بلوچستان اور اہل صحافت
صوبائی حکومت کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کے تعاون کی بناء پر امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی...
SUKKUR:
خضدار پریس کلب کو دھمکیوں کے بعد پھر بند کر دیا گیا۔ گزشتہ دو برسوں میں دوسری دفعہ یہ پریس کلب بند ہوا ہے۔ خضدار پریس کلب کے صدر اور سیکریٹری جنرل سمیت 12 صحافی گزشتہ 6 برسوں کے دوران نامعلوم افراد کی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں۔ ذرایع ابلاغ میں شایع ہونے والی خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ ہندو برادری کے دو افراد 2 ماہ قبل اغواء ہوئے تھے۔ یہ لوگ تاوان دے کر رہا ہوئے۔ ہندو برادری کے نمایندوں نے خضدار پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس میں ان افراد کے نام افشا کیے جنہوں نے ان کی برادری کے افراد کو اغواء کیا اور پھر بھاری تاوان لے کر رہا کیا گیا تو صحافی برادری ان افراد کے نشانے پر آگئی۔
خضدار میں کام کرنے والے صحافیوں کو دھمکیاں ملنے لگیں، صحافیوں نے اس مسئلے کا حل پریس کلب بند کرنے میں ہی تلاش کیا اور اس بات کا امکان ہے کہ اگلے 10 دن تک صحافیوں کا یہ دوسرا گھر بند رہے گا۔ بلوچستان میں صرف صحافیوں کو ہی خطرات نہیں بلکہ خواتین اور اقلیتی برادری مسلسل ٹارگٹ کلنگ اور دھمکیوں کا شکار ہے۔ رمضان المبارک کے دوران کوئٹہ اور مستونگ میں خواتین پر تیزاب پھینکنے کی وارداتیں ہوئیں۔
اس سے پہلے پنجگور، گوادر اور مستونگ میں غیر سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کو دھمکیاں دی گئیں، یوں ایک نجی اسکول کی وین پر حملہ ہوا۔ ان شہروں میں غیر سرکاری اسکولوں کی انتظامیہ اپنے اسکولوں کو بند کرنے پر مجبور ہوئی اور بہت سی طالبات معیاری تعلیم کے حق سے محروم ہو گئیں۔ اگرچہ ان شہروں میں خواتین سیاسی اور سماجی کارکنوں نے انتہاپسندوں کی دھمکیوں کے خلاف مزاحمت کی اور ہزاروں لوگ احتجاجاً سڑکوں پر نکل آئے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک اور نیشنل پارٹی کے کارکنوں نے دھمکیوں کی مذمت کی۔ پولیس کو دھمکیوں کے ذمے دار افراد کے تلاش کے احکامات دیے گئے مگر کسی فرد کا پتہ نہیں چلایا جا سکا۔کچھ د نوں بعد خواتین پر تیزاب پھینکنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اب پھر خضدار کے صحافی نشانے پر آ گئے ہیں۔ بلوچ عوام تنہائی اور محرومیوں کا شکار ہیں۔ بلوچ عوام کی مزاحمتی تحریکوں کو کچلنے کی کوشش کی گئی۔ نواب نوروز خان، اسد مینگل، نواب اکبر بگٹی سمیت سیکڑوں افراد قتل ہوئے۔
بلوچ رہنما میر غوث بخش بزنجو، سردارعطاء اﷲ خان مینگل، نواب اکبر بگٹی سمیت ہزاروں افراد کو طویل عرصے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں مگر مزاحمتی تحریک مستحکم ہوتی چلی گئی۔ قومی سیاسی جماعتوں کو بلوچ قوم پرست مزاحمتی تحریکوں کی اہمیت کو محسوس کرنا پڑا۔ یہی وجہ تھی کہ ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پیپلز پارٹی نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد قومی اسمبلی میں بلوچستان سے معذرت کی قرارداد منظور کرائی۔
2008ء میں نواب اسلم رئیسانی کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی مگررئیسانی حکومت میں سیاسی کارکنوں کے اغواء، فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان کی وارداتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ سردار اسلم رئیسانی کے غیر سنجیدہ رویے نے صورتحال کو مزید خراب کیا، حتی کہ ان کی کابینہ کے اراکان پر بھی اغواء برائے تاوان اور فرقہ وارانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کی وارداتوں کی سرپرستی کے الزامات لگے۔
ایک وقت ایسا آیا کہ ہزارہ برادری کے افراد کی خودکش دھماکوں میں ہلاکتوں کے بعد صوبائی حکومت کو معطل کر دیا گیا۔ 2013ء کے انتخابات میں نیشنل پارٹی اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ مسلم لیگی وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اپنی پارٹی کے وزیر اعلیٰ کے بجائے نیشنل پارٹی کے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو حکومت بنانے کی دعوت دی، یوں تاریخ میں پہلی دفعہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے فرد کو صوبے کا سب سے اہم عہدہ ملا۔
ڈاکٹر مالک نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد لاپتہ افراد کی بازیابی، اغواء برائے تاوان اور دوسرے جرائم کے خاتمے اور صوبے کے بجٹ کا ایک تہائی حصہ تعلیم کے شعبے میں خرچ کرنے کا فیصلہ کیا مگر ڈاکٹر مالک کو ایک طرف اسٹیبلشمنٹ اور دوسری طرف بلوچ علیحدگی پسندوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران بلوچستان میں انتہا پسندی بڑھی۔انتہاپسند ایک طرف ہزارہ برادری کے افراد تو دوسری طرف بلوچ سیاسی کارکنوں کو نشانہ بنانے لگے۔
ڈاکٹر مالک کی کوششوں سے ان انتہا پسندوں کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ ہوا تو اس سال کے اوائل میں خضدار کے ایک خالی کیمپ سے مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں، مخلوط تعلیم کے اداروں کو دھمکیاں دی جانے لگیں اور اب خواتین پر تیزاب پھینکنے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی خضدار اور دیگر علاقوں میں صحافیوں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔ دوسری طرف بلوچ علیحدگی پسندوں نے فائرنگ اور راکٹ حملوں کی وارداتیں بڑھا دیں، خاص طور پر پولیس اور دیگر عسکری قوتوں کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا جانے لگا۔
صوبائی حکومت کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کے تعاون کی بناء پر امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی، خاص طور پر اغواء برائے تاوان کی وارداتیں تھم گئیں۔ اسی طرح لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کے معاملات میں بھی کمی آ گئی مگر صحافیوں، خواتین اور اقلیتوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رہا۔ بلوچستان کا پولیس اور سول انٹیلی جنس نیٹ ورک اس حد تک کمزور ہوا کہ ان وارداتیوں کے پس پردہ افراد اور تنظیموں کی شناخت نہیں ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان کے دوسرے بڑے شہر خضدار میں زندگی مشکل ترین ہو گئی اور اس صورتحال کا براہِ راست نشانہ صحافی بنے۔
ان لوگوں کی لاشیں بلوچستان اور کراچی سے برآمد ہوئیں۔ لیاری میں رہنے والے رزاق سربازی کا تعلق بھی ایک اخبار توار سے تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم Reporters Without Borders نے خضدار کو صحافیوں کے لیے دنیا کی خطرناک ترین جگہ قرار دیا۔ بلوچستان کے حالات پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے کا جامع حل یہ ہے کہ ڈاکٹر مالک کی حکومت کی تمام صوبے پر رٹ قائم کی جائے۔
اس کے علاوہ حکومت انتہاپسندوں اور علیحدگی پسندوں کے خلاف مؤثر کارروائی کرے اور صحافیوں، وکلاء، اساتذہ اور خواتین کے تحفظ کے لیے بھی خاطرخواہ اقدامات کیے جائیں۔ اسی طرح انتہاپسندوں کے خلاف مربوط آپریشن کیا جائے۔ ڈاکٹر مالک کی حکومت تعلیم کے بجٹ میں خاطرخواہ اضافہ کرے، اسی طرح صحت اور قدرتی وسائل کی ترقی کے لیے تمام تر کوششیں کی جائیں۔ بلوچ انتہاپسندوں کو اس حقیقت کو محسوس کرنا چاہیے کہ ان کے پاس جمہوری راستے کے علاوہ دوسرا راستہ نہیں ہے۔