اب بھی وقت ہے
حفاظتی اقدامات کے حوالے سے گفتگو کرنے سے قبل کراچی میں تفریحی مقامات کی عمومی صورتحال پر گفتگو ضروری ہے۔۔۔
کراچی میں ہر عید، بقر عید اور دیگرتہواروں کے موقعے پر شہریوں کی ایک بڑی تعداد بالخصوص غریب طبقے کے لوگ اپنی چھٹیاں اور خوشیاں دوبالاکرنے ساحل سمندر پر پہنچ جاتے ہیں۔ جو ایک سستی ترین تفریح ہے۔ ہر سال چند ایک نوجوانوں کے ڈوب جانے کے واقعات سامنے آتے ہیں ۔ امسال نصف صد کے قریب افراد سمندر کا لقمہ بن گئے ۔جو ایک انتہائی افسوسناک کے ساتھ حیرت ناک واقعہ ہے۔ دیکھنے کی ضرورت یہ ہے کہ اس قسم کے واقعات ہرسال کیوں رونماء ہوتے ہیں؟ کس کی کوتاہی ہے؟عوام کا تفریحی مقامات پر بے قابو ہوجانا فطری بات ہے ۔لیکن کیا حکومت کی جانب سے ایسے اقدامات کیے گئے ہیں ، جن کی وجہ سے سانحات میں کمی ہوسکے؟تو اس سوال کا جواب نفی میں آئے گا۔
حکمرانوں اور انتظامیہ کی دانش کا اندازہ کمشنر کراچی کے اس بیان سے لگایاجاسکتا ہے کہ ''ساحل کے جس حصے میں لوگ ڈوب کر مرے ہیں، وہاں مستقل بنیادوں پر نہانے پر پابندی لگانے کا سوچ رہے ہیں ۔'' اس بیان کی مضحکہ خیزی کا اندازہ وہ لوگ باآسانی لگا سکتے ہیں،جو کراچی شہر کی تفریح گاہوں کی حالت زار سے بخوبی واقف ہیں ۔یہ وہی مثال ہوئی کہ ریلوے کی ایک میٹنگ میں یہ شکایت سامنے آئی کہ آخری ڈبے میں جھٹکے بہت لگتے ہیں۔ ایک ذہین وفطین شخص نے مشورہ دیا کہ آخری ڈبہ کاٹ دیا جائے۔ گویا ہمارا انتظامی ویژن اس سے زیادہ نہیں ہے، جہاں کوئی مسئلہ کھڑا ہو، اسے حل کرنے کے بجائے پابندی عائد کردو۔
حفاظتی اقدامات کے حوالے سے گفتگو کرنے سے قبل کراچی میں تفریحی مقامات کی عمومی صورتحال پر گفتگو ضروری ہے ۔2کروڑ سے تجاوز کرتی آبادی کے اس شہر میں جہاں دیگر شہری سہولیات کی حالت انتہائی مخدوش ہے، وہیں عوامی تفریح صورتحال مزید ابترہے ۔ اول توجو تفریحی مقامات ہیں،ان کی تعداد انتہائی کم ہے ۔دوئم جو ہیں،وہ مناسب دیکھ بھال کے فقدان کی وجہ سے تباہ ہونے کے علاوہ منشیات کے عادی اور دیگرجرائم پیشہ افراد کی آماجگاہ بن گئے ہیں ۔سنیماکلچر بھی خاصی حد تک متاثر ہوا ہے۔
لے دے کر ایک سستی تفریح ساحل سمندر رہ گئی ہے۔ جہاں غریب اور نچلے متوسط طبقے کے خاندانوں کے بچے اورنوجوان جو سال بھر دکانوں، فیکٹریوں اور دیگر جگہوں پر محنت ومشقت میں مصروف رہتے ہیں، عیدین اور دیگر تہواروں جب انھیںاپنے کام سے ذرا فرصت ملتی ہے ،تواپنے اہل خانہ کے ساتھ ساحلِ سمندر پر جاپہنچتا ہے ۔اب اگر اس پر بھی پابندی عائد کردی جائے گی تو ان کے پاس تفریح کے لیے کیا باقی بچے گا؟ انتظامیہ کو اس سے کیا سروکارکہ عام آدمی کن ذہنی الجھنوں میں گرفتار رہتا ہے اور اسے کس طرح محفوظ اورسستی تفریح فراہم کی جائے ۔
دنیا بھر میں ساحلوں پر جدید حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں۔ساحلوںکا انتظام وانصرام اور وہاں حفاظتی اقدات کے لیے ایک الگ محکمہ تشکیل دیا جاتا ہے ۔ قارئین کوچند برس قبل ٹیلی ویژن پر چلنے والی ایک انگریزی ٹی وی سیریل Bay Watchیقیناً یاد ہوگی۔جس میں دکھایا گیاہے کہ ساحل پر ایک مخصوص محکمے کا چاق وچوبند عملہ تعینات رہتاہے، جوساحل کی حفاظت کے ساتھ ان لوگوں کی بھی حفاظت کرتا ہے، جو وہاں تفریح کے لیے آتے ہیں ۔یہ عملہ ہر چند سو میٹر کے فاصلے پر بنے ٹاوروں کی مدد سے ساحل پر نظر رکھتا ہے اورکسی حادثے، سانحے یا ناخوشگوار واقعے کی صورت میں فوری طورپر جائے وقوع پر پہنچ کر نقصان کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ہمارے یہاں اس قسم کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔بلکہ علاقے کے تھانہ کی ایک موبائل چند سپاہیوں کے ساتھ ساحل پر کھڑی کردی جاتی ہے ۔جنھیں نہ توڈوبتوں کو بچانے کی کوئی تربیت ہوتی اور نہ انھیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی حادثے یا سانحے کی صورت میں کیا ہنگامی اقدامات کیے جانے ضروری ہوتے ہیں۔ جون سے ستمبر کے دوران جب سمندر کی لہروں میں شدت ہوتی ہے، توحکومت دفعہ144کے ذریعے نہانے پر پابندی لگاکر مطمئن ہوجاتی ہے ۔ ویسے بھی جب عوام کا مجمع لگاہو تووہ پولیس کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ایک ایسی پولیس،جو کارکردگی میں نااہل ہو، مگر اس کا دامن رشوت اور کرپشن سے داغدارہوتواس کی ہدایات کو کون اہمیت دیتا ہے ۔
دراصل اس پوری صورتحال کا ایک سبب مقامی حکومتی نظام کا نہ ہونا ہے ۔ جدید دنیا میں شہری انتظام شہری حکومتیں چلاتی ہیں ،جو سیاسی، انتظامی اور مالیاتی طورپر بااختیار ہوتی ہیں ۔اقتدار واختیارریاست کے انتہائی نچلی سطح کے یونٹ تک مساوی طور پر پہنچایا جاتا ہے، تاکہ شہری انتظام اور ترقیاتی منصوبہ بندی میں عوام کی زیادہ سے زیادہ شرکت ہوسکے اور وہ جدید سہولیات سے احسن طورپر فیض یاب ہوسکیں ۔ لیکن پاکستان میں ان حقائق کو سمجھنے اور ان پر توجہ دینے کی کوئی روایت نہیں ہے۔ حکمران اشرافیہ بالخصوص سیاسی جماعتیں اوران کی قیادتیں ،جوزیادہ ترفیوڈل کلاس پر مشتمل ہے۔
ہر لمحہ جمہوریت کے لیے بہت زیادہ رطب اللسان رہتی ہے، لیکن جب اقتدار واختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کا معاملہ آتا ہے تو آمروں سے بڑھ کر آمر بن جاتی ہیں ۔اس صورت حال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ تحریک انصاف جو مقامی حکومتی نظام کی سب سے بڑی داعی رہی ہے اور جس نے تین ماہ کے اندر اقتدار واختیار نچلی سطح تک منتقل کرنے کا وعدہ کیا تھا،ایک برس کا عرصہ گذر جانے کے باوجود اپنے زیر انتظام صوبے میں مقامی حکومتیں قائم کرنے میں ناکام ہے ۔اس کے برعکس بلوچستان جیسے شورش زدہ صوبے میں بلدیاتی انتخابات مکمل ہوگئے ۔گو کہ مقامی حکومتی نظام اور بلدیاتی نظام میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے، لیکن نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے ۔
سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مقامی حکومتی نظام سے خود انھیں ان گنت فوائد حاصل ہوسکتے ہیں ۔ اول،ان کی جماعت کو ایک نیا،قدرے نوجوان اور مستعد کیڈرملتا ہے ۔دوئم،مقامی حکومتی نظام ایک طرح کی تربیت گاہ ہوتا ہے، جو کارکنوں کو صوبائی اور قومی سیاست کے لیے تیار کرتاہے جس کے ذریعے بہتر حکمرانی کی جانب بڑھا جاسکتا ہے۔
سوئم، پارٹی کاعوام تک براہ راست رابطہ ممکن ہوتا ہے جس کی وجہ سے اسے اپنی خامیاں اور کمزوریاں سمجھنے اور ان کاازالہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اس لیے سیاسی جماعتوں کے سیاسی نظریے کے فروغ اور ان کی عوامی مقبولیت میں اضافہ میں یہ نظام کلیدی کردار ادا کرتاہے ۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں تصادم کی راہ اختیار کرنے اور عوام کو ایک دوسرے کے مدمقابل لانے کران کی توانائیوں کو بے مقصد ضایع کرنے کے بجائے بعض ٹھوس حکمت عملیوںاوراقدامات پر توجہ دیں تواس کا فائدہ عوام کے ساتھ خود انھیں بھی پہنچے گا ۔
پاکستان اچھی حکمرانی کے تصور کو روشناس کرانے کے لیے تین بنیادی اقدامات کی اہمیت بڑھ چکی ہے ۔ اول،پارلیمان کے ذریعے انتخابی نظام میں بنیادی تبدیلیاںاوراس کاجدید خطوط پر استوار کیا جانا ، تاکہ دھاندلی جیسے الزامات سے بچنے کی سبیل ہوسکے۔دوئم، پورے ملک میں یکساں مقامی حکومتی نظام جو ریاستی انتظامی ڈھانچے میں تیسرا درجہ(Tier)کے مقام کاحامل ہو ۔جب کہ کراچی، لاہور،راولپنڈی جیسے بڑے شہروں کے لیے ایک الگ اور مکمل بااختیار شہری حکومت قائم کی جائے۔
اس مقصد کے لیے وفاقی حکومت اراکین قومی اور صوبائی اسمبلیوں پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دے ،جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے علاوہ سول سوسائٹی کے نمایندوں کو بھی شامل کیا جائے۔ ہوسکے تو پرویز مشرف کے دور میں تشکیل دیے گئے NRBکو دوبارہ وسیع اختیارات کے ساتھ بحال کیا جائے جو مختصر ترین مدت میں تمام شراکت داروں کے لیے قابل قبول مقامی حکومتی ڈھانچہ تشکیل دے ۔سوئم، اراکینِ قومی وصوبائی اسمبلیوں کو جنرل ضیاء کے دور سے ترقیاتی فنڈ کے نام سے رقوم مہیا کرنے کے سلسلے کوفوری طورپر بند کیا جائے اور یہ رقوم مقامی حکومتوں کو مہیا کی جائے ۔آج کی دنیا میں اچھی حکمرانی شراکتی جمہوریت سے مشروط ہے، جو اقتدار و اختیار کی نچلی سطح پر منتقلی کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ لہٰذا اب بھی وقت ہے حکمران اور سیاسی جماعتیں اپنا قبلہ درست کرلیں ۔
حکمرانوں اور انتظامیہ کی دانش کا اندازہ کمشنر کراچی کے اس بیان سے لگایاجاسکتا ہے کہ ''ساحل کے جس حصے میں لوگ ڈوب کر مرے ہیں، وہاں مستقل بنیادوں پر نہانے پر پابندی لگانے کا سوچ رہے ہیں ۔'' اس بیان کی مضحکہ خیزی کا اندازہ وہ لوگ باآسانی لگا سکتے ہیں،جو کراچی شہر کی تفریح گاہوں کی حالت زار سے بخوبی واقف ہیں ۔یہ وہی مثال ہوئی کہ ریلوے کی ایک میٹنگ میں یہ شکایت سامنے آئی کہ آخری ڈبے میں جھٹکے بہت لگتے ہیں۔ ایک ذہین وفطین شخص نے مشورہ دیا کہ آخری ڈبہ کاٹ دیا جائے۔ گویا ہمارا انتظامی ویژن اس سے زیادہ نہیں ہے، جہاں کوئی مسئلہ کھڑا ہو، اسے حل کرنے کے بجائے پابندی عائد کردو۔
حفاظتی اقدامات کے حوالے سے گفتگو کرنے سے قبل کراچی میں تفریحی مقامات کی عمومی صورتحال پر گفتگو ضروری ہے ۔2کروڑ سے تجاوز کرتی آبادی کے اس شہر میں جہاں دیگر شہری سہولیات کی حالت انتہائی مخدوش ہے، وہیں عوامی تفریح صورتحال مزید ابترہے ۔ اول توجو تفریحی مقامات ہیں،ان کی تعداد انتہائی کم ہے ۔دوئم جو ہیں،وہ مناسب دیکھ بھال کے فقدان کی وجہ سے تباہ ہونے کے علاوہ منشیات کے عادی اور دیگرجرائم پیشہ افراد کی آماجگاہ بن گئے ہیں ۔سنیماکلچر بھی خاصی حد تک متاثر ہوا ہے۔
لے دے کر ایک سستی تفریح ساحل سمندر رہ گئی ہے۔ جہاں غریب اور نچلے متوسط طبقے کے خاندانوں کے بچے اورنوجوان جو سال بھر دکانوں، فیکٹریوں اور دیگر جگہوں پر محنت ومشقت میں مصروف رہتے ہیں، عیدین اور دیگر تہواروں جب انھیںاپنے کام سے ذرا فرصت ملتی ہے ،تواپنے اہل خانہ کے ساتھ ساحلِ سمندر پر جاپہنچتا ہے ۔اب اگر اس پر بھی پابندی عائد کردی جائے گی تو ان کے پاس تفریح کے لیے کیا باقی بچے گا؟ انتظامیہ کو اس سے کیا سروکارکہ عام آدمی کن ذہنی الجھنوں میں گرفتار رہتا ہے اور اسے کس طرح محفوظ اورسستی تفریح فراہم کی جائے ۔
دنیا بھر میں ساحلوں پر جدید حفاظتی اقدامات کیے جاتے ہیں۔ساحلوںکا انتظام وانصرام اور وہاں حفاظتی اقدات کے لیے ایک الگ محکمہ تشکیل دیا جاتا ہے ۔ قارئین کوچند برس قبل ٹیلی ویژن پر چلنے والی ایک انگریزی ٹی وی سیریل Bay Watchیقیناً یاد ہوگی۔جس میں دکھایا گیاہے کہ ساحل پر ایک مخصوص محکمے کا چاق وچوبند عملہ تعینات رہتاہے، جوساحل کی حفاظت کے ساتھ ان لوگوں کی بھی حفاظت کرتا ہے، جو وہاں تفریح کے لیے آتے ہیں ۔یہ عملہ ہر چند سو میٹر کے فاصلے پر بنے ٹاوروں کی مدد سے ساحل پر نظر رکھتا ہے اورکسی حادثے، سانحے یا ناخوشگوار واقعے کی صورت میں فوری طورپر جائے وقوع پر پہنچ کر نقصان کو کم سے کم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ہمارے یہاں اس قسم کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔بلکہ علاقے کے تھانہ کی ایک موبائل چند سپاہیوں کے ساتھ ساحل پر کھڑی کردی جاتی ہے ۔جنھیں نہ توڈوبتوں کو بچانے کی کوئی تربیت ہوتی اور نہ انھیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی حادثے یا سانحے کی صورت میں کیا ہنگامی اقدامات کیے جانے ضروری ہوتے ہیں۔ جون سے ستمبر کے دوران جب سمندر کی لہروں میں شدت ہوتی ہے، توحکومت دفعہ144کے ذریعے نہانے پر پابندی لگاکر مطمئن ہوجاتی ہے ۔ ویسے بھی جب عوام کا مجمع لگاہو تووہ پولیس کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ایک ایسی پولیس،جو کارکردگی میں نااہل ہو، مگر اس کا دامن رشوت اور کرپشن سے داغدارہوتواس کی ہدایات کو کون اہمیت دیتا ہے ۔
دراصل اس پوری صورتحال کا ایک سبب مقامی حکومتی نظام کا نہ ہونا ہے ۔ جدید دنیا میں شہری انتظام شہری حکومتیں چلاتی ہیں ،جو سیاسی، انتظامی اور مالیاتی طورپر بااختیار ہوتی ہیں ۔اقتدار واختیارریاست کے انتہائی نچلی سطح کے یونٹ تک مساوی طور پر پہنچایا جاتا ہے، تاکہ شہری انتظام اور ترقیاتی منصوبہ بندی میں عوام کی زیادہ سے زیادہ شرکت ہوسکے اور وہ جدید سہولیات سے احسن طورپر فیض یاب ہوسکیں ۔ لیکن پاکستان میں ان حقائق کو سمجھنے اور ان پر توجہ دینے کی کوئی روایت نہیں ہے۔ حکمران اشرافیہ بالخصوص سیاسی جماعتیں اوران کی قیادتیں ،جوزیادہ ترفیوڈل کلاس پر مشتمل ہے۔
ہر لمحہ جمہوریت کے لیے بہت زیادہ رطب اللسان رہتی ہے، لیکن جب اقتدار واختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کا معاملہ آتا ہے تو آمروں سے بڑھ کر آمر بن جاتی ہیں ۔اس صورت حال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ تحریک انصاف جو مقامی حکومتی نظام کی سب سے بڑی داعی رہی ہے اور جس نے تین ماہ کے اندر اقتدار واختیار نچلی سطح تک منتقل کرنے کا وعدہ کیا تھا،ایک برس کا عرصہ گذر جانے کے باوجود اپنے زیر انتظام صوبے میں مقامی حکومتیں قائم کرنے میں ناکام ہے ۔اس کے برعکس بلوچستان جیسے شورش زدہ صوبے میں بلدیاتی انتخابات مکمل ہوگئے ۔گو کہ مقامی حکومتی نظام اور بلدیاتی نظام میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے، لیکن نہ ہونے سے کچھ ہونا بہتر ہے ۔
سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ مقامی حکومتی نظام سے خود انھیں ان گنت فوائد حاصل ہوسکتے ہیں ۔ اول،ان کی جماعت کو ایک نیا،قدرے نوجوان اور مستعد کیڈرملتا ہے ۔دوئم،مقامی حکومتی نظام ایک طرح کی تربیت گاہ ہوتا ہے، جو کارکنوں کو صوبائی اور قومی سیاست کے لیے تیار کرتاہے جس کے ذریعے بہتر حکمرانی کی جانب بڑھا جاسکتا ہے۔
سوئم، پارٹی کاعوام تک براہ راست رابطہ ممکن ہوتا ہے جس کی وجہ سے اسے اپنی خامیاں اور کمزوریاں سمجھنے اور ان کاازالہ کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اس لیے سیاسی جماعتوں کے سیاسی نظریے کے فروغ اور ان کی عوامی مقبولیت میں اضافہ میں یہ نظام کلیدی کردار ادا کرتاہے ۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں تصادم کی راہ اختیار کرنے اور عوام کو ایک دوسرے کے مدمقابل لانے کران کی توانائیوں کو بے مقصد ضایع کرنے کے بجائے بعض ٹھوس حکمت عملیوںاوراقدامات پر توجہ دیں تواس کا فائدہ عوام کے ساتھ خود انھیں بھی پہنچے گا ۔
پاکستان اچھی حکمرانی کے تصور کو روشناس کرانے کے لیے تین بنیادی اقدامات کی اہمیت بڑھ چکی ہے ۔ اول،پارلیمان کے ذریعے انتخابی نظام میں بنیادی تبدیلیاںاوراس کاجدید خطوط پر استوار کیا جانا ، تاکہ دھاندلی جیسے الزامات سے بچنے کی سبیل ہوسکے۔دوئم، پورے ملک میں یکساں مقامی حکومتی نظام جو ریاستی انتظامی ڈھانچے میں تیسرا درجہ(Tier)کے مقام کاحامل ہو ۔جب کہ کراچی، لاہور،راولپنڈی جیسے بڑے شہروں کے لیے ایک الگ اور مکمل بااختیار شہری حکومت قائم کی جائے۔
اس مقصد کے لیے وفاقی حکومت اراکین قومی اور صوبائی اسمبلیوں پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دے ،جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے علاوہ سول سوسائٹی کے نمایندوں کو بھی شامل کیا جائے۔ ہوسکے تو پرویز مشرف کے دور میں تشکیل دیے گئے NRBکو دوبارہ وسیع اختیارات کے ساتھ بحال کیا جائے جو مختصر ترین مدت میں تمام شراکت داروں کے لیے قابل قبول مقامی حکومتی ڈھانچہ تشکیل دے ۔سوئم، اراکینِ قومی وصوبائی اسمبلیوں کو جنرل ضیاء کے دور سے ترقیاتی فنڈ کے نام سے رقوم مہیا کرنے کے سلسلے کوفوری طورپر بند کیا جائے اور یہ رقوم مقامی حکومتوں کو مہیا کی جائے ۔آج کی دنیا میں اچھی حکمرانی شراکتی جمہوریت سے مشروط ہے، جو اقتدار و اختیار کی نچلی سطح پر منتقلی کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ لہٰذا اب بھی وقت ہے حکمران اور سیاسی جماعتیں اپنا قبلہ درست کرلیں ۔