اسلام آباد کے ’’رین واشڈ‘‘ رنگ
ارسطو بھی اگر زندہ ہوتا تو پاکستانی سیاست کو سمجھنے کے لیے ان سے رجوع کرتا۔
بادل جب بھی کھل کر برسے اسلام آباد کا منظر بہت سہانا ہو جاتا ہے۔ سبز رنگ کے اتنے Shades اچانک نکھر کر آنکھوں کے سامنے رونما ہو جاتے ہیں کہ انھیں علیحدہ علیحدہ بیان کرنے کو لفظ نہیں ملتے۔ مجموعی طور پر اگرچہ یہ بات فوراً سمجھ آ جاتی ہے کہ مصوری کے شعبے میں جسے Rain Washed رنگ کہا جاتا ہے وہ اصل میں کیا ہوتے ہیں۔ سنا ہے ایسے رنگوں کا استعمال چین نے دریافت کیا تھا وہاں سے یہ فن جاپان اور کوریا پہنچا۔ چین ہی کی بدولت ایسے رنگوں کا تعارف سمرقند و بخارا کے مصوروں سے ہوا جنہوں نے ہرات کی ایک شاہزادی کی سرپرستی میں اس کے استعمال کے ہنر کو کمال تک پہنچا دیا۔
ایران اور ترکی میں ہاتھ سے لکھی کتابوں کے جاذب نظر حاشیے اسی ہنر کی بدولت ممکن ہوئے اور ساتھ میں وہ تصویری خاکے بھی جو شیریں و فرہاد جیسی داستانوں کو Visual Supports مہیا کیا کرتے تھے۔ ہمارے ہاں Rain Washed رنگوں کی شناخت بنگال والے جبلی طور پر کر سکتے تھے۔ عبدالرحمن چغتائی کا اصل کمال یہ تھا کہ انھوں نے بنگال کے رنگوں سے سمرقند، بخارا اور ہرات سے آئی روایتوں کو جدید دور میں لا کر مصوری کا ایک جدید انداز متعارف کروا دیا۔ اتنا لکھنے کے بعد رنگوں اور تصویروں کے حوالے سے میرا علم اپنے اختتام کو پہنچا۔
مقصد لفظوں کے ذریعے اسلام آباد کے اس منظر کو بیان کرنا ہے جو اس وقت میری آنکھوں کے سامنے موجود ہے اور ربّ کریم نے اچھی نثر لکھنے کا ہنر ہی عطا نہیں کیا۔ مجھے تو کئی مہینوں سے بلکہ ایسا محسوس ہونا شروع ہو گیا کہ اس دور کے کالم نگاروں میں یہ ہنر صرف انتظار حسین صاحب کے پاس باقی رہ گیا ہے۔
پورا منظر تو بہت دور کی بات ہے ساون کی ہوا کا جھونکا بھی ان کے قلم کو فوراً رواں کر دیتا ہے اور پھر محبتوں سے بھرے اسی ماضی کی یادیں جب نوجوان لڑکیاں برسات کے موسم کا اپنے لباس کے لیے چنے رنگوں سے حق ادا کر دیا کرتی تھیں۔ پھر مائوں کے ہاتھ سے بنائے موسم کی مناسبت سے پکوان اور شفقت بھری باتیں۔ دل میں ازلی گداز پیدا کرنے والی کہانیاں۔ ایسی مائوں کی بدولت ہی بچے جوانی کی حدوں تک پہنچتے ہی اسمارٹ فون لے کر Selfies Post کرنے والے خود پسند جنون میں مبتلا نہیں ہوا کرتے تھے اور نہ ہی ٹویٹر اکائونٹس کے ذریعے اپنے مخالفین کو وحشیانہ نفرتوں کا نشانہ۔
کسی اور موضوع پر ویسے بھی میرے جیسے قلم گھسیٹوں کو لکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ ربّ کا شکر ادا کر بھائی جس نے ہماری سیاست بنائی جو مچائی رکھتی ہے ہر وقت شور اور شب و روز کے تماشے۔ تماشوں پر رننگ کمنٹری مگر رپورٹنگ کا شعبہ ہے۔ آصف علی زرداری لندن بیٹھے چند فون نمبر گھماتے ہیں اور Breaking News بن جاتی ہے۔ سنا ہے بے چاری جمہوریت اپنے ملک میں ایک بار پھر خطرے میں پڑ گئی ہے۔ اسے بچانے کے لیے سید خورشید شاہ، سراج الحق اور نجانے کون کون متحرک ہوچکے ہیں۔
وزیر اعظم صاحب جو صرف چند ہی دن پہلے تک محبوب کی کمر کی طرح ''ہر چند کہیں کہ ہے کہ نہیں ہے'' محسوس ہو رہے تھے اب ایک ملاقاتی کے بعد دوسرے ملاقاتی سے مل رہے ہیں۔ صلاح مشورے جاری ہیں۔ جمہوریت کو بچانے کی خاطر۔ جمہوریت کے مبینہ ''دشمن'' بھی مگر آرام سے نہیں بیٹھے۔ عمران خان اور ان کی جماعت ابلاغ کے جدید ترین ذرایع کے بھرپور استعمال کے ذریعے دس لاکھ افراد کو تقریباََ ایک لاکھ موٹر سائیکل سواروں کے ساتھ اسلام آباد کے ڈی چوک میں 14 اگست کے روز اکٹھا کرنے میں مصروف ہے۔ اپنے لال حویلی کے شیخ رشید احمد صاحب کو زیادہ مشقت کی ضرورت نہیں۔
ارسطو بھی اگر زندہ ہوتا تو پاکستانی سیاست کو سمجھنے کے لیے ان سے رجوع کرتا۔ میکیا ولی ان کے قدموں میں بیٹھ کر راج نیتی کے چند نئے گر سے آشنا ہوتا۔ باخبر آدمی ہیں۔ اقتدار کے اصل مراکز میں جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے اس سے متعلقہ خبریں سر کے بل چلتی ہوئی لال حویلی آ کر رُک جاتی ہیں۔ شیخ صاحب نہایت ہنر کاری سے بہترین ٹائمنگ کے ساتھ انھیں اپنی پسند کے اینکر حضرات کے ذریعے آشکار کر دیتے ہیں۔ میں اپنی حماقتوں کی وجہ سے انھیں ناراض کر بیٹھا ہوں۔ سوچ رہا ہوں کہ اب اپنی ''اوقات'' میں واپس آ ہی جائوں اور ان کی سرپرستی کی خاطر لال حویلی جا کر سر نگوں کر دوں۔
اپنے شعبے میں زندہ رہنا ہے تو خبر درکار ہے اور وہ صرف ان کے پاس ہے۔ کبھی کبھار مگر یہ سوچ کر خود کو تسلی دینے کی کوشش کرتا ہوں کہ کالم نگاروں سے قاری خبروں کا نہیں تجزیوں کا تقاضہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر کرکٹ میچ ہو رہا ہو اور ایک وکٹ گر جائے تو ہر شخص کو نظر آجاتی ہے۔ میچ پر رواں تبصرہ کرنے والا اس وقت یہ اطلاع دے کر فارغ ہو جاتا ہے کہ فلاں کھلاڑی فلاں بائولر کی گیند پر آؤٹ ہوگیا۔
اس کے بعد ضرورت ہوتی ہے ایک ماہر کی جو میرے جیسے کند ذہنوں کو یہ سمجھائے کہ کس نوعیت کے بال نے بیٹسمین کو حواس باختہ کر دیا۔ بائولنگ کے اسرار و رموز سمجھاتے ہوئے ماہر ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش بھی کرتا ہے کہ ایسی خوب صورت گیند کے مقابلے میں وکٹ کیسے بچائی جا سکتی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ کمنٹری باکس میں خضاب لگائے بیٹھا یہ ماہر اکثر اپنی جوانی کے دنوں میں ایسے ہی گیندوں کی بدولت کئی بار آئوٹ ہوا ہوتا ہے۔
قبلہ شیخ رشید احمد صاحب بھی مجھے کبھی کبھار ایسے ہی ماہر محسوس ہوتے ہیں۔ نواز شریف صاحب کی پہلی حکومت کے وہ وزیر اطلاعات تھے۔ مگر زیادہ دن یہ وزارت اپنے پاس نہ رکھ پائے۔ انھیں آئوٹ کر کے نواز شریف صاحب نے مرحوم عبدالستار لالیکا کو اس وزارت میں ''ان''کر دیا۔ میاں صاحب دوسری بار وزیر اعظم بنے تو مشاہد حسین سید کی وجہ سے ایک پنجابی محاورے کے مطابق سانپ کے آگے شیخ صاحب کا دیا نہ جل پایا۔
میڈیا کے حوالے سے شیخ صاحب کی مہارت کو ایک بار پھر دریافت کیا تو جنرل پرویز مشرف نے۔ قصہ مگر یہ بھی ہوا کہ بالآخر وزارت اطلاعات یکے از بانیانِ پاسبان محمد علی درانی لے اُڑے۔ شیخ صاحب کو وزارتِ ریلوے بھیج دیا گیا۔ ایسے تجربات کے بعد یقینا شیخ صاحب کا حق بنتا ہے کہ وہ بڑے اعتماد کے ساتھ ہمیں یہ سمجھا سکیں کہ قربانی سے پہلے قربانی کیسے ہو گی۔ قربانی سے پہلے قربانی والا نسخہ تو اب انھوں نے آہستہ آہستہ بیان کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔ چونکہ اس نسخے میں سپریم کورٹ کا ذکر بھی آتا ہے اس لیے پیدائشی ڈرپوک ہوتے ہوئے میں اسے بیان کرنے سے بھی گھبراتا ہوں۔ تبصرہ آرائی کی جرأت تو پیدا ہی نہیں ہو سکتی۔
بات ہو رہی ہے تجزیے کی اور اعتراف کیا ہے میں نے اپنی پیدائشی بزدلی کا اس لیے دل مچل اُٹھا کہ آپ کو یہ بات بھی یاد دلا دوں کہ کئی برس بعد ''مائنس۔ ون'' والی اصطلاح ایک بار پھر بہت مقبول ہو رہی ہے۔ یہ بتانے کی تو شاید ضرورت نہیں کہ ''مائنس'' کس کو کرنا ہے۔ ظاہر ہے نواز شریف صاحب کو۔ اب سنجیدگی سے تجزیہ کرنا ہے تو پہلا سوال بنتا ہے آخر کیوں؟ اس کے جوابات کے حوالے سے اخبارات کا عام قاری بھی واقف ہے۔ مگر ان کا ''اصل گناہ'' کیا ہے۔ یہ بات سب سمجھتے ہیں مگر سب چپ ہیں اور کوئی جاتا نہیں کہ ''ان'' سے کہے۔