یادوں کے دیے
مولانا یوسف سلیم چشتی کا ذکر کرتے ہوئے حمزہ فاروقی لکھتے ہیں کہ انھیں قدیم اور جدید علم پر عبور تھا ۔۔
KARACHI/SEHWAN:
''یادوں کے دیے'' کچھ ایسی شخصیتوں کے بارے میں محمد حمزہ فاروقی کی بکھری ہوئی یادیں ہیں جن سے وہ اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں ملے اور جو ان پر کبھی نہ مٹنے والے اثرات چھوڑ گئے۔ ان کا ذکر انھوں نے محبت سے کیا ہے تاہم جیسا کہ وہ خود فرماتے ہیں اس بات کا خیال رکھا ہے کہ وہ اپنی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ ہنستے بولتے نظر آئیں۔ اس انداز کی خاکہ نگاری میں حمزہ فاروقی کی شگفتہ بیانی بلکہ شوخی طبع کا بڑا حصہ ہے۔
مولانا یوسف سلیم چشتی کا ذکر کرتے ہوئے حمزہ فاروقی لکھتے ہیں کہ انھیں قدیم اور جدید علم پر عبور تھا، وہ فلسفہ اور علم الکلام سے بھی شغف رکھتے تھے لیکن ''ان میں فلسفیوں کی سی خشک مزاجی نہیں تھی بلکہ ان کی گفتگو خاصی دلچسپ ہوتی تھی۔ باتوں میں مولانا کے موڈ بدلتے رہتے تھے۔ کبھی مہر کا چشمہ ابلنے لگتا تھا تو کبھی قہر کے کوڑے برسنے لگتے اور تھوڑی دیر میں کچھ بھی نہ ہوتا فقط ان جذباتی انتہاؤں کے درمیان مولانا کی علم و حکمت سے بھرپور باتیں ہوتیں۔''
حمزہ لکھتے ہیں۔ '' میں نے ایک دفعہ عرض کیا مولانا آپ کے یہاں ہمہ گیری یا Versatility پائی جاتی ہے۔'' مولانا میری ''حقیقت شناسی'' اور ''سعادت مندی'' سے بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے ہاں بھئی میرا شروع سے یہی انداز رہا ہے۔ مجھے فلسفہ کے علاوہ تاریخ، سیاست، اردو اور فارسی ادبیات سے دلچسپی رہی ہے۔ '' میں نے عرض کیا کہ اس ہمہ گیری کا یہ کرشمہ ہے کہ آپ کلام اقبال کی شرح کے دوران مسلم ممالک میں مغرب زدگی اور تجدد کا قصہ لے بیٹھتے ہیں اور ترک خواتین عالمی مقابلہ حسن میں شرکت کر لیتی ہیں۔ یہ سنتے ہی مولانا نے تیزی سے آنکھیں جھپکائیں اور موضوع گفتگو بدل دیا۔''
ڈاکٹر شوکت سبزواری کے بارے میں حمزہ فاروقی کہتے ہیں کہ وہ بہت صاف گو اور علم دوست انسان تھے۔ وہ نہ صرف اپنی رائے کے اظہار میں بے باک تھے بلکہ ان کا انداز خاصا جارحانہ ہوتا تھا۔ ان سے بحث کرنا آسان نہ تھا۔ دلائل کے انبار کے ساتھ علم و فضل۔ اگر مخالف اس سے مرعوب نہ ہوتا تو طنز و مزاح یا پھبتی کا سہارا لیتے۔
حمزہ فاروقی لکھتے ہیں۔ ''ڈاکٹر صاحب کی طبیعت میں منافقت بالکل نہ تھی اور خلوص کی قدر کرتے تھے۔ ان کی حس مزاح غضب کی تھی۔ سنجیدہ گفتگو کے دوران ایسا چٹکلا چھوڑتے ہیں جس سے ماحول کا تناؤ دور ہو جاتا۔'' ایک دفعہ ڈاکٹر صاحب نے ادبی انعاموں کے منصف کی حیثیت سے کسی خاتون کے ناول کو ادبی انعام کا مستحق گردانا۔ اخبار میں اعلان ہونے کے بعد حمزہ فاروقی ان سے ملے۔ لکھتے ہیں '' میں نے عرض کیا کہ فنی اعتبار سے تو یہ ناول انعام کا حقدار نہ تھا۔'' فرمایا: ''بھئی! مجھے پسند ہے۔'' میں نے پوچھا ''ناول یا اس کی مصنفہ؟'' کہنے لگے ''پہلے مصنفہ پر دل آیا پھر ناول انعام کا حق دار ٹھہرا۔''
حمزہ فاروقی نے اپنے خاکوں کے مجموعے میں جن شخصیات کا ذکر کیا ہے ان میں مولانا غلام مہر جن کے ''انقلاب'' میں شایع ہونے والے مکتوبات نے حمزہ کی کتاب ''سفر نامہ اقبال'' کے لیے بنیادی مواد فراہم کیا۔ ڈاکٹر امیر حسن صدیقی، مولانا ابن حسن جارچوی، ڈاکٹر ریاض الحسن، بشیر احمد ڈار، عاشق حسین بٹالوی، ظفر ایبک، شاہ حسن عطا، پروفیسر مرزا منور اور سید معین الدین شاہ شامل ہیں۔ سید معین الدین شاہ نے جو کراچی میں اپنے ریڈیو پاکستان کے ساتھیوں میں ''لمبے شاہ'' کہلاتے تھے۔
حمزہ فاروقی کے تحریر کردہ بعض خاکوں کی نوک پلک ہی درست نہ کی بلکہ چند واقعاتی غلطیوں کی نشان دہی بھی کی۔ شاہ صاحب ان کے مخلص دوستوں میں سے تھے، لندن میں اردو رسالہ نکالتے تھے، خود محنت کر کے علمی ادبی مضامین لکھتے اور دوستوں سے لکھواتے تھے۔ ظفر حسن ایبک سے جو افغانستان میں نادر شاہ کے ساتھ انگریزوں سے لڑے تھے، حمزہ فاروقی کی ملاقات استنبول میں ہوئی۔ ان کا خاکہ کچھ مشاہدے اور کچھ سنی اور پڑھی باتوں پر مشتمل ہے۔
مولانا سید ابن حسن جارچوی کے بارے میں حمزہ فاروقی فرماتے ہیں کہ انھیں یہ کمال حاصل تھا کہ سامعین کے خیالات اور جذبات کا رخ جدھر چاہیں موڑ دیں۔ لوگ مسحور ہو کر ان کی تقریر سنتے تھے۔ ظاہری طور پر ان کی تقریر میں وہ خوبیاں نہ تھیں جو ایک اچھے مقرر کا سرمایہ ہوتی ہیں لیکن ان کا مطالعہ اور مشاہدہ وسیع تھا اور وہ جب اپنے مشاہدات بیان کرتے تو ایک سماں بندھ جاتا۔
ڈاکٹر ریاض الحسن سے اپنی ملاقات کا حال لکھتے ہوئے حمزہ فاروقی کہتے ہیں کہ یہ اتفاقی ملاقات تھی اور یہ اتفاق اس قدر بابرکت ثابت ہوا کہ زندگی بھر کے تعلق میں بدل گیا۔ وہ لکھتے ہیں ''جب باتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو معلوم ہوا کہ یہ وضع دار اور منکسرالمزاج انسان اپنے نہاں خانہ دفاع میں بہت سے علوم و فنون اور متنوع تجربات کا خزانہ چھپائے ہوئے تھا۔'' ڈاکٹر صاحب نے تحریک خلافت میں مولانا محمد علی جوہر کے ساتھ کام کیا تھا اور وہ اس وفد خلافت میں شامل تھے جو نجد و حجاز پر سلطان عبدالعزیز بن سعود کے قبضے کے بعد حجاز گیا تھا۔
بشیر احمد ڈار اقبال اکادمی کے ڈائریکٹر تھے۔ انھوں نے اقبال کے فکر و فن اور مشرق و مغرب کے فلسفیانہ افکار کو بہت عمدگی کے ساتھ اپنی تصانیف میں پیش کیا ہے۔
عاشق حسین بٹالوی سے حمزہ فاروقی کی پہلی ملاقات لندن میں ہوئی۔ حمزہ کا تعلق اسکول برائے علوم مشرقی و افریقی سے تھا اور بٹالوی صاحب اکثر مطالعہ اور تحقیق کی غرض سے وہاں جاتے رہتے تھے۔ ان کی دلچسپی کا محور آزادی سے پہلے کی سیاست تھی۔ چلتے پھرتے اس دور کے واقعات دہرایا کرتے تھے۔ حمزہ لکھتے ہیں '' بات چیت کے وقت چہرے پر ڈرامائی تاثرات رہتے تھے۔ موقع کی مناسبت سے خوشی یا غم کی کیفیات ظاہر ہوتیں۔ ایک عادت یہ تھی کہ جب ہوش میں آتے تو اپنا ہاتھ زور سے مخاطب کے زانو پر رسید کر دیتے۔ گفتگو کے دوران ایک دو ہاتھ کھانے کے بعد جب تیسری مرتبہ ان کا ہاتھ میزائل کی مانند آیا تو میں نے اپنا گھٹنا ''موقع واردات'' سے ہٹا لیا۔ چوٹ کھانے کے بعد انھوں نے اپنا طریقہ واردات تبدیل کر لیا۔''
حمزہ فاروقی کا شاہ حسن عطا سے ایسا قلبی تعلق تھا کہ جب انھیں شاہ صاحب کے انتقال کی خبر ملی تو ''ایک قیامت تھی جو بیت گئی اور آنسوؤں کا بہاؤ چہرے کی بجائے دل کی جانب رواں ہو گیا۔ بیس سالہ دور کی یادوں کا کارواں اپنے جلو میں بے شمار مسرتیں سمیٹے ہوئے تھا۔'' شاہ حسن عطا عربی، فارسی، انگریزی اور اردو ادبیات کے مطالعہ اور اپنی بھرپور قوت مشاہدہ و حافظہ اور دینی اور دنیاوی علوم کی تحصیل کے باعث ایک غیر معمولی شخصیت تھے۔
ان کی باتوں میں بڑی جاذبیت تھی۔ انھیں علی گڑھ سے جہاں سے انھوں نے بی اے اور پھر نفسیات میں ایم اے کیا تھا اور یونیورسٹی کے نائب صدر منتخب ہوئے تھے، عشق تھا۔ حمزہ فاروقی سے جب ان کی ملاقات ہوئی تو وہ ریڈیو پاکستان کی بیرونی نشریات میں شعبہ فارسی سے وابستہ تھے۔ اس سے قبل وہ پندرہ سولہ نوکریاں بھگتا چکے تھے۔ حمزہ فاروقی لکھتے ہیں '' میں نے ان سے پوچھا آپ نے اتنی ملازمتیں کیسے کیں؟'' فرمایا ''بھئی! آج کل ڈھنگ کے ادارے اور مالک کہاں ملتے ہیں جو ہم جیسے لوگوں کی قدر کریں۔ ان نالائقوں کی وجہ سے بار بار ملازمت بدلنی پڑی۔''
حمزہ فاروقی نے پروفیسر مرزا محمد منور سے اپنی پہلی ملاقات کا یوں ذکر کیا ہے: ''مختصر سی بات چیت کے دوران انکشاف ہوا کہ ہمارے خیالات اور امراض میں خاصی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ مثلاً وہ دمہ کے مریض تھے اور مجھے بھی کبھی کبھی سانس کی تکلیف ہوتی تھی۔'' پھر جب مرزا صاحب سے ملاقاتیں بڑھیں تو حمزہ نے محسوس کیا کہ ان کی شخصیت اسلام، علم و فن سے گہری وابستگی، خلوص اور وضع داری، اقبال شناسی اور پاکستان سے عشق کا مرکب ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''یہ عناصر ان کی شخصیت کے اجزائے ترکیبی تھے لیکن کیمیا کے کسی فارمولے کے تحت ان اجزا کی ملاوٹ کے دوران قدرت نے ان میں شدت کا عنصر داخل کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مرزا صاحب کی پسند اور ناپسند کا معیار بھی پاکستان اور اسلام سے وابستگی ٹھہرا۔''