دنیا بھر سے سویا ہوا ضمیر

یہ مکروہ عمل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک امت مسلمہ خاموش درندے کی طرح اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی ہڈیاں چباتی رہے گی۔


محمد صغیر August 06, 2014
یہ مکروہ عمل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک امت مسلمہ خاموش درندے کی طرح اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی ہڈیاں چباتی رہے گی۔ فوٹو اے ایف پی

عید کی تعطیلات بھر پورطریقے سے گذارنے کے بعد بلاخر آج میں نے آفس کا رخ کیا۔ لیکن ایک عجیب سی بے چینی دل و دماغ پر طاری رہی،کچھ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ میری سات سالہ بیٹی کی یاد آنے والی دل آویز شرارتیں میری توجہ اور دھیان بٹا رہی ہیں اورکمپیوٹر کی اسکرین سے لے کر اپنے موبائل فون کی وقفے وقفے سے بجنے والی رنگ ٹون تک کوئی بھی مصروفیت میری محویت کو توڑنے میں کامیاب نہ ہوسکی ۔یہی وجہ تھی کہ میرا جسم تو اپنے دفتر میں موجود تھا تاہم میرا دل،دماغ اور روح اپنے چھوٹے سے گھر میں دوڑتی،بھاگتی اپنی پریوں جیسی بیٹی کے گرد پروانوں کی طرح منڈلاتی پھر رہی تھی۔

الغرض بڑی بے کلی کے عالم میں چند گھنٹے گزارنے کے بعد گھر کا رخ کیا تو مسافروں سے بھری کوچ میں لگنے والے بے شمار دھکوں اور سست رفتار ڈرائیور کی شان میں باآواز بلندکہے جانے والے قصیدے بھی مجھ پر کوئی اثر نہ ڈال سکے۔مجھ پر تو ایک ہی دھن سوار تھی کہ اڑ کر گھر پہنچ جاوں اور وہاں موجود اپنی متاع حیات یعنی معصوم بیٹی کو سینے سے لگا کر سکون کا سانس لوں ۔

سچی بات تو یہ ہے کہ خود بھی حیران تھا کہ اتنی تعطیلات کے دوران جس کی شرارتوں ،فرمائیشوں اور اودھم بازی سے زچ آکر کر سکون کا سانس لینے کی امید پر آفس کا رخ کیا تھا اسی کی یادوں نے مجھے اس قدر بے چین کر دیا کہ بیان سے باہر ہے،دروازے پر دستک دیتے ہی ایسا لگا کہ وہ خود بھی میری حالت سے واقف تھی جس نے واشگاف الفاظ میں بابا آگئے کا نعرہ لگایا اور میرے سینے سے لگ کر احساس دلایا کہ رب عظیم نے مجھے اپنی عنایتوں سے کس قدر نوازہ ہے۔وجود میں اترتے ناقابل بیان سکون کے ساتھ حسب عادت واش روم کا رخ کیا تاکہ غسل کے بعداطمینان کے ساتھ اپنے اس قیمتی ترین اور جیتے جاگتے انمول کھلونے سے کھیلوں سکوں ،پر جب واپسی ہوئی تودیکھا کہ میری ننھی پری آنکھیں موندے نیند کی وادی میں کھو چکی ہے،میں اک جذب کہ عالم میں اسے دیکھے جا رہا تھا کہ اچانک میری سنسان نگاہوں سے آنسوں کا ریلہ جاری ہوگیا،اور میرے دل و دماغ میں فلسطین پر کی جانے والی اسرائیلی جارجیت کی تصاویر نمایاں ہو نے لگی۔

کھنڈر بنے درودیوار،بے حرمتی کا شکار ہونے والی مساجد،خوف سے چیختے بچے،جوان بیٹوں کی مسخ شدہ لاشوں پر آسمان کو شق کر دینے والے بین کرتی بوڑھی مائیں۔اپنے کڑیل بھائیوں کی خوشیوں پر رقص کرنے کے بجائے ان کی تدفین پر غش کھاتی بہنیں اور امت مسلمہ سمیت انسان کہلانے والے ہر شخص کا سویا ہوا ضمیر جگانے کی ناکام کوششیں کرتی شیر خوار اور نومولود بچوں کی کٹی پھٹی لاشیں، جن کی بے کسی کا سوچ کر آنکھوں میں آنے والے نمکین پانی نے چند فٹ کے فاصلے پرسکون سے سوئی ہوئی میری بیٹی کے واضح سراپے کو دھندلا دیا تھا۔

میرا پورا بدن اپنے پروردگار عالم کے خوف سے لرز رہا تھا جو روز قیامت مجھ جیسے بزدلوں ،منافقوں اور نام نہاد مسلمانوں کو کڑے عذاب کا مرتکب قرار دے کر ضرور پوچھے گا کہ اپنے مال ،اسباب اور اولاد کو محفوظ جان کر تم میرے اس فرمان کو کیونکہ بھول بیٹھے کہ مسلمان قوم ایک جسم کی مانند ہے جس کہ کسی بھی حصے میں لگنے والی چوٹ کا درد پورا وجود محسوس کرتا ہے،میری نظر میں اسرائیلی بربریت کے سب سے بڑے ذمے دار مجھ سمیت وہ تمام نام نہاد مسلمان اور انسان ہیں جو اپنی اولاد کے جسم پر ایک معمولی سی خراش آتی دیکھ کرہوش و حواس کھو دیتے ہیں، اور انھیں زندگی کی ہر آسائیش و سہولت فراہم کرنے کے لیے جائز اور ناجائز کا فرق بھول کردولت کے پجاری بن جاتے ہیں ۔

بہت افسوس کا مقام ہے کہ اپنی اولاد کی خاطر جہنم کا ایندھن بننے پر بھی تیار ہو جانے والے ہوس پرستوں کو غزہ کے چپے چپے پر بے رحمی سے رقصاں موت نظر آتی ہے اور نہ ہی شیر خوار بچوں کی مسخ شدہ لاشیں انھیں انسانیت کے جامے میں لا سکی ہیں ۔اسرائیل ایک ایسا درندہ ہے جو بے گناہ فلسطینیوں کو بے دردی سے بھنبھوڑ رہا ہے پر امت مسلمہ خاموشی سے اپنے مسلمان بھائیوں کا لہو چاٹ رہی ہے،اور اسی روش کو دیکھ کر اسرائیل سمیت اسلام اور مسلمانوں کے تمام ازلی دشمن اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے یکے بعد دیگرے دنیا بھر کے اسلامی ممالک کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنانے میں مصروف ہیں ۔

یہ مکروہ عمل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک امت مسلمہ خاموش درندے کی طرح اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی ہڈیاں چباتی رہے گی،کیونکہ مسلمانوں کی لاعلمی سے فائدہ اٹھانے والی اُمت مسلمہ نامی یہ خاموش عفریت چیختے،چنگھاڑتے اورشور مچاتے اسرائیلی درندے سے ہزاروں گنا زیادہ خوف ناک اور تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے ۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔