تیسری طاقت

اسلام آباد میں آزادی مارچ ہو گا اور اس وقت تک دھرنا دیں گے جب تک حکومت مڈ ٹرم الیکشن کا مطالبہ تسلیم نہیں کرتی۔



دو بیل تھان پر بندھے جگالی کر رہے تھے۔ ایک نے دوسرے سے کہا۔ ''سنا ہے رات کو چور آنے والے ہیں۔'' دوسرے نے پوچھا ''پھر کیا ہو گا۔'' پہلے نے جواب دیا ''ہمیں چرا لے جائیں گے۔'' دوسرے نے کہا ''تو وہ بھی تھان پر ہی باندھیں گے۔'' لطیفے میں جو دانش پیش کی گئی ہے ہم پاکستانیوں کو اس کا وسیع اور حقیقی تجربہ ہے۔ سڑسٹھ سال گزر گئے۔ انتخابات ہوتے رہے سیاسی تجزیئے اور تحریکیں بھی چلتی رہیں لیکن عوام جس حالت میں تھے اس میں بدتری ہی آتی گئی۔

اب ایک بار پھر غلغلہ اٹھا ہے کہ مڈ ٹرم الیکشن کرائے جائیں تا کہ حقیقی جمہوریت بحال ہو۔ بات تو دستوری اور سیاسی ہونے کی وجہ سے قابل فہم ہے لیکن دوسری آواز اعلان انقلاب کا سر پیر اب تک نظر نہیں آیا۔ بات تو سچی ہے کہ نظام کو بدلے بغیر عوامی خوشحالی کا تصور ایک سراب کی مانند ہے۔ نواز شریف کو وزیر اعظم کی حیثیت سے یہی کہنا چاہیے تھا کہ انقلاب اب جمہوریت کے ذریعے آئے گا۔ دھرنوں اور مارچ سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے۔

دوسری طرف عمران خان کا چیلنج ہے کہ اسلام آباد میں آزادی مارچ ہو گا اور اس وقت تک دھرنا دیں گے جب تک حکومت مڈ ٹرم الیکشن کا مطالبہ تسلیم نہیں کرتی۔ پھر ڈاکٹر طاہر القادری بھی، مارچ برائے انقلاب برپا کریں گے۔ یوں ایک طرف عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری ہوں گے تو دوسری طرف نواز شریف بمع دستوری حق اور حکومتی اختیارات کے ساتھ 4ا اگست کی بگڑتی ہوئی صورت حال سے فراست کے ذریعے یا حماقت کے ساتھ نبرد آزما ہوں گے۔ دیکھنا یہ ہے کہ نوبت خون خرابے تک پہنچے گی یا مڈ ٹرم الیکشن کے حوالے سے کوئی سمجھوتہ ہو جائے گا۔ ایسا کچھ بھی نہ ہوا تو پھر کیا ہو گا؟

کچھ تجزیہ نگاروں کا اچھوتا خیال ہے کہ نواز حکومت سے اسٹیبلشمنٹ مطمئن نہیں ہے۔ اسے تبدیل کرنے کی جو بھی تحریک چلے گی۔ اسٹیبلشمنٹ اس کی اگر حمایت نہیں کرے گی تو غیر جانبدار ہو جائے گی۔ اس طرح شہری محاذ پر ہنگامہ آرائی اور غیر یقینی صورت حال پیدا ہو جائے گی جس کی منطقی صورت حال تیسری طاقت کی مداخلت ہے جس میں عدلیہ بھی ہو سکتی ہے اور فوج بھی۔ تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ جب سیاسی جماعتیں افرا تفری اور ابتلا پیدا کرنے کی پوزیشن میں ہوتی ہیں تو پھر تیسری طاقت مداخلت کرتی ہے، دور جانے کی ضرورت نہیں۔

2006 میں بنگلہ دیش میں یہی صورت حال پیدا ہو گئی تھی تو صدر نے ماورائے دستور ایمرجنسی نافذ کر کے نئی کابینہ اور حکومت بنا لی۔ کابینہ کے وزیر اعظم کی حیثیت کو چیف ایڈوائزر اور دیگر وزراء کو ایڈوائزر کہا جاتا تھا چیف آف دی آرمی اسٹاف بھی ایک ایڈوائزر تھے اور کابینہ میں بیٹھتے تھے۔ حکومت عبوری کام کے لیے دو ہدف مکمل کرنے آئی تھی ایک انتخابی اصلاحات اور ووٹر لسٹ کی درستگی۔ دوسرے کرپشن اور تحفے تحائف کی تفتیش۔

تمام سیاسی جماعتوں سے تقریباً 168 عہدیدار اس فہرست میں شامل ہوئے اور دو لاکھ آدمیوں پر جس میں اہلکار سرکاری بڑے عہدیدار تاجر صنعت کار وغیرہ شامل تھے، مقدمات قائم ہونے پر یہ کام مکمل ہونے کے بعد تقریباً ڈیڑھ دو سال بعد انتخابات کرائے گئے جس میں کسی قسم کی شکایت نہیں اٹھائی گئی اور سیاسی کھینچا تانی میں بھی فرق پڑ گیا۔ بعض لوگوں نے اسے بنگلہ دیش فارمولے کا نام دے دیا۔ پیپلز پارٹی حکومت کے آخری دنوں میں اس بات کا بہت تذکرہ کیا جاتا تھا کہ یہاں بھی یہی فارمولا نافذ ہو گا ۔

وقت گزر گیا اور بنگلہ دیش کی نقل کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ لیکن اس طریقہ کار سے اتنا تو ہوا کہ سیاسی جماعتوں کی ایشوز کے بجائے ذاتی مخاصمت میں خون خرابے کی حد تک پہنچ جانے والی محاذ آرائی کے آگے رکاوٹ کھڑی ہو گئی اور جمہوریت کو نقصان بھی نہیں پہنچا۔ ورنہ ایسی صورت حال کا تدارک فوجی ڈکٹیٹر کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ بنگلہ دیش سے ہمارا بطنی تعلق تو موجود ہے۔ اگر کچھ ایسا ہی ملتا جلتا فارمولا آ جائے تو حیرت یا اچنبھے کی بات نہیں ہو گی جب کہ موجودہ صورت حال میں نواز حکومت عمران خان کے آگے خم ٹھونک کر کھڑی ہو گئی ہے۔

ماڈل ٹاؤن لاہور کا سانحہ بھی تازہ ہے جس کے رد عمل میں ڈاکٹر قادری 10 اگست کو یوم شہداء کا اعلان کر کے سیاسی دبائو میں وزن بڑھا رہے ہیں۔ الیکشن پر بات کرنا تو امر محال ہے یہاں تو چار متنازعہ نشستوں پر بھی بات کرنے کی گنجائش نظر نہیں آتی۔ تو کیا اسلام آباد میں 14 اگست کو تصادم کے امکانات ہیں؟ کیا تحریک انصاف کے کارکنان اور عاملین حکومت دست و گریبان ہو جائیں گے یا صرف جلسے کی اجازت دے کر دھرنے کے بجائے آل پارٹیز کے لیے یہ موضوع مکالمے کے نام پر تسلیم کر لیا جائے گا۔ دھینگا مشتی ٹل جائے گی۔ آل پارٹیز میں ہی انقلاب سے متعلق مکالموں سے دستور کی وہ شقیں جن پر عمل در آمد نہیں ہو رہا ہے ان کے نفاذ کے لیے کوئی راستہ تلاش کیا جائے گا۔

میاں نواز شریف کی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ ان مسائل پر قومی اتحاد کس طرح پیدا کرتے ہیں۔ معتقدین کو یہ بات سمجھ لینا چاہیے کہ پی اے ٹی ہو یا پی ٹی آئی یہ جماعتیں درمیانی طبقے کی نمایندگی تو کرتی ہی ہیں ان کی قیادت بھی اسی طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ دوسری سیاسی جماعتیں بھی متوسط طبقے سے متعلق ہیں مگر اتفاقیہ طور پر ایک کی قیادت جاگیرداروں کے پاس ہے تو دوسرے کی صنعت کاروں یا سرمایہ داروں کے پاس۔ اسی لیے تو عوامی اور قومی کے بجائے شان و شوکت کے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔ جس میں قومی دولت کا زیاں زیادہ اور عوامی مفاد کم ہتا ہے۔ اب جو تضاد ابھر کر آیا ہے اس میں جماعتوں اور منشوروں میں اختلاف پر نہیں بلکہ شخصیتوں کے طبقاتی مفادات کا عنصر کار فرما ہے۔

کیا 14 اگست کو شروع ہونے والی تحریک کسی حقیقی تبدیلی تک پہنچے گی یا 2013 کے انتخابات کی طرح خر آید گائو رفت کے مصداق کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں