تحریک انصاف دھاندلی اور انقلاب
درجنوں مثالیں ایسی ملیں گی جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ قوموں کی قسمت بدلنے کے لیے حقیقت پسندانہ مستقل مزاجی کی ضرورت ہے۔
KARACHI:
میں زاہد ابراہیم کو2007کی وکلاء تحریک کے دنوں سے جانتا ہوں۔ مجھ پر تین سال بعد یہ انکشاف ہوا کہ قانون اور آئین کی بہترین سمجھ بوجھ رکھنے والا یہ نوجوان فخر الدین جی ابراہیم کا بیٹا ہے۔ تین سال کی اس جان پہچان کے دوران میں زاہد ابراہیم کو اْس کی صلاحیت اور ایمانداری کے حوالے سے ہی ملا کرتا تھا۔اْس کے بعد بھی یہ تعلق ویسے ہی قائم رہا اگرچہ ان کے والد کا حوالہ بھی شامل شناسائی ہوگیا۔
پرسوں ایکسپریس ٹریبون میں گزشتہ انتخابات کے بارے میں دس حقائق کے نام سے آرٹیکل لکھنے کے بعد زاہد ابراہیم کے خلاف سوشل میڈیا پر جو طوفان بدتمیزی مچا، وہ ہم جیسے صحافیوں کے لیے نیا یقیناً نہیں ہے۔ مگر اس متین قانون دان کو اس رد عمل نے بْری طرح کوفت میں مبتلا کردیا۔ مجھے ایک پیغام میں انھوں نے لکھاکہ '' مجھے ویسے ہی محسوس ہو رہا ہے۔ جب میں نے ضیاء الحق کے خلاف 1986میں اپنا پہلا کالم لکھا تھا تب ہراساں کیے جانے کے طریقے اور تھے اب اور ہیں''۔ مسئلہ زاہد ابراہیم کی رائے کا نہیں نہ ہی اْس کے نام اور نسبت کا ہے۔ اصل مصیبت یہ ہے کہ ہر کوئی حقائق صرف اپنی پسند کے مطابق تراشنا چاہتا ہے۔
زاہد ابراہیم کے آرٹیکل میں بڑا فلسفہ نہیں تھا اْس نے گزشتہ انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے مقدموں کو انتخابی ٹربیونلز کے ذریعے نپٹانے کی رفتار اور کارکردگی سے متعلق اعدادوشمار پیش کیے تھے۔ جس میں بتایا گیا تھا کہ اپنی قانونی مدت میں ان ٹربیونلز نے 70 فیصد شکایات پر فیصلہ کیا۔اس کے علاوہ عدلیہ کے کردار اور مختلف سیاست دانوں کی طرف سے اپنے مقدمات کو سنجیدگی یا غیرسنجیدگی سے لینے کی تفصیل بھی بتلائی تھی۔
پاکستان تحریک انصاف کی 58شکایتوں میں سے 38پر فیصلے کا ہونا اور خواجہ آصف بمقابلہ عثمان ڈار (110سیالکوٹ) میں ٹریبونل کے سربراہ کے ریمارکس بھی درج کیے گئے تھے۔جن میں لکھا تھا کہ عثمان ڈار نے کیسے اپنے مقدمے کو اپنی غیر حاضری کی وجہ سے خراب کیا اور وہ دھاندلی کے ثبوت پیش نہ کرنے کی وجہ سے یہ مقدمہ ہار گیا۔ ان دس حقائق کو بیان کرنے سے پاکستان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کارکنان نے لکھنے والے کی درگت بنانی شروع کر دی۔
کسی نے شایع کردہ اعدادوشمار اور ان سے اخذ کیے گئے نتائج کو رد نہیں کیا مگر اس کے باوجود کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ یہ آرٹیکل پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے تاریخی دھاندلی کے الزامات کے ان کمزور پہلوؤں کی نشاندہی کرتا ہے جس پر توجہ دیے بغیر ایک جمہوری اور سنجیدہ انداز سے اس مقدمے کو نہیں لڑا جا سکتا۔
پاکستان تحریک انصاف ایک تبدیلی کی جماعت بن کر سامنے آئی تھی اس کی قیادت نے ان تمام رویوں اور غلطیوں سے اجتناب کرنا تھا جس کی وجہ سے پاکستان میں ابھی تک وہ نظام قائم نہیں ہو سکا جو عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے قابل ہو اور جن میں سیاسی قوتیں جھوٹے نعروں سے قوم کو ورغلانے کی بدترین سزا پائیں۔اس تبدیلی کو لانے کے لیے سب سے اہم قدم حقائق سے آشنائی اور سچ کو تمام ترکڑواہٹ سمیت نگلنے کی صلاحیت پیدا کرنا تھا۔ جمہوری سیاست کا طرہ امتیاز اپنی غلطی کو ماننا اور فساد برپا کیے بغیر اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لانا سمجھا جاتا ہے۔
حالیہ تاریخ میں آپ کو درجنوں مثالیں ایسی ملیں گی جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ قوموں کی قسمت بدلنے کے لیے حقیقت پسندانہ مستقل مزاجی کی ضرورت ہے۔ طیب اردگان نے ترکی میں ترقیاتی انقلاب لانے سے پہلے استنبول شہر کے میئرکی حیثیت سے تاریخ سازکارنامے کیے، نریندر مودی کی خون آشام سیاست ایک طرف، گجرات کی ریا ست کی قسمت اْس نے اپنے ہاتھوں سے ایسی تبدیل کی کہ اْس سے جرائم اور دوسری کوتاہیاں سب کچھ چھپ گیا۔
انڈونیشیا کے نئے صدر کی تاریخ پڑھ لیں جو کووی ڈو ڈو پہلے سلو نامی شہر کے حالات کو یکسر تبدیل کر پایا پھر جکارتا کا گورنر بنا اور90سال کی عمر میں مسلمان دنیا کی سب بڑی صدارتی جمہوریت کے اعلیٰ ترین منصب پر پہنچا، دوسری انقلابی تبدیلیاں لانے والی شخصیات کی طرح تینوں لیڈران کے لیے اپنی پسند کا ماحول میسر نہیں تھا۔یہ تینوں ایک طرح سے موجودہ نظام کی تمام تر طاقت کے خلاف نبردآزما تھے۔طیب اردگان کو ترکی میں طاقت ور ترین اور نظام پر حاوی فوج کا سامنا تھا۔نریندر مودی کانگریس کی سیاست پر ایک صدی سے زیادہ کی اجارہ داری سے لڑ رہا تھا۔
جوکووی ڈو ڈو انڈونیشیا کے ناقابل تسخیر سیاسی چوہدریوں کے دائو پیچ کا شکار تھا۔ان سب نے نظام کے اندر رہتے ہوئے بہترین کارکردگی،دیانت داری اور استقلال کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کی ایسی کایا پلٹی کہ مخالفین سیلاب میں تنکوں کی طرح بہہ گئے۔ تبدیلی کے لیے تباہی ضروری نہیں ہے۔ بہترین قیادت سنگین ترین حالات میں گڈری کے لال کی طرح چمکتی ہے۔جو اچھا ہے وہ ہر وقت روتا نہیں ہے کام کرتا ہے۔ قیادت کا مقصد ذاتی بھڑاس یا غصہ نکالنا نہیں مثبت سمت فراہم کرنا ہے۔یہ حقائق ہیں۔سر جھٹکنے سے یہ تاریخ خذف نہیں ہوسکتی۔
پاکستان تحریک انصاف کو ایسے ہی تبدیلی لانا تھی جیسے دوسرے ممالک میں آئی ہے۔2013کے انتخابات نے اس جماعت کو ایک ایسا بہترین موقع فراہم کردیا تھا جس کو استعمال کرکے یہ پاکستان کی تقدیر بدل سکتی تھی۔خیبر پختونخوا کی حکومت عمران خان کے لیے ایسا ہی پلیٹ فارم تھی جیسا طیب اردگان کے لیے استنبول، مودی کے لیے گجرات اور جو کووی ڈوڈو کے لیے سلو اور جکارتا۔اس جماعت کا اصل امتحان لانگ مارچ اور دھرنوں میں افرادی قوت کا اظہار نہیں خیبر پختونخوا میں اس ماڈل کی بنیاد رکھنا تھا جس کو بعد میں ملک بھر میں لاگو کیا جاسکے مگر اس نادر موقع کو ناتجربہ کاری اور نااہلی نے گنوا دیا۔
خیبرپختونخوا کا دوسرے صوبوں کے ساتھ موازنہ ایک فضول بحث ہے۔پرویز خٹک، شہباز شریف سے کتنے آگے اور پیچھے ہیں یا قائم علی شاہ، ڈاکٹر عبدالمالک سے کم یا زیادہ متحرک ہیں۔یہ سب بے وقوفانہ موازنے ہیں۔صحیح زاویہ خیبر پختونخوا میں اس تبدیلی سے متعلق ہے جس کے حقائق اس طریقے سے بیان کریں کہ بند کان بھی کھل جائیں۔تبدیلی اور انقلاب کی کونپل کو پشاور میں کھلنا تھا تاکہ ملک کے باقی حصوں میں پھیلا ہوا صحرا گلستان میں بدل جائے۔یہاں پر تحریک انصاف کو ثابت کرنا تھا کہ وہ ملک گیر انقلابی تبدیلی لانے کی اہل ہے۔
یہ وہ جگہ تھی جہاں عمران خان کی قیادت کو ورلڈکپ جیتنے کی تاریخ سیاسی طور پر دہرانی تھی اور یہ سب کچھ کرنے کے لیے ماحول بھی موافق تھا۔دہشت گردی کے بدترین اثرات کے باوجود بہترین انداز حکمرانی کے طور طریقے اپنانے پر کوئی قدغن نہیں تھی مگر ہوا کیا' پہلے سال پیش کیے جانے والے بجٹ میں مختص ترقیاتی رقوم کا70 فیصد استعمال ہی نہیں ہو پایا اس کے باوجود اس کے79 بلین کی خطیر رقم "بلاک فنڈز" کے کھاتے میں رکھی گئی جس سے مراد یہ ہے کہ اس کا استعمال وزیراعلیٰ کسی بھی وقت کسی بھی جگہ پر کرسکتے ہیں (یاد رہے کہ نریندر مودی نے اسی قسم کا اختیار گجرات میں بہترین نتائج حاصل کر نے کے لیے کیا) اس سال اس قسم کے بلاک فنڈز کی رقم 94 بلین ہے۔ جن کو محترم وزیراعلیٰ کسی غیر ضروری تعطل کے بغیر فوری استعمال کرسکتے ہیں مگر یہ استعمال کیسے ہونگے، اس کے لیے صلاحیت اور منصوبہ بندی درکار ہے۔
انقلابی تبدیلی کے چنے ہوئے دو شعبوں میں سے ایک کا حال سن لیجیے۔پچھلے سال صحت کے لیے ترقیاتی بجٹ کا8.5 فیصد مختص کیا گیا تھا۔ انقلابی حکومت کے دوسرے سال میں اسے گھٹا کر8 فیصد کردیا گیا۔ دنوں اور ہفتوں میں پاکستان کو خود مختار اور بہترین ریاست بنانے کے وعدے اپنی جگی تبدیلی کی رفتار کا اندازہ ایبٹ آباد کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال کی حالت سے لگا لیجیے یہاں پر سہولیات کی بہتری کے لیے200 ملین روپے مختص کیے گئے تھے جو قابل ستائش ہے مگر پچھلے سال200 ملین میں سے 5 ملین صرف ہوسکے۔
اس سال 20 ملین لگائے جانے کا منصوبہ ہے۔کاغذوں پر اس اسپتال کو بہتر بنانے کا عمل2016میں مکمل ہوگا۔وہ بھی اس صورت میں کہ 20 ملین کی تمام رقم اس دوران استعمال ہو پائے۔دوسرے الفاظ میں ضلع کے ایک موجودہ اسپتال کو بہتر بنانے کے لیے 3،4 سال کا عرصہ درکار ہے مگر بیانات سنیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ جیسے عمران خان کے وزیراعظم بنتے ہی ملک ترقی کے سہرے پہن کر خوشی سے ناچ رہا ہوگا۔
سب کے لیے یکساں سہولیات مہیا کرنے کا وعدہ اپنی جگہ ،خیبر پختونخوا کا سب سے پسماندہ ضلع کوہستان صوبے کے بجٹ میں مختلف مختص کی ہوئی رقوم کا 0.41 فیصد حاصل کر پایا ہے۔اس کا اصل حق 8 فیصد کے قریب ہے یہی حال تمام ہزارہ ریجن کا ہے۔یہ قصہ بنوں،ڈیرہ اسماعیل خان، ہنگو،کوہاٹ، لکی مروت اور ٹانک کا ہے۔ ترقیاتی ترجیحات کا اندازہ رقوم صرف کرنے سے ہوتا ہے۔جدید زمانے میں انقلاب کارکردگی سے آتے ہیں۔ تحریک انصاف کو پاکستان تبدیل کروانے کے عمل کاآغاز خیبر پختونخوا سے کرنا تھا،14اگست کو اسلام آباد میں دھرنا دینے سے نہیں۔
میں زاہد ابراہیم کو2007کی وکلاء تحریک کے دنوں سے جانتا ہوں۔ مجھ پر تین سال بعد یہ انکشاف ہوا کہ قانون اور آئین کی بہترین سمجھ بوجھ رکھنے والا یہ نوجوان فخر الدین جی ابراہیم کا بیٹا ہے۔ تین سال کی اس جان پہچان کے دوران میں زاہد ابراہیم کو اْس کی صلاحیت اور ایمانداری کے حوالے سے ہی ملا کرتا تھا۔اْس کے بعد بھی یہ تعلق ویسے ہی قائم رہا اگرچہ ان کے والد کا حوالہ بھی شامل شناسائی ہوگیا۔
پرسوں ایکسپریس ٹریبون میں گزشتہ انتخابات کے بارے میں دس حقائق کے نام سے آرٹیکل لکھنے کے بعد زاہد ابراہیم کے خلاف سوشل میڈیا پر جو طوفان بدتمیزی مچا، وہ ہم جیسے صحافیوں کے لیے نیا یقیناً نہیں ہے۔ مگر اس متین قانون دان کو اس رد عمل نے بْری طرح کوفت میں مبتلا کردیا۔ مجھے ایک پیغام میں انھوں نے لکھاکہ '' مجھے ویسے ہی محسوس ہو رہا ہے۔ جب میں نے ضیاء الحق کے خلاف 1986میں اپنا پہلا کالم لکھا تھا تب ہراساں کیے جانے کے طریقے اور تھے اب اور ہیں''۔ مسئلہ زاہد ابراہیم کی رائے کا نہیں نہ ہی اْس کے نام اور نسبت کا ہے۔ اصل مصیبت یہ ہے کہ ہر کوئی حقائق صرف اپنی پسند کے مطابق تراشنا چاہتا ہے۔
زاہد ابراہیم کے آرٹیکل میں بڑا فلسفہ نہیں تھا اْس نے گزشتہ انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے مقدموں کو انتخابی ٹربیونلز کے ذریعے نپٹانے کی رفتار اور کارکردگی سے متعلق اعدادوشمار پیش کیے تھے۔ جس میں بتایا گیا تھا کہ اپنی قانونی مدت میں ان ٹربیونلز نے 70 فیصد شکایات پر فیصلہ کیا۔اس کے علاوہ عدلیہ کے کردار اور مختلف سیاست دانوں کی طرف سے اپنے مقدمات کو سنجیدگی یا غیرسنجیدگی سے لینے کی تفصیل بھی بتلائی تھی۔
پاکستان تحریک انصاف کی 58شکایتوں میں سے 38پر فیصلے کا ہونا اور خواجہ آصف بمقابلہ عثمان ڈار (110سیالکوٹ) میں ٹریبونل کے سربراہ کے ریمارکس بھی درج کیے گئے تھے۔جن میں لکھا تھا کہ عثمان ڈار نے کیسے اپنے مقدمے کو اپنی غیر حاضری کی وجہ سے خراب کیا اور وہ دھاندلی کے ثبوت پیش نہ کرنے کی وجہ سے یہ مقدمہ ہار گیا۔ ان دس حقائق کو بیان کرنے سے پاکستان تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کارکنان نے لکھنے والے کی درگت بنانی شروع کر دی۔
کسی نے شایع کردہ اعدادوشمار اور ان سے اخذ کیے گئے نتائج کو رد نہیں کیا مگر اس کے باوجود کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ یہ آرٹیکل پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے تاریخی دھاندلی کے الزامات کے ان کمزور پہلوؤں کی نشاندہی کرتا ہے جس پر توجہ دیے بغیر ایک جمہوری اور سنجیدہ انداز سے اس مقدمے کو نہیں لڑا جا سکتا۔
پاکستان تحریک انصاف ایک تبدیلی کی جماعت بن کر سامنے آئی تھی اس کی قیادت نے ان تمام رویوں اور غلطیوں سے اجتناب کرنا تھا جس کی وجہ سے پاکستان میں ابھی تک وہ نظام قائم نہیں ہو سکا جو عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کے قابل ہو اور جن میں سیاسی قوتیں جھوٹے نعروں سے قوم کو ورغلانے کی بدترین سزا پائیں۔اس تبدیلی کو لانے کے لیے سب سے اہم قدم حقائق سے آشنائی اور سچ کو تمام ترکڑواہٹ سمیت نگلنے کی صلاحیت پیدا کرنا تھا۔ جمہوری سیاست کا طرہ امتیاز اپنی غلطی کو ماننا اور فساد برپا کیے بغیر اپنی بہترین صلاحیتوں کو بروئے کار لانا سمجھا جاتا ہے۔
حالیہ تاریخ میں آپ کو درجنوں مثالیں ایسی ملیں گی جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ قوموں کی قسمت بدلنے کے لیے حقیقت پسندانہ مستقل مزاجی کی ضرورت ہے۔ طیب اردگان نے ترکی میں ترقیاتی انقلاب لانے سے پہلے استنبول شہر کے میئرکی حیثیت سے تاریخ سازکارنامے کیے، نریندر مودی کی خون آشام سیاست ایک طرف، گجرات کی ریا ست کی قسمت اْس نے اپنے ہاتھوں سے ایسی تبدیل کی کہ اْس سے جرائم اور دوسری کوتاہیاں سب کچھ چھپ گیا۔
انڈونیشیا کے نئے صدر کی تاریخ پڑھ لیں جو کووی ڈو ڈو پہلے سلو نامی شہر کے حالات کو یکسر تبدیل کر پایا پھر جکارتا کا گورنر بنا اور90سال کی عمر میں مسلمان دنیا کی سب بڑی صدارتی جمہوریت کے اعلیٰ ترین منصب پر پہنچا، دوسری انقلابی تبدیلیاں لانے والی شخصیات کی طرح تینوں لیڈران کے لیے اپنی پسند کا ماحول میسر نہیں تھا۔یہ تینوں ایک طرح سے موجودہ نظام کی تمام تر طاقت کے خلاف نبردآزما تھے۔طیب اردگان کو ترکی میں طاقت ور ترین اور نظام پر حاوی فوج کا سامنا تھا۔نریندر مودی کانگریس کی سیاست پر ایک صدی سے زیادہ کی اجارہ داری سے لڑ رہا تھا۔
جوکووی ڈو ڈو انڈونیشیا کے ناقابل تسخیر سیاسی چوہدریوں کے دائو پیچ کا شکار تھا۔ان سب نے نظام کے اندر رہتے ہوئے بہترین کارکردگی،دیانت داری اور استقلال کو بروئے کار لاتے ہوئے اس کی ایسی کایا پلٹی کہ مخالفین سیلاب میں تنکوں کی طرح بہہ گئے۔ تبدیلی کے لیے تباہی ضروری نہیں ہے۔ بہترین قیادت سنگین ترین حالات میں گڈری کے لال کی طرح چمکتی ہے۔جو اچھا ہے وہ ہر وقت روتا نہیں ہے کام کرتا ہے۔ قیادت کا مقصد ذاتی بھڑاس یا غصہ نکالنا نہیں مثبت سمت فراہم کرنا ہے۔یہ حقائق ہیں۔سر جھٹکنے سے یہ تاریخ خذف نہیں ہوسکتی۔
پاکستان تحریک انصاف کو ایسے ہی تبدیلی لانا تھی جیسے دوسرے ممالک میں آئی ہے۔2013کے انتخابات نے اس جماعت کو ایک ایسا بہترین موقع فراہم کردیا تھا جس کو استعمال کرکے یہ پاکستان کی تقدیر بدل سکتی تھی۔خیبر پختونخوا کی حکومت عمران خان کے لیے ایسا ہی پلیٹ فارم تھی جیسا طیب اردگان کے لیے استنبول، مودی کے لیے گجرات اور جو کووی ڈوڈو کے لیے سلو اور جکارتا۔اس جماعت کا اصل امتحان لانگ مارچ اور دھرنوں میں افرادی قوت کا اظہار نہیں خیبر پختونخوا میں اس ماڈل کی بنیاد رکھنا تھا جس کو بعد میں ملک بھر میں لاگو کیا جاسکے مگر اس نادر موقع کو ناتجربہ کاری اور نااہلی نے گنوا دیا۔
خیبرپختونخوا کا دوسرے صوبوں کے ساتھ موازنہ ایک فضول بحث ہے۔پرویز خٹک، شہباز شریف سے کتنے آگے اور پیچھے ہیں یا قائم علی شاہ، ڈاکٹر عبدالمالک سے کم یا زیادہ متحرک ہیں۔یہ سب بے وقوفانہ موازنے ہیں۔صحیح زاویہ خیبر پختونخوا میں اس تبدیلی سے متعلق ہے جس کے حقائق اس طریقے سے بیان کریں کہ بند کان بھی کھل جائیں۔تبدیلی اور انقلاب کی کونپل کو پشاور میں کھلنا تھا تاکہ ملک کے باقی حصوں میں پھیلا ہوا صحرا گلستان میں بدل جائے۔یہاں پر تحریک انصاف کو ثابت کرنا تھا کہ وہ ملک گیر انقلابی تبدیلی لانے کی اہل ہے۔
یہ وہ جگہ تھی جہاں عمران خان کی قیادت کو ورلڈکپ جیتنے کی تاریخ سیاسی طور پر دہرانی تھی اور یہ سب کچھ کرنے کے لیے ماحول بھی موافق تھا۔دہشت گردی کے بدترین اثرات کے باوجود بہترین انداز حکمرانی کے طور طریقے اپنانے پر کوئی قدغن نہیں تھی مگر ہوا کیا' پہلے سال پیش کیے جانے والے بجٹ میں مختص ترقیاتی رقوم کا70 فیصد استعمال ہی نہیں ہو پایا اس کے باوجود اس کے79 بلین کی خطیر رقم "بلاک فنڈز" کے کھاتے میں رکھی گئی جس سے مراد یہ ہے کہ اس کا استعمال وزیراعلیٰ کسی بھی وقت کسی بھی جگہ پر کرسکتے ہیں (یاد رہے کہ نریندر مودی نے اسی قسم کا اختیار گجرات میں بہترین نتائج حاصل کر نے کے لیے کیا) اس سال اس قسم کے بلاک فنڈز کی رقم 94 بلین ہے۔ جن کو محترم وزیراعلیٰ کسی غیر ضروری تعطل کے بغیر فوری استعمال کرسکتے ہیں مگر یہ استعمال کیسے ہونگے، اس کے لیے صلاحیت اور منصوبہ بندی درکار ہے۔
انقلابی تبدیلی کے چنے ہوئے دو شعبوں میں سے ایک کا حال سن لیجیے۔پچھلے سال صحت کے لیے ترقیاتی بجٹ کا8.5 فیصد مختص کیا گیا تھا۔ انقلابی حکومت کے دوسرے سال میں اسے گھٹا کر8 فیصد کردیا گیا۔ دنوں اور ہفتوں میں پاکستان کو خود مختار اور بہترین ریاست بنانے کے وعدے اپنی جگی تبدیلی کی رفتار کا اندازہ ایبٹ آباد کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اسپتال کی حالت سے لگا لیجیے یہاں پر سہولیات کی بہتری کے لیے200 ملین روپے مختص کیے گئے تھے جو قابل ستائش ہے مگر پچھلے سال200 ملین میں سے 5 ملین صرف ہوسکے۔
اس سال 20 ملین لگائے جانے کا منصوبہ ہے۔کاغذوں پر اس اسپتال کو بہتر بنانے کا عمل2016میں مکمل ہوگا۔وہ بھی اس صورت میں کہ 20 ملین کی تمام رقم اس دوران استعمال ہو پائے۔دوسرے الفاظ میں ضلع کے ایک موجودہ اسپتال کو بہتر بنانے کے لیے 3،4 سال کا عرصہ درکار ہے مگر بیانات سنیں تو ہمیں بتایا جاتا ہے کہ جیسے عمران خان کے وزیراعظم بنتے ہی ملک ترقی کے سہرے پہن کر خوشی سے ناچ رہا ہوگا۔
سب کے لیے یکساں سہولیات مہیا کرنے کا وعدہ اپنی جگہ ،خیبر پختونخوا کا سب سے پسماندہ ضلع کوہستان صوبے کے بجٹ میں مختلف مختص کی ہوئی رقوم کا 0.41 فیصد حاصل کر پایا ہے۔اس کا اصل حق 8 فیصد کے قریب ہے یہی حال تمام ہزارہ ریجن کا ہے۔یہ قصہ بنوں،ڈیرہ اسماعیل خان، ہنگو،کوہاٹ، لکی مروت اور ٹانک کا ہے۔ ترقیاتی ترجیحات کا اندازہ رقوم صرف کرنے سے ہوتا ہے۔جدید زمانے میں انقلاب کارکردگی سے آتے ہیں۔ تحریک انصاف کو پاکستان تبدیل کروانے کے عمل کاآغاز خیبر پختونخوا سے کرنا تھا،14اگست کو اسلام آباد میں دھرنا دینے سے نہیں۔