ابّا سے ہر رات ادبی نوک جھونک ہوتی تھی محمد قوی خان

ماموں نے مقوی سے قوی بنا دیا، کردار میں داخل ہوکر باہر نکلنا ہی اصل اداکاری ہے، محمد قوی خان

پاکستان کے ’’72 سالہ نوجوان‘‘ اداکار محمد قوی خان کی زندگی کا ایک ورق۔ فوٹو: فائل

ریڈیو، اسٹیج، ٹیلی ویژن اور فلم کی دنیا میں رہتے ہوئے خود کو صدا کار، اداکار اور فن کار منوانا ہمیشہ سے ایک مشکل منزل رہی ہے لیکن یہ بھی طے ہے کہ اس منزل کو پانے والوں کی کمی بھی نہیں۔ یہاں منفرد اعزاز یہ ہے کہ شوبز کی دنیا میں اگر آپ شان دار، وضع دار، ذمے دار، اور بُردبار تسلیم ہو کراس منزل تک پہنچے ہیں تو پھر آپ کو اداکار محمد قوی خان ضرور یاد آئیں گے۔

13 نومبر 1942 کو پیدا ہونے والے اس اداکار کی زندگی پاکستان بننے کے بعد پشاور کی گلیوں میں کھیلتے اور مقامی اسکولوں کالجوں میں بی اے تک تعلیم حاصل کرتے ہوئے گزری۔1961 میں والد دار فانی سے رخصت ہوئے تو اداکاری کے شوق نے انہیں پشاور سے ہجرت کرنے پر مجبور کردیا۔ محنت اور مشقت کے ہتھیار سے لیس یہ یوسف زئی پٹھان جب فن کی دنیا میں اُترا تو پھر لیجنڈ بن کر ہی اُبھرا۔ آج ماشاء اللہ وہ زندگی کی بہترویں بہار دیکھ رہے ہیں لیکن کام کا شوق اب بھی ''شوق دا کوئی مُل نئیں'' کی مالا جپے چلا جاتا ہے۔

اُن کے والد صاحب انگریزوں کے دور میں پولیس میں ملازم تھے، اس لیے ان کا مختلف شہروں میں تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔ وہ پولیس کے محکمے سے 1935 میں بہ حیثیت ہیڈ کانسٹیبل ریٹائر ہوئے تھے۔ جب وہ اللہ کو پیارے ہوئے تو اس وقت اُن کو 22 روپے پینشن ملا کرتی تھی۔ 1952 میں قوی خان نے چپکے چپکے ریڈیو پاکستان پشاور پر کام شروع کردیا تھا اور ساتھ ہی بینک کی ملازمت بھی جاری رکھی ہوئی تھی۔

پشاور سے لاہور ہجرت کے بعد ریڈیو کے ساتھ اسٹیج پر بھی کام شروع کردیا اور جب 1964 میں لاہور ٹیلی ویژن نے نشریات کا آغاز کیا تو وہ پی ٹی وی کے پہلے ڈراما ہیرو کے روپ میں سامنے آئے۔ پی ٹی وی نے اپنا پہلا ڈراما ''نذرانہ'' پیش کیا تھا جس میں محمد قوی خان' کنول نصیر اور منور توفیق نے اداکاری کی تھی، اسے نجمہ فاروقی نے لکھا اور فضل کمال نے ڈائریکٹ کیا تھا۔ یوں محمد قوی خان کو پی ٹی وی پر پہلا ڈائیلاگ ادا کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ اس حوالے سے کہتے ہیں'' اُس وقت اداکاری بہت مشکل ہوتی تھی، ریکارڈنگ کی سہولت نہیں تھی اور اداکارکو ری ٹیک کا چانس بھی نہیں ملتا تھا۔ نذرانہ کی ریہرسل پورے تین ماہ جاری رہی۔

ایک ایک ُموو یاد کی گئی تھی، آج تو ریکارڈنگ اور دیگر متعدد سہولتوں کے باعث کام بہت آسان ہو گیا ہے''۔ ٹی وی سے اُن کو پہلا چیک 100 روپے کا ملا تھا۔ اُن کا دعویٰ ہے ''جتنے ایوارڈ مجھے ملے ہیں اُتنے میرے کسی ہم عصر اداکار کے پاس نہیں ہیں''۔ پرائڈ آف پرفارمنس سے لے کر ستارۂ امتیاز تک اعزازات کی ایک طویل فہرست ہے ۔ فلم کو اداکاری کا سب سے بڑا پلیٹ فارم قرار دیتے ہیں اور سلور سکرین پر کام کرنے کے شو ق کو بچپن کا شوق کہتے ہیں۔ پینتیس سال تک فلمی دنیا کی رنگینیوں کو قریب سے دیکھا اور اس دینا میں خود کو خوب منوایا۔

متعدد فلمیں پرڈیوس کیں اور ایک فلم کی ڈائریکشن بھی دی۔ 250 سے زیادہ فلموں میں اُن کی صلاحیتوں کا یہ سفر اداکار سنتوش کمار سے لے کر عہد حاضر کے معروف اداکاروں کے ساتھ کام تک پھیلا ہوا ہے۔ ان کا شمار چوبیس میں سے بائیس بائیس گھنٹے کام کرنے والے محنتی اور سخت جان اداکاروں میں ہوتا ہے۔ 1966 میں برطانوی بینک کی مستقل نوکری چھوڑنے کے بعد وہ اب تک شوبز کی فل ٹائم ڈیوٹی نباہ رہے ہیں۔

محمد قوی خان دو بیٹوں اوردو بیٹیوں کے باپ ہیں۔ بیٹے روزگار کے سلسلے میں ملک سے باہر ہیں۔ فرصت کے لمحات میں اپنے بچوں کے بچوں سے کھیل کر خوش رہنے والا یہ لیجنڈ اداکار کہتا ہے ''غیر ممالک میں اپنے بچوں سے رابطہ اسروار رکھنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی والدین کے لیے قدرت کی ایک بہت بڑی نعمت بن گئی ہے''۔ اپنا نام ''قوی'' کی وجۂ جواز پر روشنی یوں ڈالی ''جب میں پیدا ہوا تھا تو بہت موٹا تازہ تھا، دیکھنے والوں نے مجھے مقوی کہنا شروع کردیا، تب ماموں جان نے میم ہٹا کر اللہ کے صفاتی نام پر میرا نام قوی رکھ دیا اور یوں میں مقوی سے محمد قوی خان بن گیا۔

اپنے بارے میں کہتے ہیں''میں پیدائشی اداکار ہوں، 72 سال کا ہو چلا ہوں لیکن اب بھی گھر سے کام کرنے کے لیے باہر نہ نکلوں تو بقول جون ایلیا ''یہ مجھے چین کیوں نہیں پڑتا'' والی کیفیت ہو جاتی ہے۔ میں کام کے معاملے میں انتخاب کرنے کے جھنجھٹ میں نہیں پڑتا، کام کرنے کے لیے گھر سے ایک مزدور کی طرح نکلتا ہوں، جو یہ نہیں دیکھتا کہ اُسے کیا کام ملے گا کیوں کہ میرا اب تک کوئی دوسرا ذریعۂ روزگار نہیں ہے، جو موجودہ اسٹیٹس ہے، وہ لوگوں کا دیا ہوا ہے اوراس ضمن میں مجھے اللہ تعالیٰ نے بہت نوازا ہے۔

ایک دن خیال آیا کہ جب آپ کی محنت کا صلہ مل جاتا ہو تو تب آپ کا رویہ کیسا ہونا چاہیے؟ اس پر میرا سر عجز سے جھک گیا، میرے خیال میں بندے کو زندگی مسلسل بدلتی رہتی ہے لیکن شکر الحمد اللہ میرے اندر زندگی کے مثبت رویوں میں تبدیلی نہیں آئی، زندگی نے مجھے مشکل ترین دن بھی دکھائے مگر ایک طاقت نے مجھے میرے نام کی طرح ہمیشہ مضبوط رکھا۔ ایک یہ احساس بھی بہت حوصلہ افزا تھا کہ زندگی میں جو کچھ بھی ملا ہے وہ تو میرا ہے ہی نہیں، پھر یہ سب کچھ کس کا ہے؟ تو تب مجھے محسوس ہوا کہ مُورکھ! یہ سب کچھ اُسی کا ہے، اس سوچ نے میری ساری مشکلیں ہی ختم کر دیں۔

اب میں اپنے گھر سے اُسی کا نام لے کر نکلتا ہوں اور اُسی کا نام لے کر گھر واپس آجاتا ہوں، اس دوران جو کچھ کماتا ہوں وہ اُسی کا دیا ہوتا ہے، اب یہ طے ہے کہ میں بہت بڑا آدمی نہیں اور نہ ہی چھوٹا آدمی ہوں، میں جو بھی ہوں، سرتسلیم خم ہوں، کیا اعلیٰ مقام دے رکھا ہے اُس نے مجھے، پھولوں کی طرح رکھا۔ میں کیا کچھ بتاوں، یہ میرے سجدے وجدے سب بے کار ہیں، بس اب تو اس ایک ایسے سجدے کی تلاش میں ہوں، جو قبول ہو جائے''۔

اپنے والد صاحب کا ذکرکرتے ہوئے کہنے لگے''پدرانہ شفقت کا احساس مجھے تب ہوا جب میں خود باپ بنا، جب ریڈیو پر کام کی وجہ سے رات گئے گھر آتا تھا تو والد صاحب گرمی سردی کے باوجود میرے انتظار میں جاگ رہے ہوتے تھے۔

جب تک میں گھر نہ آجاتا اُن کے حُقے کی آواز، اُن کے جاگنے کی نشانی بنی رہتی ۔ غصے کے باوجود میری بھوک کا انہیں بہت خیال رہتا تھا، کھانا رکھا ہوتا تھا، ان کی ڈانٹ بھی عجیب تھی، ذرا ملا حظہ ہو''ہوں ؛ تو آپ جناب آخر تشریف لے ہی آئے''۔ میں کہتا ''جی میں حاضر ہوں''۔ پھر کہتے'' حضور گراں نہ گزرے توکھانا نُوش فرما لیجے گا''۔ میں تنگ آجاتا تو کہتا '' قبلہ مجھے بھوک نہیں''۔ وہ بر ملا کہتے'' کھانا شروع کیجے، لگ جائے گی''۔ میں چُپ رہتا تو پھر کہتے'' کھانا خاصا لذیذ ہے، بسم اللہ فرمایے''۔


اس طرح کی ادبی ، مغلائی اور ڈرامائی نوک جھونک مع ڈانٹ ڈپٹ ہر رات ہوتی رہتی تھی اور والدصاحب کے حُقے کے دُھوئیں بھرے ایک لمبے کش پر یوں ختم ہو جاتی'' اللہ جانے ۔۔۔۔ آپ کا بنے گا کیا؟ اب آکر میری سمجھ میں آیا کہ اس کش کے دھوئیں میں تو ایک محبت بھری دعا ہوتی تھی جو آسمانوں کی طرف قبول ہونے کے لیے اوپر ہی اوپر اٹھتی چلی جاتی تھیِِ''۔

اپنی والدہ کو یاد کرتے ہوے بولے''وہ بالکل گھریلو اور ان پڑھ خاتون تھیں، نہایت شفیق ماں تھیں البتہ با با جان رعب داب والے تھے''۔ اپنے والدین کی خدمت نہ کرنے کے دکھ کو سینے سے لگائے ہوئے محمد قوی خان کہنے لگے''نیک اولاد کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جلد از جلد کچھ بن کر اپنے ماں باپ کی خدمت اور لاڈ پیار کی سعادت سے سرفراز ہوں، یہ سعادت نصیب والوں کا خاصا ہے، کبھی والدین بچوں کے سنہرے مستقبل سے پہلے اللہ کے پاس چلے جاتے ہیں تو کبھی بچے کچھ بننے بنانے کے چکر میں اس سعادت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ کاش میں بھی اس سعادت سے لطف اندوز ہوتا لیکن اللہ پاک نے میرے والدین کو بہت پہلے اپنے پاس بلا لیا تھا، کیا کرتا''۔

بچپن میں ہاکی اور کرکٹ کے شوق کا ذکرکرتے ہوئے کہا ''میں دونوں میدانوں کا برا کھلاڑی نہیں تھا، اچھی کرکٹ کھیلنے کی وجہ سے ہی تو بینک والوں نے میرا پشاور سے لاہور تبادلہ کیا تھا۔ 1961 میں جب لاہور آیا تو خوش قسمتی سے مجھے یہاں بہت اچھے اور پڑھے لکھے لوگ مل گئے۔

ان میں فیض احمد فیض، ڈاکٹر انور سجاد، کمال احمد رضوی، سید امتیاز علی تاج، یاسمین طاہر، نعیم طاہر اور بہت سے محترم لوگوں نے مجھے بے حد محبت اور شفقت دی۔ یہ سب لوگ اپنے اپنے شعبے کے استاد تھے، ان ہی کی وجہ سے ریڈیو اور تھیئیٹر کی مصروفیات بڑھ گئی تھیں۔ سید امتیاز علی تاج نے مجھے صدا اور ادا کے فن کی بہت سی باریکیوں سے آشنا کیا، نعیم طاہر نے کمال مہربانی سے مجھے تھیئیٹر سے وابستہ کیے رکھا، اس دوران کام سے کام رکھنے کی عادت پڑی جو اب بھی میرے ساتھ ہے۔ دوسری ایک عادت یہ بھی بنا لی تھی کہ روزمرہ زندگی میں ایکٹنگ نہیں کرنی اور ایکٹنگ کے وقت روزمرہ زندگی بسرنہیں کرنی''۔

پشاور تا لاہور بہ راہ جی ٹی روڑ اپنے فن کے سفر کی کتھا بیان کرتے ہوئے کہنے لگے''میں نے جب اس شوق کو اپنے اندر پالنے کا عملی فیصلہ کر لیا تھا تو میرے رؤسا اور صاحب ثروت رشتے داروں اور احباب نے بہت ناک بھوں چڑھائی، جملے کسے، ابا اماں کے کان بھرے، پٹھان روایات کے حوالے دیے، شکایتیں بھی لگائیں لیکن میں تن تنہا ڈٹا رہا اور جب غربت امارت کی طرف بڑھنے لگی تو سب رئیس رشتہ داروں کے رویے بدلنے لگے، مجھ سے خاندانی نوابوں والا سلوک ہونے لگا، سب عزت واحترام سے پیش آنے لگے اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ مجھ سے واقعی محبت کرنے لگے، جو مجھے پسند نہیں کرتے تھے، وہ بھی مجھے خود ملنے لگے۔

میں نے اس معاملے کو منفی انداز میں نہیں لیا، میں نے یوں سوچا کہ اگر نیت صاف اور سخت محنت سے کام کیا جائے تو وہ ہی کام آپ کی عزت بن جاتا ہے مثلاً، جب میں نے فلم کی دنیا میں قدم رکھا تھا تو مجھے کہا گیا کہ تم کو تو کیمرے کے سامنے کھڑا ہونا بھی نہیں آتا، اسی زمانے میں ایک صاحب نے میرے منہ پر تھپڑ بھی رسید کر دیا تھا لیکن پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ اُسی صاحب نے اپنے کیے کی معافی مانگی اور مجھے اپنی فلم میں کاسٹ کرنے کے لیے بے حد اصرار بھی کیا، آپ میری ایک بات یاد رکھیں ''جب اللہ تعالی نوازنے پر آتاہے تو سارے منہ خود بہ خود بند ہو جاتے ہیں۔

میں نے جب بھی محنت کی اُوپر والے نے اُس محنت کا صلہ ضرور دیا، اُس کی اس ایک بات سے تسلی ہے کہ مجھے اُوپر والے نے اسی میدان کے لیے منتخب کیا ہوا تھا''۔ شوبز کو ہر روز نیا امتحان قرار دیتے ہوئے کہا '' 1995 میں سلور سکرین کو خیر باد کہنے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ میرے پاس کام نہیں تھا، اصل ماجرا یہ تھا کہ میں نے سوچ لیا تھا کہ بس بہت ہو گئی، اب سمجھوتوں کے ساتھ کام نہیں کرنا، ان سمجھوتوں سے میرے کام کا معیار متاثر ہونے لگا تھا تو صحیح بات یہ ہے کہ میں نے کام نہیں ، سمجھوتے چھوڑے تھے''۔

اداکار پر کردار طاری ہونے کے حوالے سے کہنے لگے ''اگرکر دار، اداکار کو اپنے سحر میں جکڑ لے تو سمجھ لو کہ وہ بہت کم زور اداکار ہے۔ بہت دیر بعد مجھے علم ہوا کہ اگر اداکار نارمل نہیں رہے گا تو وہ سیکھے گا کیسے؟ وہ تو سیکھنے کی دوڑ سے ہی نکل جائے گا، اس لیے یہ طے شدہ بات ہے کہ جو کرداروں کے حصار میں پھنسے گا، وہ مارا جائے گا، اچھا اداکار وہی ہوتا ہے جو کردار کو بروقت اپنے اوپر طاری کر لے اور پھر اس میں سے زندہ سلامت نکل بھی آئے، کردار میں داخل ہوکر باہر نکلنا ہی اصلی اداکاری ہے''۔

محمد قوی خان نے پہلی مرتبہ کسی سے اپنی کام یابی کا ایک راز یوں شیئر کیا ''میں عادتاً سال ہا سال سے صبح چار بجے کے قریب اُٹھ جانے کا عادی ہوں، آج تک کسی کو اس بات کاعلم نہیں، تازہ ہوا میں مختصر سی سیر کے بعد میں دن کے تمام ضروری کاموں کا اجمالی جائزہ لیتا ہوں، اُن کی ترجیحات بناتا ہوں، آٹھ بجے تک ناشتہ کرکے فارغ ہوجاتا ہوں، اس کے بعد میں دوبارہ دو سے اڑھائی گھنٹے کے لیے سوجاتا ہوں۔ اس کے بعد کام پر نکلتا ہوں، پھر چاہے رات کے دوبجے تک کام کروں لیکن اس روٹین کو میں توڑتا نہیں۔ یہ عمل مجھے زندگی میں نظم وضبط قائم رکھنے میں بہت مدد دیتا ہے''۔

1968 میں شادی کرنے والے محمد قوی خان کہتے ہیں ''جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اداکار کو شادی نہیں کرنی چاہیے، غلط کہتے ہیں، میں نے شادی کی تو میری راہیں کشادہ ہونے لگیں، جب شادی ہوئی تو میں کام میں بہت مصروف تھا، اپنی ہی شادی میں صرف آدھے گھنٹے کے لیے شامل ہوسکا، دلہن کو گھر چھوڑ کر دوبارہ شوٹنگ پر جانا تھا''۔ اپنی اہلیہ کے ساتھ 45 سالہ رفاقت کو شان دار قرار دیتے ہوئے کہا '' بہت خوب ساتھ نبھایا ہے بھاگوان نے، میں اُس کا بہت مشکور ہوں''۔

محمد قوی خان جس طرح کام میں انتخاب کے قائل نہیں اسی طرح کھانے پینے میں بھی اللہ لوک واقع ہوئے ہیں، جومل گیا الحمدُاللہ؛ پہناوے میں بھی جو سامنے آجائے وہی اچھا لگا البتہ موسم معتدل ہی اچھا لگتا ہے۔

لوگوں کے معاملے میں کہنے لگے ''بیس پچیس سال پہلے میں نے ایک اصول بنا لیا تھا مثلاً، جو لوگ اچھے لگتے ہیں وہ تو اچھے لگتے ہی رہتے ہیں مگرجو نہیں لگتے اُن سے فاصلہ رکھا، بہت پہلے میں نے لوگوں سے ملنے میں تھوڑی احتیاط برتنا شروع کر دی تھی، فرض کیا میں ایک شخص سے دس منٹ کے لیے ملنا چاہتا تھا مگر اُس نے مجھے دو منٹ بھی نہیں دیے تو اُس کے بعد میں نے اس بندے سے نہ ملنے کو ہی بہتر سمجھا اگر ملا بھی، تو اُتنا ہی، جتنا اُس نے ملنا پسند کیا، اس سے ملاقات بد مزہ نہیں ہوتی''۔
Load Next Story