وزیراعظم کے استعفے سے کم بات نہیں ہوگیعمران خان کاواضح جواب

بااختیارپارلیمانی کمیٹی بنانے پرمذاکرات کاعندیہ تاہم مارچ کافیصلہ واپس لینے سے صاف انکار

سیاسی خلیج کودورکرنے کیلیے درمیانہ راستہ نکالیں، سراج الحق اوردیگررہنماؤں کے پیغامات. فوٹو: فائل

مختلف سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کی جانب سے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان سے مسلسل رابطوں کے بعدانھوں نے عندیہ دے دیا ہے کہ وہ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے اگربااختیار پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے تووہ اس کمیٹی سے مذاکرات کیلیے تیارہیں۔

عمران خان نے واضح طور پران رابطہ کارشخصیات کو آگاہ کیا ہے کہ سب سے پہلے ان کا یہ مطالبہ تسلیم کیا جائے کہ وزیر اعظم استعفیٰ دینے پرآمادہ ہوں، تاہم مذاکراتی آپشن کاحتمی فیصلہ تحریک انصاف کی کور کمیٹی کرے گی۔ انھوں نے واضح کیاکہ وہ14اگست کوآزادی مارچ کے انعقادکافیصلہ کسی صورت میں واپس نہیں لیں گے۔

انتہائی باخبرذرائع نے ایکسپریس کوبتایا کہ حکومت کی جانب سے پیپلزپارٹی،جماعت اسلامی اوردیگرشخصیات سے رابطوں اور موجودہ صورتحال میں حکومت کی مددکرنے کی درخواست کے بعدان سیاسی شخصیات نے عمران خان سے ٹیلی فون اورملاقاتوں میں موجودہ سیاسی صورتحال خصوصاًعمران خان کی جانب سے وزیراعظم کے استعفیٰ اورنئے انتخابات کرانے سے متعلق تفصیلی مشاورت ہوئی ہے۔ ان سیاسی رہنماؤں نے عمران خان کو یہ پیغام دیاہے کہ وہ موجودہ صورتحال میں بات چیت کا راستہ اختیار کریں اور کوئی درمیانہ راستہ نکالیں تاکہ حکومت اورتحریک انصاف کے مابین مذاکراتی عمل شروع ہوسکے تاہم ان سیاسی شخصیات کی جانب سے مذاکراتی عمل کے آپشن پرعمران خان نے واضح کیاہے کہ موجودہ صورت حال میں وزیراعظم کو استعفیٰ دینا پڑے گا ،اگر وزیرا عظم سیاسی دانشمندی کا مظاہرہ کریں اوراستعفیٰ دیں تو پھر مذاکراتی آپشن پر غور کیا جاسکتاہے۔


ان سیاسی شخصیات نے عمران خان سے کہاہے کہ وہ وزیرا عظم کے استعفے اورمڈٹرم انتخابات کے مطالبے پرنظر ثانی کریں ،عمران خان نے ان سیاسی شخصیات کواس ہونے والی مشاورت میں کہاہے کہ وہ مذاکراتی آپشن کامعاملہ اپنی پارٹی کی کور کمیٹی کے سامنے رکھیں گے تاہم ملک میں جمہوری نظام کی بقاکیلیے وہ پارلیمانی جماعتوں سے بات چیت کیلیے تیار ہیں ،حکومت سے براہ راست مذاکرات کرنے کے حوالے سے انھوں نے معذرت کرلی ہے ،تاہم جماعت اسلامی کے امیرسراج الحق نے عمران خان سے ہونے والی ملاقات میں انھیں کہا ہے کہ وہ آئندہ 48سے 72گھنٹوں میں اپنے پارٹی کے رہنماؤں سے مشاورت کریں اور حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان جو خلیج قائم ہوئی ہے اسے ختم کرنے کیلیے بات چیت کا راستہ اختیار کریں۔

سراج الحق کی درخواست پرعمران خان نے کہاہے کہ اس حوالے سے وہ پارٹی سے مشاورت کے بعدجواب دیںگے ،دوسری جانب ان شخصیات نے عمران خان سے ہونے والے رابطوں اورمشاورت سے وزیرا عظم اورمسلم لیگ کی قیادت کو آگاہ کردیاہے،جس کے بعد حکومت نے جماعت اسلامی کے امیرسراج الحق اوراپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ سے درخواست کی ہے کہ وہ موجودہ صورت حال میں عمران خان سے بدستور رابطہ قائم رکھیں۔

اگر عمران خان وزیر اعظم کے مستعفی ہونے کے مطالبے سے دستبردار ہوجائیں تو حکومت پارلیمانی جماعتوں کی موجودگی میں مذاکرات کیلیے تیار ہے اور اس حوالے سے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثاراور سینیٹر اسحاق ڈار حکومت کی جانب سے پارلیمانی جماعتوں کی موجودگی میں عمران خان کے مطالبات پران سے بات چیت کرسکتے ہیں۔حکومتی حلقوں کاکہناہے کہ اگر عمران خان نے وزیرا عظم کے مستعفی ہونے اورمڈٹرم انتخابات کرانے کے مطالبات پرنظر ثانی نہیں کی اورمذکراتی پالیسی اختیارنہیں کی توتحریک انصاف کے خلاف کریک ڈاؤن پالیسی اختیار کی جائے گی اوراگر حالات انتہائی گھمبیرنظر آئے تو عمران خان سمیت تحریک انصاف کی قیادت کو ایم پی او کے تحت نظر بند کردیا جائے گا اور انتشار پھیلانے کے لیے لوگوں کو اکسانے اور امن و امان کی صورت حال خراب کرنے پر ان کی پارٹی کے رہنماؤں پر مقدمات بھی درج کیے جائیں گے تاہم یہ آخری آپشن ہے۔ایک اہم ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت نے ڈاکٹر طاہر القادری کو بھی پیغام دیا ہے ۔

کہ اگر وہ بھی معاملات کو افہام و تفتہیم سے حل کرنا چاہتے ہیں توگورنرپنجاب کے ذریعے ان سے بات چیت کی جاسکتی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت اس معاملے کابھی جائزہ لے رہی ہے کہ 10اگست کو یوم شہداکے موقع پرعوامی تحریک 14اگست کو تحریک انصاف کے آزادی مارچ کے موقع پران کا ساتھ دینے کیلیے انقلابی مارچ کااعلان کرسکتی ہے ،اس صورت حال کے حوالے سے بھی حکومتی شخصیات مختلف جماعتوں سے رابطے میں ہیں اور حکومت کی پہلی ترجیح عمران اورطاہرالقادری سے مذاکرات کی ہے تاہم اگر ریاستی رٹ کوچیلنج کیاجائیگاتوپھر حکومت قانون کے مطابق ایکشن لے گی۔
Load Next Story