کیا کھویا کیا پایا

گزشتہ چھ دہائیوں میں پیش آنیوالے سلسلہ وار واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس قسم کا سوال صرف تعلیمی سطح پر ہی کیا ۔۔۔

برصغیر کی آزادی یا مسلمانوں اور ہندوؤں کی مذہب کی بنیاد پر نقل مکانی کی مدت اب 67 سال ہو گئی ہے۔ مجھے 14 اگست کو سیالکوٹ شہر میں اپنا گھر چھوڑنا یاد ہے کیونکہ پاکستان کی نئی ریاست غیر مسلموں کو قبول کرنے کی قائل نہیں تھی، بالکل اسی طرح جس طرح مشرقی پنجاب کسی مسلمان کو اپنے یہاں نہیں رکھنا چاہتا تھا۔ میں نے جواہر لعل نہرو کی مشہور تقریر پاکستان میں ہی سنی اپنے آبائی شہر سیالکوٹ کے گھر میں۔

تاہم میں نے17 ستمبر کو سرحد عبور کی جب کہ آزادی کو بیس دن گزر چکے تھے اس وقت تک قتل و غارت اور لوٹ مار کے جنون میں قدرے کمی آ چکی تھی۔ میں نے ہندووں اور مسلمانوں کو جھگڑا کرتے یا سچ مچ مار کٹائی کرتے نہیں دیکھا۔ لیکن میں نے مردوں عورتوں کے درد بھرے چہرے دیکھے جنہوں نے ہاتھوں میں یا سر پر اپنی ساری پونجی اٹھا رکھی تھی اور بری طرح سہمے ہوئے بچے ان کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے۔ مسلمانوں اور ہندوئوں دونوں نے اپنے پیچھے اپنے چولہے، گھر بار' ہمسایوں اور دوستوں کو چھوڑ دیا تھا۔ دونوں کو ان کی تاریخ کے اوراق سے پھاڑ پھینکا گیا دونوں پناہ گزین بن گئے۔

تقسیم کا المیہ اسقدر گہرا ہے کہ اسے لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا لیکن اس بات کو ہندوئوں اور مسلمانوں پر منطبق کرنا اس مسئلے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کرنے کے مترادف ہے۔ فسادات میں دس لاکھ سے زیادہ لوگوں کو قتل کیا گیا جب کہ دو کروڑ ہندوئوں' مسلمانوں اور سکھوں کو ان کے گھروں سے اکھاڑ پھینکا گیا۔ پاکستان میں بعض حضرات فسادات کو صرف مسلمانوں پر ظلم و ستم سے تعبیر کرتے ہیں' اس سے ہندوئوں کے خلاف مسلمانوں کی نفرت کو بڑھاوا ملتا ہے حالانکہ ان پر بھی پاکستان میں ویسا ہی ظلم و ستم ہوا جیسا کہ بھارت میں مسلمانوں پر ہوا۔

اس وحشیانہ قتل و غارت کی کہانیوں کے باوجود بہادری' شجاعت اور دلیری کی مثالیں بھی ہیں جو مسلمانوں نے ہندوئوں کو بچانے میں دکھائیں اور ہندوئوں نے ویسی ہی دلیری سے مسلمانوں کی حفاظت کی۔ بھارت کے ایک چوٹی کے دانشور اشیش نندی نے باقاعدہ تحقیق سے بتایا کہ دونوں مذاہب کے ماننے والوں نے ایک دوسرے کے 50 فیصد افراد کو قتل ہونے سے بچایا۔آخر ان لوگوں کی قتل و غارت کیوں ہوئی جو صدیوں سے اکٹھے رہ رہے تھے؟ اس وقت اس بات سے بے معنی اور کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ برصغیر کی تقسیم کا حقیقت میں ذمے دار کون تھا۔

گزشتہ چھ دہائیوں میں پیش آنیوالے سلسلہ وار واقعات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس قسم کا سوال صرف تعلیمی سطح پر ہی کیا جا سکتا ہے عملاً ایسا ممکن نہیں۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ 1940ء کی دہائی تک ہندوئوں اور مسلمانوں کے اختلافات اس حد تک بڑھ چکے تھے کہ تقسیم کی طرح کی کوئی بات ناگزیر بن گئی تھی۔ وہ لوگ جو ابھی تک تقسیم پر افسوس کرتے ہیں ان کے لیے میں صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ برطانوی حکمران اگر چاہتے تو برصغیر کو متحد رکھ سکتے تھے بشرطیکہ وہ 1942ء میں مقامی آبادی کو زیادہ اختیارات دینے پر تیار ہوتے۔ یہ وہ وقت تھا جب سرسٹیفورڈ کرپس نے برصغیر میں مفاہمت پیدا کرانے کی مختصر سی کوشش کی۔

کانگریس پارٹی بھی ایسا کر سکتی تھی اگر وہ 1946ء کی کیبنٹ مشن کی تجاویز قبول کر لیتی کہ امور خارجہ' دفاع اور مواصلات مرکز کے پاس رہیں گے باقی اختیارات ان چار ریاستوں کو سونپ دیے جائیں گے جو اس خطے میں قائم ہونگی۔لیکن تاریخ کی اگر مگر اچھی ہو تو مفروضوں تک محدود رہتی ہے اور اگر بری ہو تو اس میں ذاتی پسند نا پسند داخل ہو جاتی ہیں۔ تقسیم یونانی المیے کی طرح تھی۔ سب کو پتہ تھا کہ کیا ہو رہا تھا لیکن اس کے باوجود سب ہی اس کو روکنے میں بے بس تھے۔ ملک کی فضا اسقدر آلودہ ہو چکی تھی کہ اب انتقال آبادی کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں رہا تھا۔


محمد علی جناح نے، جنھیں قائداعظم کا خطاب مہاتما گاندھی نے دیا تھا' کہا تھا کہ آپ یا بھارتی ہیں یا پاکستانی ہیں اور یہ کہ مذہب کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں لیکن پاکستان کے آئین میں قائداعظم کا یہ تصور موجود نہیں۔ ان کی یہ تقریر بہت تاخیر سے سامنے آئی لیکن اس ملک کے اصل حکمرانوں کے موڈ کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے اپنے قائد کی وہ تقریر ہی ریڈیو پر نشر نہیں ہونے دی۔اب سوال یہ ہے کہ کیا تقسیم نے مسلمانوں کا مقصد پورا کر دیا ہے؟

میں اس کا جواب نہیں جانتا۔ اس ملک کے اپنے بہت سے دوروں کے دوران میں نے سنا لوگ کہہ رہے ہیں کہ وہ خوش ہیں کیونکہ انھیں کوئی جگہ مل گئی جہاں وہ محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ جہاں ہندوئوں کی بالادستی نہیں اور نہ ہندوئوں کی دہشت ہے لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ مسلمان' مسلمان ہونے کی حیثیت سے سب سے زیادہ خسارے میں رہے۔ اب وہ تین ملکوں میں بٹ چکے ہیں۔ بھارت' پاکستان اور بنگلہ دیش میں۔ اندازہ لگائیں کہ غیر منقسم برصغیر میں ان کی اسقدر کثیر تعداد اور ان کے ووٹ کسقدر زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے۔

وہ مجموعی آبادی کا ایک تہائی سے زیادہ ہوتے۔سرحد پر سہولتیں دیے جانے سے دونوں برادریوں کے درمیان خلیج میں اور زیادہ اضافہ ہو گا لیکن ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے زیادہ بہتر یہ ہو گا کہ دشمنی اور نفرت کو کم کیا جائے جو بنیادی طور پر تقسیم کا ردعمل ہے۔میں واہگہ' امرتسر بارڈر سے بڑے مغموم دل کے ساتھ واپس آیا ہوں۔ اس وجہ سے نہیں کہ وہاں غروب آفتاب کے موقع پر ہونے والی فوجیوں کی تقریب کے کرّ و فر میں کوئی نرمی پیدا نہیں ہوئی بلکہ وہاں ایک نئی تبدیلی پیدا ہوتی دکھائی دی۔

پاکستانی بارڈر پر بہت بڑے بڑے دس بینر لگا دیے گئے ہیں جن میں دکھایا گیا کہ ہندوئوں اور سکھوں نے تقسیم کے وقت کس طرح مسلمانوں کو قتل کیا اور لوٹ مار کی۔ یہ بینرز اس رخ سے لگائے گئے ہیں کہ وہ صرف بھارتی جانب سے ہی دکھائی دیتے ہیں پاکستان کی طرف سے ان کی پچھلی سائیڈ نظر آتی ہے۔یہ بل بورڈ گزشتہ دو مہینوں میں نصب کیے گئے ہیں۔ شاید اس وجہ سے کہ پاکستان میں بھارت کے ساتھ امن قائم کرنے کی آواز مضبوط ہو رہی ہے اور کیونکہ گزشتہ سال بارڈر کے زیرو پوائنٹ پر موم بتیاں جلانے کے لیے تقریباً 50 لوگ وہاں اکٹھے ہو گئے تھے۔

اور پھر یہ بات بھی ہے کہ بارڈر پر جو ہورڈنگز لگائے گئے ہیں ان میں پوری حقیقت بیان نہیں کی گئی۔ ان میں جو دکھایا گیا ہے وہ دونوں طرف ہوا۔ ہندو اور سکھ پاکستان میں نشانہ بنے اور مسلمان انڈیا میں۔ اور نئے بننے والے ملکوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ جس میں وحشت و بربریت کی کوئی کمی نہیں ہوتی۔ عورتیں اور بچے سب سے بڑا نشانہ ہوتے ہیں۔اگر کوئی مجھے یہ کہے کہ ہندوئوں میں زیادہ فراخدلی ہے یا مسلمانوں میں زیادہ محبت ہے تو میں معذرت چاہتے ہوئے اختلاف رائے کی جسارت کروں گا۔ میں نے دونوں مذاہب کے ماننے والوں کو عقیدے کے نام پر ایک دوسرے کے گلے کاٹتے دیکھا ہے۔

نیزے بھالے اور تلواریں ایک دوسرے کو گھونپتے ہوئے ہر ہر مہادیو اور یا علی کے نعرے لگاتے ہوئے دیکھا ہے۔ کچھ واقعات کو اس وقت شایع ہونے والی کتابوں میں شامل کر لیا گیا۔ ''اور انسان مر گیا'' رامانند ساگر کی مشہور کتاب ہے اور ''پشاور ایکسپریس'' نامی کتاب اردو کے ممتاز مصنف کرشن چندر نے لکھی جس میں ان واقعات کو بیان کیا گیا ہے کہ انسان کیسے مرتا ہے جب اس کے اندر کا شیطان جاگ اٹھتا ہے اور پھر سعادت حسن منٹو کے افسانے جو اردو میں ہیں اور جو بتاتے ہیں کہ کس طرح دونوں مذاہب کے ماننے والوں نے مجرمانہ بے حسی کی انتہائوں کو چھو لیا۔ (ترجمہ:مظہر منہاس)
Load Next Story