غفلت کی نیند

اسرائیلی بربریت بازاروں، اسکولوں اور پناہ گزین کیمپوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔۔۔۔


Pakiza Munir August 08, 2014

رمضان کا مبارک مہینہ ختم ہو گیا لیکن اس مبارک مہینے میں بھی لوگوں نے اپنے طور طریقے نہیں بدلے و ہی ناپ تول میں کمی وہی لوٹ مار سب کچھ ویسے ہی نظر آیا جیسے رمضان سے پہلے تھا۔ رمضان کے بابرکت ماہ میں شیطان کو بھی بند کر دیا جاتا ہے پھر آخر یہ کون سی شے انسانوں سے ایسی غلط حرکتیں کرواتی ہے، کہیں آج کا انسان ہی خود بہت بڑا شیطان تو نہیں بن گیا ہے کہ شیطان قید ہو یا کہ آزاد آج کے انسان کو کوئی فرق نہیں پڑتا ان کی شیطانیت جوں کی توں ہی رہتی ہے شاید شیطان بھی آج کے انسانوں سے پناہ مانگتا ہو گا۔

آخر کیا وجہ ہے کہ ہم انسانوں کی زندگی سے امن چین رخصت ہو گیا؟ یہ سوال ہر شخص کے لیے اور دنیا کے تمام انسانوں کے لیے ایک نہ سلجھنے والی گتھی بنا ہوا ہے۔ کیوں آئے دن مصیبتیں ہم پر نازل ہو رہی ہیں دنیا میں جہاں جہاں مسلمان ہیں سب ہی پریشان حال ہیں کیوں ہماری زندگی کی کل بگڑ گئی ہے؟ قومیں قوموں سے ٹکرا رہی ہیں ممالک میں کھینچا تانی ہو رہی ہے آدمی آدمی کے لیے بھیڑیا بن گیا ہے لاکھوں انسان لڑائیوں میں قتل ہو رہے ہیں۔ کروڑوں اور اربوں کے کاروبار غارت ہو رہے ہیں بستیوں کی بستیاں اجڑ رہی ہیں طاقتور کمزوروں کو کھائے جاتے ہیں، مال دار غریبوں کو لوٹ لیتے ہیں حکومت میں ظلم ہے عدالت میں ناانصافی ہے یہ ساری خرابیاں آخر کس وجہ سے ہیں؟ انسان ہی کی زندگی آخر کیوں ذلیل و خوار ہو چکی ہے؟

یہ بڑا سوال ہے جسے حل کرنے میں شاید کسی انسان کو کوئی دلچسپی نہیں ہے تبھی تو انسان غلطیوں پر غلطیاں کیے ہی جا رہا ہے اور اللہ کی پکڑ ان پر سخت سے سخت ترین ہوتی جا رہی ہے یہ تمام انسان، مسلمان اللہ کی بتائی ہوئی ہدایت کی خلاف ورزی کرنے میں مصروف عمل ہو چکے ہیں اس لیے ذلت ان پر مسلط ہو چکی ہے آج کا انسان نہ جانے کس گمان پر جی رہا ہے جیسے اس نے مرنا ہی نہیں ہے۔

فلسطین پر اسرائیل ظلم کے پہاڑ ڈھا رہا ہے بیدردی سے مسلمان بچوں اور عورتوں کو بڑی تعداد میں مارا گیا۔ یہ کافروں کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت فلسطینیوں پر حملے ہیں ظلم کی انتہا کر دی گئی غزہ پر عید کے دن بھی اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ جاری رہا۔ فلسطینی مائیں عید کی خوشیاں منانے کے بجائے اپنے بچوں کی لاشیں اٹھاتی رہیں، عید پر بھی فلسطینیوں کے جسموں سے خون اور آنکھوں سے آنسو بہتے رہے، ظلم کی انتہا ہو چکی ہے مگر اسلامی ممالک بے شرم بنے ہوئے ہیں سب کے سب بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔

اسرائیلی بربریت بازاروں، اسکولوں اور پناہ گزین کیمپوں کو نشانہ بنا رہی ہے اور اس کے ظلم کو روکنے والا کوئی نہیں ہے پوری دنیا میں مسلمانوں کی تعداد کئی گنا ہے۔ حج کے موقعے پر مسلمانوں کا ہجوم بہت متاثر کن لگتا ہے مگر افسوس مسلمان کئی گنا زیادہ ہوں اور آپس میں اتحاد و اتفاق نہ ہو، ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کا درد نہ ہو تو کئی گنا تعداد میں زیادہ ہونا بھی بے کار ہے اسلامی ممالک کی خاموشی حیران کن اور بہت پریشانی والی بات ہے فلسطینیوں کا اتنا زیادہ قتل عام ہونے کے باوجود ابھی تک او آئی سی یا عرب لیگ عملی طور پر کوئی اقدام نہیں کر سکیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جیسے ہی اسرائیل نے فلسطین پر حملہ کیا تھا۔

او آئی سی تمام مسلم ممالک کا اجلاس طلب کر لیتی اور اس جارحیت کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس فیصلہ کرتی۔ اگر وہ ایسا کرتی تو ممکن ہے اقوام متحدہ، امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں پر دباؤ پڑتا۔ مگر ہم سب مسلمان بے حس ہو چکے ہیں۔ پاکستان کا حال بھی عید کے دن فلسطین ہی جیسا رہا۔

عید کے دن کراچی کے کئی خاندان برباد ہو گئے، مائیں آنسو بہاتی رہیں بین کرتی رہیں، کراچی میں برپا ہونے والے سانحہ سی ویو نے قوم کو مغموم کر دیا ۔ سمندر کی خونی لہروں نے کتنے افراد کی زندگی کے چراغ گل کیے اس کا ابھی تک صحیح اندازہ نہیں ہو سکا۔ عید کی خوشیاں منانے آنے والے افراد تیز رفتار موجوں کی نذر ہو گئے۔ اس حادثے کی ذمے داری ہماری غافل حکومت پر عائد ہوتی ہے کیونکہ دفعہ144 نافذ کر کے حکومت اپنا دامن نہیں بچا سکتی ہے سی ویو پر کسی بھی قسم کے حفاظتی انتظامات نہیں کیے گئے تھے۔

کراچی سی ویو پر کوئی دور دور تک لائف گارڈز نظر نہیں آتے ہیں یہ حادثہ حکومت کی غفلت کی وجہ سے ہوا حکومت کا فرض تھا کہ حفاظتی انتظامات عید کے دن عوام کے لیے سی ویو پر کیے جاتے مگر حفاظتی اقدامات کرتا کون پوری کی پوری انتظامیہ ملک سے باہر عید کرنے کے لیے گئی ہوئی تھی ہمارے وزرا تو چھٹیوں پر تھے عوام کو تن تنہا چھوڑ کر غیروں کے ساتھ عید منائی گئی وزیر اعظم صاحب جن کو ملک میں رہ کر اپنے عوام کے ساتھ عید کرنی چاہیے تھی انھوں نے پاکستانی عوام کے ساتھ سوتیلی ماؤں والا سلوک کیا۔ پاکستانی عوام سے ووٹ اور محبت کے دعوے دار عید کے اہم موقع پر پاکستانی عوام کے ساتھ نہیں غیروں کے ساتھ عید کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں جب انتظامیہ ہی غافل ہو تو پھر سانحہ سی ویو جیسے ہی واقعات رونما ہوتے ہیں۔

ہماری انتظامیہ غفلت کی گہری نیند سو رہی ہے کراچی شہر اس وقت گندگی کا ڈھیر بنا ہوا ہے صفائی کا فقدان نظر آ رہا ہے جگہ جگہ گندگی ہی گندگی، سڑکوں پر گلیوں میں گندگی نظر آ رہی ہے۔ کیا ہماری بلدیہ کا ادارہ بند ہو چکا ہے؟ جو شہر کراچی گندگی کا ڈھیر بنا ہوا ہے؟ کتوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ نہ صفائی کی طرف توجہ دی جا رہی ہے نہ آوارہ کتوں کی تعداد میں اضافے کی طرف۔ عوام کو بے یار و مددگار ہماری انتظامیہ نے چھوڑا ہوا ہے آخر عوام جائیں تو کدھر جائیں؟ معلوم نہیں ہماری انتظامیہ جو اتنی غفلت کی گہری نیند سو رہی ہے کب جاگے گی؟

کراچی میں رات گئے اچانک شہر کے مختلف علاقوں میں مون سون کی پہلی بارش گرج چمک کے ساتھ خوب برسی جس کے ساتھ ہی صوبائی اور مقامی انتظامیہ کی جانب سے کیے گئے تمام دعوؤں کا پول کھل گیا نشیبی علاقوں میں پانی جمع ہو گیا جب کہ نالوں میں صفائی نہ ہونے کے باعث پانی کی نکاسی بھی نہیں ہو رہی، ہماری بلدیہ عظمیٰ انشا اللہ بہت جلد جاگ جائے گی امید پر دنیا قائم ہے ہمیں بھی امید ہے۔

فلسطین کے عوام پر یہودی ظلم کر رہے ہیں مگر افسوس پاکستان میں مسلمان ہی ایک دوسرے پر ظلم کر رہے ہیں جانے کب ہم غفلت کی نیند سے جاگیں گے یا پھر یوں ہی ہم اپنے آپ کو تباہ و برباد کرتے رہیں گے؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں