ایک پاکستانی ’’کیو بی سیون‘‘
تلخ حقیقت یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس کی طرف سے ہتک عزت کے مقدمے سے ویسا ہی پنڈورا بکس کھل جائے گا
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کو ہتک عزت کا نوٹس بھجوا دیا ہے جس میں دیوانی اور فوجداری دونوں قسم کی کارروائی شامل ہے۔ نوٹس میں لکھا گیا ہے کہ اگر غیر مشروط معافی نہ مانگی گئی تو پندرہ ارب روپے کا ہرجانہ دینا پڑے گا۔ جب کہ 5 ارب روپے مجھے اور میرے اہل خانہ کو ذہنی اذیت پہنچانے' خوف زدہ کرنے اور بے عزتی کا باعث بننے وغیرہ کے تاوان کے طور پر ادا کرنا ہونگے۔ ان کا موقف ہے کہ وہ قانونی راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کا یہ پختہ یقین ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی ہونی چاہیے اور عدلیہ نے بڑی مشکل سے جو ساکھ بنائی ہے اس کا تحفظ کیا جانا چاہیے۔
انھوں نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جیسے مہم جُو جو معصوم اور بے گناہ لوگوں پر سیاسی مفادات حاصل کرنے کی خاطر الزامات عائد کرتے ہیں ان کا سختی سے مواخذہ کیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وعدہ کیا گیا ہے کہ اگر عمران خان چودہ دنوں کے اندر اندر غیر مشروط معافی مانگتے ہیں تو میں یہ کیس واپس لے سکتا ہوں۔
کسی بھی قانونی مقدمے میں مدعا علیہان سب سے پہلے مدعی کی ساکھ کو تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سابق چیف جسٹس کے دور میں ان سے ناراض بعض افراد کو بھی موقع ہاتھ لگ گیا ہے کہ وہ ان کی مزید کمزوریاں تلاش کر سکیں۔ ادھر ڈاکٹر ارسلان افتخار جو ٹیکسوں کے بارے میں تو بالکل خاموش ہیں جو ایک رکنی انکوائری کمیشن نے جسے سپریم کورٹ نے وفاقی محتسب ڈاکٹر شعیب سڈل کی سربراہی میں قائم کیا تھا ان سے ادائیگی کا تقاضا کیا ہے اور اب وہ عمران خان کو آئین کے آرٹیکل 63,62 کے تحت ماضی کے ایک سکینڈل کے حوالے سے اسمبلی سے نااہل قرار دلوانا چاہتے ہیں۔
یہ الزام ان پر پہلے بھی لگایا جا چکا ہے جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا اور اب اسی الزام کو دہرانے کے بعد بھی کوئی قانونی کامیابی نہ ہو گی۔ سابقہ چیف جسٹس کے لیے چھپ کر تالیاں بجانے والے پی ٹی آئی کے لیڈر کے خلاف سیاسی اور میڈیا کی حمایت حاصل کر کے انھیں فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں لیکن انھیں اس بات کا احساس نہیں کہ اس طرح عدلیہ کے دیگر اراکین بھی نادانستہ طور پر رائے عامہ کی زد میں آ جائیں گے۔ جن ممالک میں جمہوریت کام کرتی ہے اور قانون کی حکمرانی قائم ہوتی ہے وہاں بھی ہتک عزت کے مقدمے کو ثابت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے چہ جائیکہ اس کی پاکستان میں کامیابی کی امید رکھی جائے جہاں قانون کی حکمرانی کہیں بھی نظر نہیں آتی۔
کیو بی سیون ''کوئینز بنچ سیون'' (Queen's Bench seven)کورٹ ہاؤس لندن کا مخفف ہے۔ اسے کتاب کی صورت میں 1970 میں لیون اریس نے ''کیو بی سیون'' (Q.B VII) کے نام سے شایع کیا۔ جس میں ڈاکٹر ولاڈیسلا ڈیرنگ Dr Wladislaw Dering کی طرف سے لیون اریس کے خلاف دائر کردہ مقدمے کا بیان ہے جس سے کہ اس نے اپنے ناول ایگزوڈس (EXODUS) کا پلاٹ اخذ کیا تھا۔ ڈاکٹر ولاڈس لا پولینڈ کا فزیشن ہے۔ یہ مقدمہ اور اس کے ٹرائل کی کارروائی برطانیہ کے دو بیرسٹروں ''میوس' ایم ہلی اور نارمن ولیمز نے 1965 میں آسوچز ان انگلینڈ (Auschwitz in England) کے نام سے مرتب کی۔
کیو۔ بی سیون کا مرکزی کردار ڈاکٹر سرایڈم کیلنو ہے۔ جو ایک کنسنٹریشن کیمپ (نازی جرمنی کا عقوبت خانہ) میں تھا۔ جسے جنگ عظیم دوم کے اختتام کے قریب روسیوں نے نازی کیمپ سے رہائی دلائی۔ کمیونسٹ پولینڈ نے جنگی جرائم کی بنا پر اس کی حوالگی کا مطالبہ کیا اور الزام لگایا کہ اس نے ہزارہا یہودی قیدیوں کی سرجری کر کے انھیں ناکارہ بنا دیا تھا۔ لیکن پولینڈ کی درخواست مسترد کر دی گئی اور کیلنو(Kelno) کو رہا کر دیا گیا۔
ابراہام کیڈی نیٹ جو جنگ کے دوران لڑاکا طیارے کا پائلٹ تھا اور بعد میں ایک ناول نگار بن گیا اس نے ہولو کاسٹ کے بارے میں بیان کرتے ہوئے کیلنو کا بھی ذکر کیا جو قید خانے کا ڈاکٹر تھا اور جس نے نازیوں سے ساز باز کرتے ہوئے یہودی قیدیوں کی خاصی چیر پھاڑ کی تھی۔ اس کی کتاب جس کا نام Fifteen Thousand(پندرہ ہزار) ہے میں بتایا گیا ہے کہ ڈاکٹر کیلنو مریض کو بے ہوش کیے بغیر اس کی سرجری کرتا تھا۔ ابراہام کیڈی اور اس کتاب کے ناشر دونوں پر ہرجانے کا مقدمہ دائر کیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ ایک تو برسر عام معافی مانگی جائے اور دوسرا کتاب کے قابل اعتراض حصوں کو تبدیل کیا جائے۔
شروع میں ڈاکٹر کیلنو کا عدالت میں بڑے شد و مد سے دفاع کیا گیا کہ نازیوں کے ساتھ اس کے مبینہ تعاون کی بات غلط ہے لیکن جب اس کے میڈیکل تجربات کے بارے میں مزید ثبوت سامنے آئے اور اس کے ماضی کے بارے میں بھی انکشافات کیے گئے تو ڈاکٹر کیلنو مدعی کے بجائے مدعا علیہ بن گیا۔ اس کے مقدمے کے لیے جیوری قائم کر دی گئی اور اس کتاب پر اس کو آدھی پینی بطور انعام دی گئی جو کہ برطانیہ کی تاریخ میں سب سے کم معاوضہ تھا۔ کیو۔ بی سیون نے اسے عوام کے سامنے نازیوں کے ساتھ تعاون کا مرتکب قرار دیا جب کہ ڈاکٹر کیلنو نے یہ مقدمہ تکنیکی بنیادوں پر جیت لیا اور جیوری نے اخلاقی بنیادوں پر کتاب کی قطع و برید (Censor) کروائی۔
ہتک عزت کا مقدمہ بڑی حد تک مجرمانہ حملے (rape) کے مقدمے کے جیسا ہوتا ہے جس میں مدعی یا مدعیہ بالعموم خود زیادہ مشکل میں پھنس جاتے ہیں۔ اس مقدمے میں مدعا علیہ مدعی کی ساکھ کو اپنا ہدف بناتا ہے جس سے مدعا علیہ کے ساتھ مدعی کا بھی تماشا لگ جاتا ہے اور وہ بھی بلا جواز مرکز نگاہ بن جاتا ہے۔ عدالت سے باہر نکل کر عوام میں بھی اس کی عزت مجروح ہو جاتی ہے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس کی طرف سے ہتک عزت کے مقدمے سے ویسا ہی پنڈورا بکس کھل جائے گا جیسا کہ مشرف اور اس کے جرنیلوں نے چیف جسٹس کو نکالنے کے موقع پر تجربہ کیا تھا۔ ہتک عزت کا مقدمہ ایک دو دھاری تلوار کی مانند ہے جو نہ صرف ان کے اپنے لیے بلکہ ملک کے لیے بھی اچھا نہیں ہو گا۔ اور انٹرنیٹ کی وجہ سے یہ مقدمہ فی الفور عوامی حلقوں میں پہنچ جائے گا۔ اگر سابق چیف جسٹس بالفرض محال تکنیکی بنیادوں پر مقدمہ جیت بھی جاتے ہیں تب بھی ان کے اور ان کے سابقہ ادارے کے لیے بہتر نتائج کا حامل نہیں ہو گا۔ ایسے موقعے پر جب کہ ملک بے شمار سنگین مسائل میں گھرا ہوا ہے ایک اور بڑا مسئلہ پیدا کرنا دانشمندی نہیں ہو گی۔ اس مقدمے میں کوئی بھی کامیاب نہیں ہو گا بلکہ اس میں ہم سب کا خسارہ ہے۔
انھوں نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جیسے مہم جُو جو معصوم اور بے گناہ لوگوں پر سیاسی مفادات حاصل کرنے کی خاطر الزامات عائد کرتے ہیں ان کا سختی سے مواخذہ کیا جانا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وعدہ کیا گیا ہے کہ اگر عمران خان چودہ دنوں کے اندر اندر غیر مشروط معافی مانگتے ہیں تو میں یہ کیس واپس لے سکتا ہوں۔
کسی بھی قانونی مقدمے میں مدعا علیہان سب سے پہلے مدعی کی ساکھ کو تباہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سابق چیف جسٹس کے دور میں ان سے ناراض بعض افراد کو بھی موقع ہاتھ لگ گیا ہے کہ وہ ان کی مزید کمزوریاں تلاش کر سکیں۔ ادھر ڈاکٹر ارسلان افتخار جو ٹیکسوں کے بارے میں تو بالکل خاموش ہیں جو ایک رکنی انکوائری کمیشن نے جسے سپریم کورٹ نے وفاقی محتسب ڈاکٹر شعیب سڈل کی سربراہی میں قائم کیا تھا ان سے ادائیگی کا تقاضا کیا ہے اور اب وہ عمران خان کو آئین کے آرٹیکل 63,62 کے تحت ماضی کے ایک سکینڈل کے حوالے سے اسمبلی سے نااہل قرار دلوانا چاہتے ہیں۔
یہ الزام ان پر پہلے بھی لگایا جا چکا ہے جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا اور اب اسی الزام کو دہرانے کے بعد بھی کوئی قانونی کامیابی نہ ہو گی۔ سابقہ چیف جسٹس کے لیے چھپ کر تالیاں بجانے والے پی ٹی آئی کے لیڈر کے خلاف سیاسی اور میڈیا کی حمایت حاصل کر کے انھیں فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں لیکن انھیں اس بات کا احساس نہیں کہ اس طرح عدلیہ کے دیگر اراکین بھی نادانستہ طور پر رائے عامہ کی زد میں آ جائیں گے۔ جن ممالک میں جمہوریت کام کرتی ہے اور قانون کی حکمرانی قائم ہوتی ہے وہاں بھی ہتک عزت کے مقدمے کو ثابت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے چہ جائیکہ اس کی پاکستان میں کامیابی کی امید رکھی جائے جہاں قانون کی حکمرانی کہیں بھی نظر نہیں آتی۔
کیو بی سیون ''کوئینز بنچ سیون'' (Queen's Bench seven)کورٹ ہاؤس لندن کا مخفف ہے۔ اسے کتاب کی صورت میں 1970 میں لیون اریس نے ''کیو بی سیون'' (Q.B VII) کے نام سے شایع کیا۔ جس میں ڈاکٹر ولاڈیسلا ڈیرنگ Dr Wladislaw Dering کی طرف سے لیون اریس کے خلاف دائر کردہ مقدمے کا بیان ہے جس سے کہ اس نے اپنے ناول ایگزوڈس (EXODUS) کا پلاٹ اخذ کیا تھا۔ ڈاکٹر ولاڈس لا پولینڈ کا فزیشن ہے۔ یہ مقدمہ اور اس کے ٹرائل کی کارروائی برطانیہ کے دو بیرسٹروں ''میوس' ایم ہلی اور نارمن ولیمز نے 1965 میں آسوچز ان انگلینڈ (Auschwitz in England) کے نام سے مرتب کی۔
کیو۔ بی سیون کا مرکزی کردار ڈاکٹر سرایڈم کیلنو ہے۔ جو ایک کنسنٹریشن کیمپ (نازی جرمنی کا عقوبت خانہ) میں تھا۔ جسے جنگ عظیم دوم کے اختتام کے قریب روسیوں نے نازی کیمپ سے رہائی دلائی۔ کمیونسٹ پولینڈ نے جنگی جرائم کی بنا پر اس کی حوالگی کا مطالبہ کیا اور الزام لگایا کہ اس نے ہزارہا یہودی قیدیوں کی سرجری کر کے انھیں ناکارہ بنا دیا تھا۔ لیکن پولینڈ کی درخواست مسترد کر دی گئی اور کیلنو(Kelno) کو رہا کر دیا گیا۔
ابراہام کیڈی نیٹ جو جنگ کے دوران لڑاکا طیارے کا پائلٹ تھا اور بعد میں ایک ناول نگار بن گیا اس نے ہولو کاسٹ کے بارے میں بیان کرتے ہوئے کیلنو کا بھی ذکر کیا جو قید خانے کا ڈاکٹر تھا اور جس نے نازیوں سے ساز باز کرتے ہوئے یہودی قیدیوں کی خاصی چیر پھاڑ کی تھی۔ اس کی کتاب جس کا نام Fifteen Thousand(پندرہ ہزار) ہے میں بتایا گیا ہے کہ ڈاکٹر کیلنو مریض کو بے ہوش کیے بغیر اس کی سرجری کرتا تھا۔ ابراہام کیڈی اور اس کتاب کے ناشر دونوں پر ہرجانے کا مقدمہ دائر کیا گیا اور مطالبہ کیا گیا کہ ایک تو برسر عام معافی مانگی جائے اور دوسرا کتاب کے قابل اعتراض حصوں کو تبدیل کیا جائے۔
شروع میں ڈاکٹر کیلنو کا عدالت میں بڑے شد و مد سے دفاع کیا گیا کہ نازیوں کے ساتھ اس کے مبینہ تعاون کی بات غلط ہے لیکن جب اس کے میڈیکل تجربات کے بارے میں مزید ثبوت سامنے آئے اور اس کے ماضی کے بارے میں بھی انکشافات کیے گئے تو ڈاکٹر کیلنو مدعی کے بجائے مدعا علیہ بن گیا۔ اس کے مقدمے کے لیے جیوری قائم کر دی گئی اور اس کتاب پر اس کو آدھی پینی بطور انعام دی گئی جو کہ برطانیہ کی تاریخ میں سب سے کم معاوضہ تھا۔ کیو۔ بی سیون نے اسے عوام کے سامنے نازیوں کے ساتھ تعاون کا مرتکب قرار دیا جب کہ ڈاکٹر کیلنو نے یہ مقدمہ تکنیکی بنیادوں پر جیت لیا اور جیوری نے اخلاقی بنیادوں پر کتاب کی قطع و برید (Censor) کروائی۔
ہتک عزت کا مقدمہ بڑی حد تک مجرمانہ حملے (rape) کے مقدمے کے جیسا ہوتا ہے جس میں مدعی یا مدعیہ بالعموم خود زیادہ مشکل میں پھنس جاتے ہیں۔ اس مقدمے میں مدعا علیہ مدعی کی ساکھ کو اپنا ہدف بناتا ہے جس سے مدعا علیہ کے ساتھ مدعی کا بھی تماشا لگ جاتا ہے اور وہ بھی بلا جواز مرکز نگاہ بن جاتا ہے۔ عدالت سے باہر نکل کر عوام میں بھی اس کی عزت مجروح ہو جاتی ہے۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس کی طرف سے ہتک عزت کے مقدمے سے ویسا ہی پنڈورا بکس کھل جائے گا جیسا کہ مشرف اور اس کے جرنیلوں نے چیف جسٹس کو نکالنے کے موقع پر تجربہ کیا تھا۔ ہتک عزت کا مقدمہ ایک دو دھاری تلوار کی مانند ہے جو نہ صرف ان کے اپنے لیے بلکہ ملک کے لیے بھی اچھا نہیں ہو گا۔ اور انٹرنیٹ کی وجہ سے یہ مقدمہ فی الفور عوامی حلقوں میں پہنچ جائے گا۔ اگر سابق چیف جسٹس بالفرض محال تکنیکی بنیادوں پر مقدمہ جیت بھی جاتے ہیں تب بھی ان کے اور ان کے سابقہ ادارے کے لیے بہتر نتائج کا حامل نہیں ہو گا۔ ایسے موقعے پر جب کہ ملک بے شمار سنگین مسائل میں گھرا ہوا ہے ایک اور بڑا مسئلہ پیدا کرنا دانشمندی نہیں ہو گی۔ اس مقدمے میں کوئی بھی کامیاب نہیں ہو گا بلکہ اس میں ہم سب کا خسارہ ہے۔