گٹرصاف کرنے والوں کو لوگ انسان نہیں سمجھتے
جوانی میں ہی بینائی جا رہی ہے، کام کی وجہ سے متاثر ہونے والی ریڑھ کی ہڈی کا علاج تک نہیں کرواسکتا
اپنا اور اپنے خاندان کا پیٹ بھرنے کے لئے انسان کو زندگی میں کوئی نہ کوئی پیشہ ضرور اختیار کرنا پڑتا ہے، ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ کسی باعزت پیشے کو روزی روٹی کا ذریعہ بنائے مگر غربت اور تنگدستی انسان کو ایسا پیشہ بھی اختیار کرنے پر مجبور کردیتی ہے۔
جس کا اس نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔ ہمارے معاشرے میں ایک ایسی ہی نوکری یا پیشہ گٹر کھولنے یا صاف کرنے کا بھی ہے، اس پیشے کو اپنانے والے کو سیور مین کہتے ہیں۔ سیور مین ہمارے معاشرے کا انتہائی اہم رکن ہے، کیوں کہ وہ ایسا کام کرتا ہے جو دوسرے کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، مگر افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ سیورمین کو عزت اور اہمیت نہیں دی جاتی جو اس کا حق بنتا ہے، تو یہاں ہم آپ کی ملاقات ایک سیور مین سے کراتے ہیں، جس کی بپتا کو لفظوں کے سانچے میں ڈھال کر نذر قارئین کیا جا رہا ہے۔
موضع کچا بُچ ملتان کے رہائشی سیور مین عابد حسین کے والد مرحوم امیر بخش کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے اور انہوں نے دو شادیاں کی تھیں۔ دونوں بیویوں میں سے امیر بخش کے 15بچے تھے، جن میں سے 11بیٹے اور 4 بیٹیاں ہیں۔ وسائل کم اور اخراجات زیادہ ہونے سے امیربخش چاہتے ہوئے بھی اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہ کر سکا۔ 35 سالہ عابد حسین بھی صرف پانچ جماعت پاس ہے، جس کی وجوہات بتاتے ہوئے اس نے کہا کہ '' ہم 15 بہن بھائی ہیں اور میرے والد اکیلے کمانے والے تھے۔
وہ ہمیں پڑھا لکھا کر اچھا انسان بنانے کی خواہش رکھتے تھے، لیکن غربت کے باعث وہ یہ خواہش اپنے سینے میں ہی لئے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ گھریلو حالات انتہائی ناگفتہ بہ تھے تو والد نے پڑھائی چھڑوا کر مزدوری پر لگا دیا، کیوں کہ اس وقت تعلیم حاصل کئے بغیر گزارہ ہو سکتا تھا، لیکن دو وقت کی روٹی کے بغیر روح اور جسم کا رشتہ برقرار نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ پانچ جماعت پاس کرنے کے فوراً بعد میں ابھی بہت چھوٹا تھا کہ بھیڑ بکریاں چرانے لگا۔ باقی بہن بھائی بھی تھوڑا بہت ہی پڑھ سکے اور جو بھائی تھوڑا پڑھ لکھ گئے، یعنی ایک نے میٹرک بھی کر لیا لیکن اسے بھی کوئی ملازمت نہ ملی اور وہ بھی آج مزدوری ہی کرتا ہے۔''
ملازمت کے بارے میں بتاتے ہوئے سیور مین نے کہا کہ ''2008ء میں، میں نے واسا میں کنٹریکٹ پر یہ ملازمت اختیار کی، تاہم اس پیشے کا انتخاب انجانے میں ہوا، مجھے معلوم نہیں تھا کہ سیورمین کیا ہوتا ہے؟ بے روزگار تھا، گھریلو حالات سانپ کی طرح ڈس رہے تھے، تو بڑے بھائی کے کہنے پرملازمت کے لئے درخواست دے دی، جو منظور ہوگئی۔ پھر میں نے لوگوں سے اس ملازمت کی نوعیت کے بارے میں پوچھا؟ تو انہوں نے بتایا کہ اس ملازمت میں گٹروں (سیوریج پائپ لائن) میں اتر کر ان کی صفائی کرنا پڑتی ہے۔
جب میں نے یہ سنا تو ملازمت سے انکار کر دیا لیکن جب گھر پر ملازمت کا لیٹر آیا تو میرے بھائی نے کہا کہ آؤ چلیں، میرے انکار پر وہ مجھ سے ناراض ہو گیا اور مجھے پکڑ کر بھائی، بہنوں اور والدہ کے پاس لے گیا، میں نے ان سب کو بتایا کہ دیکھیں! میں نے دس سپارے حفظ کر رکھے ہیں، بچوں کو قرآن پڑھاتا ہوں، تو میں نجاست سے بھرا یہ کام نہیں کرسکتا، میرا ضمیر نہیں مانتا، میں مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالوں گا، مگر ماں نے مجھے کہا کہ دیکھو! ہمارے حالات تمہارے سامنے ہیں، اگر تم یہ ملازمت اختیار نہیں کرو گے، تو ہم کہاں سے کھائیں گے؟ تو اپنے بچوں کو کہاں سے روٹی لا کر دے گا؟ میں پھر بھی انکاری رہا تو انہوں نے مجھے یہ دھمکی بھی دے ڈالی کہ اگر تو ملازمت پر نہیں جائے گا تو میں تجھے اپنا دودھ معاف نہیں کروں گی، تو پھر کیا تھا، والدہ کی دھمکی اور غربت نے بالآخر مجھے گٹر میں اترنے پر مجبور کر دیا۔''
اپنے کام کی نوعیت کے بارے میں عابد حسین نے بتایا کہ '' گندگی کی وجہ سے بند سیوریج لائن کو کھولنا ہماری ذمہ داری ہے۔ جب ہم گندگی یا گار کو نکالنے کے لئے گٹر میں اترتے ہیں، تو رہائشیوں کو واش روم استعمال کرنے سے منع کرنے کے باوجود گندا پانی گٹر میں بیٹھے ہوئے ہمارے سر اور آنکھوں پر پڑ رہا ہوتا ہے۔ لوگوں اتنا بھی خیال نہیں کرتے کہ ایک انسان ان کا گند صاف کرنے کے لئے گٹر میں بیٹھا ہے، توکم از کم اب تو واش روم استعمال نہ کریں، لیکن وہ پھر بھی باز نہیں آتے اور جب گندگی ہمارے اوپر آ کر گرتی ہے تو خدا جانتا ہے کہ میرے دل سے کیسی آہ نکلتی ہے کہ اے میرے اللہ! کیا میرا یہی مقدر ہے؟ کام کرانے والے ہمیں پانی کا ایک گھونٹ تک دینا پسند نہیں کرتے، جب ہمارے ہاتھوں میں گندگی اور گار دیکھتے ہیں، تو وہ ہم سے گھن محسوس کرتے ہیں۔
ہمیں تو لوگ انسان تک نہیں سمجھتے، حالاں کہ میں تو مسلمان بھی ہوں۔ اچھا پھر کبھی کسی نے اگر پانی دے بھی دیا تو وہ کسی بوتل یا ناکارہ برتن میں دیا جاتا ہے تاکہ بعد میں اسے ضائع کر دیا جائے یا ہمیں کہا جاتا ہے کہ جاتے ہوئے اس بوتل کو بھی ساتھ ہی لے جانا، کھانا ہمیں شاپروں میں ڈال کر دیا جاتا ہے۔ ہم اپنی غربت اور مجبوریوں کے باعث گندے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، لوگوں کا گند صاف کرتے ہیں، لیکن ہمیں حکومت پوچھتی ہے نہ لوگ انسان سمجھنے کو تیار ہیں۔ لوگ ہم سے ہاتھ ملانا بھی توہین سمجھتے ہیں۔ اس کام کی وجہ سے غیر تو غیر اپنے رشتہ دار بھی منہ نہیں لگاتے، وہ ہم سے تعلق رکھنے یا ملنے ملانے پر شرم محسوس کرتے ہیں، تو ان حالات میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ لوگ تو ہم سے جینے کا حق بھی چھین رہے ہیں۔ میری ڈیوٹی صبح دس بجے سے چھ بجے تک ہے لیکن اکثر چھ بجے کے بعد ہی گھر واپس لوٹتا ہوں۔''
سیور مین کی ضروریات اور مسائل کا ذکر کرتے ہوئے شہریوں کے رویے سے مایوس اس شخص کا کہنا تھا کہ '' جب ہم بند سیوریج لائن کھولنے جاتے ہیں تو ہمیں ایک عدد کسّی، گھینچی (زمین کھودنے والا آلہ)، خاص وردی یعنی نیکر وغیرہ، ہیلمٹ، جوتے، آنے جانے کی سواری، بالٹی اور ایک بیلٹ کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن ان میں سے اکثر سہولیات ہمیں دستیاب نہیں۔ پہننے کے لئے وردی ملتی ہے نہ جوتے، گندگے کے ڈھیر پر پڑے کپڑے (شلوار، پینٹ وغیرہ) کو کاٹ کر اپنے لئے نیکر بنا لیتے ہیں، آنے جانے کے لئے سواری کے بجائے اپنے ہی سائیکلوں پر جاتے ہیں، نہانے کے لئے صابن ملتا ہے نہ گٹر میں اترنے سے قبل جسم پر لگانے کے لئے تیل دستیاب ہوتا ہے۔
ایک شکایت کے ازالہ کے لئے دو سے تین سیورمین جاتے ہیں، پہلے تو بانس وغیرہ سے بند گٹر کو کھولنے کی کوشش کرتے ہیں، اگر مسئلہ حل ہو گیا تو ٹھیک ورنہ ہمیں باقاعدہ طور پر سیوریج لائن، جس کا قطر 72انچ ہوتا ہے، کے اندر اتر کر گندگی باہر نکالنا پڑتی ہے۔ اچھا جو بندہ گٹر میں اترتا ہے، اس کو ایک رسی باندھ کر اندر اتارا جاتا ہے، کیوں کہ اندر زہریلی گیس ہوتی ہے۔ گٹر میں داخل ہونے سے قبل ہم زہریلی گیس کی اچھی طرح چھانٹ پھٹک کرتے ہیں لیکن پھر بھی حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
رسی کمر پر باندھ کر اترنے کا مقصد بھی یہی ہوتا کہ اگر کوئی مسئلہ بنے تو باہر موجود افراد فوری طور پر اندر گئے شخص کو اوپر کھینچ لیں۔ اب یہ سادہ رسی ہوتی ہے، جس سے کمر کو باندھنا پڑتا ہے، حالاں کہ ہمیں ایک خاص بیلٹ کی ضرورت ہوتی ہے، جو اچھی طرح کمر اور کندھوں کو اپنی گرفت میں لے اور مسئلہ بننے کی صورت میں متعلقہ شخص آسانی سے اوپر آ جائے، لیکن سادہ رسی ہمارے لئے سہولت کے بجائے موت کا سبب بن جاتی ہے، کیوں کہ بے ہوشی کی حالت میں جب باہر کھڑے لوگ گٹر میں بیٹھے شخص کو اوپر اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، تو کمر میں یہ سادہ رسی بندھی ہونے کی وجہ سے اندر والا شخص منہ کے بل الٹ جاتا ہے، اور جو پہلے بچنے کے مواقع ہوتے ہیں، وہ بھی ختم ہو جاتے ہیں۔''
ملازمت کو 6 سال گزرنے کے باوجود صرف 12 ہزار روپے تنخواہ پر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے والا یہ سیورمین ہر وقت گندگی میں ڈوبے رہنے کے باعث مختلف طبی مسائل کا بھی شکار ہو رہا ہے۔ اس ضمن میں ذکر کرتے ہوئے عابد حسین نے بتایا کہ '' دیکھیں! راہ چلتے عام شخص پر اگر دھول بھی پڑ جائے تو وہ اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے، کیوں کہ اس میں جراثیم ہوتے ہیں، لیکن ہم تو جراثیموں کے سمندر میں ڈبکیاں لگاتے ہیں، تو ایسے میں سوچیں کہ ہماری صحت کا کیا حال ہو گا؟ سیوریج لائن میں موجود زہریلی گیس کی وجہ سے جوانی کے باوجود آنکھوں کی بینائی جا رہی ہے، جلدی مسائل یعنی الرجی کا ہر وقت شکار رہتا ہوں۔
اس کے علاوہ کام کے دوران جب گندگی نکالتے ہیں تو ٹوٹے ہوئے شیشوں سمیت دیگر چیزیں کبھی ہاتھ تو کبھی پاؤں کو زخمی کر دیتی ہیں، جہاں سے پھر خون رستا ہے، لیکن کوئی ہماری پٹی بھی کروانے کو تیار نہیں ہوتا، ہم خود ہی ہاتھ یا پاؤں پر گیلا کپڑا باندھ لیتے ہیں، کیوں کہ ڈاکٹر کی بھاری فیس اور پٹی کا خرچہ بھی تو ہماری سکت سے باہر ہے، اور اگر میں ان خرچوں میں پھنس جاؤں تو پھر بچوں کو کیا کھلاؤں گا؟'' اس دوران جب اس نوجوان سیورمین کی آنکھیں نم ہو گئیں تو راقم اس سے نظر نہ ملا سکا، بہرحال تھوڑی دیر خاموشی کے بعد وہ دوبارہ گویا ہوا کہ '' 3 سال قبل وہاڑی چوک ملتان میں ایک بار میں 20 فٹ گہری لائن میں کام کر رہا تھا کہ اچانک اوپر سے ایک اینٹ گری، جو سیدھی میری ریڑھ کی ہڈی پر لگی، میرے ہڈی تو مکمل طور پر نہیں ٹوٹی لیکن اس میں دراڑ ضرور آ گئی ہے، جس کی وجہ سے آج میں دس کلو وزن بھی نہیں اٹھا سکتا اور پیسے نہ ہونے کے باعث علاج تو میری پہنچ سے بہت ہی دور ہے۔
ظلم تو یہ ہے کہ ہمیں ہمارا اپنا محکمہ پوچھتا ہے نہ حکومت، کسی بھی محکمہ کا ملازم ڈیوٹی اوقات میں اگر کسی حادثہ کا شکار ہو جائے تو اُسے لاکھوں روپے امداد دی جاتی ہے، لیکن ہم ایسے بدقسمت ہیں کہ ہمارے کئی بھائی لوگوں کا گند صاف کرتے کرتے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، لیکن حکومت یا محکمہ نے انہیں کبھی اتنا بھی نہیں دیا کہ ان کے اہل و عیال اس فوتیدگی یا معذوری کے بعد کچھ سہولت محسوس کریں۔ بس چند ہزار روپے دے کر اپنا فرض ادا کر دیا جاتا ہے، حالاں کہ اتنا خرچہ تو اس کی فوتیدگی پر آنے جانے والوں اور کفن دفن پر ہی لگ جاتا ہے۔''
حکومت اور واسا سے اپنی دل کی بات کرتے ہوئے عابد حسین نے کہا کہ ''میری واسا حکام سے اپیل ہے کہ غربت کی وجہ سے میں نے یہ پیشہ اختیار کیا لیکن خدا کے واسطے مجھے اس کام سے نجات دلوائی جائے کیوں کہ میں اندر سے کٹا جا رہا ہوں، مجھے ہیلپر یا چوکیدار ہی لگا دیا جائے۔ میرا ضمیر ملامت کرتا ہے کہ قرآن پاک، نماز اور تہجد پڑھنے والا شخص آج ہر وقت ناپاکی اور نجاست میں لپٹا رہتا ہے، تو ایسے میں، میں اپنے اللہ کی کیا عبادت کروں گا؟ اس غربت اور ملازمت نے مجھے میرے دین سے بھی دور کر دیا۔ حکومت سے میرا مطالبہ ہے کہ غریب کو جینے کا حق ضرور دے، ان کی باز پرس کرے۔
ابھی وزیراعظم نے قرضہ سکیم شروع کی، لیکن وہ قرضے بھی ان لوگوں کو ملے، جن کے کوائف مکمل تھے، اب میں ان پڑھ اور غریب بندہ یہ کوائف کہاں سے پورے کروں؟'' راقم اٹھنے لگا تو عابد حسین نے ہاتھ پکڑ کر کہا کہ میں چند اشعار میں اپنی فریاد حکمرانوں اور عوام تک پہنچانا چاہتا ہوں، آپ اسے ضرور شامل کر دیں۔ وہ اشعار سیورمین نے جیسے پڑھے، ویسے ہی رقم کئے جا رہے ہیں۔
پیچھے بندھے ہیں ہاتھ، مگر شرط ہے سفر
کس سے کہوں کہ پاؤں کے کانٹے نکال دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں سیورمین ہاں سیورمین دے حق دا حساب تھی ونجے
جیڑا کرے ظلم سیورمین تے بے نقاب تھی ونجے
میں پیر عابد دے دل کوں تسکین مل پووے ہا
ایہو کرم سیورمیناں تے تہاڈا جناب تھی ونجے
جس کا اس نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔ ہمارے معاشرے میں ایک ایسی ہی نوکری یا پیشہ گٹر کھولنے یا صاف کرنے کا بھی ہے، اس پیشے کو اپنانے والے کو سیور مین کہتے ہیں۔ سیور مین ہمارے معاشرے کا انتہائی اہم رکن ہے، کیوں کہ وہ ایسا کام کرتا ہے جو دوسرے کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، مگر افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ سیورمین کو عزت اور اہمیت نہیں دی جاتی جو اس کا حق بنتا ہے، تو یہاں ہم آپ کی ملاقات ایک سیور مین سے کراتے ہیں، جس کی بپتا کو لفظوں کے سانچے میں ڈھال کر نذر قارئین کیا جا رہا ہے۔
موضع کچا بُچ ملتان کے رہائشی سیور مین عابد حسین کے والد مرحوم امیر بخش کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے اور انہوں نے دو شادیاں کی تھیں۔ دونوں بیویوں میں سے امیر بخش کے 15بچے تھے، جن میں سے 11بیٹے اور 4 بیٹیاں ہیں۔ وسائل کم اور اخراجات زیادہ ہونے سے امیربخش چاہتے ہوئے بھی اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ نہ کر سکا۔ 35 سالہ عابد حسین بھی صرف پانچ جماعت پاس ہے، جس کی وجوہات بتاتے ہوئے اس نے کہا کہ '' ہم 15 بہن بھائی ہیں اور میرے والد اکیلے کمانے والے تھے۔
وہ ہمیں پڑھا لکھا کر اچھا انسان بنانے کی خواہش رکھتے تھے، لیکن غربت کے باعث وہ یہ خواہش اپنے سینے میں ہی لئے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ گھریلو حالات انتہائی ناگفتہ بہ تھے تو والد نے پڑھائی چھڑوا کر مزدوری پر لگا دیا، کیوں کہ اس وقت تعلیم حاصل کئے بغیر گزارہ ہو سکتا تھا، لیکن دو وقت کی روٹی کے بغیر روح اور جسم کا رشتہ برقرار نہیں رکھا جا سکتا تھا۔ پانچ جماعت پاس کرنے کے فوراً بعد میں ابھی بہت چھوٹا تھا کہ بھیڑ بکریاں چرانے لگا۔ باقی بہن بھائی بھی تھوڑا بہت ہی پڑھ سکے اور جو بھائی تھوڑا پڑھ لکھ گئے، یعنی ایک نے میٹرک بھی کر لیا لیکن اسے بھی کوئی ملازمت نہ ملی اور وہ بھی آج مزدوری ہی کرتا ہے۔''
ملازمت کے بارے میں بتاتے ہوئے سیور مین نے کہا کہ ''2008ء میں، میں نے واسا میں کنٹریکٹ پر یہ ملازمت اختیار کی، تاہم اس پیشے کا انتخاب انجانے میں ہوا، مجھے معلوم نہیں تھا کہ سیورمین کیا ہوتا ہے؟ بے روزگار تھا، گھریلو حالات سانپ کی طرح ڈس رہے تھے، تو بڑے بھائی کے کہنے پرملازمت کے لئے درخواست دے دی، جو منظور ہوگئی۔ پھر میں نے لوگوں سے اس ملازمت کی نوعیت کے بارے میں پوچھا؟ تو انہوں نے بتایا کہ اس ملازمت میں گٹروں (سیوریج پائپ لائن) میں اتر کر ان کی صفائی کرنا پڑتی ہے۔
جب میں نے یہ سنا تو ملازمت سے انکار کر دیا لیکن جب گھر پر ملازمت کا لیٹر آیا تو میرے بھائی نے کہا کہ آؤ چلیں، میرے انکار پر وہ مجھ سے ناراض ہو گیا اور مجھے پکڑ کر بھائی، بہنوں اور والدہ کے پاس لے گیا، میں نے ان سب کو بتایا کہ دیکھیں! میں نے دس سپارے حفظ کر رکھے ہیں، بچوں کو قرآن پڑھاتا ہوں، تو میں نجاست سے بھرا یہ کام نہیں کرسکتا، میرا ضمیر نہیں مانتا، میں مزدوری کرکے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالوں گا، مگر ماں نے مجھے کہا کہ دیکھو! ہمارے حالات تمہارے سامنے ہیں، اگر تم یہ ملازمت اختیار نہیں کرو گے، تو ہم کہاں سے کھائیں گے؟ تو اپنے بچوں کو کہاں سے روٹی لا کر دے گا؟ میں پھر بھی انکاری رہا تو انہوں نے مجھے یہ دھمکی بھی دے ڈالی کہ اگر تو ملازمت پر نہیں جائے گا تو میں تجھے اپنا دودھ معاف نہیں کروں گی، تو پھر کیا تھا، والدہ کی دھمکی اور غربت نے بالآخر مجھے گٹر میں اترنے پر مجبور کر دیا۔''
اپنے کام کی نوعیت کے بارے میں عابد حسین نے بتایا کہ '' گندگی کی وجہ سے بند سیوریج لائن کو کھولنا ہماری ذمہ داری ہے۔ جب ہم گندگی یا گار کو نکالنے کے لئے گٹر میں اترتے ہیں، تو رہائشیوں کو واش روم استعمال کرنے سے منع کرنے کے باوجود گندا پانی گٹر میں بیٹھے ہوئے ہمارے سر اور آنکھوں پر پڑ رہا ہوتا ہے۔ لوگوں اتنا بھی خیال نہیں کرتے کہ ایک انسان ان کا گند صاف کرنے کے لئے گٹر میں بیٹھا ہے، توکم از کم اب تو واش روم استعمال نہ کریں، لیکن وہ پھر بھی باز نہیں آتے اور جب گندگی ہمارے اوپر آ کر گرتی ہے تو خدا جانتا ہے کہ میرے دل سے کیسی آہ نکلتی ہے کہ اے میرے اللہ! کیا میرا یہی مقدر ہے؟ کام کرانے والے ہمیں پانی کا ایک گھونٹ تک دینا پسند نہیں کرتے، جب ہمارے ہاتھوں میں گندگی اور گار دیکھتے ہیں، تو وہ ہم سے گھن محسوس کرتے ہیں۔
ہمیں تو لوگ انسان تک نہیں سمجھتے، حالاں کہ میں تو مسلمان بھی ہوں۔ اچھا پھر کبھی کسی نے اگر پانی دے بھی دیا تو وہ کسی بوتل یا ناکارہ برتن میں دیا جاتا ہے تاکہ بعد میں اسے ضائع کر دیا جائے یا ہمیں کہا جاتا ہے کہ جاتے ہوئے اس بوتل کو بھی ساتھ ہی لے جانا، کھانا ہمیں شاپروں میں ڈال کر دیا جاتا ہے۔ ہم اپنی غربت اور مجبوریوں کے باعث گندے پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں، لوگوں کا گند صاف کرتے ہیں، لیکن ہمیں حکومت پوچھتی ہے نہ لوگ انسان سمجھنے کو تیار ہیں۔ لوگ ہم سے ہاتھ ملانا بھی توہین سمجھتے ہیں۔ اس کام کی وجہ سے غیر تو غیر اپنے رشتہ دار بھی منہ نہیں لگاتے، وہ ہم سے تعلق رکھنے یا ملنے ملانے پر شرم محسوس کرتے ہیں، تو ان حالات میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ لوگ تو ہم سے جینے کا حق بھی چھین رہے ہیں۔ میری ڈیوٹی صبح دس بجے سے چھ بجے تک ہے لیکن اکثر چھ بجے کے بعد ہی گھر واپس لوٹتا ہوں۔''
سیور مین کی ضروریات اور مسائل کا ذکر کرتے ہوئے شہریوں کے رویے سے مایوس اس شخص کا کہنا تھا کہ '' جب ہم بند سیوریج لائن کھولنے جاتے ہیں تو ہمیں ایک عدد کسّی، گھینچی (زمین کھودنے والا آلہ)، خاص وردی یعنی نیکر وغیرہ، ہیلمٹ، جوتے، آنے جانے کی سواری، بالٹی اور ایک بیلٹ کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن ان میں سے اکثر سہولیات ہمیں دستیاب نہیں۔ پہننے کے لئے وردی ملتی ہے نہ جوتے، گندگے کے ڈھیر پر پڑے کپڑے (شلوار، پینٹ وغیرہ) کو کاٹ کر اپنے لئے نیکر بنا لیتے ہیں، آنے جانے کے لئے سواری کے بجائے اپنے ہی سائیکلوں پر جاتے ہیں، نہانے کے لئے صابن ملتا ہے نہ گٹر میں اترنے سے قبل جسم پر لگانے کے لئے تیل دستیاب ہوتا ہے۔
ایک شکایت کے ازالہ کے لئے دو سے تین سیورمین جاتے ہیں، پہلے تو بانس وغیرہ سے بند گٹر کو کھولنے کی کوشش کرتے ہیں، اگر مسئلہ حل ہو گیا تو ٹھیک ورنہ ہمیں باقاعدہ طور پر سیوریج لائن، جس کا قطر 72انچ ہوتا ہے، کے اندر اتر کر گندگی باہر نکالنا پڑتی ہے۔ اچھا جو بندہ گٹر میں اترتا ہے، اس کو ایک رسی باندھ کر اندر اتارا جاتا ہے، کیوں کہ اندر زہریلی گیس ہوتی ہے۔ گٹر میں داخل ہونے سے قبل ہم زہریلی گیس کی اچھی طرح چھانٹ پھٹک کرتے ہیں لیکن پھر بھی حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں۔
رسی کمر پر باندھ کر اترنے کا مقصد بھی یہی ہوتا کہ اگر کوئی مسئلہ بنے تو باہر موجود افراد فوری طور پر اندر گئے شخص کو اوپر کھینچ لیں۔ اب یہ سادہ رسی ہوتی ہے، جس سے کمر کو باندھنا پڑتا ہے، حالاں کہ ہمیں ایک خاص بیلٹ کی ضرورت ہوتی ہے، جو اچھی طرح کمر اور کندھوں کو اپنی گرفت میں لے اور مسئلہ بننے کی صورت میں متعلقہ شخص آسانی سے اوپر آ جائے، لیکن سادہ رسی ہمارے لئے سہولت کے بجائے موت کا سبب بن جاتی ہے، کیوں کہ بے ہوشی کی حالت میں جب باہر کھڑے لوگ گٹر میں بیٹھے شخص کو اوپر اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں، تو کمر میں یہ سادہ رسی بندھی ہونے کی وجہ سے اندر والا شخص منہ کے بل الٹ جاتا ہے، اور جو پہلے بچنے کے مواقع ہوتے ہیں، وہ بھی ختم ہو جاتے ہیں۔''
ملازمت کو 6 سال گزرنے کے باوجود صرف 12 ہزار روپے تنخواہ پر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے والا یہ سیورمین ہر وقت گندگی میں ڈوبے رہنے کے باعث مختلف طبی مسائل کا بھی شکار ہو رہا ہے۔ اس ضمن میں ذکر کرتے ہوئے عابد حسین نے بتایا کہ '' دیکھیں! راہ چلتے عام شخص پر اگر دھول بھی پڑ جائے تو وہ اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے، کیوں کہ اس میں جراثیم ہوتے ہیں، لیکن ہم تو جراثیموں کے سمندر میں ڈبکیاں لگاتے ہیں، تو ایسے میں سوچیں کہ ہماری صحت کا کیا حال ہو گا؟ سیوریج لائن میں موجود زہریلی گیس کی وجہ سے جوانی کے باوجود آنکھوں کی بینائی جا رہی ہے، جلدی مسائل یعنی الرجی کا ہر وقت شکار رہتا ہوں۔
اس کے علاوہ کام کے دوران جب گندگی نکالتے ہیں تو ٹوٹے ہوئے شیشوں سمیت دیگر چیزیں کبھی ہاتھ تو کبھی پاؤں کو زخمی کر دیتی ہیں، جہاں سے پھر خون رستا ہے، لیکن کوئی ہماری پٹی بھی کروانے کو تیار نہیں ہوتا، ہم خود ہی ہاتھ یا پاؤں پر گیلا کپڑا باندھ لیتے ہیں، کیوں کہ ڈاکٹر کی بھاری فیس اور پٹی کا خرچہ بھی تو ہماری سکت سے باہر ہے، اور اگر میں ان خرچوں میں پھنس جاؤں تو پھر بچوں کو کیا کھلاؤں گا؟'' اس دوران جب اس نوجوان سیورمین کی آنکھیں نم ہو گئیں تو راقم اس سے نظر نہ ملا سکا، بہرحال تھوڑی دیر خاموشی کے بعد وہ دوبارہ گویا ہوا کہ '' 3 سال قبل وہاڑی چوک ملتان میں ایک بار میں 20 فٹ گہری لائن میں کام کر رہا تھا کہ اچانک اوپر سے ایک اینٹ گری، جو سیدھی میری ریڑھ کی ہڈی پر لگی، میرے ہڈی تو مکمل طور پر نہیں ٹوٹی لیکن اس میں دراڑ ضرور آ گئی ہے، جس کی وجہ سے آج میں دس کلو وزن بھی نہیں اٹھا سکتا اور پیسے نہ ہونے کے باعث علاج تو میری پہنچ سے بہت ہی دور ہے۔
ظلم تو یہ ہے کہ ہمیں ہمارا اپنا محکمہ پوچھتا ہے نہ حکومت، کسی بھی محکمہ کا ملازم ڈیوٹی اوقات میں اگر کسی حادثہ کا شکار ہو جائے تو اُسے لاکھوں روپے امداد دی جاتی ہے، لیکن ہم ایسے بدقسمت ہیں کہ ہمارے کئی بھائی لوگوں کا گند صاف کرتے کرتے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، لیکن حکومت یا محکمہ نے انہیں کبھی اتنا بھی نہیں دیا کہ ان کے اہل و عیال اس فوتیدگی یا معذوری کے بعد کچھ سہولت محسوس کریں۔ بس چند ہزار روپے دے کر اپنا فرض ادا کر دیا جاتا ہے، حالاں کہ اتنا خرچہ تو اس کی فوتیدگی پر آنے جانے والوں اور کفن دفن پر ہی لگ جاتا ہے۔''
حکومت اور واسا سے اپنی دل کی بات کرتے ہوئے عابد حسین نے کہا کہ ''میری واسا حکام سے اپیل ہے کہ غربت کی وجہ سے میں نے یہ پیشہ اختیار کیا لیکن خدا کے واسطے مجھے اس کام سے نجات دلوائی جائے کیوں کہ میں اندر سے کٹا جا رہا ہوں، مجھے ہیلپر یا چوکیدار ہی لگا دیا جائے۔ میرا ضمیر ملامت کرتا ہے کہ قرآن پاک، نماز اور تہجد پڑھنے والا شخص آج ہر وقت ناپاکی اور نجاست میں لپٹا رہتا ہے، تو ایسے میں، میں اپنے اللہ کی کیا عبادت کروں گا؟ اس غربت اور ملازمت نے مجھے میرے دین سے بھی دور کر دیا۔ حکومت سے میرا مطالبہ ہے کہ غریب کو جینے کا حق ضرور دے، ان کی باز پرس کرے۔
ابھی وزیراعظم نے قرضہ سکیم شروع کی، لیکن وہ قرضے بھی ان لوگوں کو ملے، جن کے کوائف مکمل تھے، اب میں ان پڑھ اور غریب بندہ یہ کوائف کہاں سے پورے کروں؟'' راقم اٹھنے لگا تو عابد حسین نے ہاتھ پکڑ کر کہا کہ میں چند اشعار میں اپنی فریاد حکمرانوں اور عوام تک پہنچانا چاہتا ہوں، آپ اسے ضرور شامل کر دیں۔ وہ اشعار سیورمین نے جیسے پڑھے، ویسے ہی رقم کئے جا رہے ہیں۔
پیچھے بندھے ہیں ہاتھ، مگر شرط ہے سفر
کس سے کہوں کہ پاؤں کے کانٹے نکال دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں سیورمین ہاں سیورمین دے حق دا حساب تھی ونجے
جیڑا کرے ظلم سیورمین تے بے نقاب تھی ونجے
میں پیر عابد دے دل کوں تسکین مل پووے ہا
ایہو کرم سیورمیناں تے تہاڈا جناب تھی ونجے