ہم اب کس کے مہرے ہیں
رائے عامہ اب ایک بے معنی اصطلاح ہے۔ ۔۔۔
بقول غالبؔ ایک ہنگامہ پہ موقوف ہے گھر کی رونق۔ لیکن معاملہ کی بات یہ ہے کہ جس گھر کی رونق ہنگامہ پہ موقوف ہو اس کا اللہ ہی والی ہے۔ بدقسمتی سے جس خراب آباد یا شاد آباد گھر کا نام پاکستان ہے اس کی تقدیر میں وہی کچھ لکھا گیا ہے جس کا ذکر غالبؔ نے کیا ہے۔ ہر ہنگامہ گزرنے کے بعد شرفا اطمینان کا سانس لیتے ہیں کہ رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گذشت۔ مگر ادھر انھوں نے اطمینان کا سانس لیا اور ادھر مطلع پھر ابر آلود ہونے لگا۔ پھر وہی ہنگامہ پھر وہی آپا دھاپی۔ پھر وہی رستا خیز بیجا۔ پھر جوتیوں میں دال بٹ رہی ہے۔ پھر سر پھٹول ہو رہی ہے ؎
زندگی اپنی اسی طور سے گزری غالبؔ
ہم بھی یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
ایسے حالات میں شرفا کیا کریں' کدھر جائیں۔ پرانے زمانے میں وہ بالعموم یہ طور اپناتے تھے کہ باہر ہنگامہ بپا ہے اور وہ اندر اپنے گوشے میں بیٹھے ہیں۔ وقتاً فوقتاً باہر جھانک کر دیکھ لیا کہ اب کیا صورت ہے ع
دیدیم کہ باقیست شب فتنہ غنودیم
دیکھا کہ شب فتنہ تو ابھی جاری ہے۔ یہ دیکھا اور پھر چادر تان کر سو گئے۔
ایسی بھی روایات ہیں کہ شہر سے دور کسی غار میں جا کر منہ چھپایا اور لمبی تان کر سو گئے۔ اور اتنا لمبا سوئے کہ جب جاگے اور بازار میں پہنچے تو پتہ چلا کہ ان کی جیب میں جو سکے ہیں وہ ٹکسال باہر ہو چکے ہیں۔ اب تو سکہ ہی بدل چکا ہے۔
مگر وہ زمانے لد گئے۔ اب ہم نئے زمانے میں رہتے ہیں۔ اب ہنگامے اس تندی سے برپا ہوتے اور شب فتنہ اس زور شور سے نمودار ہوتی ہے کہ نہ گھر محفوظ ہوتے ہیں نہ کوئی غار ایسا نظر آتا ہے جہاں آدمی پناہ لے سکے۔ ہم نے صاحب فراش بھی ہوکر دیکھ لیا۔ چوٹ اس طرح کھائی تھی کہ بستر سے اٹھنا دشوار نظر آتا تھا بلکہ اب تک یہی صورت حال ہے۔ کجا یہ کہ اٹھ کر باہر نکلیں اور زمانے کا رنگ ڈھنگ دیکھیں لیکن اس سے کتنا فرق پڑا۔ ذرہ برابر بھی نہیں۔
الیکٹرونک میڈیا نے اس طرح ہمارے گھروں پر ہلہ بولا ہے کہ اندر باہر ایک ہو گیا ہے۔ ہمارے تیمار داروں نے اپنی طرف سے ہمارے حق میں نیکی کی۔ ٹی وی کا بٹن مروڑ کر اسے جاری کیا اور ہم سے کہا کہ آپ کا اس سے دل بہلے گا۔ ہم ابھی آئے۔ یہ کہہ کر وہ تو باہر نکل گئے۔ اب جو ہم نے ٹی وی پر نظر ڈالی تو وہی سو مرتبہ دیکھا ہوا منظر۔ خشونت آمیز چہروں کا ایک ہجوم۔ ایک بھیڑ جو نعرے لگاتی بازار سے ہمارے کمرے میں گھس آئی ہے۔ وہی گھسے پٹے بیانات' دعوے' دھمکیاں۔ گویا 14 اگست کو اتنے لاکھ کا مجمع امنڈے گا اور شہر کو تہ و بالا کر دے گا۔
پچھلے زمانوں میں آبادی کم تھی۔ بے روز گاری تب بھی تھی۔ مگر بے روز گاروں کا اتنا ہجوم نہیں تھا کہ سیلاب بلا بن جائے۔ اب یہ ہجوم انتظار میں رہتا ہے کہ کوئی موقعہ نکلے کہ ہم کچھ کر کے دکھائیں۔ اور کچھ نہیں تو ٹائر ہی جلائیں۔ بسوں کو آگ لگائیں۔
ہم لاچار بستر پر پڑے ہیں۔ اتنا دم نہیں کہ بستر سے اٹھ کر ہاتھ بڑھا کر ٹی وی کی گردن مروڑیں اور اطمینان سے لیٹیں۔ کتاب جو سرہانے رکھی ہے اسے اٹھائیں اور جہاں سے مضمون چھوڑا تھا وہاں سے اسے پکڑیں اور آگے چلیں۔ خوش قسمتی سے ہمارا ایک تیمار دار جلدی آن پہنچا۔ ہم نے کہا کہ پہلا کام یہ کرو کہ ٹی وی بند کر دو۔ اس نے' ٹی وی بند کر کے حیران ہو کر ہمیں دیکھا۔ اور کہا کہ ٹی وی اس لیے لگا دیا تھا کہ باہر کیا ہو رہا ہے اسے آپ دیکھ پائیں گے۔ اس سے کچھ دل بہلے گا۔
ہم نے کہا کہ عزیز دل بہلانے کے لیے ہمارے پاس ایک سے ایک اچھی کتاب موجود ہے۔ ان کتابوں سے ہم ابھی تک عہدہ برا نہیں ہو پائے ہیں۔
کتاب' کتاب' کتاب' اس نے بیزاری سے کہا' ان خشک کتابوں میں کیا رکھا ہے۔ ٹی وی کے رنگین مناظر میں ایک دنیا نظر آتی ہے۔ پھر یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہمارے زمانے میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔
ہم نے کہا کہ میرے عزیز وہی ہو رہا ہے جو پہلے سو بار ہو چکا ہے۔ اور وہی ہو گا جو پہلے ہو چکا ہے رات دن چکر میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
مگر وہ عزیز ہمارے کہے سے مطمئن نہیں ہوا۔ ہونا بھی نہیں چاہیے۔ جیسا کہ ابھی ہم نے کہا کہ اب ہم پر الیکٹرونک میڈیا کا راج ہے۔ ٹی وی ہر چھوٹے بڑے گھر میں موجود ہے۔ گھر میں اور کوئی سامان راحت موجود نہ ہو۔ ٹی وی کا ہونا ضروری ہے۔ لوگ وہ دیکھتے ہیں جو ٹی وی چینل دکھاتے ہیں اور اس طرح سوچتے ہیں جس طرح ٹی وی اینکر چاہتے ہیں کہ لوگ سوچیں۔ اس لیے گھر جو شرفا کے لیے گوشہ عافیت تھا اب نہیں ہے۔ باہر جو بازاروں میں ہو رہا ہے جو سیاست کے گلی کوچوں میں ہو رہا ہے وہ سب اپنے سارے ابتذال کے ساتھ ہمارے گھروں میں امنڈ آیا ہے۔
رائے عامہ اب ایک بے معنی اصطلاح ہے۔ اکبرؔ الہ آبادی کے زمانے میں اخبار پانیر کی بات چلتی تھی۔ وہ بتاتا تھا کہ بیمار کا حال اچھا ہے اور لوگ مان لیتے تھے کہ بیمار کا حال اچھا ہے۔ پھر پاکستان میں ایسا زمانہ آیا کہ بی بی سی کو سند کا درجہ حاصل ہو گیا۔ بی بی سی سے ہمیں پتہ چلتا تھا کہ فلاں بیمار کا چل چلائو ہے۔ اور فلاں بیمار کی نئی جھرجھری اس کی شفا کی غماز ہے۔ اب پاکستان کے ٹی وی چینلوں کا فرمایا ہوا مستند ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ بیمار کی آخری ہچکی ہے۔ اور فلاں فلاں کا ستارہ عروج پر ہے۔ ہم اب اپنے ٹی وی چینلوں کے مہرے ہیں۔
شور بہت ہے اور شرفا مشکل میں ہیں
زندگی اپنی اسی طور سے گزری غالبؔ
ہم بھی یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
ایسے حالات میں شرفا کیا کریں' کدھر جائیں۔ پرانے زمانے میں وہ بالعموم یہ طور اپناتے تھے کہ باہر ہنگامہ بپا ہے اور وہ اندر اپنے گوشے میں بیٹھے ہیں۔ وقتاً فوقتاً باہر جھانک کر دیکھ لیا کہ اب کیا صورت ہے ع
دیدیم کہ باقیست شب فتنہ غنودیم
دیکھا کہ شب فتنہ تو ابھی جاری ہے۔ یہ دیکھا اور پھر چادر تان کر سو گئے۔
ایسی بھی روایات ہیں کہ شہر سے دور کسی غار میں جا کر منہ چھپایا اور لمبی تان کر سو گئے۔ اور اتنا لمبا سوئے کہ جب جاگے اور بازار میں پہنچے تو پتہ چلا کہ ان کی جیب میں جو سکے ہیں وہ ٹکسال باہر ہو چکے ہیں۔ اب تو سکہ ہی بدل چکا ہے۔
مگر وہ زمانے لد گئے۔ اب ہم نئے زمانے میں رہتے ہیں۔ اب ہنگامے اس تندی سے برپا ہوتے اور شب فتنہ اس زور شور سے نمودار ہوتی ہے کہ نہ گھر محفوظ ہوتے ہیں نہ کوئی غار ایسا نظر آتا ہے جہاں آدمی پناہ لے سکے۔ ہم نے صاحب فراش بھی ہوکر دیکھ لیا۔ چوٹ اس طرح کھائی تھی کہ بستر سے اٹھنا دشوار نظر آتا تھا بلکہ اب تک یہی صورت حال ہے۔ کجا یہ کہ اٹھ کر باہر نکلیں اور زمانے کا رنگ ڈھنگ دیکھیں لیکن اس سے کتنا فرق پڑا۔ ذرہ برابر بھی نہیں۔
الیکٹرونک میڈیا نے اس طرح ہمارے گھروں پر ہلہ بولا ہے کہ اندر باہر ایک ہو گیا ہے۔ ہمارے تیمار داروں نے اپنی طرف سے ہمارے حق میں نیکی کی۔ ٹی وی کا بٹن مروڑ کر اسے جاری کیا اور ہم سے کہا کہ آپ کا اس سے دل بہلے گا۔ ہم ابھی آئے۔ یہ کہہ کر وہ تو باہر نکل گئے۔ اب جو ہم نے ٹی وی پر نظر ڈالی تو وہی سو مرتبہ دیکھا ہوا منظر۔ خشونت آمیز چہروں کا ایک ہجوم۔ ایک بھیڑ جو نعرے لگاتی بازار سے ہمارے کمرے میں گھس آئی ہے۔ وہی گھسے پٹے بیانات' دعوے' دھمکیاں۔ گویا 14 اگست کو اتنے لاکھ کا مجمع امنڈے گا اور شہر کو تہ و بالا کر دے گا۔
پچھلے زمانوں میں آبادی کم تھی۔ بے روز گاری تب بھی تھی۔ مگر بے روز گاروں کا اتنا ہجوم نہیں تھا کہ سیلاب بلا بن جائے۔ اب یہ ہجوم انتظار میں رہتا ہے کہ کوئی موقعہ نکلے کہ ہم کچھ کر کے دکھائیں۔ اور کچھ نہیں تو ٹائر ہی جلائیں۔ بسوں کو آگ لگائیں۔
ہم لاچار بستر پر پڑے ہیں۔ اتنا دم نہیں کہ بستر سے اٹھ کر ہاتھ بڑھا کر ٹی وی کی گردن مروڑیں اور اطمینان سے لیٹیں۔ کتاب جو سرہانے رکھی ہے اسے اٹھائیں اور جہاں سے مضمون چھوڑا تھا وہاں سے اسے پکڑیں اور آگے چلیں۔ خوش قسمتی سے ہمارا ایک تیمار دار جلدی آن پہنچا۔ ہم نے کہا کہ پہلا کام یہ کرو کہ ٹی وی بند کر دو۔ اس نے' ٹی وی بند کر کے حیران ہو کر ہمیں دیکھا۔ اور کہا کہ ٹی وی اس لیے لگا دیا تھا کہ باہر کیا ہو رہا ہے اسے آپ دیکھ پائیں گے۔ اس سے کچھ دل بہلے گا۔
ہم نے کہا کہ عزیز دل بہلانے کے لیے ہمارے پاس ایک سے ایک اچھی کتاب موجود ہے۔ ان کتابوں سے ہم ابھی تک عہدہ برا نہیں ہو پائے ہیں۔
کتاب' کتاب' کتاب' اس نے بیزاری سے کہا' ان خشک کتابوں میں کیا رکھا ہے۔ ٹی وی کے رنگین مناظر میں ایک دنیا نظر آتی ہے۔ پھر یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ہمارے زمانے میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔
ہم نے کہا کہ میرے عزیز وہی ہو رہا ہے جو پہلے سو بار ہو چکا ہے۔ اور وہی ہو گا جو پہلے ہو چکا ہے رات دن چکر میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
مگر وہ عزیز ہمارے کہے سے مطمئن نہیں ہوا۔ ہونا بھی نہیں چاہیے۔ جیسا کہ ابھی ہم نے کہا کہ اب ہم پر الیکٹرونک میڈیا کا راج ہے۔ ٹی وی ہر چھوٹے بڑے گھر میں موجود ہے۔ گھر میں اور کوئی سامان راحت موجود نہ ہو۔ ٹی وی کا ہونا ضروری ہے۔ لوگ وہ دیکھتے ہیں جو ٹی وی چینل دکھاتے ہیں اور اس طرح سوچتے ہیں جس طرح ٹی وی اینکر چاہتے ہیں کہ لوگ سوچیں۔ اس لیے گھر جو شرفا کے لیے گوشہ عافیت تھا اب نہیں ہے۔ باہر جو بازاروں میں ہو رہا ہے جو سیاست کے گلی کوچوں میں ہو رہا ہے وہ سب اپنے سارے ابتذال کے ساتھ ہمارے گھروں میں امنڈ آیا ہے۔
رائے عامہ اب ایک بے معنی اصطلاح ہے۔ اکبرؔ الہ آبادی کے زمانے میں اخبار پانیر کی بات چلتی تھی۔ وہ بتاتا تھا کہ بیمار کا حال اچھا ہے اور لوگ مان لیتے تھے کہ بیمار کا حال اچھا ہے۔ پھر پاکستان میں ایسا زمانہ آیا کہ بی بی سی کو سند کا درجہ حاصل ہو گیا۔ بی بی سی سے ہمیں پتہ چلتا تھا کہ فلاں بیمار کا چل چلائو ہے۔ اور فلاں بیمار کی نئی جھرجھری اس کی شفا کی غماز ہے۔ اب پاکستان کے ٹی وی چینلوں کا فرمایا ہوا مستند ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ بیمار کی آخری ہچکی ہے۔ اور فلاں فلاں کا ستارہ عروج پر ہے۔ ہم اب اپنے ٹی وی چینلوں کے مہرے ہیں۔
شور بہت ہے اور شرفا مشکل میں ہیں