میڈیا واچ ڈاگ سوشل میڈیا دھوکا ہے حقیقت تو کچھ اور ہے

عمران خان اور طاہرالقادری سے دست بستہ گزارش ہے کہ خدارا سوشل میڈیا پر ہونے والی مقبولیت کے دھوکے میں مت آئیں۔


فہیم پٹیل August 06, 2014
اگر واقعی لوگ حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکلیں گے تو طاہرالقادری اور عمران خان تو وہ ضرور احتجاج کے شوق کو پورا کرلیں لیکن اگر وہ سوشل میڈیا کے چاہنے والوں کے بھروسے پر رہے تو نقصان شدید ہوگا۔ فوٹو: ایکسپریس

اگر آپ کو یہ معلوم ہے کہ انٹرنیٹ کس شہ کا نام ہے اور اِس کے استعمال سے بھی کچھ نہ کچھ واقفیت رکھتے ہیں تو مجھے اُمید نہیں بلکہ یقین ہے کہ آپ بھی دن میں کچھ نہ کچھ وقت تو سوشل میڈیا پر گزارتے ہی ہونگے۔

ایک وقت تھا جب لوگوں کی اکثریت کتابوں سے علم کو بڑھانے پر یقین رکھتی تھی ۔ مگر جہاں وقت نے سب کچھ بدل دیا تو پھر لوگوں کی معمولاتِ زندگی بھی اگر تبدیل ہوجائے تو کونسی اچھنبے کی بات ہے۔ خیر خبر کچھ اور تھی اور میں کسی اور ہی طرف نکل گیا۔ خبر یہ تھی کہ عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری فیس بک پر مشہور ترین شخصیت کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے ہیں جبکہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ٹوئیٹر پر سب کو مات دیدی ہے۔

میں اتنے دنوں سے پریشان ہوں کہ آخر یہ کیا ماجرا ہے کہ طاہرالقادری اور عمران خان لوگوں کو سڑکوں پر نکالنے کے حوالے سے اِس قدر مطمئن کیسے ہیں؟ اور عمران خان یہ کیسے کہہ رہے ہیں کہ وہ 14 اگست کو اسلام آباد میں 10 لاکھ لوگوں کو جمع کرلیں گے۔لیکن میری یہ پریشانی تو اُس وقت ختم ہوئی جب مجھے معلوم ہوا کہ جناب ماجرا یہ ہے کہفیس بک پر طاہر القادری22لاکھ، 3ہزار800لائیکس کے ساتھ پہلے نمبر پر جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان20 لاکھ 76 ہزار لائیکس کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔ معاملہ صرف یہیں نہیں رُکتا بلکہ مقبولیت کی شاہراہ تو اُس وقت مزید طویل ہوتی ہے جب بات ہوتی ہے ٹوئیٹر کی۔ جہاں عمران خان 11لاکھ فالورز کے ساتھ پہلے نمبر پر ہیں جبکہ طاہر القادری کی حمایت میں یہاں ایک لاکھ 9ہزارفالوورز موجود ہیں۔

اگر طاہرالقادری اور عمران خان واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ لوگوں میں اِس وقت حکومت مخالف جذبات بڑھ رہے ہیں تو یقینی طور پر وہ احتجاج کے شوق کو پورا کرلیں لیکن اگر اِن دونوں شخصیات کے کالر سوشل میڈیا پر ہونے والے مقبولیت کے سبب کھڑے ہورہے ہیں تو میں دست بستہ گزارش کرنا چاہوں کہ سرکار فیس بک اور ٹوئیٹر پر بھروسہ نہ کریں اگر آپ لوگوں نے ایسا کیا تو کب آپ کے پیروں تلے زمین نکل جائے گی آپ کو معلوم بھی نہ چلے گا۔

اِس نقطہ کی کوئی ایک وجہ نہیں بلکہ متعدد ہیں۔ دیکھیے میں بھی سوشل میڈیا پر وقت ضائع کرنے والوں میں سے ایک ہوں ۔ مجھے اندازہ ہے کہ وہاں لوگ کسی طرح مقبول ہوتے ہیں اور کس طرح لوگ کھیل کھیل میں لائیک کا بٹن دبادیتے ہیں۔ میرے دائیں ہاتھ کے نیچے کے ایک ماوس (بس گزارش ہے کہ اِس کا اُردو ترجمہ مت کیجیے گا)ہوتا ہے اور میرا جب دل چاہتا ہے جیسے دل چاہتا ہے کسی کے بھی اسٹیٹس، تصویر اور پیج کو لائیک کردیتا ہوں اور پھر شاید ہی پلٹ کر کبھی اُس پیج پر جاکر دیکھتا ہوں کہ وہاں کیا ہورہا ہے۔ مگر اِس کے علاوہ ایک خاص بات بھی بتاتا چلوں مگر شرط یہ ہے کہ کسی کو بتائیے گا نہیں کہ اگر آپ کے پاس چند ہزار کی رقم موجود ہے تو آپ باآسانی اپنے پیج کے لیے ہزاروں لائیکس بڑھواسکتے ہیں ۔ نہیں نہیں یہاں میرا ہرگز ایسا کچھ کہنے کا مقصد نہیں کہ طاہر القادری اور عمران خان صاحب صاحبان نے بھی ایسا ہی کچھ کیا ہوگا ۔۔۔۔ قطعاً نہیں بلکہ میں جانتا ہوں کہ لوگ ائیر کنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھ کر دل و جان سے اپنی محبت کر اظہار کرتے ہوں گے ۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔ اگست کی گرمی میں کیا واقعی یہ سوشل میڈیا پر چاہنے والے باہر نکلیں گے؟ اِس کو اگر خام خیالی کہا جائے تو یقینی طور پر کم از کم غلط تو نہیں ہوگا۔

بات کچھ طویل ہوگئی ۔۔۔ بس کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے کارکنان پر ہی بھروسہ کرنا چاہیے کیونکہ شاید یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو پارٹی کا اثاثہ ہوتے ہیں باقی تو سب کھیل تماشہ ہے ۔۔۔ مزہ آیا تو ٹھیک ورنہ فیس بک پر کسی دوسری انٹرٹینمنٹ سے لطف اندوزی کا آغاز کرلیا جائے گا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں