیا کرنے اور احتساب کا کڑا نظام کسی اور شکل میں ہمارے سامنے آئے گا؟ اس سوال کا جواب واضح طور پر فراہم نہیں کیا۔ ہمارا مستعد میڈیا بھی ان سوالوں کے جوابات سنجیدگی سے ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کر رہا۔ اس کا مقصد تو اسکرینوں پر رونق لگانا ہے اور یہ رونق بڑے شور شرابے کے ساتھ مسلسل دیکھنے کو مل رہی ہے۔ علامہ صاحب کے ارادے بظاہر یہ نظر آ رہے ہیں کہ لاہور میں اپنی سپاہِ انقلاب کو مجتمع کرنے کے بعد وہ بذریعہ جی ٹی روڈ اسلام آباد کا رُخ کریں گے۔
پنجاب پولیس اس مارچ کی بدولت مخمصے میں گرفتار ہو جائے گی۔ اس کا کنفیوژن عمران خان کی تحریک انصاف کے کارکنوں کو اپنے آزادی مارچ کی بھرپور تیاریوں کی فرصت اور سہولت مہیا کر دے گا۔ غالباً علامہ صاحب کی سپاہِ انقلاب گجرات یا جہلم تک پہنچیں گی تو ایک لاکھ موٹر سائیکلوں کے ساتھ تحریک انصاف کے انقلابی لاہور سے اسلام آباد کا سفر شروع کر دیں گے۔ مجھے خبر نہیں کہ کپتان ان کی قیادت موٹر سائیکل پر بیٹھ کر کریں گے یا اپنی حفاظت کی خاطر بلٹ پروف جیپ میں بیٹھنے پر مجبور ہو جائیں گے۔ ایک بات مگر طے ہے کہ 2014 کا پاکستان آگے بڑھنے کے بجائے 1990 کی دہائی میں واپس لوٹ رہا ہے۔ دائرے میں سفر جہاں حرکت تیز تر ہوتی ہے مگر سفر آہستہ آہستہ ۔
میرے بہت سارے پڑھنے والے ای میلز اور سوشل میڈیا کے ذریعے مجھ سے تقاضا کر رہے ہیں کہ میں جو خود کو سیاسی معاملات پر رپورٹنگ کے معاملے میں بڑا پھنّے خان سمجھتا ہوں 14 اگست کے حوالے سے تجزیہ سمیت کچھ پیش گوئیاں کروں۔ ایمان داری کی بات ہے میں نے انتہائی خلوص کے ساتھ کئی گھنٹے غور و خوض کے بعد کچھ تجزیہ وغیرہ کرنے کی کوشش کی مگر ڈھنگ کی کوئی بات ڈھونڈ نہ پایا۔ شاید بڑھاپے کی آمد کے ساتھ ذہن بنجر ہونا شروع ہو گیا ہے۔ میرے کنفیوژن کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ فوٹوکے ساتھ کالم لکھنے کی سہولت نے میرے اندر کے رپورٹر کو ختم کر دیا ہے۔
قلم اٹھاتا ہوں اور ذہن میں جو آتا ہے لکھے چلا جاتا ہوں۔ خود کی ملامت کرتے ہوئے البتہ اپنے دفاع میں ایک نکتہ بھی بجلی کی طرح کوندا۔ سیاسی تجزیہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاست و طاقت سے متعلق اہم کرداروں میں چند بنیادی نکات پر اتفاق ہو۔ مثال کے طور پر امریکی صدر اوباما کو اپنے ملک کی حالیہ تاریخ میں ان کے مخالفین کی جانب سے مکمل نفرت کا سامنا ہے۔ ان کی حزبِ مخالف مگر تند و تیز بیانات دیتی ہے۔ واشنگٹن پہنچ کر دھرنا نہیں دینا چاہتی۔ امریکا میں لیکن آپ کہہ سکتے ہیں کہ سیاسی نظام بہت پختہ ہے۔
ہر چیز ایک طے شدہ شیڈول اور کسی ضابطے کے مطابق چلتی ہے مگر بنگلہ دیش تو ہمارے ہی جیسا ملک ہے۔ حال ہی میں وہاں جو انتخابات ہوئے ان کا اس ملک کی تمام اپوزیشن جماعتوں نے بائیکاٹ کیا۔ حسینہ واجد ایک بار پھر وزیر اعظم منتخب ہو گئی۔ ابتدائی دنوں میں کافی ہنگامے برپا رہے مگر اب کوئی اپوزیشن جماعت دس لاکھ لوگوں کے ساتھ ڈھاکہ میں دھرنا دینے کو تیاری نہیں کر رہی۔ ہمارے ہاں اقتدار کا کھیل طے شدہ ضوابط کے تحت کھیلا ہی نہیں جاتا۔ ایسے میں تجزیہ کرنا مجھے تو خاصہ احمقانہ عمل نظر آتا ہے۔ بہتر یہی ہے کہ غالبؔ کی طرح
''ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا''
والا رویہ اختیار کر لیا جائے۔
اس رویے کی اہمیت جاننے کے بعد مجھے یاد آ گئی سوات کے پرنس میاں گل اورنگ زیب کی۔ بڑے گھر کے خوش حال آدمی تھے۔ سیاست کو ساری عمر مذاق ہی سمجھتے رہے۔ مرحوم کو میں نے 1985 کی قومی اسمبلی کے اس اجلاس میں دریافت کیا جب وہ ایک پوائنٹ آف آرڈر پر کھڑے ہوئے اور بڑی سنجیدگی سے تجویز دی کہ حکمران جماعت کے تمام اراکین ایک وفد کی صورت صاحبزادہ یعقوب علی خان کے ہاں جائے۔ ان کا اس بات پر ''شکریہ'' ادا کرنے کہ انھوں نے بطور سینیٹر منتخب ہونے کے لیے ان کے ووٹ ''قبول'' فرمائے۔
اس فقرے کے پیچھے کہانی یہ تھی کہ صاحبزادہ صاحب نے بس کاغذاتِ نامزدگی جمع کروائے تھے اور اس کے بعد قومی اسمبلی کے کسی ایک رکن سے بھی ووٹ مانگنے کا تردد نہیں کیا۔ جنرل ضیاء نے ایک اجلاس میں جونیجو مرحوم اور ان کی جماعت کو فرما دیا تھا کہ صاحبزادہ صاحب سینیٹر منتخب ہونے کے بعد وزارتِ خارجہ کو چلاتے رہیں گے۔ حکمران جماعت نے بڑی تابعداری کے ساتھ ان کے حکم کی تعمیل کی۔ ہمارے ملک میں سیاست دانوں کا ایسا ''تابع دار'' رویہ ہی سیاسی منظر نامہ کو سکون و ثبات فراہم کرتا ہے۔ نواز شریف صاحب بدقسمتی سے اس تناظر میں کچھ ''وکھری ٹائپ'' والے نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔
خواہش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ مگر وزیر اعظم اپنی طاقت قومی اسمبلی سے حاصل کرتا ہے اور جب سے وہ وزیر اعظم بنے ہیں یہ اسمبلی بالکل بے جان نظر آتی ہے۔ اس بے چاری نے تو یہ معلوم کرنے کی جسارت بھی نہیں کی کہ جس دھوم دھام سے چوہدری نثار علی خان نے دفاعی اور قومی سلامتی کے امور سے Deal کرنے کا جو ایک ''مہا ادارہ'' بنانا تھا اس کا کیا ہوا۔ پاکستان، میڈیا کے ذریعے ہم روزانہ سن رہے ہیں، ان دنوں آپریشن ''ضربِ عضب'' کے ذریعے ایک فیصلہ کن جنگ لڑ رہا ہے۔ اس جنگ سے متعلقہ بے تحاشہ سوالات اور مسائل بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ مبینہ طور پر قومی اسمبلی کی ایک کمیٹی دفاعی امور پر نگاہ رکھنے کے لیے بھی موجود ہے۔
اس کمیٹی کے کسی رکن نے ہمارے لیے نہ سہی اپنی نام نہاد ''خود مختار پارلیمان'' کے لیے ابھی تک کوئی بریفنگ لینے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ سب نے ''جس کا کام اسی کو ساجھے'' والی خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور خاموشی ''وکھری ٹائپ'' کا بہانہ ہر گز فراہم نہیں کرتی۔ لہذا بول رہے ہیں تو صرف عمران خان اور علامہ ڈاکٹر طاہر القادری اور سب سے بڑھ کر قلم دوات والی مسلم لیگ کے اپنے شیخ رشید جو چسکا بھی فراہم کرتے ہیں اور ریٹنگ بھی۔ میں بھی اب صرف بولنے والوں کو سنا کروں گا اور سیاسی تجزیے کی حماقتوں کے ارتکاب کرنے سے ہر ممکن حد تک پرہیز۔