درست راستہ
ہمارا ملک اور اس کے لوگ ایشیا کے بہت عجیب لوگ ہیں ۔۔۔۔
یہ دنیا بہت وسیع ہے۔ اس کے حسن کے بارے میں ہمارے چند خوش نصیب جنھیں دنیا دیکھنے کا موقع ملا لکھ چکے ہیں، لکھ رہے ہیں، لکھتے رہیں گے۔ اس دنیا میں ہمارا حصہ بھی کچھ کم تو نہیں ہے۔ بلند و بالا پہاڑ، ہرے بھرے میدان، دلفریب نظارے، یہ سب کچھ ہمیں بھی قدرت نے دیا ہے۔
جس چیز کی عموماً شکایت ہوتی ہے اور درست ہوتی ہے وہ ہے نظر اور نظر سے قائم ہونے والا خیال جیسا کہ ایک تصویر دیکھ کر آپ کوئی نہ کوئی رائے قائم کرتے ہیں۔ اسی طرح وطن کے گوشوں کو دیکھ کر بھی خیالات پیدا ہوتے ہیں۔
ان خیالات کی شکل دو طرح کی ہے۔ ایک تو وہ عام خیال ہے اور جو درست ہے کہ ہم قدرت کی صناعی، اس کے حسن و جمال کا مظہر انسانی آنکھ سے دیکھ کر دراصل منظر سے زیادہ تخلیق کار کو سراہتے ہیں۔دوسرا خیال بھی ہے کہ اسے دیکھ کر محرومی اور مایوسی کا تصور پیدا ہوتا ہے اور لوگ جو دسترس نہیں رکھتے کہ ان جگہوں تک جا سکیں یا وہ سب کچھ پا سکیں جو دوسروں نے پا لیا تو وہ اس چیز اور اس منظر اور اس شخص سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔
یہ دوسرا رویہ منفی ہی نہیں خطرناک حد تک منفی ہے، یہ اگر اسے سنبھالا نہ جائے تو کچھ کر گزرنے پر آمادہ کرتا ہے اور وہ کر گزرنا ''ٹھیک'' نہیں ہوتا کیونکہ وہ غلط راستے کی طرف Lead کرتا ہے۔میں ان دوستوں سے ہی مخاطب ہونا چاہتا ہوں جو اس دوسرے رویے کو اپناتے ہیں اور جس کا فائدہ مخصوص مفادات کے تحت لوگ اٹھا کر ملک میں ''جرائم پیشہ'' لوگ تیار کرتے ہیں اور "DON" اور ''کالا'' اور نہ جانے کیا کیا نام رکھتے ہیں۔اس ملک پاکستان میں ہر چیز ہے ضرور، مگر ہر ایک کو ملنا تو قدرت کے نظام کے تحت ہے۔ مجھے یاد ہے اور ایسا ہر جگہ پاکستان سے ہوا ہو گا۔
ہوتا رہتا ہے کہ بہت دور افتادہ Remote Area کا کوئی لڑکا اس قدر آگے بڑھا کہ ڈاکٹر محمد علی صدیقی بن گیا۔ کوئی ڈاکٹر عبدالقدیر بن گیا ایک مثال کے طور پر میں نے یہ نام لیے ہیں تو کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اپنے غصے کو ''درست راستہ'' دیں۔ اسے جدوجہد میں تبدیل کر دیں اور یہ اس عزم کے ساتھ ہو کہ میں ''کچھ'' بن کر رہوں گا۔اگر آپ نے اپنے غصے کو ''درست راستہ'' نہیں دیا تو آپ کو ''طالبان'' بنانے کے لیے لوگ تیار ہیں۔ یہ آج سے نہیں صدیوں سے سلسلہ چل رہا ہے۔ انسان نے جب بھی اپنے غصے کو ''درست راستہ'' دیا وہ ''کچھ خاص'' بن گیا۔
اور جب بھی انسان نے غصے کو وہی راستہ دیا جو انسانوں کا دشمن چاہتا ہے جس کے بارے میں آپ کی مقدس کتاب، آپ کے پیارے رب، آپ کے رسول، اہلبیت، صحابہ کرام، سب نے وقتاً فوقتاً نشاندہی کی ہے تو پھر انسان تباہی اور بربادی کا ایک ایسا ''لاوا'' بن جاتا ہے جو نہ صرف خود کو بلکہ بہت سے دوسرے معصوموں کو بھی جلا دیتا ہے۔پتا نہیں کیوں؟ شاید میری فطرت ہی نہیں دوسروں کی بھی ہو گی کہ جب ہم کہیں غلطی کرتے ہیں تو ہمارے اندر کا Indicator بار بار جلنے بجھنے لگتا ہے یہ الگ بات ہے کہ ہم اس پر توجہ نہیں دیتے اور احادیث اور دوسرے اقوال ایک دوسرے کو Send کرکے ثواب دارین حاصل کر لیتے ہیں۔
نہیں بھائی! ایسا نہیں چلے گا بقول شاعر ''دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا'' ہمیں زمانے کے ساتھ رہنا پڑے گا۔ میرے جو دوست مجھے ایسا کہتے ہیں بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ وہ غلط کہہ رہے ہیں میری ''میں'' اسے نہیں مانتی۔مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ سچ کہہ رہے ہیں ان کے شکریے کے ساتھ انسان کو ''بند گلی'' سے نکل کر ''روشن راستے'' کی تلاش کرنی چاہیے۔ یہ راستہ ہے ۔ موجود ہے بس آپ کو ذرا سا Ego کی قربانی دینی ہوتی ہے۔ وقت کو سمجھنا ہوتا ہے۔ حالات پر غور کرنا ہوتا ہے پھر سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔ہر زمانے کے الگ الگ معیار ہیں۔ جو آج پسندیدہ ہے کل ناپسندیدہ ہے۔ رجحانات تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ حالات بدلتے رہتے ہیں۔
ہمارا ملک اور اس کے لوگ ایشیا کے بہت عجیب لوگ ہیں (خود کو شامل کر کے کہہ رہا ہوں) ہمارے دکھ آپ پیدا کردہ ہیں۔ ہمارے سکھ درآمد شدہ ہیں۔ہر قوم نے دکھ سکھ سانجھے رکھے ہیں۔ ہم نے رکھے؟ دل پر ہاتھ رکھ کر ایمان سے بتائیے گا۔ سچ یہ ہے کہ نہیں رکھے۔ ہم نے اپنے پودے وقت سے پہلے ہی اکھاڑ دیے کہ وہ محبت اور پیار کے تناور درخت بنتے۔وقت اب بھی ہمارے ہاتھ میں ہے۔ وقت ہمیشہ ہاتھ میں ہوتا ہے۔ علاقے، قوم، زبان، نسل، فرقہ۔ انھیں توڑ دو دوستو! یہ دشمنی کے بت ہیں۔ خانہ دل میں اگر یہ براجمان رہیں گے تو ہم نہ خدا پرست بن سکیں گے اور نہ انسان پرست۔ تو پھر ہم میں اور جانوروں میں بھلا کیا فرق رہ جائے گا؟
جس چیز کی عموماً شکایت ہوتی ہے اور درست ہوتی ہے وہ ہے نظر اور نظر سے قائم ہونے والا خیال جیسا کہ ایک تصویر دیکھ کر آپ کوئی نہ کوئی رائے قائم کرتے ہیں۔ اسی طرح وطن کے گوشوں کو دیکھ کر بھی خیالات پیدا ہوتے ہیں۔
ان خیالات کی شکل دو طرح کی ہے۔ ایک تو وہ عام خیال ہے اور جو درست ہے کہ ہم قدرت کی صناعی، اس کے حسن و جمال کا مظہر انسانی آنکھ سے دیکھ کر دراصل منظر سے زیادہ تخلیق کار کو سراہتے ہیں۔دوسرا خیال بھی ہے کہ اسے دیکھ کر محرومی اور مایوسی کا تصور پیدا ہوتا ہے اور لوگ جو دسترس نہیں رکھتے کہ ان جگہوں تک جا سکیں یا وہ سب کچھ پا سکیں جو دوسروں نے پا لیا تو وہ اس چیز اور اس منظر اور اس شخص سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔
یہ دوسرا رویہ منفی ہی نہیں خطرناک حد تک منفی ہے، یہ اگر اسے سنبھالا نہ جائے تو کچھ کر گزرنے پر آمادہ کرتا ہے اور وہ کر گزرنا ''ٹھیک'' نہیں ہوتا کیونکہ وہ غلط راستے کی طرف Lead کرتا ہے۔میں ان دوستوں سے ہی مخاطب ہونا چاہتا ہوں جو اس دوسرے رویے کو اپناتے ہیں اور جس کا فائدہ مخصوص مفادات کے تحت لوگ اٹھا کر ملک میں ''جرائم پیشہ'' لوگ تیار کرتے ہیں اور "DON" اور ''کالا'' اور نہ جانے کیا کیا نام رکھتے ہیں۔اس ملک پاکستان میں ہر چیز ہے ضرور، مگر ہر ایک کو ملنا تو قدرت کے نظام کے تحت ہے۔ مجھے یاد ہے اور ایسا ہر جگہ پاکستان سے ہوا ہو گا۔
ہوتا رہتا ہے کہ بہت دور افتادہ Remote Area کا کوئی لڑکا اس قدر آگے بڑھا کہ ڈاکٹر محمد علی صدیقی بن گیا۔ کوئی ڈاکٹر عبدالقدیر بن گیا ایک مثال کے طور پر میں نے یہ نام لیے ہیں تو کہنا یہ چاہتا ہوں کہ اپنے غصے کو ''درست راستہ'' دیں۔ اسے جدوجہد میں تبدیل کر دیں اور یہ اس عزم کے ساتھ ہو کہ میں ''کچھ'' بن کر رہوں گا۔اگر آپ نے اپنے غصے کو ''درست راستہ'' نہیں دیا تو آپ کو ''طالبان'' بنانے کے لیے لوگ تیار ہیں۔ یہ آج سے نہیں صدیوں سے سلسلہ چل رہا ہے۔ انسان نے جب بھی اپنے غصے کو ''درست راستہ'' دیا وہ ''کچھ خاص'' بن گیا۔
اور جب بھی انسان نے غصے کو وہی راستہ دیا جو انسانوں کا دشمن چاہتا ہے جس کے بارے میں آپ کی مقدس کتاب، آپ کے پیارے رب، آپ کے رسول، اہلبیت، صحابہ کرام، سب نے وقتاً فوقتاً نشاندہی کی ہے تو پھر انسان تباہی اور بربادی کا ایک ایسا ''لاوا'' بن جاتا ہے جو نہ صرف خود کو بلکہ بہت سے دوسرے معصوموں کو بھی جلا دیتا ہے۔پتا نہیں کیوں؟ شاید میری فطرت ہی نہیں دوسروں کی بھی ہو گی کہ جب ہم کہیں غلطی کرتے ہیں تو ہمارے اندر کا Indicator بار بار جلنے بجھنے لگتا ہے یہ الگ بات ہے کہ ہم اس پر توجہ نہیں دیتے اور احادیث اور دوسرے اقوال ایک دوسرے کو Send کرکے ثواب دارین حاصل کر لیتے ہیں۔
نہیں بھائی! ایسا نہیں چلے گا بقول شاعر ''دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا'' ہمیں زمانے کے ساتھ رہنا پڑے گا۔ میرے جو دوست مجھے ایسا کہتے ہیں بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ وہ غلط کہہ رہے ہیں میری ''میں'' اسے نہیں مانتی۔مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ سچ کہہ رہے ہیں ان کے شکریے کے ساتھ انسان کو ''بند گلی'' سے نکل کر ''روشن راستے'' کی تلاش کرنی چاہیے۔ یہ راستہ ہے ۔ موجود ہے بس آپ کو ذرا سا Ego کی قربانی دینی ہوتی ہے۔ وقت کو سمجھنا ہوتا ہے۔ حالات پر غور کرنا ہوتا ہے پھر سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔ہر زمانے کے الگ الگ معیار ہیں۔ جو آج پسندیدہ ہے کل ناپسندیدہ ہے۔ رجحانات تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ حالات بدلتے رہتے ہیں۔
ہمارا ملک اور اس کے لوگ ایشیا کے بہت عجیب لوگ ہیں (خود کو شامل کر کے کہہ رہا ہوں) ہمارے دکھ آپ پیدا کردہ ہیں۔ ہمارے سکھ درآمد شدہ ہیں۔ہر قوم نے دکھ سکھ سانجھے رکھے ہیں۔ ہم نے رکھے؟ دل پر ہاتھ رکھ کر ایمان سے بتائیے گا۔ سچ یہ ہے کہ نہیں رکھے۔ ہم نے اپنے پودے وقت سے پہلے ہی اکھاڑ دیے کہ وہ محبت اور پیار کے تناور درخت بنتے۔وقت اب بھی ہمارے ہاتھ میں ہے۔ وقت ہمیشہ ہاتھ میں ہوتا ہے۔ علاقے، قوم، زبان، نسل، فرقہ۔ انھیں توڑ دو دوستو! یہ دشمنی کے بت ہیں۔ خانہ دل میں اگر یہ براجمان رہیں گے تو ہم نہ خدا پرست بن سکیں گے اور نہ انسان پرست۔ تو پھر ہم میں اور جانوروں میں بھلا کیا فرق رہ جائے گا؟