3 بیگمات 36 بیٹے بیٹیاں حسرت باقی…
البتہ اسے بچوں کی شناخت میں دشواری ہوتی ہے کہ کونسا بچہ کس بیوی سے ہے۔ ۔۔
حاتم طائی کے باتصویر قصے میں ایک سوال تھا، ایک بار دیکھا ہے، دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے۔ بالکل اسی طرح کچھ دن پہلے آئی ڈی پیز کے بنوں کیمپ میں گلزار خان نے ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے انکشاف کیا کہ اس کی 3 بیویاں اور 36 بچے ہیں، لیکن ابھی تک حسرت باقی ہے کہ چوتھی بیوی بھی ہو، لیکن جیب اجازت نہیں دیتی۔
کئی سال پہلے کی بات ہے کہ حیدرآباد میں ایک وکیل صاحب بہت مشہور تھے کہ گھنٹوں کسی کے پاس بیٹھنے کے بعد بھی انھیں حسرت رہتی تھی کہ دل ابھی بھرا نہیں۔ ایک دفعہ میں اور کچھ دوست ڈگری کے امتحان کے لیے مشترکہ اسٹڈی کرتے تھے۔ رات کے 9 بجے ہم کھانا کھانے باہر نکلے، تو چھڑی ہاتھ میں گھماتے ہوئے وہ اتنے سامنے آ گئے اور ادھر ادھر کی باتوں میں اپنے جوانی کے کارہائے نمایاں بتاتے رہے، ایک گھنٹہ گزر گیا۔
ہم جان چھڑانے کے چکر میں اور ان کی داستانیں تھیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ ایک گھنٹہ اور گزر گیا۔ ہم نے انھیں یاد دلایا کہ ان کا گھر تقریباً 4،3 میل کے فاصلے پہ تھا اور انھیں چھڑی گھماتے ہوئے وہاں پیدل جانا ہے۔ اس پر انھیں یاد آیا کہ انھیں اپنی بیٹی کی طبیعت ناساز تھی اور اس کے لیے ڈاکٹر کے پاس جانا تھا۔ پھر بھی وہ جانے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ ہم نے ان سے گزارش کی کہ آپ کا ڈاکٹر کے پاس جانا اشد ضروری تھا، تب ایک حسرت بھری نظروں سے ہماری طرف دیکھ کر انھوں نے الوداع کہا، کہ دل ابھی بھرا نہیں۔
خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ بات چل رہی تھی گلزار خان کی۔ ٹی وی پر ان کو دیکھا کہ 5 شہزادوں کو اپنی گود میں اٹھا ئے ہوئے تھے، جن میں سے 2،2 تو جڑواں نظر آ رہے تھے، باقی ایک اکیلا تھا۔ شاید ان میں 6 بچوں کو ایک ساتھ اٹھانے کی سکت نہیں تھی۔ بہرحال اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ شریعت کے حکم کے موجب وہ بچوں میں مساوات رکھ سکتا تھا اور یہ بھی بتانا چاہ رہا تھا کہ چوتھی بیگم سے بھی ملک کی قلیل آبادی میں درجن بھر کا اضافہ کر سکتا تھا۔ اس بات کا بھی قوی امکان تھا کہ چوتھی بیوی سے آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ باقی 3 کو بھی فارغ نہیں رکھتا۔ اس نے بتایا کہ اس کے 2 بیٹے ملک سے باہر کما رہے ہیں، ان کی بھی اولاد ہے، جن کی تفصیل اس نے نہیں بتائی۔
وہ اپنی کامیابیوں اور کامرانیوں پر بہت خوش تھا، بلکہ اس نے تو پاکستان کی ٹوپی میں عالمی شہرت کا پَر لگا دیا ہے، کہ شاید ہی دنیا میں کوئی اور جوان مرد ہو جو اتنا بڑا اسکور بنا سکتا ہو۔ شاید ابھی تک گنیز بک والوں کے نظر اس پر نہیں پڑی۔ شاید اب پڑ جائے۔ اس نے چوتھی بیوی کے سلسلے میں ابھی تک ہمت نہیں ہاری۔ اس کا کہنا تھا کہ بچوں کو کیمپ میں لانے اور اس کے علاوہ دوسرے اخراجات کی وجہ سے وہ اس پر عمل نہیں کر پایا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس عمل پیہم کے لیے کچھ عرصہ بعد پیسے جمع کرے گا۔ اس نے بتایا کہ اس کا پورا خاندان 100 افراد پر مشتمل ہے، جو اس کے گاؤں شاوا 35 کمروں والی حویلی میں رہتا تھا۔
جمہوریت میں تو طاقت کا سرچشمہ عوام کو سمجھا جاتا ہے، لیکن ہمارے مشرقی قبائلی معاشرے میں آج بھی طاقت کا سرچشمہ بیٹوں، مال مویشی کی تعداد کو سمجھا جاتا ہے۔ ویسے ہمارے ملک کے چاروں صوبے ویسے تو علیحدہ علیحدہ کلچر کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن ان میں غیرت یکساں ہے، یعنی غیرت کے نام پر اپنی بہو بیٹیوں کو قتل کرنا۔ شادیوں میں بڑی بوڑھیاں دلھا، دلھن کو کثیر تعداد میں بیٹوں کی دعائیں دیتی ہیں (ان کے پاس بیٹیوں کے لیے کوئی دعا نہیں ہوتی، کیونکہ ان بوڑھیوں کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ وہ خود بھی کسی دن غیرت کے نام پر قتل کی جا سکتی ہیں۔
ایسی بھی مثالیں ملتی ہیں کی 5، 6 جوان بچوں والی عمر رسیدہ ماؤں کو بھی غیرت کے نام پر بیٹوں کے ہاتھ قتل ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے)۔ قران پاک کی سورہ التکویر 81 کی آیت 8 میں لکھا ہے، ''اور جب زندہ گاڑے جانے والی (لڑکی) کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔'' کاش ہمارے ملک کے ''اسلامی'' آئین میں غیرت کے نام پر قتل پر کوئی سزا ہوتی، جب کہ ہمارے غیرت مند لوگوں کے لیے یہ قتل باعث فخر ہوتے ہیں۔
خیر، میں کہاں سے کہاں چلا گیا۔ گلزار خان نے بتایا کہ 17 سال کی عمر میں پہلی دفعہ دلھا بنا، جب کہ اس کی دلہن 14 سال کی تھی۔ اس کے بعد باقی دو دفعہ۔ اس کی تینوں بیویوں نے 1،1 درجن بچوں کے بعد ہتھیار ڈال دیے، اس لیے اسے چوتھی کی حسرت ابھی بھی ہے۔ البتہ اس کا یہ کمال ہے کہ تینوں ایک ہی چھت کے نیچے رہتی ہیں اور ان کے درمیان بڑی مفاہمت ہے، کوئی جھگڑا شگڑا نہیں ہوتا۔
البتہ اسے بچوں کی شناخت میں دشواری ہوتی ہے کہ کونسا بچہ کس بیوی سے ہے۔ اس نے کہا کہ اسے بیویوں اور بچوں کے پالنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی، البتہ اس کو شکایت ہے کہ اسے بیویوں سے پرائیویسی میسر نہیں ہے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ اس کو ابھی اور کتنی پرائیویسی مطلوب ہے کہ مندرجہ بالا بیان کیے ہوئے وکیل صاحب کی طرح دل ابھی بھرا نہیں، کہ چوتھی کی حسرت ہے۔ ایف پی کے نمایندے نے اس سے بیویوں سے انٹرویو لینے کی اجازت مانگی، جو اس نے نہیں دی۔
اس نے بتایا کہ وہ 1976سے 1992تک دبئی میں ٹیکسی چلاتا تھا۔ اب اس کے دو بیٹے بھی وہاں ٹیکسی چلاتے ہیں اور فی بیٹا، 50000 روپیہ ماہانہ بھیجتا ہے۔ اس نے بتایا کہ 12 سال پہلے اسے دل کا عارضہ ہوا۔ اِس وقت بھی اسے السر کی شکایت ہے، ڈاکٹروں نے اسے خوش رہنے کی ہدایت کی ہے، جو خوشی شاید اسے چوتھی شادی ہی دے سکے گی۔
گلزار خان کا کیس بہت ہی فقیدالمثال ہے، لیکن ہمارے مشرقی قبائلی معاشرے میں لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ایک بیوی سے اولاد نا ہو تو دوسری شادی کرنی چاہیے، لیکن اب دنیا تبدیل ہو چکی ہے۔ ویسے بڑی بوڑھیوں کی عادت ہوتی ہے کہ شادی کے پہلے دوسرے مہینے ہی خوشخبری کی ٹوہ میں لگ جاتی ہیں، جن میں ساس، نندوں کے ساتھ ساتھ پڑوسنیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ کئی سال پہلے میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ اس کے ہاں اولاد نہیں ہو رہی ہے اور اس کی والدہ اسے دوسری شادی کے لیے زور دے رہی ہے۔ میں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اپنی بیوی کو کسی لیڈی ڈاکٹر کو دکھائیں۔ شکر ہے کہ اس نے میرے مشورے پر عمل کیا۔ آج وہ مجھے دعائیں دیتا ہے۔
میرے دوستوں کے خاندان میں ایک ایسی مثال بھی ہے کہ ایک صاحب کے ہاں اولاد نہیں ہو رہی تھی۔ اس نے اپنی بیوی کو میکے بھیج دیا اور دوسری شادی رچائی۔ اتفاق یہ ہوا کہ جس خاتون سے اس نے شادی رچائی وہ پہلے سے شادی شدہ تھی اور اس کے ایک بیٹا بھی تھا۔ شادی کے بعد آج تک ان صاحب کے ہاں اولاد نہیں ہوئی، حالانکہ اس نے بہت علاج بھی کرایا لیکن تاحال کوئی خوشخبری سنائی نہیں دی۔ پہلی بیوی اب بیوگی کی زندگی گزار رہی ہے۔ حالانکہ قران پاک میں ارشاد ہے کہ دوسری شادی یا شادیوں کی صورت میں پہلی بیویوں کو لٹکا کے نہیں رکھو۔ ان کے ساتھ بھی انصاف کرو۔
بہرحال گلزار خان کو میرا مفت مشورہ ہے کہ لاہور یا کراچی میں کوئی اکادمی کھولے، جس میں وہ ایک سے زیادہ بیویوں کے مفاہمت کے ساتھ رہنے کے گْر بتائیں، اس سے اس کے پاس بہت سارا پیسہ بھی آ جائے گا اور وہ اپنی حسرت بھی پوری کر لے گا۔
کئی سال پہلے کی بات ہے کہ حیدرآباد میں ایک وکیل صاحب بہت مشہور تھے کہ گھنٹوں کسی کے پاس بیٹھنے کے بعد بھی انھیں حسرت رہتی تھی کہ دل ابھی بھرا نہیں۔ ایک دفعہ میں اور کچھ دوست ڈگری کے امتحان کے لیے مشترکہ اسٹڈی کرتے تھے۔ رات کے 9 بجے ہم کھانا کھانے باہر نکلے، تو چھڑی ہاتھ میں گھماتے ہوئے وہ اتنے سامنے آ گئے اور ادھر ادھر کی باتوں میں اپنے جوانی کے کارہائے نمایاں بتاتے رہے، ایک گھنٹہ گزر گیا۔
ہم جان چھڑانے کے چکر میں اور ان کی داستانیں تھیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ ایک گھنٹہ اور گزر گیا۔ ہم نے انھیں یاد دلایا کہ ان کا گھر تقریباً 4،3 میل کے فاصلے پہ تھا اور انھیں چھڑی گھماتے ہوئے وہاں پیدل جانا ہے۔ اس پر انھیں یاد آیا کہ انھیں اپنی بیٹی کی طبیعت ناساز تھی اور اس کے لیے ڈاکٹر کے پاس جانا تھا۔ پھر بھی وہ جانے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ ہم نے ان سے گزارش کی کہ آپ کا ڈاکٹر کے پاس جانا اشد ضروری تھا، تب ایک حسرت بھری نظروں سے ہماری طرف دیکھ کر انھوں نے الوداع کہا، کہ دل ابھی بھرا نہیں۔
خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا۔ بات چل رہی تھی گلزار خان کی۔ ٹی وی پر ان کو دیکھا کہ 5 شہزادوں کو اپنی گود میں اٹھا ئے ہوئے تھے، جن میں سے 2،2 تو جڑواں نظر آ رہے تھے، باقی ایک اکیلا تھا۔ شاید ان میں 6 بچوں کو ایک ساتھ اٹھانے کی سکت نہیں تھی۔ بہرحال اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ شریعت کے حکم کے موجب وہ بچوں میں مساوات رکھ سکتا تھا اور یہ بھی بتانا چاہ رہا تھا کہ چوتھی بیگم سے بھی ملک کی قلیل آبادی میں درجن بھر کا اضافہ کر سکتا تھا۔ اس بات کا بھی قوی امکان تھا کہ چوتھی بیوی سے آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ باقی 3 کو بھی فارغ نہیں رکھتا۔ اس نے بتایا کہ اس کے 2 بیٹے ملک سے باہر کما رہے ہیں، ان کی بھی اولاد ہے، جن کی تفصیل اس نے نہیں بتائی۔
وہ اپنی کامیابیوں اور کامرانیوں پر بہت خوش تھا، بلکہ اس نے تو پاکستان کی ٹوپی میں عالمی شہرت کا پَر لگا دیا ہے، کہ شاید ہی دنیا میں کوئی اور جوان مرد ہو جو اتنا بڑا اسکور بنا سکتا ہو۔ شاید ابھی تک گنیز بک والوں کے نظر اس پر نہیں پڑی۔ شاید اب پڑ جائے۔ اس نے چوتھی بیوی کے سلسلے میں ابھی تک ہمت نہیں ہاری۔ اس کا کہنا تھا کہ بچوں کو کیمپ میں لانے اور اس کے علاوہ دوسرے اخراجات کی وجہ سے وہ اس پر عمل نہیں کر پایا۔ اس کا کہنا تھا کہ اس عمل پیہم کے لیے کچھ عرصہ بعد پیسے جمع کرے گا۔ اس نے بتایا کہ اس کا پورا خاندان 100 افراد پر مشتمل ہے، جو اس کے گاؤں شاوا 35 کمروں والی حویلی میں رہتا تھا۔
جمہوریت میں تو طاقت کا سرچشمہ عوام کو سمجھا جاتا ہے، لیکن ہمارے مشرقی قبائلی معاشرے میں آج بھی طاقت کا سرچشمہ بیٹوں، مال مویشی کی تعداد کو سمجھا جاتا ہے۔ ویسے ہمارے ملک کے چاروں صوبے ویسے تو علیحدہ علیحدہ کلچر کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن ان میں غیرت یکساں ہے، یعنی غیرت کے نام پر اپنی بہو بیٹیوں کو قتل کرنا۔ شادیوں میں بڑی بوڑھیاں دلھا، دلھن کو کثیر تعداد میں بیٹوں کی دعائیں دیتی ہیں (ان کے پاس بیٹیوں کے لیے کوئی دعا نہیں ہوتی، کیونکہ ان بوڑھیوں کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ وہ خود بھی کسی دن غیرت کے نام پر قتل کی جا سکتی ہیں۔
ایسی بھی مثالیں ملتی ہیں کی 5، 6 جوان بچوں والی عمر رسیدہ ماؤں کو بھی غیرت کے نام پر بیٹوں کے ہاتھ قتل ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے)۔ قران پاک کی سورہ التکویر 81 کی آیت 8 میں لکھا ہے، ''اور جب زندہ گاڑے جانے والی (لڑکی) کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔'' کاش ہمارے ملک کے ''اسلامی'' آئین میں غیرت کے نام پر قتل پر کوئی سزا ہوتی، جب کہ ہمارے غیرت مند لوگوں کے لیے یہ قتل باعث فخر ہوتے ہیں۔
خیر، میں کہاں سے کہاں چلا گیا۔ گلزار خان نے بتایا کہ 17 سال کی عمر میں پہلی دفعہ دلھا بنا، جب کہ اس کی دلہن 14 سال کی تھی۔ اس کے بعد باقی دو دفعہ۔ اس کی تینوں بیویوں نے 1،1 درجن بچوں کے بعد ہتھیار ڈال دیے، اس لیے اسے چوتھی کی حسرت ابھی بھی ہے۔ البتہ اس کا یہ کمال ہے کہ تینوں ایک ہی چھت کے نیچے رہتی ہیں اور ان کے درمیان بڑی مفاہمت ہے، کوئی جھگڑا شگڑا نہیں ہوتا۔
البتہ اسے بچوں کی شناخت میں دشواری ہوتی ہے کہ کونسا بچہ کس بیوی سے ہے۔ اس نے کہا کہ اسے بیویوں اور بچوں کے پالنے میں کوئی دشواری نہیں ہوئی، البتہ اس کو شکایت ہے کہ اسے بیویوں سے پرائیویسی میسر نہیں ہے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ اس کو ابھی اور کتنی پرائیویسی مطلوب ہے کہ مندرجہ بالا بیان کیے ہوئے وکیل صاحب کی طرح دل ابھی بھرا نہیں، کہ چوتھی کی حسرت ہے۔ ایف پی کے نمایندے نے اس سے بیویوں سے انٹرویو لینے کی اجازت مانگی، جو اس نے نہیں دی۔
اس نے بتایا کہ وہ 1976سے 1992تک دبئی میں ٹیکسی چلاتا تھا۔ اب اس کے دو بیٹے بھی وہاں ٹیکسی چلاتے ہیں اور فی بیٹا، 50000 روپیہ ماہانہ بھیجتا ہے۔ اس نے بتایا کہ 12 سال پہلے اسے دل کا عارضہ ہوا۔ اِس وقت بھی اسے السر کی شکایت ہے، ڈاکٹروں نے اسے خوش رہنے کی ہدایت کی ہے، جو خوشی شاید اسے چوتھی شادی ہی دے سکے گی۔
گلزار خان کا کیس بہت ہی فقیدالمثال ہے، لیکن ہمارے مشرقی قبائلی معاشرے میں لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ایک بیوی سے اولاد نا ہو تو دوسری شادی کرنی چاہیے، لیکن اب دنیا تبدیل ہو چکی ہے۔ ویسے بڑی بوڑھیوں کی عادت ہوتی ہے کہ شادی کے پہلے دوسرے مہینے ہی خوشخبری کی ٹوہ میں لگ جاتی ہیں، جن میں ساس، نندوں کے ساتھ ساتھ پڑوسنیں بھی شامل ہوتی ہیں۔ کئی سال پہلے میرے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ اس کے ہاں اولاد نہیں ہو رہی ہے اور اس کی والدہ اسے دوسری شادی کے لیے زور دے رہی ہے۔ میں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ اپنی بیوی کو کسی لیڈی ڈاکٹر کو دکھائیں۔ شکر ہے کہ اس نے میرے مشورے پر عمل کیا۔ آج وہ مجھے دعائیں دیتا ہے۔
میرے دوستوں کے خاندان میں ایک ایسی مثال بھی ہے کہ ایک صاحب کے ہاں اولاد نہیں ہو رہی تھی۔ اس نے اپنی بیوی کو میکے بھیج دیا اور دوسری شادی رچائی۔ اتفاق یہ ہوا کہ جس خاتون سے اس نے شادی رچائی وہ پہلے سے شادی شدہ تھی اور اس کے ایک بیٹا بھی تھا۔ شادی کے بعد آج تک ان صاحب کے ہاں اولاد نہیں ہوئی، حالانکہ اس نے بہت علاج بھی کرایا لیکن تاحال کوئی خوشخبری سنائی نہیں دی۔ پہلی بیوی اب بیوگی کی زندگی گزار رہی ہے۔ حالانکہ قران پاک میں ارشاد ہے کہ دوسری شادی یا شادیوں کی صورت میں پہلی بیویوں کو لٹکا کے نہیں رکھو۔ ان کے ساتھ بھی انصاف کرو۔
بہرحال گلزار خان کو میرا مفت مشورہ ہے کہ لاہور یا کراچی میں کوئی اکادمی کھولے، جس میں وہ ایک سے زیادہ بیویوں کے مفاہمت کے ساتھ رہنے کے گْر بتائیں، اس سے اس کے پاس بہت سارا پیسہ بھی آ جائے گا اور وہ اپنی حسرت بھی پوری کر لے گا۔