حیران ہوں دل کو روؤں …

پی ٹی آئی چیئرمین کے نزدیک جمہوریت وہ ہے جو انھیں وزیر اعظم بنائے، خواجہ آصف۔

najmalam.jafri@gmail.com

ایک دن گھر سے نکلی تو سامنے کی گلی میں آٹھ سے گیارہ بارہ برس کے کئی بچے آپس میں گتھم گتھا تھے، ایک دوسرے کو مکے اور لاتیں مار مار کر کبھی زمین پر گراتے اور پھر گریبان پکڑ کر اٹھاتے اور پھر مار کٹائی شروع ہو جاتی۔ یہ صورتحال دیکھ کر کچھ دیر کے لیے تو میں سٹپٹا گئی کیونکہ کئی بچوں کے کپڑے پھٹ چکے تھے کچھ کیچڑ اور مٹی میں لت پت تھے کسی کی آنکھ کے پاس نیل پڑ چکا تھا کسی کا منہ طمانچے کھا کھا کر سرخ ہو رہا تھا اور کسی کے ہونٹوں سے خون بہہ رہا تھا۔ میں تیزی سے بچوں کی طرف بڑھی اور بلند آواز میں پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے؟

پہلے تو انھوں نے توجہ ہی نہ دی لڑتے رہے کیونکہ کوئی بھی ہاتھ روکنے کو تیار نہ تھا۔ آخر میں نے نسبتاً ایک دھان پان لڑکے کا ہاتھ پکڑا اور اس کو زبردستی کھینچ کر دوسرے بچوں سے الگ کیا اور پوچھا کہ آخر تم لوگ کیوں لڑ رہے ہو؟ اس نے پہلے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا کہ جیسے میں نے اس کے پسندیدہ کھیل میں بلاوجہ مداخلت کر دی ہو۔ پھر ذرا سانس درست کر کے کہنے لگا۔ آنٹی! پہلے ان لوگوں نے ہمیں مارا تھا اس لیے ہم نے بھی پورا پورا بدلہ لے لیا۔

بیٹا! انھوں نے تمہیں کیوں مارا تھا آخر تم نے بھی تو کچھ کیا ہوگا؟ وہ سر جھکا کر چپ ہو گیا آخر میرے اصرار پر کہنے لگا آنٹی! میں نے عید کے دن یوسف کو چلتے چلتے ٹانگ اڑا کر گرا دیا تھا تو اس کے عید کے کپڑے خراب ہو گئے تھے۔۔ آج یہ اپنے سب دوستوں کو لے کر آیا اور مجھے اور میرے دوستوں کو مارنا شروع کر دیا۔ تو ہم کون سے چپ رہنے والے تھے (اس نے سینہ تان کر کہا) ہم نے بھی ان سب کی خوب دھنائی کر ڈالی۔ اس دوران تمام لڑتے ہوئے بچے ایک دوسرے کو چھوڑ کر ہماری گفتگو سنتے رہے اور یوں لگ رہا تھا جیسے کچھ دیر پہلے ان میں کوئی جھگڑا ہوا ہی نہ تھا۔

میں نے ان سب کو پاس بلایا اور کہا بیٹا! آپس میں لڑنا وہ بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر کوئی اچھی بات نہیں، درگزر کرنا معاف کرنا اور مذاق صرف مذاق کی حد تک رکھنا اچھی بات ہوتی ہے۔ وہ لڑکا جس کو میں نے لڑائی سے سب سے پہلے الگ کیا تھا اس کا نام شاید غفار تھا کہنے لگا واہ آنٹی! یہ ہمیں مارتے رہیں اور ہم مار کھاتے رہیں ہم کیا بزدل ہیں ہم تو پورا پورا بلکہ زیادہ بدلہ لیں گے کیونکہ انھوں نے پہل کی تھی۔ اب میں اس بچے کو کیا سمجھاتی کہ بہادری طاقت کے زور پر دوسروں کو زیر کرنے کا نام نہیں بلکہ انکساری محبت اور پیار سے کسی کا دل جیتنے کا نام ہے۔

بہرحال میں نے موقعے کی مناسبت اور بچوں کی ذہنی سطح کے مطابق انھیں سمجھایا تو وہ لڑائی بھول کر کونے والے گھر کے سامنے بنے چبوترے پر بیٹھ گئے۔ میں نے ان سے پوچھا آپ کس اسکول میں پڑھتے ہیں ان میں سے صرف دو بچوں نے بتایا کہ وہ سرکاری اسکول میں پڑھتے ہیں اور بمشکل ایک یا دو کسی مدرسے کے طالبعلم تھے۔ کیونکہ یہ سب ہمارے معاشرے کے اس طبقے سے تعلق رکھتے تھے جو بمشکل دو وقت کھا تو سکتے ہیں پڑھنے لکھنے کے اخراجات کی ان کی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں۔ وہ تو بس جیسے تیسے جینے کو ہی کل زندگی سمجھتے ہیں۔

جب وہ ذرا پرسکون ہوگئے تو انھیں پیار محبت، اتحاد، بھائی چارے جیسے ثقیل نظریات کا درس دے کر اپنے پڑوسی کے گھر چلی گئی۔ واپسی پر میں نے دیکھا کہ وہ سب بچے آپس میں گھل مل کر کھیل رہے ہیں قہقہے لگا رہے ہیں جیسے کچھ دیر قبل ان کے درمیان گھمسان کا رن پڑا ہی نہ تھا۔ مجھے واپس آتا دیکھ کر انھوں نے ایک ساتھ کہا آنٹی! السلام علیکم! میں نے مسکرا کر انھیں جواب دیا اور گھر آ گئی۔

گھر آئی تو میرے شوہر ٹی وی پر کوئی پروگرام دیکھ رہے تھے۔ پروگرام رک گیا اور بریکنگ نیوز شروع ہو گئیں۔ علامہ القادری پریس کانفرنس فرما رہے تھے اور ان کی گفتگو کے اہم نکات بار بار اسکرین پر دکھائے جا رہے تھے۔ پندرہ جانوں کے بدلے پندرہ ہی لیں گے، پولیس جیسا کرے گی ویسا ہی سلوک اس کے ساتھ کیا جائے گا، اگست ختم ہونے سے قبل حکومت ختم ہو جائے گی، اگر انقلاب مارچ میں مداخلت کی گئی تو دما دم مست قلندر ہو جائے گا، کارکنان پولیس کے رویے کا منہ توڑ جواب دیں گے۔


اس کے بعد حکومتی اراکین کے بیانات شروع ہو گئے۔ قادری حواس کھو بیٹھے ہیں، مستند جھوٹے کے تمام الزامات بے بنیاد ہیں، ٹیکس چوروں کا سرغنہ بہت جلد قانون کی گرفت میں ہو گا، قادری کا دماغی معائنہ کینیڈا کے کسی بڑے اسپتال میں کرایا جائے گا، کنٹینر بابا ملک میں انتشار پھیلا کر بہت جلد کینیڈا فرار ہو جائے گا، قادری اپنے مریدوں کو قربانی کا بکرا نہ بنائیں۔ یہ سب گل افشانیاں حکومت کے ذمے دار اشخاص نے فرمائی تھیں۔

اس کے علاوہ بھی مختلف چینلز آزادی مارچ کے حوالے سے بریکنگ نیوز پیش کر رہے تھے اور اخبارات کے صفحات بھی ایسے ہی بیانات اور الزامات سے بھرے ہوئے تھے مثلاً حکومت نے لانگ مارچ سے خوفزدہ ہوکر اسلام آباد فوج کے حوالے کر دیا۔ ہم کسی بھی رکاوٹ کو خاطر میں نہ لائیں گے اور ہر حال میں 14 اگست کو اسلام آباد پہنچیں گے، شیریں مزاری۔ مظاہروں اور دھرنوں میں غیر ملکی پیسہ استعمال ہو رہا ہے، وفاقی وزیر۔ (بھلا پاکستان میں کہاں غیر ملکی پیسہ استعمال نہیں ہو رہا)، تحریک انصاف کے احتجاجی مظاہروں میں دہشت گردی ہوئی تو ذمے دار عمران خان ہوں گے، حکومتی ذرایع۔

پی ٹی آئی چیئرمین کے نزدیک جمہوریت وہ ہے جو انھیں وزیر اعظم بنائے، خواجہ آصف۔ حکومت چلی بھی گئی تو اقتدار عمران یا قادری کو نہیں ملے گا، سعد رفیق۔ عمران اور طالبان کا ایجنڈا ایک ہے، عابد شیر علی۔ اگر لانگ مارچ میں رکاوٹ ڈالی گئی تو نتائج کی ذمے داری حکومت پر ہوگی، عمران خان۔ بادشاہت ختم کرنے اسلام آباد جا رہا ہوں، نیا پاکستان بننے تک دھرنے سے نہیں اٹھیں گے، عمران خان۔

ان تین عناصر میں تو گزشتہ کئی ماہ سے تبادلہ الزامات جاری ہیں مگر دوسری جماعتیں بھی وقتاً فوقتاً بیانات داغتی رہی ہیں۔ مثلاً سراج الحق صاحب نے فرمایا کہ پی ٹی آئی کو ہم سے مشاورت کرنی چاہیے تھی۔ ان کے تمام مطالبات جائز ہیں اگر جمہوریت کو نقصان ہوا تو تمام جماعتیں ذمے دار ہوں گی، زرداری۔ حکومت گرانے نہیں دیں گے ثالثی کے لیے تیار ہیں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے فرمایا۔

ان تمام مندرجہ بالا بیانات پر اگر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو کوئی بھی سمجھدار شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ کسی عاقل و بالغ، پڑھے لکھے اور کسی ذمے دار فرد کے بیانات ہیں۔ خاص کر ایسے گرما گرم ماحول میں حکومتی اراکین کو تو سمجھداری اور ذمے داری کا زیادہ ثبوت دینا چاہیے تھا۔ کیونکہ عمران خان اور علامہ طاہر القادری کے مسائل اور ایجنڈے الگ الگ ہیں اور وہ دونوں ہی حکومت کو فارغ کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ مگر حکومت کو تو اپنا دفاع کرنے کے لیے ہوش مندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے مگر وہاں تو گویا ہر وزیر اور ذمے دار کو کھلی چھٹی ہے کہ جو چاہو اور جس کو چاہو کہہ دو بلکہ ایک دوسرے سے متضاد بیانات دو کچھ نہیں ہوتا یعنی بھڑکتے شعلوں کو بجھانے کی کوشش کے بجائے جلتی پر تیل ڈالتے رہو۔

یہ صورت حال اس بات کا ثبوت ہے کہ سب اپنی اپنی جگہ درست یا غلط ہوں مگر ملکی مفاد کسی کے بھی پیش نظر نہیں ہے۔ کوئی بھی افہام و تفہیم کی راہ اختیار کرنے کو تیار نہیں۔ ہر سیاسی جماعت کسی نہ کسی پلڑے میں اپنا وزن ڈال کر اپنا سیاسی قد بڑھانے میں مصروف ہے۔ دنیا میں کیا ہو رہا ہے، عالم اسلام کی صورت حال کیا ہے؟ دہشت گردی عالمی عفریت بنتی جا رہی ہے، دنیا بالخصوص اسلامی ممالک کا جغرافیہ تبدیل ہو رہا ہے، آیندہ ہمارے ملکی حالات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟

اس سب کو نظرانداز کرکے ہم ہیں کہ اپنے ملک کو خود شعلوں کی نظر کرنے پر تلے ہوئے ہیں ''وہ بھی بڑے خلوص کے ساتھ'' خاص کر ملک کا یوم آزادی ہی سب کو انتشار پھیلانے کے لیے مناسب لگا۔ مجھے ان نام نہاد لیڈران قوم سے وہ بچے زیادہ سمجھدار اور پرخلوص لگے جو آپس میں لڑ رہے تھے مگر ذرا سا سمجھانے پر اس طرح آپس میں شیروشکر ہو گئے کہ جیسے کبھی لڑے ہی نہ تھے۔ ایک دوسرے کی گرن میں ہاتھ ڈالے قہقہے لگاکر زندگی سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ کاش! 14 اگست سے قبل ہمارے سیاسی بچے بھی گلے شکوے بھلا کر متحد اور ایک دوسرے کے خیرخواہ بن جائیں خاص کر ملک و قوم کے لیے اخلاص عمل کا مظاہرہ کریں، سب مل کر جشن آزادی منائیں۔
Load Next Story