پاکستان ایک نظر میں دانیال تنویر کی آخری خواہش
کتنے ہی ایسے پاکستانی ہیں جو اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کی تکمیل کے بغیر ہی چپ چاپ موت کی آغوش میں چلے جاتے ہونگے۔
SEATTLE:
ٹی وی پر نیوز چل رہی تھی کہ عمران خان دانیال تنویر سے ملنے اس کے گھر پہنچ گئے۔دیکھ کر کافی اچھا لگا کیونکہ اس وقت جو دانیال کے چہرے پر خوشی تھی اس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اپنے سارے غم بھول بیٹھا ہے ۔اسے یہ بھی یاد نہیں ہے کہ وہ دل کا مریض ہے اور اسے علاج کے لئے بدھ کے روز بھارت روانہ ہونا تھا۔
لیکن شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ وہ صرف اپنے ہیرو سے ملاقات کے لیے زندہ تھا اور اس سے ملنے کے بعد اگلے ہی روز وہ اس جہان فانی سے کوچ کر گیا ۔ دانیال عمران خان سے ملاقات کے لیے بے تاب تھا ۔ عمران خان ہی وہ آخری شخص تھا جس سے اس کی زندگی کی ڈور بندھی ہوئی تھی۔ ایک چھوٹی سی ملاقات کے بعد اسپتال جاتے ہوئے وہ راستے میں ہی دم توڑ گیا۔
دانیال عزیز تھا کون ،ایک ہارٹ پیشنٹ ، ایک انسان ،یا ایک عام پاکستانی ۔ جو تمام پاکستانیوں کی ترجمانی کر رہا تھا۔ کتنے ہی ایسے پاکستانی ہونگے جو شاید اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کی تکمیل کے بغیر ہی آنکھوں میں خواب سجائے چپ چاپ موت کی آغوش میں چلے جاتے ہونگے۔ شاید ان میں سے کسی کی خواہش دو وقت کی روٹی کی ہو؟ شاید کسی کی خواہش اسی طرح اپنے کسی ہیرو سے ملنے کی ہو؟ کسی کی خواہش کسی کھلونے کی ہو اور کسی کی اچھی تعلیم کی؟ پر کتنے دانیال ایسے ہی بنا کسی خواہش کے پورے ہوئے صرف بھوک اور افلاس کی وجہ سے اس جہان کو چھوڑ جاتے ہیں۔ دانیا ل تو اپنی خواہش پوری کرگیا، پر ہم سب کو سوچنے پر بھی مجبور کرگیا کہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی کیا قیمت ہوتی ہے ۔اس کے چہرے سے پھوٹتی خوشی دیکھ کو کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ بچہ دل کا مریض ہے اورکچھ دن کا مہمان بھی ۔
حضرت عمرؓ کہتے تھے کہ اگر دریا دجلہ کر کنارے پر کوئی کتا بھی بھوک سے مر گیا تو قیامت کے دن اللہ سوال کریگا کہ عمرؓ تم کیا کر رہے تھے۔؟ اور آج ہزاروں بچے اور انسان ایسے ہی بھوک ، پیاس اور غربت سے مر جاتے ہیں پر کسی حکمران کو خیال نہیں آتا کسی کا ضمیر ملامت نہیں کرتا۔ قیامت تو یہ ہے کہ کسی کو فکر نہیں ہوتی کہ کون کہاں بھوک سے مر گیا کون کہاں ظلم کا شکا ر ہوگیا۔فکر تو دور کی بات پتہ تک نہیں چلتا کو کون کیسا مر گیا؟۔
ہمارا میڈیا یہاں دانیال کے پاس تو پہنچ گیا اور ہمارے حکمرانوں کے اونچے دروازے بھی کھٹکھٹانے میں بھی کامیاب ہوگیا جس کی بدولت دانیال تنویر اپنے ہیروسے ملنے میں کامیاب ہو سکا لیکن باقی مرتے ہوئے بچے یا انسان صرف گہرے رنج و غم کے قابل ہیں؟ کیا ان کی ایسی ہی خواہشیں نہیں ہوتی ہونگی؟ کاش ہمارا میڈیا ہر اس مرتے ہوئے شخص کو دیکھا سکتا اور اسی طرح ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو تکمیل تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوگیا، جو اس اعزازکے بنا ہی اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔
دانیال ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو اتنا تو سوچنے پر مجبور کرگیا ہے کہ ہمیں کچھ کرنا ہے اپنے اس ملک کے لیے ، اپنی عوام کے لیے اور ان سب کے لیے جن کے دل میں شاید ایسی ہی خواہشیں ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہمیشہ کی طرح کچھ دن بلکہ کچھ وقت کے لئے یہ ہماری گفتگو کا موضوع رہیں اور پھر ہم انہیں روز مرہ کے واقعات کی طرح بھول جائیں۔
کیونکہ دانیال پال واکر تو تھا نہیں کہ سوشل میڈیا ماتم کرنا شروع کر دے ۔ یہ تو ایک عام سا بچہ تھا جس کے دل میں ایک چھوٹی سی عام سی خواہش تھی جو پوری ہوتے ہی اسے دنیا میں کچھ اور دیکھنا پسند نہیں آیا اور وہ چپ چپ خاموشی سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ اللہ اس کی مغفرت فرمائے اور اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے ۔ اور ہم سب کو اتنی توفیق دے کہ ہم دانیال جیسے معصوم پھولوں کی ننھی ننھی خواہشات کو پورا کرکے اس کی زندگی کی مدھم روشنی کو بڑھا سکیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
ٹی وی پر نیوز چل رہی تھی کہ عمران خان دانیال تنویر سے ملنے اس کے گھر پہنچ گئے۔دیکھ کر کافی اچھا لگا کیونکہ اس وقت جو دانیال کے چہرے پر خوشی تھی اس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ وہ اپنے سارے غم بھول بیٹھا ہے ۔اسے یہ بھی یاد نہیں ہے کہ وہ دل کا مریض ہے اور اسے علاج کے لئے بدھ کے روز بھارت روانہ ہونا تھا۔
لیکن شاید قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ وہ صرف اپنے ہیرو سے ملاقات کے لیے زندہ تھا اور اس سے ملنے کے بعد اگلے ہی روز وہ اس جہان فانی سے کوچ کر گیا ۔ دانیال عمران خان سے ملاقات کے لیے بے تاب تھا ۔ عمران خان ہی وہ آخری شخص تھا جس سے اس کی زندگی کی ڈور بندھی ہوئی تھی۔ ایک چھوٹی سی ملاقات کے بعد اسپتال جاتے ہوئے وہ راستے میں ہی دم توڑ گیا۔
دانیال عزیز تھا کون ،ایک ہارٹ پیشنٹ ، ایک انسان ،یا ایک عام پاکستانی ۔ جو تمام پاکستانیوں کی ترجمانی کر رہا تھا۔ کتنے ہی ایسے پاکستانی ہونگے جو شاید اپنی چھوٹی چھوٹی خواہشات کی تکمیل کے بغیر ہی آنکھوں میں خواب سجائے چپ چاپ موت کی آغوش میں چلے جاتے ہونگے۔ شاید ان میں سے کسی کی خواہش دو وقت کی روٹی کی ہو؟ شاید کسی کی خواہش اسی طرح اپنے کسی ہیرو سے ملنے کی ہو؟ کسی کی خواہش کسی کھلونے کی ہو اور کسی کی اچھی تعلیم کی؟ پر کتنے دانیال ایسے ہی بنا کسی خواہش کے پورے ہوئے صرف بھوک اور افلاس کی وجہ سے اس جہان کو چھوڑ جاتے ہیں۔ دانیا ل تو اپنی خواہش پوری کرگیا، پر ہم سب کو سوچنے پر بھی مجبور کرگیا کہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی کیا قیمت ہوتی ہے ۔اس کے چہرے سے پھوٹتی خوشی دیکھ کو کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ بچہ دل کا مریض ہے اورکچھ دن کا مہمان بھی ۔
حضرت عمرؓ کہتے تھے کہ اگر دریا دجلہ کر کنارے پر کوئی کتا بھی بھوک سے مر گیا تو قیامت کے دن اللہ سوال کریگا کہ عمرؓ تم کیا کر رہے تھے۔؟ اور آج ہزاروں بچے اور انسان ایسے ہی بھوک ، پیاس اور غربت سے مر جاتے ہیں پر کسی حکمران کو خیال نہیں آتا کسی کا ضمیر ملامت نہیں کرتا۔ قیامت تو یہ ہے کہ کسی کو فکر نہیں ہوتی کہ کون کہاں بھوک سے مر گیا کون کہاں ظلم کا شکا ر ہوگیا۔فکر تو دور کی بات پتہ تک نہیں چلتا کو کون کیسا مر گیا؟۔
ہمارا میڈیا یہاں دانیال کے پاس تو پہنچ گیا اور ہمارے حکمرانوں کے اونچے دروازے بھی کھٹکھٹانے میں بھی کامیاب ہوگیا جس کی بدولت دانیال تنویر اپنے ہیروسے ملنے میں کامیاب ہو سکا لیکن باقی مرتے ہوئے بچے یا انسان صرف گہرے رنج و غم کے قابل ہیں؟ کیا ان کی ایسی ہی خواہشیں نہیں ہوتی ہونگی؟ کاش ہمارا میڈیا ہر اس مرتے ہوئے شخص کو دیکھا سکتا اور اسی طرح ان کی چھوٹی چھوٹی خواہشات کو تکمیل تک پہنچانے میں مددگار ثابت ہوگیا، جو اس اعزازکے بنا ہی اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔
دانیال ہمیں اور ہمارے حکمرانوں کو اتنا تو سوچنے پر مجبور کرگیا ہے کہ ہمیں کچھ کرنا ہے اپنے اس ملک کے لیے ، اپنی عوام کے لیے اور ان سب کے لیے جن کے دل میں شاید ایسی ہی خواہشیں ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہمیشہ کی طرح کچھ دن بلکہ کچھ وقت کے لئے یہ ہماری گفتگو کا موضوع رہیں اور پھر ہم انہیں روز مرہ کے واقعات کی طرح بھول جائیں۔
کیونکہ دانیال پال واکر تو تھا نہیں کہ سوشل میڈیا ماتم کرنا شروع کر دے ۔ یہ تو ایک عام سا بچہ تھا جس کے دل میں ایک چھوٹی سی عام سی خواہش تھی جو پوری ہوتے ہی اسے دنیا میں کچھ اور دیکھنا پسند نہیں آیا اور وہ چپ چپ خاموشی سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ اللہ اس کی مغفرت فرمائے اور اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے ۔ اور ہم سب کو اتنی توفیق دے کہ ہم دانیال جیسے معصوم پھولوں کی ننھی ننھی خواہشات کو پورا کرکے اس کی زندگی کی مدھم روشنی کو بڑھا سکیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔