کوئی پتھر سے نہ مارے…
مسئلہ یہ ہے کہ طاقت کچھ سمجھنے نہیں دیتی ہے۔ اور وہ خود کو حرف آخر سمجھتی ہے
ISLAMABAD:
دل جل رہے ہوں تو گھر خود ہی جلنے لگ جاتے ہیں۔ دیا جلانے کے لیے ہوا ضروری ہوتی ہے لیکن ہوا بڑھ جائے تو دیا بجھنے میں پلک جھپکنے کی دیر بھی نہیں لگتی۔ پانی پر تو دنیا کھڑی ہے۔ لیکن اگر پانی حد سے بڑھ جائے تو پھر تیار فصلیں بھی خراب ہو جاتی ہیں۔ طاقت اپنی بقا کے لیے تو ضروری ہوتی ہے لیکن اگر طاقت نشہ بن جائے تو پھر نشہ کب زہر بن جائے معلوم نہیں ہوتا۔ اپنے عوام کے پیروں میں جو آپ نے غربت اور مہنگائی کی بیڑیاں ڈالی ہوئی ہیں یہ کب آپ کے گلے میں لگ جائے اُس وقت سمجھ نہیں آتا۔ وزیر اگر بادشاہ بننے لگے تو پھر ہر ہاتھ آپ کے گریبان پر ہوتا ہے۔ اور کوئی یہ کہنے والا نہیں ملتا کہ ''کوئی پتھر سے نہ مارے ۔۔ میرے دیوانے کو۔''
مسئلہ یہ ہے کہ طاقت کچھ سمجھنے نہیں دیتی ہے۔ اور وہ خود کو حرف آخر سمجھتی ہے۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں لاہور میں ایک بینر لگا تھا جس پر لکھا تھا '' لوٹوں اور لٹیروں کے سوا باقی سب کو جشن آزادی مبارک ۔۔ '' کیا آج بھی ایسا ہی کوئی پوسٹر لگا ہو گا ؟ لیکن کیا عوام کی سوچ بدلی ہے؟ اُن کے ذہنوں میں تو آج بھی لگتا ہے کہ لوٹوں اور لٹیروں کی حکومت ہے۔ جب لوگوں کے دل جل رہے ہوں، بجلی ندارد، مہنگائی عروج پر اور لوگوں کو روزگار دینے کی بجائے بھکاری بنایا جا رہا ہو۔ کوئی ہمیں انکم سپورٹ پروگرام کے تحت کشکول ہاتھ میں تھما دیتا ہے اور کوئی یوتھ پروگرام اور ٹیکسی اسکیم کے ذریعے۔ کیسا ملک ہے اور کیسے حکمران اور کیسے عوام۔ ہمارے ہی پیسوں کے ٹیکس سے ہمیں امداد دیتے ہیں اور احسان جتاتے ہیں۔
سابق حکومت نے آئینی سطح پر بہت کام کیے لیکن یہ آپ ہی تو تھے چلاتے تھے کہ علی بابا اور چالیس چور کی وجہ سے بجلی نہیں آئی ۔ تو اب آپ دے دیں۔ یہاں لوگوں کے دل جلے ہوئے ہیں تو ظاہر ہے وہ گھر تو خود بخود جلے گا ۔ عمران خان کی چار سیٹوں سے عوام کو ہو سکتا ہے کوئی دلچسپی نا ہو لیکن عوام متوجہ کیوں ہو رہے ہیں؟ وہ کیوں کوئی اور آپشن دیکھ رہے ہیں۔ یہ یاد رکھیں اس وقت اپوزیشن کی آفر اتنی اچھی نہیں لیکن آپ نے کیا آپشن دیا ہے۔؟ عوام آپ کی بات پر کیوں لبیک کریں۔؟ ایک سال گزر چکا اور اب تک صرف باتیں، باتیں اور باتیں۔ ایک میٹرو بس سے باہر نکل آئیں۔ ذرا عوام کو تو دیکھیں وہ کیا سوچ رہے ہیں؟ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ وہ کیا مانگ رہے ہیں؟
ہاں مان لیتے ہیں کہ جناب نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ ہم سب بالکل تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کی قربانیاں بے مثال ہیں اور یہ ہی قربانیاں ہیں کہ عوام نے آپ کو ایک بار پھر منتخب کیا۔ لیکن کیوں منتخب کیا؟ اس لیے کیا کہ آپ اُن کے دلوں کو سمجھ سکیں۔ دیا جلانے کے لیے ہوا ضروری ہوتی ہے۔ اور آپ کو حکومت کے تخت تک پہنچانے کے لیے یہ ہوا عوام تھے اور ہیں۔ لوگوں کو غرض نہیں کہ اس وقت اپوزیشن کون سی انتخابی اصلاحات کی بات کر رہی ہے۔
اُن کے پس پردہ کون سی قوتیں ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ کون کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ہوائوں کے رخ بدلتے ہیں۔ یہ خالی پیٹ لوگ اتنی طاقت ضرور رکھتے ہیں کہ ہوائیں تیز کر دیں۔ جن کی طرف سے آپ کو خدشات ہیں کہ وہ آپ کی سیاسی بساط لپیٹنے یا پھر آپ کو دبائو میں رکھنے کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں تو یاد رکھیں اگر آپ نے عوام کو کچھ دیا ہے تو وہ ہر سازش کا مقابلہ کرینگے ورنہ پھر مجھے لکھنا ہو گا کہ دیا جلانے کے لیے ہوا ضروری ہوتی ہے لیکن ہوا بڑھ جائے تو دیا بجھنے میں اتنی دیر بھی نہیں لگتی جتنی پلک جھپکنے میں لگتی ہے ۔
پانی ہر ایک کی ضرورت ہے مگر ضرورت سے زیادہ پانی، کھڑی فصلیں بھی تباہ کر دیتا ہے ۔ میڈیا میں یہ خبر آئی یا پھر لائی گئی کہ تحریک انصاف نے اپنے اراکین اسمبلی سے استعفی لے لیے تو جناب تحریک انصاف نے استعفی لیے ہیں دیے نہیں ہیں۔ انھوں نے دوسروں کی جڑوں میں صرف پانی بڑھانے کی کوشش کی ہے تو دوسری طرف سے ایک خبر آ گئی کہ محترم ہم تو خیبر پختوانخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد لائینگے ۔۔ اور پھر وزیر اعظم صاحب خود آ کر کہہ دیتے ہیں کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ سب ایک دوسرے کی جڑوں میں پانی ڈال رہے ہیں۔ سب ایک حد تک جائینگے لیکن کوئی بھی یہ کوشش نہیں کرے گا کہ دوسرا سیاسی ہیرو بنے۔ اس لیے نہ تو کوئی استعفی جائے گا اور نہ ہی کوئی حکومت گرے گی۔
لیکن ہو گا کیا ...؟ وہ ہی ہو گا جس کی میڈیا میں دھوم ہے یا پھر وہ گا جو لوگ ڈرتے ڈرتے ٹوئیٹ کر رہے ہیں یا پھر وہ گا جس کا شور کچھ لوگ تو سُن رہے ہیں لیکن وہ کسی کو بتانا نہیں چاہتے۔ کیا واقعی میں حکومت گر رہی ہے۔؟ تحریک انصاف کیوں جگہ جگہ جا کر یہ کہہ رہی ہے کہ ہم ہر صورت میں جمہوریت کی حمایت کرینگے اور وہ یہ کیوں بتانا چاہتے ہیں کہ تحریک انصاف آخر جمہوری قوت ہے وہ کسی آمر کا آلہ کار نہیں بنے گی؟ کیا انھیں بھی کوئی ایسا ڈر ہے۔؟
آیے ایک اہم خبر پر نگاہ رکھتے ہیں۔ سارے معاملات سے آصف علی زرداری نے خود کو دور رکھا ہوا تھا۔ اور براہ راست کسی معاملہ میں سامنے نہیں آ رہے تھے۔ میں نے یہاں کہا کہ آصف علی زرداری نے خود کو دور رکھا ہوا تھا لیکن پیپلز پارٹی نے نہیں۔ کوئی تو ایسی دور رس خبر ان تک پہنچی ہے جو انھوں نے چوہدری برادران سے بات کی ہے۔ وہ کسی کا پیغام ہے یہ پھر زرداری صاحب کی اپنی طرف سے ایک پیشکش۔ مگر اس رابطے سے بہت سے مہروں کی ترتیب الگ ہو جائے گی۔ اور اس کی دھوم آیندہ کچھ دنوں میں واضح ہو جائے گی ۔
خیر مگر ان ساری محلاتی سازشوں اور دوستیوں سے کیا ہو گا؟ نہ جانے کیوں اس سارے معاملے میں عوام کو دور دور کے درشن کرا ئے جاتے ہیں۔ اور جب یہ محلاتی سازشوں میں کسی کو ناکامی ہوتی ہے تو پھر عوام کا دکھ یاد آتا ہے۔ یہ محلاتی سازشیں خود دم توڑ جائینگی کوئی تو عوام کا دامن پکڑے۔ اپنی عوام کے پیروں میں جو آپ نے غربت، مہنگی اور زندگی کی بیڑیاں ڈالی ہوئی ہیں یہ کب آپ کے گلے میں لگ جائے اُس وقت سمجھ نہیں آتا۔ آپ کے پاس ایک عمر کا تجربہ ہے اور ایک عمر آپ کے ساتھ گزارنے والے آپ کے ساتھ ہیں۔ لیکن ایک بار پھر آپ نے عوام سے رابطے کی بجائے اپنے محلوں میں لگے میناروں کو گلے لگایا ہے۔ ابھی تک دھول اتنی نہیں اڑی کے کچھ نظر نہ آئے۔ آئیے آپ کو عوام بلا رہی ہے۔ پانی، بجلی اور دو وقت کی روٹی کے لیے۔
دل جل رہے ہوں تو گھر خود ہی جلنے لگ جاتے ہیں۔ دیا جلانے کے لیے ہوا ضروری ہوتی ہے لیکن ہوا بڑھ جائے تو دیا بجھنے میں پلک جھپکنے کی دیر بھی نہیں لگتی۔ پانی پر تو دنیا کھڑی ہے۔ لیکن اگر پانی حد سے بڑھ جائے تو پھر تیار فصلیں بھی خراب ہو جاتی ہیں۔ طاقت اپنی بقا کے لیے تو ضروری ہوتی ہے لیکن اگر طاقت نشہ بن جائے تو پھر نشہ کب زہر بن جائے معلوم نہیں ہوتا۔ اپنے عوام کے پیروں میں جو آپ نے غربت اور مہنگائی کی بیڑیاں ڈالی ہوئی ہیں یہ کب آپ کے گلے میں لگ جائے اُس وقت سمجھ نہیں آتا۔ وزیر اگر بادشاہ بننے لگے تو پھر ہر ہاتھ آپ کے گریبان پر ہوتا ہے۔ اور کوئی یہ کہنے والا نہیں ملتا کہ ''کوئی پتھر سے نہ مارے ۔۔ میرے دیوانے کو۔''
مسئلہ یہ ہے کہ طاقت کچھ سمجھنے نہیں دیتی ہے۔ اور وہ خود کو حرف آخر سمجھتی ہے۔ پرویز مشرف کے دور حکومت میں لاہور میں ایک بینر لگا تھا جس پر لکھا تھا '' لوٹوں اور لٹیروں کے سوا باقی سب کو جشن آزادی مبارک ۔۔ '' کیا آج بھی ایسا ہی کوئی پوسٹر لگا ہو گا ؟ لیکن کیا عوام کی سوچ بدلی ہے؟ اُن کے ذہنوں میں تو آج بھی لگتا ہے کہ لوٹوں اور لٹیروں کی حکومت ہے۔ جب لوگوں کے دل جل رہے ہوں، بجلی ندارد، مہنگائی عروج پر اور لوگوں کو روزگار دینے کی بجائے بھکاری بنایا جا رہا ہو۔ کوئی ہمیں انکم سپورٹ پروگرام کے تحت کشکول ہاتھ میں تھما دیتا ہے اور کوئی یوتھ پروگرام اور ٹیکسی اسکیم کے ذریعے۔ کیسا ملک ہے اور کیسے حکمران اور کیسے عوام۔ ہمارے ہی پیسوں کے ٹیکس سے ہمیں امداد دیتے ہیں اور احسان جتاتے ہیں۔
سابق حکومت نے آئینی سطح پر بہت کام کیے لیکن یہ آپ ہی تو تھے چلاتے تھے کہ علی بابا اور چالیس چور کی وجہ سے بجلی نہیں آئی ۔ تو اب آپ دے دیں۔ یہاں لوگوں کے دل جلے ہوئے ہیں تو ظاہر ہے وہ گھر تو خود بخود جلے گا ۔ عمران خان کی چار سیٹوں سے عوام کو ہو سکتا ہے کوئی دلچسپی نا ہو لیکن عوام متوجہ کیوں ہو رہے ہیں؟ وہ کیوں کوئی اور آپشن دیکھ رہے ہیں۔ یہ یاد رکھیں اس وقت اپوزیشن کی آفر اتنی اچھی نہیں لیکن آپ نے کیا آپشن دیا ہے۔؟ عوام آپ کی بات پر کیوں لبیک کریں۔؟ ایک سال گزر چکا اور اب تک صرف باتیں، باتیں اور باتیں۔ ایک میٹرو بس سے باہر نکل آئیں۔ ذرا عوام کو تو دیکھیں وہ کیا سوچ رہے ہیں؟ وہ کیا کہہ رہے ہیں؟ وہ کیا مانگ رہے ہیں؟
ہاں مان لیتے ہیں کہ جناب نے بہت قربانیاں دی ہیں۔ ہم سب بالکل تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کی قربانیاں بے مثال ہیں اور یہ ہی قربانیاں ہیں کہ عوام نے آپ کو ایک بار پھر منتخب کیا۔ لیکن کیوں منتخب کیا؟ اس لیے کیا کہ آپ اُن کے دلوں کو سمجھ سکیں۔ دیا جلانے کے لیے ہوا ضروری ہوتی ہے۔ اور آپ کو حکومت کے تخت تک پہنچانے کے لیے یہ ہوا عوام تھے اور ہیں۔ لوگوں کو غرض نہیں کہ اس وقت اپوزیشن کون سی انتخابی اصلاحات کی بات کر رہی ہے۔
اُن کے پس پردہ کون سی قوتیں ہیں۔ وہ جانتی ہیں کہ کون کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ لیکن ہوائوں کے رخ بدلتے ہیں۔ یہ خالی پیٹ لوگ اتنی طاقت ضرور رکھتے ہیں کہ ہوائیں تیز کر دیں۔ جن کی طرف سے آپ کو خدشات ہیں کہ وہ آپ کی سیاسی بساط لپیٹنے یا پھر آپ کو دبائو میں رکھنے کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں تو یاد رکھیں اگر آپ نے عوام کو کچھ دیا ہے تو وہ ہر سازش کا مقابلہ کرینگے ورنہ پھر مجھے لکھنا ہو گا کہ دیا جلانے کے لیے ہوا ضروری ہوتی ہے لیکن ہوا بڑھ جائے تو دیا بجھنے میں اتنی دیر بھی نہیں لگتی جتنی پلک جھپکنے میں لگتی ہے ۔
پانی ہر ایک کی ضرورت ہے مگر ضرورت سے زیادہ پانی، کھڑی فصلیں بھی تباہ کر دیتا ہے ۔ میڈیا میں یہ خبر آئی یا پھر لائی گئی کہ تحریک انصاف نے اپنے اراکین اسمبلی سے استعفی لے لیے تو جناب تحریک انصاف نے استعفی لیے ہیں دیے نہیں ہیں۔ انھوں نے دوسروں کی جڑوں میں صرف پانی بڑھانے کی کوشش کی ہے تو دوسری طرف سے ایک خبر آ گئی کہ محترم ہم تو خیبر پختوانخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد لائینگے ۔۔ اور پھر وزیر اعظم صاحب خود آ کر کہہ دیتے ہیں کہ ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ سب ایک دوسرے کی جڑوں میں پانی ڈال رہے ہیں۔ سب ایک حد تک جائینگے لیکن کوئی بھی یہ کوشش نہیں کرے گا کہ دوسرا سیاسی ہیرو بنے۔ اس لیے نہ تو کوئی استعفی جائے گا اور نہ ہی کوئی حکومت گرے گی۔
لیکن ہو گا کیا ...؟ وہ ہی ہو گا جس کی میڈیا میں دھوم ہے یا پھر وہ گا جو لوگ ڈرتے ڈرتے ٹوئیٹ کر رہے ہیں یا پھر وہ گا جس کا شور کچھ لوگ تو سُن رہے ہیں لیکن وہ کسی کو بتانا نہیں چاہتے۔ کیا واقعی میں حکومت گر رہی ہے۔؟ تحریک انصاف کیوں جگہ جگہ جا کر یہ کہہ رہی ہے کہ ہم ہر صورت میں جمہوریت کی حمایت کرینگے اور وہ یہ کیوں بتانا چاہتے ہیں کہ تحریک انصاف آخر جمہوری قوت ہے وہ کسی آمر کا آلہ کار نہیں بنے گی؟ کیا انھیں بھی کوئی ایسا ڈر ہے۔؟
آیے ایک اہم خبر پر نگاہ رکھتے ہیں۔ سارے معاملات سے آصف علی زرداری نے خود کو دور رکھا ہوا تھا۔ اور براہ راست کسی معاملہ میں سامنے نہیں آ رہے تھے۔ میں نے یہاں کہا کہ آصف علی زرداری نے خود کو دور رکھا ہوا تھا لیکن پیپلز پارٹی نے نہیں۔ کوئی تو ایسی دور رس خبر ان تک پہنچی ہے جو انھوں نے چوہدری برادران سے بات کی ہے۔ وہ کسی کا پیغام ہے یہ پھر زرداری صاحب کی اپنی طرف سے ایک پیشکش۔ مگر اس رابطے سے بہت سے مہروں کی ترتیب الگ ہو جائے گی۔ اور اس کی دھوم آیندہ کچھ دنوں میں واضح ہو جائے گی ۔
خیر مگر ان ساری محلاتی سازشوں اور دوستیوں سے کیا ہو گا؟ نہ جانے کیوں اس سارے معاملے میں عوام کو دور دور کے درشن کرا ئے جاتے ہیں۔ اور جب یہ محلاتی سازشوں میں کسی کو ناکامی ہوتی ہے تو پھر عوام کا دکھ یاد آتا ہے۔ یہ محلاتی سازشیں خود دم توڑ جائینگی کوئی تو عوام کا دامن پکڑے۔ اپنی عوام کے پیروں میں جو آپ نے غربت، مہنگی اور زندگی کی بیڑیاں ڈالی ہوئی ہیں یہ کب آپ کے گلے میں لگ جائے اُس وقت سمجھ نہیں آتا۔ آپ کے پاس ایک عمر کا تجربہ ہے اور ایک عمر آپ کے ساتھ گزارنے والے آپ کے ساتھ ہیں۔ لیکن ایک بار پھر آپ نے عوام سے رابطے کی بجائے اپنے محلوں میں لگے میناروں کو گلے لگایا ہے۔ ابھی تک دھول اتنی نہیں اڑی کے کچھ نظر نہ آئے۔ آئیے آپ کو عوام بلا رہی ہے۔ پانی، بجلی اور دو وقت کی روٹی کے لیے۔