دنیا بھر سے بھارتیوں کا بھی جواب نہیں
ریپیسٹ عام لوگوں کے روپ میں ہی ہوتے ہیں اور عام لوگوں کی طرح ہی ان کو پیش کرنا پڑتا ہے۔
انڈیا والوں کا بھی جواب نہیں۔ عامر خان کی نئی فلم '' پی کے''کے پوسٹر پر اس لئے اعتراض کیا گیا ہے کہ اس سے معاشرے میں عریانیت پھیلنے کا خطرہ ہے۔ حالانکہ اِسی عامر خان نے فلم جو جیتا وہی سکندر میں پوجا بیدی کو فرنچ کِس کیا تھا، لیکن تب انڈیا کے کسی کونے سے بھی تھو تھو نہیں ہوئی تھی اور نہ ہی اُس وقت انڈیا کی فلموں میں عمران ہاشمی ہو اکرتے تھے کہ لوگوں کو ایسے سین دیکھنے کی عادت ہو۔لیکن اب جبکہ بھارتی فوٹو گرافر راج شیٹھی نے ماڈلز کے ذریعے معاشرے میں ریپ کے بڑھتے واقعات کو آشکار کرنے کی کوشش کی ہے تو ہر طرف سے مخالف سمت سے آوازیں اُٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔ کئی خواتین نے ٹویٹ کیا ہے کہ اس تصویر سے بلاتکاری (Rapist)خود کو ماڈلز تصور کرنا شروع کر دیں گے، جس سے معاشرے پر غلط اثر پڑے گااور ریپ کے واقعات بڑھنے کے خدشات ہیں۔
پہلا سوال تو یہ ہے کہ اگرراج شیٹھی نے ان ریپیسٹ کو جنگلیوں اور درندوں کی شکل میں پیش کیا ہوتا تو کیا اُس کو داد ملنی تھی؟ ریپیسٹ عام لوگوں کے روپ میں ہی ہوتے ہیں اور عام لوگوں کی طرح ہی ان کو پیش کرنا پڑتا ہے تاکہ لوگ محتاط ہوں اور ہر خوش شکل اور مہذب نظر آنے والے شخص پہ اعتبار نہ کریں۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ریپ کے واقعات کو تصویروں، خاکوں اور ڈراموں کے ذریعے آشکار کرنا غلط ہے؟ اگر ہاں تو پھر انڈیا کی بہت سی فلموں میں اس طرح کے سین فلم بند ہوئے ہیں ، پہلے اُن کے خلاف تحریک شروع کرنی چاہئے۔
تیسراسوال یہ ہے کہ اگر اس تصویر سے دُنیا میں انڈیا کا غلط امیج جاتا ہے تو کیا ایسے واقعات اوراُن کو آشکار کرنے کی کوششوں کو دبا دینا چاہئے۔ دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعوے دار لوگوں کو ایک فنکار کی تخلیقی کوششوں کا سراہنا چاہئے نہ کہ حدود و قیود کے پیمانے لگا کر فنکاروں کو تنقید کا حدف بنایا جائے۔
انڈیا میں کسی خاتون نے کبھی فیشن شوز پر تو اعتراض نہیں کیا۔ جس میں نیم برہنا خواتین مٹک مٹک کر بھارتی مصنوعات کی تشہیر کرتی ہیں۔اُس کو تو آرٹ اور کلا کا نام دیا جاتا ہے۔فیشن اور پروڈکٹ کے پروموشن کے نام پر پتلی پتلی خواتین چند کترنیں پہن کر آرٹ کے جلوے بکھیرتی ہیں اور انڈین ثقافت کی سفیر بن جاتی ہیں۔ لیکن فوٹو گرافر راج شیٹھی نے ایک واقعے کو فنکاروں کی مدد سے آشکار کرنے کی کوشش کی تو آگ لگ گئی اور اسے سستی شہرت کا ذریعہ کہا گیا۔
کبھی کسی نے انڈین فلموں میں بولڈ سین پر بھی قیامت بھرپا کی ہے؟۔ اڈلٹ فلموں کی رانی سنی لیون انڈیا میں لا کر بیٹھا دی گئی جو فلموں میں جلوے بکھیرتی پھرتی ہیں لیکن بے چارہ فوٹو گرافر راج شیٹھی ایک تصور بنا کر صفائیاں دیتا پھر رہا ہے۔ جبکہ سنی لیون ہر محفل کی جان بنی ہوئی ہے اور فلمی شوز میں شرکت کرتی ہے۔ کبھی کسی خاتون نے یہ اعتراض نہیں کیا کہ یہ خاتون نوجوانوں کو کیوں دکھائی جا رہی ہے، اس کی تو سینکڑوں عریاں فلمیں انٹر نیٹ پر فری دستیاب ہیں۔
شاعر حضرات شاعری کرتے منظر سے خالق کو بھی غائب کر دیتے ہیں لیکن اُس کی خیر ہے، پر فوٹو گرافر تصویر بنا کر تنقید کی سولی پرلٹک جائے۔ یہ انصاف نہیں۔انڈیا میں تخلیقی کام ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر گئے ہیں، اس لئے اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ کی سطح پر اس کے لئے قانون سازی کی جائے۔مختلف فنون کو نہ صرف فنونِ لطیفہ کا حصہ بنا کر اس کا دائرہ وسیع کرنا چاہئے بلکہ فنونِ لطیفہ پر تنقید کے کچھ پیمانے ہونے چاہئے۔ تنقید تو بھارتی حکمران پارٹی کے اُن دوستوں پر کرنی چاہئے جو ریپ کے واقعات کی رپورٹینگ کو فیشن کہہ رہے ہیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
پہلا سوال تو یہ ہے کہ اگرراج شیٹھی نے ان ریپیسٹ کو جنگلیوں اور درندوں کی شکل میں پیش کیا ہوتا تو کیا اُس کو داد ملنی تھی؟ ریپیسٹ عام لوگوں کے روپ میں ہی ہوتے ہیں اور عام لوگوں کی طرح ہی ان کو پیش کرنا پڑتا ہے تاکہ لوگ محتاط ہوں اور ہر خوش شکل اور مہذب نظر آنے والے شخص پہ اعتبار نہ کریں۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا ریپ کے واقعات کو تصویروں، خاکوں اور ڈراموں کے ذریعے آشکار کرنا غلط ہے؟ اگر ہاں تو پھر انڈیا کی بہت سی فلموں میں اس طرح کے سین فلم بند ہوئے ہیں ، پہلے اُن کے خلاف تحریک شروع کرنی چاہئے۔
تیسراسوال یہ ہے کہ اگر اس تصویر سے دُنیا میں انڈیا کا غلط امیج جاتا ہے تو کیا ایسے واقعات اوراُن کو آشکار کرنے کی کوششوں کو دبا دینا چاہئے۔ دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعوے دار لوگوں کو ایک فنکار کی تخلیقی کوششوں کا سراہنا چاہئے نہ کہ حدود و قیود کے پیمانے لگا کر فنکاروں کو تنقید کا حدف بنایا جائے۔
انڈیا میں کسی خاتون نے کبھی فیشن شوز پر تو اعتراض نہیں کیا۔ جس میں نیم برہنا خواتین مٹک مٹک کر بھارتی مصنوعات کی تشہیر کرتی ہیں۔اُس کو تو آرٹ اور کلا کا نام دیا جاتا ہے۔فیشن اور پروڈکٹ کے پروموشن کے نام پر پتلی پتلی خواتین چند کترنیں پہن کر آرٹ کے جلوے بکھیرتی ہیں اور انڈین ثقافت کی سفیر بن جاتی ہیں۔ لیکن فوٹو گرافر راج شیٹھی نے ایک واقعے کو فنکاروں کی مدد سے آشکار کرنے کی کوشش کی تو آگ لگ گئی اور اسے سستی شہرت کا ذریعہ کہا گیا۔
کبھی کسی نے انڈین فلموں میں بولڈ سین پر بھی قیامت بھرپا کی ہے؟۔ اڈلٹ فلموں کی رانی سنی لیون انڈیا میں لا کر بیٹھا دی گئی جو فلموں میں جلوے بکھیرتی پھرتی ہیں لیکن بے چارہ فوٹو گرافر راج شیٹھی ایک تصور بنا کر صفائیاں دیتا پھر رہا ہے۔ جبکہ سنی لیون ہر محفل کی جان بنی ہوئی ہے اور فلمی شوز میں شرکت کرتی ہے۔ کبھی کسی خاتون نے یہ اعتراض نہیں کیا کہ یہ خاتون نوجوانوں کو کیوں دکھائی جا رہی ہے، اس کی تو سینکڑوں عریاں فلمیں انٹر نیٹ پر فری دستیاب ہیں۔
شاعر حضرات شاعری کرتے منظر سے خالق کو بھی غائب کر دیتے ہیں لیکن اُس کی خیر ہے، پر فوٹو گرافر تصویر بنا کر تنقید کی سولی پرلٹک جائے۔ یہ انصاف نہیں۔انڈیا میں تخلیقی کام ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کر گئے ہیں، اس لئے اس امر کی اشد ضرورت ہے کہ پارلیمنٹ کی سطح پر اس کے لئے قانون سازی کی جائے۔مختلف فنون کو نہ صرف فنونِ لطیفہ کا حصہ بنا کر اس کا دائرہ وسیع کرنا چاہئے بلکہ فنونِ لطیفہ پر تنقید کے کچھ پیمانے ہونے چاہئے۔ تنقید تو بھارتی حکمران پارٹی کے اُن دوستوں پر کرنی چاہئے جو ریپ کے واقعات کی رپورٹینگ کو فیشن کہہ رہے ہیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔