انقلاب کوئی کھیل نہیں
باچا خان بابا کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ پختون قوم میں ہی نہیں بلکہ مسلم امہ کی بیداری کی تحریک میں بھی ۔۔۔
لاہور:
ملک بھر دہشت و سفاکیت اور بے یقینی نے اس قدر ڈیرے ڈال دیے ہیں کہ نہ جانے کب پاکستان کے باسیوں کو خوف کے کالے پانی سے رہاِئی ملے گی۔ مملکت خداداد ِ پاکستان میں جس طرف نظر دوڑائی جائے تو ایسی کوئی بھی شخصیت نظر نہیں آتی جو پاکستان کو درپیش مسائل سے آزاد کرا سکے۔ ہر بات کے لیے عوام کو سزا ارباب اختیار کا وتیرہ بن گیا ہے۔
قوموں کے لیے جد و جہد اور اس کے لیے تکلیفیں برداشت کرنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں، اسی لیے تو جن قوموں کو زندہ رہنا ہوتا ہے وہاں ایسے لیڈر بھی پیدا ہو جاتے ہیں جو حیات جاوید کا نسخہ بھی بتاتے ہیں، لیکن بد قسمت ہوتی ہے وہ قوم، جو اپنے رہنمائوں کی قربانیوں سے کوئی سبق سیکھنے کے بجائے خود کو مزید تباہیوں کے گھپ اندھیروں میں گرا دیتی ہے۔ جدید انقلاب کے نام نہاد لیڈروں کی اطلاع کے لیے تاریخی کرداروں کی جد و جہد کا ذکر ضروری ہے تا کہ عوام میزان میں از خود فیصلہ کر سکیں۔
باچا خان بابا کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ پختون قوم میں ہی نہیں بلکہ مسلم امہ کی بیداری کی تحریک میں بھی ان کی لازوال جد و جہد تاریخ کا سنہری باب ہے۔ انگریز دور اور پاکستان میں باچا خان 35 سال سے زائد عرصہ پس زنداں رہے۔ جس میں 19 سال سے زائد عرصہ قیام پاکستان کے بعد نوکر شاہی نے بھی انھیں اسیر رکھا۔ جنگ آزادی اور بلوچستان کے معروف قوم پرست رہنما ادیب و صحافی خان عبدالصمد خان اچکزئی کو 2 دسمبر1973 کو ان کی رہائش گاہ پر گرینیڈ بم پھینک کر شہید کیا گیا۔
انھوں نے مجموعی طور پر 32 سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ جس میں انگریز دور میں گیارہ بارہ سال، جب کہ پاکستان بننے کے بعد کم و بیش بیس اکیس سال جیل میں رہے، عبدالصمد خان اچکزئی بلوچستان میں صحافت کے بانیوں میں بھی شامل ہیں۔ جی ایم سید تحریک پاکستان کے صفِ اول کے رہنمائوں میں سے ایک تھے، قیام پاکستان کے لیے ان کی قربانیوں کو نظر انداز کرنے سے تاریخ پاکستان کبھی مکمل نہیں ہو سکتی۔ سندھ اسمبلی میں قرارداد ِ پاکستان پیش کرنے والے جی ایم سید ہی تھے اور اس قرار داد کو بھاری اکثریت سے پاس بھی کروایا۔
ان کے حوالے سے مشہور کہاوت ہے کہ جب قائد اعظم پر حملے کے الزام میں پکڑے جانے والے شخص کے بارے انھیں علم ہوا کہ وہ سندھی ہے تو انھوں نے حیرت و استعجاب کے عالم میں کہا کہ ''کیا کوئی سندھی بھی انتہا پسند ہو سکتا ہے۔'' جی ایم سید کو پاکستان میں 25 سے زائد برس قید و بند کی صعوبتوں میں نظر بند و اسیر رکھا گیا اور انھیں کبھی کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا حتی کہ ان کی وفات بھی نظر بندی کے دوران ہوئی۔
تینوں قوم پرست شخصیات میں وجہ مشترک یہ ہے کہ انھوں نے انگریزوں کے خلاف برصغیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کی، ظلم و ستم برداشت کیے اور بلاتخصیص قوم کے حقوق کے لیے ہر سطح پر آواز بلند کی، انقلاب برپا کیا، لیکن ایک موقعے ان کی زندگیوں میں ایسا بھی آیا کہ اپنی قوم کے لیے حقوق حاصل کرنے کی پاداش میں انھیں استعماری قوتوں نے، پاکستان کو تسلیم کرنے کے باوجود غدار کہہ کر پابند سلال کر دیا اور انگریز دور حکومت سے زیادہ پاکستان میں ان شخصیات نے جیلیں کاٹیں۔ ان پر الزام سنگین نوعیت کے لگائے گئے اور کوشش یہی کی گئی کہ کسی بھی طرح انھیں سخت سے سخت تکلیف دیکر اپنے موقف سے ہٹایا جائے اور استعماری و استبدادی قوتوں کے ساتھ مفاہمت کے لیے راضی کیا جائے لیکن ہر ظلم کو برداشت کیا لیکن اپنے اصولی موقف میں تبدیلی نہ آنے دی۔
تاریخ یہی درس دیتی ہے کہ اٹل اصول پرست رہنما ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں اور اپنے پیروکاروں کو امن و عدم تشدد کا درس دیتے ہیں اور جو قومیں ان کی ہدایات پر عمل کرتی ہیں وہ بالآخر ترقی و کامرانی پا لیتی ہیں۔ اگر یہ رہنماء اپنی صعوبتوں پر تشدد کی راہ پر گامزن ہونے کا درس دیتے تو کیا آج تاریخ میں انھیں کوئی یاد رکھتا۔ یہ ضرور ہے کہ جن جن مفاد پرستوں نے جب اپنے رہنمائوں کی تعلیمات سے صرف نظر کیا تو پھر پوری قوم کو مشکلات نے آن گھیرا۔
لیکن قدر مشترک یہی ہے کہ جب تک یہ تینوں رہنما زندہ رہے، کبھی اپنی قوم سے دل برداشتہ نہ ہوئے انھیں تشدد کی راہ پر نہیں ڈالا، اپنی قوم کے مخالف گروہ کی تنقید کو عدم تشدد سے برداشت کیا اور کبھی بھی اپنے پیروکاروں ذاتی مفادات کی بھینٹ نہیں چڑھایا۔ ان پر کبھی ملکی بد عنوانی ، کرپشن ، قتل و غارت، جلائو گھیرائو، لوٹ مار اور فسطائیت کے الزامات نہیں لگے، ان میں قدر مشترک یہ بھی تھا کہ انھوں نے کبھی اپنی گرفتاریوں کے ڈر کی وجہ سے قوم کو مشکلات میں ڈال کر امتحان نہیں لیا بلکہ کالے قوانین کے دائرے میں ہی رہ کر بے گناہ سزا کاٹنے کو ترجیح دی۔
ان کا بس ایک ہی جرم تھا کہ یہ مظلوم طبقے کے لیے حقوق مانگتے ہیں تو بھلا جن کے حقوق کے لیے انھوں نے اپنی زندگی دائو پر لگائی انھیں آزمائش میں کیوں ڈالتے۔ لیکن اب ان جیسے رہنماء کہاں ہیں۔ ہمیں کسی لیڈر کے انقلابی نعروں پر ان کے انقلابی منشور کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ کیا آج کے انقلاب کے داعیوں کا اپنے مشور میں قول و فعل تضاد ہے کہ نہیں، کیا ان کا انقلاب فساد تو نہیں، جو وہ اصلاح کے نام پر قوم پر زبردستی مسلط کرانا چاہتے ہیں۔
جب بھی عالمی انقلابی شخصیات کی مجموعی زندگی اور ان کی جد وجہد پر اجمالی نظر بھی دوڑائیں تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ جو مشن لے کر اٹھے تھے تو ان کا مقصد اقتدار کا حصول نہیں بلکہ انسانی حقوق کی بالادستی اور مستحکم نقلابی نظریے کی بنیاد تھا۔ آج بھی ان کے مخالفین انھیں نہ جانے کن کن القابات سے یاد کرتے ہیں۔ لیکن تاریخ ثابت کرتی ہے کہ انھوں نے کبھی پُر تشدد سیاست نہیں کی کیونکہ یہ سیاست کو کاروبار نہیں بلکہ خدمت سمجھتے تھے۔
آج پاکستان میں گلی گلی سے انقلاب کی آواز اس طرح اٹھتی ہیں جیسے کوئی کباڑی، فالتو اشیا ء خریدنا چاہتا ہو۔ انقلاب، محلات میں بیٹھ کر نہیں آتا کہ اپنے لیے تو اربوں روپوں مالیت کے پرتعیش محلات، لیکن غریبوں کے لیے قبر کی دو گز زمین بھی میسر نہیں۔ انقلاب ایسا نہیں آتا کہ اپنے لیے تو کروڑوں روپوں مالیت کی بم پروف گاڑیاں، لیکن غریب عوام کو سفر کرنے کے لیے گاڑیوں کی چھتوں پر بیٹھ کر اپنی جان جوکھم میں ڈال کر عزیز رشتے داروں کے پاس جانا۔ انقلاب ایسے نہیں آتا کہ اپنے لیے تو یورپ سے کپڑے اور غریب کو کفن بھی ملے تو ایدھی سینٹر کی زکوۃ سے۔
اپنے لیے تو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیمی ادارے ، اور غریب عوام کے لیے بنائے گئے ٹاٹ اسکولوں پر بھی قبضہ کر کے بھینس کے باڑے بنا دیے۔ اپنے لیے تو صحت کی اعلیٰ سہولیات، غریب کے لیے تو مرنے کا زہر بھی میسر نہیں۔ انقلاب لانے والے خود بتائیں کہ جب فائیو اسٹار ہوٹلز و تقریبات میں انقلاب کا اعلان کرتے ہیں تو کیا کوئی غریب عوامی نمایندہ ان کے شانہ بہ شانہ ہوتا ہے یا پھر جاگیر دار، وڈیرہ، سرمایہ دار، ملک، خوانین، بیورو کریٹس اور خوشامدی ٹولہ ان کے ساتھ ہوتا ہے؟
دو فیصد مراعات یافتہ طبقے کے نمایندے ہو کر غریبوں کے خون کی ہولی کو انقلاب کہتے ہو۔ اپنی اولاد کو محفوظ و پر تعیش محلات اور بیرون ملک میں اربوں روپوں کی جائیداد و کاروبار کے ساتھ، پاکستانی عوام پر حکومت کرنے کے لیے بادشاہی طرز عمل اختیار کرنے والے انقلاب کس چڑیا کا نام ہے کیا جانیں، انقلاب لانے کے لیے انقلابی تو بنیں۔ عوام ایسے انقلابیوں کو مسترد کر دیں جن کے قول و فعل کے تضاد اظہر من الشمس ہیں۔
ملک بھر دہشت و سفاکیت اور بے یقینی نے اس قدر ڈیرے ڈال دیے ہیں کہ نہ جانے کب پاکستان کے باسیوں کو خوف کے کالے پانی سے رہاِئی ملے گی۔ مملکت خداداد ِ پاکستان میں جس طرف نظر دوڑائی جائے تو ایسی کوئی بھی شخصیت نظر نہیں آتی جو پاکستان کو درپیش مسائل سے آزاد کرا سکے۔ ہر بات کے لیے عوام کو سزا ارباب اختیار کا وتیرہ بن گیا ہے۔
قوموں کے لیے جد و جہد اور اس کے لیے تکلیفیں برداشت کرنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں، اسی لیے تو جن قوموں کو زندہ رہنا ہوتا ہے وہاں ایسے لیڈر بھی پیدا ہو جاتے ہیں جو حیات جاوید کا نسخہ بھی بتاتے ہیں، لیکن بد قسمت ہوتی ہے وہ قوم، جو اپنے رہنمائوں کی قربانیوں سے کوئی سبق سیکھنے کے بجائے خود کو مزید تباہیوں کے گھپ اندھیروں میں گرا دیتی ہے۔ جدید انقلاب کے نام نہاد لیڈروں کی اطلاع کے لیے تاریخی کرداروں کی جد و جہد کا ذکر ضروری ہے تا کہ عوام میزان میں از خود فیصلہ کر سکیں۔
باچا خان بابا کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ پختون قوم میں ہی نہیں بلکہ مسلم امہ کی بیداری کی تحریک میں بھی ان کی لازوال جد و جہد تاریخ کا سنہری باب ہے۔ انگریز دور اور پاکستان میں باچا خان 35 سال سے زائد عرصہ پس زنداں رہے۔ جس میں 19 سال سے زائد عرصہ قیام پاکستان کے بعد نوکر شاہی نے بھی انھیں اسیر رکھا۔ جنگ آزادی اور بلوچستان کے معروف قوم پرست رہنما ادیب و صحافی خان عبدالصمد خان اچکزئی کو 2 دسمبر1973 کو ان کی رہائش گاہ پر گرینیڈ بم پھینک کر شہید کیا گیا۔
انھوں نے مجموعی طور پر 32 سال قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ جس میں انگریز دور میں گیارہ بارہ سال، جب کہ پاکستان بننے کے بعد کم و بیش بیس اکیس سال جیل میں رہے، عبدالصمد خان اچکزئی بلوچستان میں صحافت کے بانیوں میں بھی شامل ہیں۔ جی ایم سید تحریک پاکستان کے صفِ اول کے رہنمائوں میں سے ایک تھے، قیام پاکستان کے لیے ان کی قربانیوں کو نظر انداز کرنے سے تاریخ پاکستان کبھی مکمل نہیں ہو سکتی۔ سندھ اسمبلی میں قرارداد ِ پاکستان پیش کرنے والے جی ایم سید ہی تھے اور اس قرار داد کو بھاری اکثریت سے پاس بھی کروایا۔
ان کے حوالے سے مشہور کہاوت ہے کہ جب قائد اعظم پر حملے کے الزام میں پکڑے جانے والے شخص کے بارے انھیں علم ہوا کہ وہ سندھی ہے تو انھوں نے حیرت و استعجاب کے عالم میں کہا کہ ''کیا کوئی سندھی بھی انتہا پسند ہو سکتا ہے۔'' جی ایم سید کو پاکستان میں 25 سے زائد برس قید و بند کی صعوبتوں میں نظر بند و اسیر رکھا گیا اور انھیں کبھی کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا حتی کہ ان کی وفات بھی نظر بندی کے دوران ہوئی۔
تینوں قوم پرست شخصیات میں وجہ مشترک یہ ہے کہ انھوں نے انگریزوں کے خلاف برصغیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کی، ظلم و ستم برداشت کیے اور بلاتخصیص قوم کے حقوق کے لیے ہر سطح پر آواز بلند کی، انقلاب برپا کیا، لیکن ایک موقعے ان کی زندگیوں میں ایسا بھی آیا کہ اپنی قوم کے لیے حقوق حاصل کرنے کی پاداش میں انھیں استعماری قوتوں نے، پاکستان کو تسلیم کرنے کے باوجود غدار کہہ کر پابند سلال کر دیا اور انگریز دور حکومت سے زیادہ پاکستان میں ان شخصیات نے جیلیں کاٹیں۔ ان پر الزام سنگین نوعیت کے لگائے گئے اور کوشش یہی کی گئی کہ کسی بھی طرح انھیں سخت سے سخت تکلیف دیکر اپنے موقف سے ہٹایا جائے اور استعماری و استبدادی قوتوں کے ساتھ مفاہمت کے لیے راضی کیا جائے لیکن ہر ظلم کو برداشت کیا لیکن اپنے اصولی موقف میں تبدیلی نہ آنے دی۔
تاریخ یہی درس دیتی ہے کہ اٹل اصول پرست رہنما ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں اور اپنے پیروکاروں کو امن و عدم تشدد کا درس دیتے ہیں اور جو قومیں ان کی ہدایات پر عمل کرتی ہیں وہ بالآخر ترقی و کامرانی پا لیتی ہیں۔ اگر یہ رہنماء اپنی صعوبتوں پر تشدد کی راہ پر گامزن ہونے کا درس دیتے تو کیا آج تاریخ میں انھیں کوئی یاد رکھتا۔ یہ ضرور ہے کہ جن جن مفاد پرستوں نے جب اپنے رہنمائوں کی تعلیمات سے صرف نظر کیا تو پھر پوری قوم کو مشکلات نے آن گھیرا۔
لیکن قدر مشترک یہی ہے کہ جب تک یہ تینوں رہنما زندہ رہے، کبھی اپنی قوم سے دل برداشتہ نہ ہوئے انھیں تشدد کی راہ پر نہیں ڈالا، اپنی قوم کے مخالف گروہ کی تنقید کو عدم تشدد سے برداشت کیا اور کبھی بھی اپنے پیروکاروں ذاتی مفادات کی بھینٹ نہیں چڑھایا۔ ان پر کبھی ملکی بد عنوانی ، کرپشن ، قتل و غارت، جلائو گھیرائو، لوٹ مار اور فسطائیت کے الزامات نہیں لگے، ان میں قدر مشترک یہ بھی تھا کہ انھوں نے کبھی اپنی گرفتاریوں کے ڈر کی وجہ سے قوم کو مشکلات میں ڈال کر امتحان نہیں لیا بلکہ کالے قوانین کے دائرے میں ہی رہ کر بے گناہ سزا کاٹنے کو ترجیح دی۔
ان کا بس ایک ہی جرم تھا کہ یہ مظلوم طبقے کے لیے حقوق مانگتے ہیں تو بھلا جن کے حقوق کے لیے انھوں نے اپنی زندگی دائو پر لگائی انھیں آزمائش میں کیوں ڈالتے۔ لیکن اب ان جیسے رہنماء کہاں ہیں۔ ہمیں کسی لیڈر کے انقلابی نعروں پر ان کے انقلابی منشور کو دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ کیا آج کے انقلاب کے داعیوں کا اپنے مشور میں قول و فعل تضاد ہے کہ نہیں، کیا ان کا انقلاب فساد تو نہیں، جو وہ اصلاح کے نام پر قوم پر زبردستی مسلط کرانا چاہتے ہیں۔
جب بھی عالمی انقلابی شخصیات کی مجموعی زندگی اور ان کی جد وجہد پر اجمالی نظر بھی دوڑائیں تو صاف نظر آتا ہے کہ یہ جو مشن لے کر اٹھے تھے تو ان کا مقصد اقتدار کا حصول نہیں بلکہ انسانی حقوق کی بالادستی اور مستحکم نقلابی نظریے کی بنیاد تھا۔ آج بھی ان کے مخالفین انھیں نہ جانے کن کن القابات سے یاد کرتے ہیں۔ لیکن تاریخ ثابت کرتی ہے کہ انھوں نے کبھی پُر تشدد سیاست نہیں کی کیونکہ یہ سیاست کو کاروبار نہیں بلکہ خدمت سمجھتے تھے۔
آج پاکستان میں گلی گلی سے انقلاب کی آواز اس طرح اٹھتی ہیں جیسے کوئی کباڑی، فالتو اشیا ء خریدنا چاہتا ہو۔ انقلاب، محلات میں بیٹھ کر نہیں آتا کہ اپنے لیے تو اربوں روپوں مالیت کے پرتعیش محلات، لیکن غریبوں کے لیے قبر کی دو گز زمین بھی میسر نہیں۔ انقلاب ایسا نہیں آتا کہ اپنے لیے تو کروڑوں روپوں مالیت کی بم پروف گاڑیاں، لیکن غریب عوام کو سفر کرنے کے لیے گاڑیوں کی چھتوں پر بیٹھ کر اپنی جان جوکھم میں ڈال کر عزیز رشتے داروں کے پاس جانا۔ انقلاب ایسے نہیں آتا کہ اپنے لیے تو یورپ سے کپڑے اور غریب کو کفن بھی ملے تو ایدھی سینٹر کی زکوۃ سے۔
اپنے لیے تو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیمی ادارے ، اور غریب عوام کے لیے بنائے گئے ٹاٹ اسکولوں پر بھی قبضہ کر کے بھینس کے باڑے بنا دیے۔ اپنے لیے تو صحت کی اعلیٰ سہولیات، غریب کے لیے تو مرنے کا زہر بھی میسر نہیں۔ انقلاب لانے والے خود بتائیں کہ جب فائیو اسٹار ہوٹلز و تقریبات میں انقلاب کا اعلان کرتے ہیں تو کیا کوئی غریب عوامی نمایندہ ان کے شانہ بہ شانہ ہوتا ہے یا پھر جاگیر دار، وڈیرہ، سرمایہ دار، ملک، خوانین، بیورو کریٹس اور خوشامدی ٹولہ ان کے ساتھ ہوتا ہے؟
دو فیصد مراعات یافتہ طبقے کے نمایندے ہو کر غریبوں کے خون کی ہولی کو انقلاب کہتے ہو۔ اپنی اولاد کو محفوظ و پر تعیش محلات اور بیرون ملک میں اربوں روپوں کی جائیداد و کاروبار کے ساتھ، پاکستانی عوام پر حکومت کرنے کے لیے بادشاہی طرز عمل اختیار کرنے والے انقلاب کس چڑیا کا نام ہے کیا جانیں، انقلاب لانے کے لیے انقلابی تو بنیں۔ عوام ایسے انقلابیوں کو مسترد کر دیں جن کے قول و فعل کے تضاد اظہر من الشمس ہیں۔