خیالی پلاو مردہ باد مردہ باد ’اسرائیل‘ مردہ باد
برکت کی لاش اپنی آخری رسومات کے انتظار میں اکڑنے لگی ۔
برکت الہی کی آخری چیخ بہت لرزہ خیز تھی ۔
پھچ کی آواز کے ساتھ اس کا بھیجہ باہر آگیا ۔ مغز کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے خون کے تلاب میں تیر رہے تھے ۔اس کی بے نور آنکھیں اپنے مڑے تڑے ہاتھوں میں پکڑے "جبری استعفی" کے دیکھ رہی تھی ۔ کھوپڑی پاش پاش ہوگئ تھی اس میں سے نکلنے والی سفید سفید رطوبت ہڈیوں کی کرچیوں کے ساتھ مل کر پچکے ہوئے چہرے کو بھگورہی تھی۔
برکت کی لاش اپنی آخری رسومات کے انتظار میں اکڑنے لگی ۔
اچانک ایک سیاہ کرولا کے ٹائروں کی چیخ گونجی اور کار کی ہیڈ لائیٹس برکت الہی کی لاش کا معائنہ کرنے لگی ۔ برکت کی روح ابھی فضا میں ابھی معلق تھی کہ گاڑی سے دو سوٹڈ بوٹڈ چوپائے برآمد ہوئے ایک نے برکت کے بکھرے ہوئے مغز کو سونگھا اور دوسرے نے لات مار کر برکت کی موت کی تصدیق کرنے لگا برکت کی روح متجسس ہوگئی۔ ان میں سے ایک نے لاش کے سر پر جوتا مار کر اس کو مزید نرم کیا اور اس کی روح یہ دیکھ کر ایک بار پھر فنا ہوگئی ۔
اس انسان نما مخلوق کی گاڑی پر ایک انقلابی پارٹی کا جھنڈا لہرا رہا تھا وہ "انقلابی" آدم خور برکت کے مغز کو شپ شپ کر کے کھانے لگے۔
برکت کی روح کو ابکائی آگئی وہ مزید اوپر اٹھی تو دیکھا کہ اس کی طرح کی کٹی پھٹی لاشیں جگہ جگہ بکھری پڑی تھیں ۔ روحوں کا ایک ہجوم اس کی طرف بڑھا چلا آرہا تھا کوئی میک ڈونلڈ کا ویٹر تھا تو کوئی کوکا کولا کا وین ڈرائیورتو کوئی کے ایف سی کا ڈلیوری بوائے سب کے چہرے پر ایک ہی سوال تھا ۔۔" کروالیا غزہ آزاد" ؟ بند کرلیں ساری فوڈ چینز اور سو کالڈ اسرائیلی سپانسڑڈ نجی کمپنیاں"؟
نوٹ: اس کہانی کا مرکزی کردار وہ غریب ملازم ہے جس کی نوکری ان انقلابیوں نے چھین لی ۔ جو ہر وقت یہ بند کرو اس پرپابندی لگاو غزہ آزاد کرواو۔ ان سب سے ایک سوال ہے ۔ اگر ہمارے ملک میں ساری بڑی فوڈ چینز بند ہوگئیں تو ان غریب ملازمین کے گھر میں چولہا کون جلائے گاجن کی نوکری یہ انقلابی کھاگئے ۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
پھچ کی آواز کے ساتھ اس کا بھیجہ باہر آگیا ۔ مغز کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے خون کے تلاب میں تیر رہے تھے ۔اس کی بے نور آنکھیں اپنے مڑے تڑے ہاتھوں میں پکڑے "جبری استعفی" کے دیکھ رہی تھی ۔ کھوپڑی پاش پاش ہوگئ تھی اس میں سے نکلنے والی سفید سفید رطوبت ہڈیوں کی کرچیوں کے ساتھ مل کر پچکے ہوئے چہرے کو بھگورہی تھی۔
برکت کی لاش اپنی آخری رسومات کے انتظار میں اکڑنے لگی ۔
اچانک ایک سیاہ کرولا کے ٹائروں کی چیخ گونجی اور کار کی ہیڈ لائیٹس برکت الہی کی لاش کا معائنہ کرنے لگی ۔ برکت کی روح ابھی فضا میں ابھی معلق تھی کہ گاڑی سے دو سوٹڈ بوٹڈ چوپائے برآمد ہوئے ایک نے برکت کے بکھرے ہوئے مغز کو سونگھا اور دوسرے نے لات مار کر برکت کی موت کی تصدیق کرنے لگا برکت کی روح متجسس ہوگئی۔ ان میں سے ایک نے لاش کے سر پر جوتا مار کر اس کو مزید نرم کیا اور اس کی روح یہ دیکھ کر ایک بار پھر فنا ہوگئی ۔
اس انسان نما مخلوق کی گاڑی پر ایک انقلابی پارٹی کا جھنڈا لہرا رہا تھا وہ "انقلابی" آدم خور برکت کے مغز کو شپ شپ کر کے کھانے لگے۔
برکت کی روح کو ابکائی آگئی وہ مزید اوپر اٹھی تو دیکھا کہ اس کی طرح کی کٹی پھٹی لاشیں جگہ جگہ بکھری پڑی تھیں ۔ روحوں کا ایک ہجوم اس کی طرف بڑھا چلا آرہا تھا کوئی میک ڈونلڈ کا ویٹر تھا تو کوئی کوکا کولا کا وین ڈرائیورتو کوئی کے ایف سی کا ڈلیوری بوائے سب کے چہرے پر ایک ہی سوال تھا ۔۔" کروالیا غزہ آزاد" ؟ بند کرلیں ساری فوڈ چینز اور سو کالڈ اسرائیلی سپانسڑڈ نجی کمپنیاں"؟
نوٹ: اس کہانی کا مرکزی کردار وہ غریب ملازم ہے جس کی نوکری ان انقلابیوں نے چھین لی ۔ جو ہر وقت یہ بند کرو اس پرپابندی لگاو غزہ آزاد کرواو۔ ان سب سے ایک سوال ہے ۔ اگر ہمارے ملک میں ساری بڑی فوڈ چینز بند ہوگئیں تو ان غریب ملازمین کے گھر میں چولہا کون جلائے گاجن کی نوکری یہ انقلابی کھاگئے ۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔