لاپتہ افراد کے بارے میں روایتی اور مبہم رپورٹس پیش کی جاتی ہیں سندھ ہائیکورٹ

جی ایچ کیو، آئی ایس آئی اور ایم آئی کو لاپتہ شہریوں کے بارے میں خطوط لکھ دیے، جواب موصول نہیں ہوا، سرکاری وکیل

جی ایچ کیو، آئی ایس آئی اور ایم آئی کو لاپتہ شہریوں کے بارے میں خطوط لکھ دیے، جواب موصول نہیں ہوا، سرکاری وکیل فوٹو: فائل

سندھ ہائیکورٹ نے لاپتا افراد کے مقدمات میں قانون نافذکرنے والے اداروں کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان مقدمات میں ایک جیسی روایتی رپورٹس پیش کردی جاتی ہیں جو عمومی طور پر مبہم ہوتی ہیں ۔

عدالت نے ایم آئی اور آئی ایس آئی کوجواب داخل کرنے کیلیے 2 ہفتے کی مہلت دیتے ہوئے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی ہے کہ 2ہفتے میں جواب کو یقینی بنایاجائے،محمد نواز کی درخواست کی سماعت کے موقع پررینجرز کی جانب سے بتایا گیا کہ درخواست گزار کا لاپتہ بھائی محمد امین اور بھتیجامحمد الیاس رینجرز کی حراست میں نہیں،اس حوالے سے رینجرز لاعلم ہے،وزارت دفاع کے ڈائریکٹر (لیگل) گروپ کیپٹن محمد عرفان کی جانب سے جمع کرائے جواب میں بتایا گیا کہ اس ضمن میں ایم آئی،آئی ایس آئی اور جی ایچ کیو کو خطوط لکھے گئے ہیں ۔

جس کاجواب آتے ہی عدالت کوآگاہ کردیا جائے گا،عدالت نے 27اگست تک سماعت ملتوی کرتے ہوئے 2 ہفتے میں جواب داخل کرنے کی ہدایت کی،محمد سعید قریشی کی گمشدگی کے حوالے سے اس کی والدہ مسمات شریفاں کی درخواست کی سماعت کے موقع پر ڈپٹی اٹارنی جنرل نے ایم آئی کی جانب سے جواب داخل کرنے کی مہلت طلب کی جس پر عدالت نے مہلت دیتے ہوئے دو ہفتے میں جواب داخل کرنے کو یقینی بنانے کا حکم دیا،عدالت نے ہدایت کی کہ خیبرپختونخواکے فوجی حراستی مراکزسے محمد سعید قریشی کی موجودگی کے حوالے سے معلومات حاصل کی جائے۔


لعل محمد کی درخواست کی سماعت کے موقع پررینجرز کے لا افسرضیا عارف جنجوعہ اور حبیب احمد ایڈووکیٹ نے بتایا کہ رینجرز نے درخواس گزار کے بیٹے نعمان علی کو حراست میں نہیں لیا،ایس ایچ او چاکیواڑہ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ نعمان علی کی گمشدگی کا واقعہ نوری آباد کی حدود میں پیش آیا اور اس حوالے سے نوری آبادپولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج کرلیا گیا ہے،اس موقع پر اسٹینڈنگ کونسل نے ایم آئی اور آئی ایس آئی کی جانب سے جواب داخل کرنے کیلیے مزید مہلت طلب کی جس پر عدالت نے ہدایت کی کہ دوہفتے میں ضرور جواب جمع کرایا جائے، عدالت نے عثمان علی اور ذیشان علی کی گمشدگی سے متعلق رینجرز کی رپورٹ کو روایتی قراردیتے ہوئے آبزرویشن دی کہ ادارے ایک جیسی رپورٹ جمع کرادیتے ہیں ۔

جس سے لاپتا افراد کے مقدمات کو حل کرنے میں مدد نہیں مل سکتی، فاضل بینچ نے مزید کہا کہ رینجرز اچھی ساکھ کا قانون نافذ کرنیوالا ادارہ ہے اس لیے اسے اپنے تشخص کے لیے محتاط رہنا چاہیے، اس موقع پررینجرز کے وکیل حبیب احمد نے عدالت کو یقین دلایا کہ رینجرز قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنائے گی اور عدالتی احکامات کے مطابق رپورٹس پیش کی جائیں گی،لاپتا بلال کی گمشدگی سے متعلق اس کے والد ہستی گل کی درخواست کی سماعت کے موقع پرپولیس کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ بلال کی بازیابی کیلیے کوششیں جاری ہیں تاحال کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ رینجرز اہلکار بلال کو یکم نومبر2012کو گھر سے گرفتار کرکے لے گئے تھے،اس موقع پر رینجرز کے وکیل حبیب احمد نے عدالت کو یقین دلایا کہ اس حوالے سے پولیس کے ساتھ مکمل تعاون کیا جائے گااور پولیس کے ساتھ مشاورت کرکے ایسا نمائندہ نامزد کیا جائے گا جوعدالت کی معاونت کرسکے۔
Load Next Story