سن سیٹ ایٹ جیونی
کہتے ہیں بزرگوں کی نیک دعاؤں پہ جلد یا بدیردرِ قبول ضرور وا ہوتا ہے...
''موٹل کے احاطے کے شمالی گیٹ کے اندر داخل ہوں تو وہاں چبوترے جیسا ایک اونچا پلیٹ فارم بنا ہوا ہے جہاں سیڑھیاں چڑھ کرجایا جاسکتا ہے۔ اس پلیٹ فارم کے فرش پر اوپر دَری بچھی ہوئی تھی ۔ کرسیاں لگا کر ہمیں وہاں بٹھا دیا گیا ۔ دور دور تک سمندرکا منظر تھا ۔ محض ہم سے دس بارہ گز کا فاصلہ ۔ سمندر کا نظارہ، غروبِ آفتاب کا منظر......جہاں دن بھر گناہوں، مظالم،لوٹ مار اور استحصال کا نظارہ کرتے کرتے تھکا ہارا گناہ گار سورج، پاپ دھونے بلوچ سمندرکے پانیوں میں چوروں کی طرح منہ چھپا رہا تھا، رات بھر کے لیے۔ جیسے سارے جرائم انسان نے نہیں اس بے بس بے چارے سورج سے سرزد ہوئے ہوں...... ہم پہ سمندر نے جادوکردیا تھا ۔گوادر کے پشتی زر (پچھلا سمندر) کا یہ منظر لفظ'خوبصورت' کے جامے میں نہیں سما سکتا، خود جا کر دیکھنے کا تقاضا کرتا ہے۔ شالا ہر انسان کو یہ حسین منظر دیکھنا نصیب ہو۔''
کہتے ہیں بزرگوں کی نیک دعاؤں پہ جلد یا بدیردرِ قبول ضرور وا ہوتا ہے۔ سو، ہمارے اچھے بزرگ کی دعا بھی قبول ہوئی اور ٹھیک دس سال بعد ہم عین اسی جگہ اس حسین منظر کا نظارہ کر رہے تھے ،جسے ہمارے نیک بزرگ دس سال پہلے دیکھ چکے ۔ نیکی کا ایک وصف یہ ہے کہ اس کے بطن سے نیکی ہی جنم لیتی ہے، سو اس نظارے سے محظوظ ہوتے ہوئے ہمارے لبوں پہ بھی وہی دعا مچل رہی تھی جو ہمارے بزرگوں نے سب انسانوںکے لیے کی تھی کہ 'شالا ہر انسان کو یہ منظر دیکھنا نصیب ہو!'
یہ اُس گوادر کے ساحل کا منظر ہے، جس کے حسن پہ ایک دنیا کی نظریں ہیں، جس کے حسن کے چرچے نگر نگر پہنچے ہوئے ہیں۔ ساحل و وسائل کی گردان پہ مبنی ہمارے سیاسی قائدین کی تقریریں ہوں یا مستقبل کے شاندار منصوبوں کے خواب دکھانے والی کمپنیوں کے خوب صورت اشتہارات، ان سب کے حقیقی معنی یہاں آکر ہی کھلتے ہیں۔ اس ساحل کا حقیقی حسن آپ پہ تب تک نہیں کھلتا، جب تک آپ خود اس کا نظارہ نہ کر لیں۔
ہمیں یہ سعادت نصیب کروانے کا ثواب، ہمارے ساتھی پی ٹی وی کوئٹہ سینٹر کے نوجوان پروڈیوسر اور گوادر کے رہائشی حفیظ دشتی اوربلوچستان یونیورسٹی میں ذرایع ابلاغ کے پروفیسر اعجاز بلوچ کے حصے آیا۔ اور ساحل کنارے یہاں کے سب سے قدیم بخشی ہوٹل میں رہائش کا سہرا ناصر سہرابی کے سر رہا، جن کے ادارے میں ہم نے علمی و ادبی سرگرمیوں سے مزین تین روزہ کتاب میلہ سجایا۔آر سی ڈی سی کے نام سے ان کا ادارہ گوادر میں اس زمانے سے قائم ہے، جب کہ یہ خطہ ابھی والئی مسقط کی قلمرو میں آتا تھا۔
اُس زمانے میں یہاں خلیجی ریاستوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے آنے والے بعض پڑھے لکھے افراد نے اپنے علاقے کی سماجی ترقی کے لیے رورل ڈولپمنٹ کونسل کے نام سے اس ادارے کی بنیاد رکھی۔ ان اچھے بزرگوں نے سب سے اچھاکام یہ کیا کہ ادارے کو اپنی نسل تک محدود نہ رکھا بلکہ اس کی آبیاری آیندہ نسلوں تک کرتے رہے۔ ان کی محنت کا پھل یہ رہا کہ یہ ادارہ لگ بھگ سو سال کے تسلسل سے اب بھی قائم ہے۔ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ بلوچستان میں اتنے عرصے سے اپنا تسلسل قائم رکھنے والا یہ واحد ادارہ ہو گا۔
مزید اچھی بات یہ کہ اس میں محض تسلسل ہی نہیں رہا بلکہ یہ مسلسل فعال بھی رہا ہے اور پہلے سے زیادہ بھی۔ اس کے زیر اہتمام اب ایک کل وقتی گرلز و بوائزکالج بھی چلایا جارہا ہے اور گوادر کی سب سے بڑی لائبریری بھی یہیں قائم کی گئی ہے۔انھی دوستوں نے 'مہردر 'کے ساتھ مل کر گوادر میں اس نئے کام کی بنیاد رکھی، جو اہلِ گوادر کے لیے ہی نہیں، خود ہمارے لیے بھی حیران کن اور خوش گوار تجربہ ثابت ہوا۔
تین روز تک یہاں مرد وخواتین جی بھر کے کتابیں خریدتے رہے، ساتھ ہی علمی و ادبی سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ میں صرف ان سرگرمیوں کے عنوانات بتائے دیتا ہوں، آپ اس سے نتائج کا اندازہ کر لیں۔ پہلے روز گوادر کے مختلف اسکولوں کے طلبہ کے درمیان کہانی اور مضمون نویسی کا مقابلہ ہوا۔ دوسرے روز ایک سیشن مقامی ادیبوں کے ساتھ رکھا گیا، عنوان تھا؛'میری پسندیدہ کتاب۔' ایک اور سیشن میں ادبا نے مطالعے کی اہمیت پہ گفت گو کی۔ آخری روز ایک سیشن مقامی بلوچی کلاسیکل موسیقی گانے والوں گلوگاروں کے ساتھ رکھا گیا۔ اہم بات یہ کہ تینوں دن کہ ہر سیشن میں شرکا کی تعداد پہلے کی نسبت دگنی ہی رہی۔
اچھے سفر میں اچھی صحبت کسی نعمت ِمتبرکہ سے کم نہیں۔ہماری خوش قسمتی کہ ہمیں یہ صحبت مسلسل میسررہی۔ حتیٰ کہ ہوٹل کے مالکان بھی باذوق ثابت ہوئے۔رات دیر گئے تک سیاسی محفل گویا یہاں کا معمول ہے۔ اُن دنوں اتفاق سے ان کے ایک ساتھی اور بلوچی کلاسیکل میوزک کے ایک ماہر طبلہ نوازاستاد جمیل یہاں آئے ہوئے تھے۔ ان کی محفل رات دیر گئے تک جاری رہی۔ چاندنی راتیں ہوں، گوادرکا ساحل ہو، اور بلوچی کا کلاسیکل میوزک ہو...جس نے یہ نعمت پائی، اس نے گویا اس دنیا کی ساری نعمتیں پا لیں۔
ہوٹل سے لے کر، کوہِ باتیل تک گوادر کے ساحل کے ہر کونے کا نظارہ کر لینے کے بعد ہماری اگلی منزل جیونی کا ساحل تھا۔ جس کے متعلق ملکہ وکٹوریہ کا فرمان ہے کہ یہاں دنیاکا خوب صورت ترین سن سیٹ ہوتا ہے۔جیونی ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، بلوچستان کے اکثرقصبات کی طرح۔ اس کا ایک ہی مرکزی بازار ہے، مرکزی مگر مختصر۔ یہاں سے ایرانی ساحل محض چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ بنا ویزے اور پاسپورٹ کے یہاں کے ماہی گیروں کا ،وہاں روز چکر لگتا رہتا ہے۔
ڈیزل کی غیر قانونی اسمگلنگ ہی یہاں کا سب سے بڑا ذریعہ معاش ہے۔ لگ بھگ یہاں کا ہر دوسرا فرد اسی سے وابستہ ہے۔اس کا خاتمہ کسی حکومت کے بس کی بات نہیں کیونکہ مبینہ طور پر اوپر سے نیچے تک سبھی ادارے اس میں ملوث ہیں۔ بعدازاں تربت سے واپسی پہ ایک 'ڈیزل کوچ 'سے وردی پوش اہلکاروں کو بھتہ لیتے ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا، جو یہاں کا معمول بتایا جاتا ہے۔
جیونی کے ساحل تک پہنچنے میں پروفیسر یوسف ہمارے مدد گار بنے، جو بلوچستان یونیورسٹی میں ہی سیاسیات پڑھاتے ہیں، ان کا تعلق جیونی سے ہی ہے، اور ان دنوں چھٹیاں منانے وہیں پہ تھے۔سن سیٹ کا سب سے واضح نظارہ جس جگہ سے ہو سکتا ہے، وہاں سرکار نے ایک مختصر سا ریسٹ ہاؤس بنایا ہوا ہے، جہاں سرکاری لوگ اکثر اپنے دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ اس نظارے کے لیے آتے رہتے ہیں۔ ہم اس جگہ پہنچے تو اتفاق سے اسی روز علاقے کے نوجوان ڈی سی اپنے خاندان کے ساتھ وہاں آنے والے تھے، سو یہ جگہ' قبضہ' ہوچکی تھی۔
ناچار ہمیں اس نظارے کے لیے کوئی' عوامی مقام' تلاش کرنا پڑا۔ اور اس کی تلاش میں ہمارے میزبان نے ہمیں ساحل کے ساتھ آباد لگ بھگ ساری کچی آبادی گھما ڈالی۔ ایسا رنگین ساحل، وسائل سے مالا مال ساحل اور اس کے مالکان مٹی کے کچے گھروندوں میں گیس اور پانی جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم!
ہم ساحل پہ پہنچے تو سورج سمندر کی آغوش میں اترنا شروع ہو چکا تھا۔ سن سیٹ شروع ہوا ہی چاہتا تھا۔ دوست تبصرے کر رہے تھے، آج بادل ہیں، سن سیٹ اتنا صاف نہیں ہوگا، کچھ خاص نہیں ہوگا...اور میں ان سے ماورا مغرب کی سمت نظریں جمائے گویا پتھر بن چکا تھا۔کسی ندیدے کی طرح آنکھیں پھاڑے اس نظارے میں محو تھا، جو عمرِ عزیز کے بتیس برسوں کا حاصل دِکھتا تھا۔
کہتے ہیں بزرگوں کی نیک دعاؤں پہ جلد یا بدیردرِ قبول ضرور وا ہوتا ہے۔ سو، ہمارے اچھے بزرگ کی دعا بھی قبول ہوئی اور ٹھیک دس سال بعد ہم عین اسی جگہ اس حسین منظر کا نظارہ کر رہے تھے ،جسے ہمارے نیک بزرگ دس سال پہلے دیکھ چکے ۔ نیکی کا ایک وصف یہ ہے کہ اس کے بطن سے نیکی ہی جنم لیتی ہے، سو اس نظارے سے محظوظ ہوتے ہوئے ہمارے لبوں پہ بھی وہی دعا مچل رہی تھی جو ہمارے بزرگوں نے سب انسانوںکے لیے کی تھی کہ 'شالا ہر انسان کو یہ منظر دیکھنا نصیب ہو!'
یہ اُس گوادر کے ساحل کا منظر ہے، جس کے حسن پہ ایک دنیا کی نظریں ہیں، جس کے حسن کے چرچے نگر نگر پہنچے ہوئے ہیں۔ ساحل و وسائل کی گردان پہ مبنی ہمارے سیاسی قائدین کی تقریریں ہوں یا مستقبل کے شاندار منصوبوں کے خواب دکھانے والی کمپنیوں کے خوب صورت اشتہارات، ان سب کے حقیقی معنی یہاں آکر ہی کھلتے ہیں۔ اس ساحل کا حقیقی حسن آپ پہ تب تک نہیں کھلتا، جب تک آپ خود اس کا نظارہ نہ کر لیں۔
ہمیں یہ سعادت نصیب کروانے کا ثواب، ہمارے ساتھی پی ٹی وی کوئٹہ سینٹر کے نوجوان پروڈیوسر اور گوادر کے رہائشی حفیظ دشتی اوربلوچستان یونیورسٹی میں ذرایع ابلاغ کے پروفیسر اعجاز بلوچ کے حصے آیا۔ اور ساحل کنارے یہاں کے سب سے قدیم بخشی ہوٹل میں رہائش کا سہرا ناصر سہرابی کے سر رہا، جن کے ادارے میں ہم نے علمی و ادبی سرگرمیوں سے مزین تین روزہ کتاب میلہ سجایا۔آر سی ڈی سی کے نام سے ان کا ادارہ گوادر میں اس زمانے سے قائم ہے، جب کہ یہ خطہ ابھی والئی مسقط کی قلمرو میں آتا تھا۔
اُس زمانے میں یہاں خلیجی ریاستوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے آنے والے بعض پڑھے لکھے افراد نے اپنے علاقے کی سماجی ترقی کے لیے رورل ڈولپمنٹ کونسل کے نام سے اس ادارے کی بنیاد رکھی۔ ان اچھے بزرگوں نے سب سے اچھاکام یہ کیا کہ ادارے کو اپنی نسل تک محدود نہ رکھا بلکہ اس کی آبیاری آیندہ نسلوں تک کرتے رہے۔ ان کی محنت کا پھل یہ رہا کہ یہ ادارہ لگ بھگ سو سال کے تسلسل سے اب بھی قائم ہے۔ وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ بلوچستان میں اتنے عرصے سے اپنا تسلسل قائم رکھنے والا یہ واحد ادارہ ہو گا۔
مزید اچھی بات یہ کہ اس میں محض تسلسل ہی نہیں رہا بلکہ یہ مسلسل فعال بھی رہا ہے اور پہلے سے زیادہ بھی۔ اس کے زیر اہتمام اب ایک کل وقتی گرلز و بوائزکالج بھی چلایا جارہا ہے اور گوادر کی سب سے بڑی لائبریری بھی یہیں قائم کی گئی ہے۔انھی دوستوں نے 'مہردر 'کے ساتھ مل کر گوادر میں اس نئے کام کی بنیاد رکھی، جو اہلِ گوادر کے لیے ہی نہیں، خود ہمارے لیے بھی حیران کن اور خوش گوار تجربہ ثابت ہوا۔
تین روز تک یہاں مرد وخواتین جی بھر کے کتابیں خریدتے رہے، ساتھ ہی علمی و ادبی سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ میں صرف ان سرگرمیوں کے عنوانات بتائے دیتا ہوں، آپ اس سے نتائج کا اندازہ کر لیں۔ پہلے روز گوادر کے مختلف اسکولوں کے طلبہ کے درمیان کہانی اور مضمون نویسی کا مقابلہ ہوا۔ دوسرے روز ایک سیشن مقامی ادیبوں کے ساتھ رکھا گیا، عنوان تھا؛'میری پسندیدہ کتاب۔' ایک اور سیشن میں ادبا نے مطالعے کی اہمیت پہ گفت گو کی۔ آخری روز ایک سیشن مقامی بلوچی کلاسیکل موسیقی گانے والوں گلوگاروں کے ساتھ رکھا گیا۔ اہم بات یہ کہ تینوں دن کہ ہر سیشن میں شرکا کی تعداد پہلے کی نسبت دگنی ہی رہی۔
اچھے سفر میں اچھی صحبت کسی نعمت ِمتبرکہ سے کم نہیں۔ہماری خوش قسمتی کہ ہمیں یہ صحبت مسلسل میسررہی۔ حتیٰ کہ ہوٹل کے مالکان بھی باذوق ثابت ہوئے۔رات دیر گئے تک سیاسی محفل گویا یہاں کا معمول ہے۔ اُن دنوں اتفاق سے ان کے ایک ساتھی اور بلوچی کلاسیکل میوزک کے ایک ماہر طبلہ نوازاستاد جمیل یہاں آئے ہوئے تھے۔ ان کی محفل رات دیر گئے تک جاری رہی۔ چاندنی راتیں ہوں، گوادرکا ساحل ہو، اور بلوچی کا کلاسیکل میوزک ہو...جس نے یہ نعمت پائی، اس نے گویا اس دنیا کی ساری نعمتیں پا لیں۔
ہوٹل سے لے کر، کوہِ باتیل تک گوادر کے ساحل کے ہر کونے کا نظارہ کر لینے کے بعد ہماری اگلی منزل جیونی کا ساحل تھا۔ جس کے متعلق ملکہ وکٹوریہ کا فرمان ہے کہ یہاں دنیاکا خوب صورت ترین سن سیٹ ہوتا ہے۔جیونی ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، بلوچستان کے اکثرقصبات کی طرح۔ اس کا ایک ہی مرکزی بازار ہے، مرکزی مگر مختصر۔ یہاں سے ایرانی ساحل محض چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ بنا ویزے اور پاسپورٹ کے یہاں کے ماہی گیروں کا ،وہاں روز چکر لگتا رہتا ہے۔
ڈیزل کی غیر قانونی اسمگلنگ ہی یہاں کا سب سے بڑا ذریعہ معاش ہے۔ لگ بھگ یہاں کا ہر دوسرا فرد اسی سے وابستہ ہے۔اس کا خاتمہ کسی حکومت کے بس کی بات نہیں کیونکہ مبینہ طور پر اوپر سے نیچے تک سبھی ادارے اس میں ملوث ہیں۔ بعدازاں تربت سے واپسی پہ ایک 'ڈیزل کوچ 'سے وردی پوش اہلکاروں کو بھتہ لیتے ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا، جو یہاں کا معمول بتایا جاتا ہے۔
جیونی کے ساحل تک پہنچنے میں پروفیسر یوسف ہمارے مدد گار بنے، جو بلوچستان یونیورسٹی میں ہی سیاسیات پڑھاتے ہیں، ان کا تعلق جیونی سے ہی ہے، اور ان دنوں چھٹیاں منانے وہیں پہ تھے۔سن سیٹ کا سب سے واضح نظارہ جس جگہ سے ہو سکتا ہے، وہاں سرکار نے ایک مختصر سا ریسٹ ہاؤس بنایا ہوا ہے، جہاں سرکاری لوگ اکثر اپنے دوستوں اور عزیزوں کے ساتھ اس نظارے کے لیے آتے رہتے ہیں۔ ہم اس جگہ پہنچے تو اتفاق سے اسی روز علاقے کے نوجوان ڈی سی اپنے خاندان کے ساتھ وہاں آنے والے تھے، سو یہ جگہ' قبضہ' ہوچکی تھی۔
ناچار ہمیں اس نظارے کے لیے کوئی' عوامی مقام' تلاش کرنا پڑا۔ اور اس کی تلاش میں ہمارے میزبان نے ہمیں ساحل کے ساتھ آباد لگ بھگ ساری کچی آبادی گھما ڈالی۔ ایسا رنگین ساحل، وسائل سے مالا مال ساحل اور اس کے مالکان مٹی کے کچے گھروندوں میں گیس اور پانی جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم!
ہم ساحل پہ پہنچے تو سورج سمندر کی آغوش میں اترنا شروع ہو چکا تھا۔ سن سیٹ شروع ہوا ہی چاہتا تھا۔ دوست تبصرے کر رہے تھے، آج بادل ہیں، سن سیٹ اتنا صاف نہیں ہوگا، کچھ خاص نہیں ہوگا...اور میں ان سے ماورا مغرب کی سمت نظریں جمائے گویا پتھر بن چکا تھا۔کسی ندیدے کی طرح آنکھیں پھاڑے اس نظارے میں محو تھا، جو عمرِ عزیز کے بتیس برسوں کا حاصل دِکھتا تھا۔