حکومت پاکستان کو کیا کرنا چاہیے

طالبان سے مذاکرات کے خواہش مند اور ضربِ عضب سے نالاں تبدیلی کے نام پر جمہوریت ہی کو ڈی ریل کرنے پر بضد اور مصر ہیں۔


Dr Mansoor Norani August 07, 2014
[email protected]

فلسطینیوں پر اسرائیل کی بربریت اور سفاکیت پر ہمارے لوگوں کی جانب سے احتجاج ایک یقینی فطری ردِ عمل تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اِس سے زیادہ ہم کر بھی کیا سکتے تھے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ہماری حکومت صرف زبانی کلامی مذمت کر کے خاموش ہو گئی۔ اُسے چاہیے تھا کہ آگے بڑھ کر اسرائیلی حکومت کا ہاتھ روک لیتی۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ ساری عرب ریاستیں اور اسلامی دنیا تو محض خاموش تماشائی بنی رہے اور ہزاروں میل دور پاکستان جس کے اپنے مسائل بے تحاشہ ہیں، اُنہیں بھول کر ایک ایسی جنگ میں خود کو ملوث کر دے جس کے بعد خود اُس کا اپنا وجود بھی خطروں سے دوچار ہو جائے۔

فلسطینی ریاست کے اطراف میں اُس کی جغرافیائی سرحدوں سے منسلک کئی اسلامی ممالک ہیں جو اگر چاہیں تو یہ کام با آسانی کر سکتے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ وہ اپنے بے گناہ مسلمان بھائیوں کا درد اور غم رکھتے ہوئے بھی ایسا کر نے سے گریزاں ہے۔ عالمی سطح پر آج کل اسرائیل کے مظالم کی ہر جانب سے بھر پور مذمت کی جا رہی ہے اور پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سمیت سوشل میڈیا پر معصوم اور نہتے فلسطینی بچوں کی تصاویر لوگوں کا ضمیر جگانے کے لیے گرچہ ایک سعیِ لاحاصل کے طور پر یقینا دکھائی جا رہی ہیں لیکن بس اِس کے آگے کچھ بھی نہیں۔ ایسا لگتا ہے چند دنوں کا شور ہے جو رفتہ رفتہ ٹھنڈا پڑ جائے گا اور ہم سب اِن اندوہناک واقعات کو بھلا کر اپنی اپنی دنیا میں پھر سے مگن ہو جائیں گے۔

ہمارے کچھ اہلِ نظر اور ترقی پسند اہلِ علم و دانش کا خیال ہے کہ پاکستان کب تک دوسروں کا مقدمہ لڑتا رہے گا۔ کیا خود اُس کے مسائل اور مصائب ختم ہو چکے ہیں جو وہ اُنہیں چھوڑ کر اسرائیل سے معرکہ آرائی میں اپنی ساری قوت اور توانائی صرف کرنے لگے۔ ہم ابھی تک تو خود اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو پائے ہیں۔ ہماری کمزور معیشت اور ناتواں مملکت کیا اِس کی متحمل ہو سکتی ہے۔ ہم تو ابھی تک کشمیر کا مقدمہ بھی نہیں جیت پائے ہیں اور کیا ہمارے فوجی جوان جو اپنی مشرقی سرحدوں کی حفاظت کرتے کرتے اب مغربی سرحدوں پر بھی اپنی جانیں نثار کر رہے ہیں، فلسطین کی حفاظت میں بھی اپنی جانیں قربان کرنے لگیں۔ ہم تو ابھی اپنے وطن سے نائن الیون کی جنگ کا ملبہ بھی سمیٹ نہیں پائے ہیں۔

طالبان سیکٹر کی تباہ کاریاں اور حشر سامانیاں ہمارے وطن کو ساری دنیا میں نہ صرف اکیلا اور تنہا کر گئی ہیں بلکہ انتہائی مضمحل اور کمزور بھی کر گئی ہیں۔ ہم اپنے لوگوں کی لاشیں اُٹھا تے اُٹھاتے تھک ہار چکے ہیں۔ بلوچستان اور وزیرستان سمیت ہمارا کوئی شہر بھی دہشت گردوں کے حملوں سے محفوظ نہیں ہے۔ دس سال سے زیادہ اِس عالمی جنگ میں کِس نے ہمارا ساتھ دیا۔ ساتھ تو کوئی کیا دیتا کسی نے اخلاقی طور پر بھی ہمیں دلاسہ او ر سہارا نہ دیا۔ بلکہ سب ہمیں ایک دہشت گرد ملک قرار دیکر ہمارے خلاف پابندیاں لگاتے رہے۔ ہمارے لوگوں کو شرمسار اور رسوا کرتے رہے۔ اور ہمیں ایک ناکام ریاست کے شہری کے طور پر پکارتے رہے۔

یہ رسوائی اور ہزیمت ہمارے نصیب میں لکھ دی گئی۔ دنیا کے کسی ملک نے دہشت گردی کی اِس عالمی جنگ میں اِتنا نقصان نہیں اُٹھایا ہو گا جتنا ہم نے ایک بے بس اور لاچار ملک کے باسیوں کے طور پر اُٹھایا۔ اور اب بھی ہمارے کچھ سیاستداں اپنی سیاست چمکانے کے لیے حکومت کو اسرائیل کے خلاف جنگ پر اُکسا رہے ہیں۔ تحریکِ انصاف پارٹی کے سربراہ کو شکایت ہے کہ وزیرِ اعظم جناب جب رمضان کے مہینے میں سعودی عرب گئے تھے تو وہاں شاہ عبداللہ سے ملاقات میں فلسطین کے معاملے پر کیوں نہ بات کی۔

موصوف خود تو ماہِ رمضان میں امریکا اور برطانیہ کے دورے پر نکل گئے اور وزیرِ اعظم پر یہ ذمے داری عائد کر دی کہ شاہ عبداللہ سے مذاکرات کر کے اسرائیل کو نیست و نابود کرنے کا بندوبست کرتے۔ میاں صاحب کو اپنے بلے سے پھینٹیاں لگانے والے کا دعویٰ کرنے والے خود یہ کام کیوں انجام نہیں دے لیتے۔ اُنہیں سعودی عرب جانے سے کِس نے روکا ہے۔ خود کو اِس ملک کا وزیرِ اعظم تصور کرنے والے عالمی شہرت کے حامل اِس سیاستداں کو بین الاقوامی سیاست میں بھی کوئی جوہر دکھانے چاہیے۔ اپنے ملک میں بڑی بڑی بڑھکیں مارنا تو بڑا آسان کام ہے، ذرا باہر نکل کر اور مغربی دنیا میں جا کر فلسطینیوں سے اظہار ِ ہمدردی کر کے دِکھائیں تو مانیں۔

عمران خان اچھی طرح جانتے ہیں اسرائیل سے محاذ آرائی کا مطلب امریکا سے لڑائی مول لینا ہے اور وہ یہ کام تصور میں بھی نہیں کر سکتے ہیں۔ فی الحال وہ اپنے پاکستان ہی میں شور شرابا اور تہلکہ مچانے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔ 14 اگست کو سارا ملک بند کر دینے کی اپنی دھمکیوں کو عملی جامہ پہنانے کی ترکیبیں ترتیب دینے میں سرگرداں ہیں۔

طالبان سے مذاکرات کے خواہش مند اور ضربِ عضب سے نالاں تبدیلی کے نام پر جمہوریت ہی کو ڈی ریل کرنے پر بضد اور مصر ہیں۔ اُنہیں بھلا اتنی فرصت کہاں کہ فلسطینیوں پر ڈھائے گئے مظالم پر بین الاقوامی سطح پر کوئی کارنامہ سرانجام دے پائیں۔ اُنکی سیاست کا محور تو بنی گالا سے شروع ہو کر لاہور میں ختم ہو جاتا ہے۔ اِس سے آگے اُن کے پاؤں ساکت ہو جاتے ہیں۔ اُنہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اسرائیل یا امریکا سے دشمنی مستقبل میں اُن کے وزیرِ اعظم بننے کی اُمیدوں پر پانی پھیر دینے کے مترادف ہے۔

پاکستان آجکل جن مشکلات سے دوچار ہے اُس میں حکمرانوں سے یہ توقع کرنا کہ وہ اپنے وطن کو چھوڑ کر دوسروں کے لیے اپنے فوجی جوان قربان کر دیں گے ایسا قطعی طور پر ممکن نہیں ہے۔ ہمارے سپاہی اپنے لوگوں کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔ وہ اپنے عوام کے آرام و سکون کے لیے ملک کی سرحدوں پر سخت موسم میں بھی اپنی ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں۔ پاکستان اِس سے قبل کویت اور عراق جنگ میں اپنا سر پھنسا کے دیکھ چکا ہے۔ اُسے دوسروں کی ناراضی، خفگی اور بدنامی کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔

پاکستان کی اسرائیل سے براہِ راست کوئی دشمنی بھی نہیں ہے۔ ایک برادر اسلامی ملک کے طور پر وہ اپنا فرض بڑی خوش اسلوبی سے نبھا رہا ہے۔ ہم نے تو اسرائیل کو ابھی تک سرکاری طور پر تسلیم بھی نہیں کیا ہے، جنہوں نے اُسے تسلیم کیا ہوا ہے وہی جب خاموش اور چُپ ہیں تو حکومتِ پاکستان کو کیا غرض پڑی ہوئی ہے کہ بلاوجہ امریکا اور اسرائیل سے دشمنی مول لے۔ فلسطین کے مظلوم لوگوں پر آتش و آہن کی بارش بلاشبہ ایک سنگین معاملہ ہے۔ اِس پر ہم بے حسی اور بے ضمیری کا مظاہرہ ہرگز نہیں کر سکتے۔

نہتے اور معصوم فلسطینیوں کا بہتا خون سب کو دکھائی دے رہا ہے۔ یہ دنیا کی ساری تہذیبی، معاشرتی اور اخلاقی روایتوں کی دعوے دار اقوامِ عالم کی اجتماعی ذمے داری ہے کہ اسرائیل کو اُس کے ظالمانہ اور سفاکانہ طرزِ عمل پر مجرم قرار دیکر اُس کے خلاف تادیبی کارروائی کریں۔ اکیلا پاکستان تنہا یہ کام سر انجام نہیں سکتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں