دنیا بھر سے پراسرار عورت
کوئی اس کو فرشتہ سمجھ رہا ہے، کسی کے نزدیک یہ کوئی بھوت ہے جبکہ کچھ سیانے اسے خلائی مخلوق کا زمینی ورژن سمجھ رہے ہیں۔
ترقی کے آسمان پر ہلکورے لیتا مغرب ہو یا پسماندگی کے گٹر میں کسمساتا مشرق توہم پرستی نوعِ انسانی کا وہ مشترکہ دائمی مرض ہے جسے علم و آگہی کی صدیوں پر پھیلی جدوجہد بھی کمزور نہ کر سکی۔ وہم کی فیکڑیوں اور کارخانوں سے نکلنے والے وائرس کے سامنے دانش وروں کی دانش، سائنس دانوں کی سائنس، فلسفیوں کا فلسفہ اور عالموں کا علم سب ہیچ ہیں۔صدیوں سے وہم کی آندھیاں یقین کی کھیتیوں کو اجاڑتی ، دلیل کی فصیلوں کو مسمار کرتی اور منطق کے قلعوں کوڈھاتی رہی ہیں ۔نسلِ انسانی کے غاروں سے لے کر خلا تک کے سفر میں وہم نے اسے اپنا اسیر کئے رکھا ہے۔ مذاہب آسمانی جو انسانوں کو وہم کی وادیوں سے نکال کر حقیقت کی دنیا میں لا کھڑے کرنے کے لیے وجود میں آئے تھے وقت کی گرد نے ان کو ایسا مسخ کیا کہ یہ خود توہم پھیلانے کا سب سے بڑا ذریعہ بن گئے ۔ اب چار سو وہم کی حکمرانی ہے اور پاکستان کا نورا مصلی ہو یا امریکا کا نارمن ایڈورڈ ، ہندوستان کی جیراں مائی ہو یا برطانیہ کی جینا ولسن سب وہم کے جال میں گرفتار ہیں۔
توہم پرستی کاتازہ ترین مظاہرہ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک امریکامیں پیش آیا ۔ امریکہ کے گلی کوچوں میں آج کل ایک ایسی سیاہ پوش عورت کی پر اسراریت کے تذکرے ہیں جو پیادہ پا ایک ناتمام سفر پر نکلی ہوئی ہے۔ اپنے خیالوں میں گم دنیا و مافیہا سے بے پرواہ یہ عورت پچھلے کئی ہفتوں سے مسلسل عازمِ سفر ہے۔ اس عورت کی اس انوکھی یاترا کی طرف توجہ مبذول کروانے کا سہرا فیس بک پر بنائے گئے ایک پیج کو جاتا ہے جس نے امریکا کے توہم پرستوں کو ایک نئے موضع پر مغز ماری کا موقع فراہم کیا ہے۔
فوٹو : فیس بک
''پراسرار عورت کہاں ہے '' نامی اس صفحے پر امریکی اس عورت کے سفر کی لمحہ بہ لمحہ لائیو کوریج کرتے ہوئے بڑے دلچسپ تبصرے کر رہے ہیں ۔ کسی کے خیال میں یہ کوئی بھٹکی ہوئی روح ہے جو بستی بستی پھر کر اپنے نامعلوم کرب کی تسکین کر رہی ہے، کوئی اس کو فرشتہ سمجھ رہا ہے جو انسانوں کو بہ زبانِ خامشی کوئی پیغا م دینا چاہ رہا ہے ، کسی کے نزدیک یہ کوئی بھوت ہے جو کسی کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے، کچھ سیانے اسے خلائی مخلوق کا زمینی ورژن سمجھ رہے ہیں۔ ذرا زیادہ دور کی کوڑیا ں لانے والے اسے خدا کی ولی اور پیغمبر تک قرار دے رہے ہیں ۔ کچھ کم تر درجے کے توہم پرستوں کے نزدیک یہ کوئی مسیحا ہے جو بھٹکی انسانیت کو سیدھے راستے پر لانے کے لیے خود گاؤں گاؤں بھٹک رہا ہے۔ بہت سے جذباتی توہم پرست تو ابھی سے اس کے مرید ہو کر نہایت شدو مد سے ''ہمیں سیاہ پوش عورت کے پیغام کو سمجھنا ہو گا''کے نعرے لگا لگا کراس کے پیغام کو پھیلانے میں جی جان سے جت گئے ہیں،اگر چہ اتنا انہیں خود بھی نہیں پتا کہ پیغام ہے کیا؟۔
امریکی توہم پرستوں کی یہ معصومانہ ادا مجھے نہ جانے کیوں پاکستان کے بہت سے انقلابیوں سے ملتی جلتی لگتی ہے ! ہمارے انقلابی بھی ایک ایسے ہی مشکوک سفر پر گامزن مردِ پر اسرار کے پیغام کو پھیلانے میں مگن ہیں جس کے انوکھے سفر کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر!
جب معلومات تک رسائی کے ذرائع محدود تھے تو مشرق اور بالخصوص جنوبی ایشیا کو توہم پرستی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ بھبھوت مَلے ، دھونی رمائے ، لٹیں لٹکائے ، سرخ سرخ دیدے نکالے ہندو جوگی اور ان سے منسلک پراسراریت دنیا کو متحیر رکھتی تھی اور ہندؤں کی ہاتھیوں ، بندروں اور سانپوں کو پوجنے کی رسموں پر پوری دنیا بالخصوص مغرب سے جہالت اور توہم پرستی کے فتوے داغے جاتے تھے۔ اسی خطے میں بسنے والے مسلمانوں کے تعویز گنڈے ، پیر پرستی اور مزاروں پر سجنے والے میلوں ٹھیلوں پر بھی تنقید کے تیر برسائے جاتے تھے، لیکن دنیا کے گوبل ولیج بننے نے مغرب کے بہت سارے بھرم توڑ دیے ہیں ۔ اب ہم جانتے ہیں کہ جہالت اور توہم پرستی صرف ہماری ہی میراث نہیں مغرب بھی اس میں پورا پورا حصے دار ہے بلکہ مغرب کے توہم پرست ہمارے توہم پرستوں سے زیادہ کٹر اور 'راسخ العقیدہ' ہیں کیوں کہ علمی اور سائنسی انقلاب بھی توہم پرستی پر ان کے ایمان کو نہیں ڈگمگا سکے ۔ روشن خیال مغرب توہم پرستی کی تاریکیوں میں ہمیشہ سے گھرا رہا ہے لیکن تنقید کی توپیں ہمیشہ مشرق پر چلاتا رہا ۔ مشرق کی آنکھ کا تل بھی مغرب کے دل میں کھٹکتا رہا لیکن اپنی آنکھ کا شہتیر اسے کبھی نظر نہیں آیا۔
اب تک یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ توہم پرستی کم علمی اور غربت کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ یہ خیال کیا جاتا رہا ہے کہ انسان جب علم سے دوری کی وجہ سے بہت سے ارضی اور سماوی مظاہر کو سمجھ نہیں پاتا تو وہ وہم کی گود میں پناہ لے کر کوئی ایسی توجیہہ کر لیتا ہے جس سے اس کا دل و دماغ مطمئن ہو جائیں اورچونکہ غریبوں کو صدیوں تک علم کی عیاشی سے دور رکھا گیا اس لیے ان کے اندرتوہم پرستی بھی زیادہ پائی جاتی ہے۔ لیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی کے برپا کئے گئے انقلاب کی برکت سے ہم یہ جان پائے ہیں کہ توہم پرستی کا کم علمی یا غربت سے اتنا گہرا تعلق نہیں ہے جس کا پروپیگنڈا آج تک یورپ کرتا رہا ہے۔
مغرب کا ترقی یافتہ فرد علم اور دولت کی چکا چوند میں بھی آج اگر کسی سیاہ پوش عورت کے جہاں گردی میں اپنے دکھوں کا مداواتلاش کر رہا ہے تو پھر ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ توہم پرستی کسی ایک قوم ، علاقے یا مذہب تک محدود نہیں ۔ یہ ساری انسانیت کا وہ ناقابلِ فخر ورثہ ہے جس پر ندامت کے جتنے آنسو بہائے جائیں کم ہیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
توہم پرستی کاتازہ ترین مظاہرہ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ملک امریکامیں پیش آیا ۔ امریکہ کے گلی کوچوں میں آج کل ایک ایسی سیاہ پوش عورت کی پر اسراریت کے تذکرے ہیں جو پیادہ پا ایک ناتمام سفر پر نکلی ہوئی ہے۔ اپنے خیالوں میں گم دنیا و مافیہا سے بے پرواہ یہ عورت پچھلے کئی ہفتوں سے مسلسل عازمِ سفر ہے۔ اس عورت کی اس انوکھی یاترا کی طرف توجہ مبذول کروانے کا سہرا فیس بک پر بنائے گئے ایک پیج کو جاتا ہے جس نے امریکا کے توہم پرستوں کو ایک نئے موضع پر مغز ماری کا موقع فراہم کیا ہے۔
فوٹو : فیس بک
''پراسرار عورت کہاں ہے '' نامی اس صفحے پر امریکی اس عورت کے سفر کی لمحہ بہ لمحہ لائیو کوریج کرتے ہوئے بڑے دلچسپ تبصرے کر رہے ہیں ۔ کسی کے خیال میں یہ کوئی بھٹکی ہوئی روح ہے جو بستی بستی پھر کر اپنے نامعلوم کرب کی تسکین کر رہی ہے، کوئی اس کو فرشتہ سمجھ رہا ہے جو انسانوں کو بہ زبانِ خامشی کوئی پیغا م دینا چاہ رہا ہے ، کسی کے نزدیک یہ کوئی بھوت ہے جو کسی کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے، کچھ سیانے اسے خلائی مخلوق کا زمینی ورژن سمجھ رہے ہیں۔ ذرا زیادہ دور کی کوڑیا ں لانے والے اسے خدا کی ولی اور پیغمبر تک قرار دے رہے ہیں ۔ کچھ کم تر درجے کے توہم پرستوں کے نزدیک یہ کوئی مسیحا ہے جو بھٹکی انسانیت کو سیدھے راستے پر لانے کے لیے خود گاؤں گاؤں بھٹک رہا ہے۔ بہت سے جذباتی توہم پرست تو ابھی سے اس کے مرید ہو کر نہایت شدو مد سے ''ہمیں سیاہ پوش عورت کے پیغام کو سمجھنا ہو گا''کے نعرے لگا لگا کراس کے پیغام کو پھیلانے میں جی جان سے جت گئے ہیں،اگر چہ اتنا انہیں خود بھی نہیں پتا کہ پیغام ہے کیا؟۔
امریکی توہم پرستوں کی یہ معصومانہ ادا مجھے نہ جانے کیوں پاکستان کے بہت سے انقلابیوں سے ملتی جلتی لگتی ہے ! ہمارے انقلابی بھی ایک ایسے ہی مشکوک سفر پر گامزن مردِ پر اسرار کے پیغام کو پھیلانے میں مگن ہیں جس کے انوکھے سفر کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر!
جب معلومات تک رسائی کے ذرائع محدود تھے تو مشرق اور بالخصوص جنوبی ایشیا کو توہم پرستی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ بھبھوت مَلے ، دھونی رمائے ، لٹیں لٹکائے ، سرخ سرخ دیدے نکالے ہندو جوگی اور ان سے منسلک پراسراریت دنیا کو متحیر رکھتی تھی اور ہندؤں کی ہاتھیوں ، بندروں اور سانپوں کو پوجنے کی رسموں پر پوری دنیا بالخصوص مغرب سے جہالت اور توہم پرستی کے فتوے داغے جاتے تھے۔ اسی خطے میں بسنے والے مسلمانوں کے تعویز گنڈے ، پیر پرستی اور مزاروں پر سجنے والے میلوں ٹھیلوں پر بھی تنقید کے تیر برسائے جاتے تھے، لیکن دنیا کے گوبل ولیج بننے نے مغرب کے بہت سارے بھرم توڑ دیے ہیں ۔ اب ہم جانتے ہیں کہ جہالت اور توہم پرستی صرف ہماری ہی میراث نہیں مغرب بھی اس میں پورا پورا حصے دار ہے بلکہ مغرب کے توہم پرست ہمارے توہم پرستوں سے زیادہ کٹر اور 'راسخ العقیدہ' ہیں کیوں کہ علمی اور سائنسی انقلاب بھی توہم پرستی پر ان کے ایمان کو نہیں ڈگمگا سکے ۔ روشن خیال مغرب توہم پرستی کی تاریکیوں میں ہمیشہ سے گھرا رہا ہے لیکن تنقید کی توپیں ہمیشہ مشرق پر چلاتا رہا ۔ مشرق کی آنکھ کا تل بھی مغرب کے دل میں کھٹکتا رہا لیکن اپنی آنکھ کا شہتیر اسے کبھی نظر نہیں آیا۔
اب تک یہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ توہم پرستی کم علمی اور غربت کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ یہ خیال کیا جاتا رہا ہے کہ انسان جب علم سے دوری کی وجہ سے بہت سے ارضی اور سماوی مظاہر کو سمجھ نہیں پاتا تو وہ وہم کی گود میں پناہ لے کر کوئی ایسی توجیہہ کر لیتا ہے جس سے اس کا دل و دماغ مطمئن ہو جائیں اورچونکہ غریبوں کو صدیوں تک علم کی عیاشی سے دور رکھا گیا اس لیے ان کے اندرتوہم پرستی بھی زیادہ پائی جاتی ہے۔ لیکن انفارمیشن ٹیکنالوجی کے برپا کئے گئے انقلاب کی برکت سے ہم یہ جان پائے ہیں کہ توہم پرستی کا کم علمی یا غربت سے اتنا گہرا تعلق نہیں ہے جس کا پروپیگنڈا آج تک یورپ کرتا رہا ہے۔
مغرب کا ترقی یافتہ فرد علم اور دولت کی چکا چوند میں بھی آج اگر کسی سیاہ پوش عورت کے جہاں گردی میں اپنے دکھوں کا مداواتلاش کر رہا ہے تو پھر ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ توہم پرستی کسی ایک قوم ، علاقے یا مذہب تک محدود نہیں ۔ یہ ساری انسانیت کا وہ ناقابلِ فخر ورثہ ہے جس پر ندامت کے جتنے آنسو بہائے جائیں کم ہیں۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔