چودہ اگست کو ہم کیا کریں
اسلام آباد میں ابھی سے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے
MULTAN:
ابھی یوم آزادی یعنی چودہ اگست کی صبح طلوع ہونے میں چار دن باقی ہیں اور ٹی وی چینلز کے علاوہ اخبارات میں ایک کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ ایک طرف عمران خاں کا اصرار ہے کہ وہ چودہ اگست کو لاکھوں کی تعداد میں اکٹھے ہو کر جمہوریت نہیں بادشاہت کے خاتمے تک اسلام آباد کا میدان نہیں چھوڑیں گے اور وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت ختم اور نئے انتخابات کے انعقاد کے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوں گے۔
عمران خاں کی موجودہ کال جس میں واضح ارادہ ہے ان کا چودہ اگست کا اسلام آباد کا دھرنا موجودہ حکومت اور ان کے مؤقف کے مطابق بادشاہت کے خاتمے تک جاری رہے گا۔ بلا شبہ موجودہ حکومت جسے دس پندرہ وزراء چلا رہے ہیں کوئی ایک بھی وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہی ہے جسے وہ فخریہ اٹھارہ کروڑ عوام کے سامنے پیش کر کے اپنا اعتماد قائم کرنے یا کریڈٹ لینے کا مستحق ثابت کر سکیں۔ اس پس منظر میں عوام اور بطور خاص نوجوان طبقہ بلا شبہ عمران کی کال پر ان کے ہم خیال و ہم نوا ہونگے۔ شروع شروع میں صرف چار حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے مطالبے پر کسی مجاز اتھارٹی نے ان کے اصرار پر کان نہ دھرا۔ اس مطالبے کو سال گزار گیا۔
بعض حقائق سامنے آئے کہ کئی جگہ ووٹوں کی اصل تعداد سے بھی بڑھ کر ووٹ پڑے تو لوگ ششدر رہ گئے کہ کیسا کالا جادو تھا۔ عمران فرشتہ نہ سہی انسانی سوچ اور دماغ تو رکھتا ہے اور عوام بھیڑیں سہی منمنا تو سکتی ہیں۔ اور اب ان بھیڑوں کی آواز میں میں سے تُو تُو میں بدلی سنائی دے رہی ہے اسی لیے حکمران ملک کی دوسری سیاسی پارٹیوں کے دروازوں پر دستک دے کر عمران کی للکار سے نمٹنے کے جتن کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن PTI کسی غیر آئینی طریق کار کے حق میں نہیں اور یہی بات اسے مولانا طاہر القادری کے رویے سے ممتاز کرتی ہے۔
چودہ اگست ابھی چار دن کے فاصلے پر ہے حالات بدلنے لگیں تو گھنٹے نہیں منٹ لگتے ہیں اور امید ہے گھبرائے ہوئے میاں نواز شریف آخری لمحوں میں عمران خاں سے جو کہ ایک Fighter ہے کچھ مان کر اسے منا لیں گے اور دونوں کی ساکھ وقتی طور پر بچ جائے جمہوری طرز حکومت میں ہمیشہ ایسی گنجائش ہوتی ہے۔ میاں صاحب اپنی سابقہ وزارت عظمیٰ کے آخری دنوں کے انجام کو بھولے تو نہ ہونگے۔ مجھ جیسا غیر سیاسی سرکاری ملازم ان دنوں امریکا رخصت پر گیا ہوا تھا اور لوگ پوچھتے تھے کیا میاں صاحب امیر المومنین بن کر ابھریں گے تو میرا جواب ہوتا کہ چند روز انتظار کریں کچھ اور ہی ہونے جا رہا ہے اور میں ابھی وہاں تھا کہ کچھ اور ہی ہو گیا تھا۔
اب جنرل الیکشن میں دھاندلی کی سنئے۔ پاکستان میں صرف جنرل یحییٰ خاں کی صدارت والے الیکشن سب سے فیئر تھے اس میں بھی ان کا کوئی قصور نہ تھا۔ فیئر الیکشن انھیں سوٹ کرتے تھے۔ آپ اپنی مرضی کا عملہ پولنگ اسٹیشن پر لگوا لیں اور مرضی کا رزلٹ لے لیں۔ مجھے تو آج بھی دکھ ہوتا ہے کہ میں نے بھٹو صاحب والے آخری الیکشن میں دھاندلا کرنے والے ایک پریذائیڈنگ افسر کو کیوں گرفتار کیا تھا۔ ماسوائے پاکستان کے ساری دنیا میں کنٹینرز کا استعمال سامان کی درآمد و برآمد کے لیے ہوتا ہے لیکن ہم ایک پینتھ دو کاج کے ماہر ہونے کی وجہ سے کنٹینروں سے عوام کا آمد و رفت کا حق غصب کرنے کا کام بھی لیتے ہیں۔ ہر پولیس اسٹیشن کے فرائض میں اب یہ اضافہ کر دیا گیا ہے کہ جب بھی CCPO کا حکم آئے وہ ایکسپورٹ کے مال سے لدا کنٹینر بھی تھانے کی تحویل میں لے لیں۔
ان دنوں 14 اگست کے پیش نظر جشن آزادی منانے کے لیے پاکستان کے ہلالی پرچم لہرانے اور شہروں کی عمارتوں پر روشنیاں جگمگانے کے ساتھ ساتھ ماڈل ٹاؤن میں مولانا طاہر القادری اور عمران کی دھرنا کال پر اسلام آباد کو بذریعہ کنٹینرز سیل کرنے کا عمل ساتھ ساتھ جاری ہے۔ اسلام آباد میں ابھی سے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے جس کے تحت اسلحہ کی نمائش کے علاوہ پانچ یا اس سے زیادہ افراد کے اکٹھ پر پابندی ہو گی۔
اس ذکر سے یاد آیا کہ گوجرانوالہ شہر میں بھٹو صاحب والے الیکشن سے چند روز قبل دفعہ 144 نافذ تھی غلام دستگیر خاں مسلم لیگ کی طرف سے الیکشن میں امیدوار تھے شام کے وقت ان کے دوست اور برادر ہتھکڑیوں میں میرے سامنے پیش کیے گئے کہ یہ افراد جو پانچ کی تعداد میں تھے ایک موٹر سائیکل پر سوار دفعہ 144 کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ مجھے غصہ آ گیا اور پولیس افسر سے کہا کہ پھر ویگنوں، بسوں اور ٹرینوں میں سوار مسافروں کو بھی پکڑ لو۔ میں نے اسی وقت ان پانچوں کی ہتھکڑیاں کھلوا دیں۔
اس وقت طاہر القادری انقلاب کی شعلہ بیانی کر رہے ہیں جب کہ عمران خان محتاط ہیں۔ جہاں تک طاہر القادری صاحب کی زبان و بیان پر قدرت اور گرفت کا تعلق ہے اور حکمرانوں پر الزامات کا تعلق ہے انھیں داد دینے پر کسی کو اختلاف نہ ہو گا ان کی طرف سے آنے والے ہر لفظ کی صحت مسلمہ ہے۔ اختلاف صرف وہاں پیدا ہوتا ہے جب انھیں سننے والا سوچتا ہے کہ ان کا لائحہ عمل کیا ہو گا۔ ہمیں عمران خاں کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے کہ وہ بادشاہت ختم کرنا چاہتے ہیں۔
حکومت عمران سے خوفزدہ ہے اسے عمران کے مطالبات پر خلوص دل سے فوری طور پر جمہوری راستہ اپناتے ہوئے بات چیت کر کے چودہ اگست سے پہلے محمد علی جناح کی تقاریر کی روشنی میں اس پاکستان کے از سر نو قیام کا عہد کرنا چاہیے جس سے روگردانی کی انتہا ہو چکی ہے۔ قائد اعظم آج کا پاکستان دیکھ لیں تو اپنے کیے پر شرمندہ ہو جائیں۔ آئیے ہم انھیں شرمندگی سے بچانے کے لیے خود کو راہ راست پر لے آئیں۔ دوسروں کو نہیں خود کو ٹھیک کر لیں باقی سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ہم بھی خوب لوگ ہیں۔ دوسروں کو ٹھیک کرنا جہاد سمجھتے ہیں اپنے گریبان میں جھانکنا گوارا نہیں کرتے۔
ابھی یوم آزادی یعنی چودہ اگست کی صبح طلوع ہونے میں چار دن باقی ہیں اور ٹی وی چینلز کے علاوہ اخبارات میں ایک کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ ایک طرف عمران خاں کا اصرار ہے کہ وہ چودہ اگست کو لاکھوں کی تعداد میں اکٹھے ہو کر جمہوریت نہیں بادشاہت کے خاتمے تک اسلام آباد کا میدان نہیں چھوڑیں گے اور وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت ختم اور نئے انتخابات کے انعقاد کے مطالبے سے دستبردار نہیں ہوں گے۔
عمران خاں کی موجودہ کال جس میں واضح ارادہ ہے ان کا چودہ اگست کا اسلام آباد کا دھرنا موجودہ حکومت اور ان کے مؤقف کے مطابق بادشاہت کے خاتمے تک جاری رہے گا۔ بلا شبہ موجودہ حکومت جسے دس پندرہ وزراء چلا رہے ہیں کوئی ایک بھی وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہی ہے جسے وہ فخریہ اٹھارہ کروڑ عوام کے سامنے پیش کر کے اپنا اعتماد قائم کرنے یا کریڈٹ لینے کا مستحق ثابت کر سکیں۔ اس پس منظر میں عوام اور بطور خاص نوجوان طبقہ بلا شبہ عمران کی کال پر ان کے ہم خیال و ہم نوا ہونگے۔ شروع شروع میں صرف چار حلقوں میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے مطالبے پر کسی مجاز اتھارٹی نے ان کے اصرار پر کان نہ دھرا۔ اس مطالبے کو سال گزار گیا۔
بعض حقائق سامنے آئے کہ کئی جگہ ووٹوں کی اصل تعداد سے بھی بڑھ کر ووٹ پڑے تو لوگ ششدر رہ گئے کہ کیسا کالا جادو تھا۔ عمران فرشتہ نہ سہی انسانی سوچ اور دماغ تو رکھتا ہے اور عوام بھیڑیں سہی منمنا تو سکتی ہیں۔ اور اب ان بھیڑوں کی آواز میں میں سے تُو تُو میں بدلی سنائی دے رہی ہے اسی لیے حکمران ملک کی دوسری سیاسی پارٹیوں کے دروازوں پر دستک دے کر عمران کی للکار سے نمٹنے کے جتن کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن PTI کسی غیر آئینی طریق کار کے حق میں نہیں اور یہی بات اسے مولانا طاہر القادری کے رویے سے ممتاز کرتی ہے۔
چودہ اگست ابھی چار دن کے فاصلے پر ہے حالات بدلنے لگیں تو گھنٹے نہیں منٹ لگتے ہیں اور امید ہے گھبرائے ہوئے میاں نواز شریف آخری لمحوں میں عمران خاں سے جو کہ ایک Fighter ہے کچھ مان کر اسے منا لیں گے اور دونوں کی ساکھ وقتی طور پر بچ جائے جمہوری طرز حکومت میں ہمیشہ ایسی گنجائش ہوتی ہے۔ میاں صاحب اپنی سابقہ وزارت عظمیٰ کے آخری دنوں کے انجام کو بھولے تو نہ ہونگے۔ مجھ جیسا غیر سیاسی سرکاری ملازم ان دنوں امریکا رخصت پر گیا ہوا تھا اور لوگ پوچھتے تھے کیا میاں صاحب امیر المومنین بن کر ابھریں گے تو میرا جواب ہوتا کہ چند روز انتظار کریں کچھ اور ہی ہونے جا رہا ہے اور میں ابھی وہاں تھا کہ کچھ اور ہی ہو گیا تھا۔
اب جنرل الیکشن میں دھاندلی کی سنئے۔ پاکستان میں صرف جنرل یحییٰ خاں کی صدارت والے الیکشن سب سے فیئر تھے اس میں بھی ان کا کوئی قصور نہ تھا۔ فیئر الیکشن انھیں سوٹ کرتے تھے۔ آپ اپنی مرضی کا عملہ پولنگ اسٹیشن پر لگوا لیں اور مرضی کا رزلٹ لے لیں۔ مجھے تو آج بھی دکھ ہوتا ہے کہ میں نے بھٹو صاحب والے آخری الیکشن میں دھاندلا کرنے والے ایک پریذائیڈنگ افسر کو کیوں گرفتار کیا تھا۔ ماسوائے پاکستان کے ساری دنیا میں کنٹینرز کا استعمال سامان کی درآمد و برآمد کے لیے ہوتا ہے لیکن ہم ایک پینتھ دو کاج کے ماہر ہونے کی وجہ سے کنٹینروں سے عوام کا آمد و رفت کا حق غصب کرنے کا کام بھی لیتے ہیں۔ ہر پولیس اسٹیشن کے فرائض میں اب یہ اضافہ کر دیا گیا ہے کہ جب بھی CCPO کا حکم آئے وہ ایکسپورٹ کے مال سے لدا کنٹینر بھی تھانے کی تحویل میں لے لیں۔
ان دنوں 14 اگست کے پیش نظر جشن آزادی منانے کے لیے پاکستان کے ہلالی پرچم لہرانے اور شہروں کی عمارتوں پر روشنیاں جگمگانے کے ساتھ ساتھ ماڈل ٹاؤن میں مولانا طاہر القادری اور عمران کی دھرنا کال پر اسلام آباد کو بذریعہ کنٹینرز سیل کرنے کا عمل ساتھ ساتھ جاری ہے۔ اسلام آباد میں ابھی سے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے جس کے تحت اسلحہ کی نمائش کے علاوہ پانچ یا اس سے زیادہ افراد کے اکٹھ پر پابندی ہو گی۔
اس ذکر سے یاد آیا کہ گوجرانوالہ شہر میں بھٹو صاحب والے الیکشن سے چند روز قبل دفعہ 144 نافذ تھی غلام دستگیر خاں مسلم لیگ کی طرف سے الیکشن میں امیدوار تھے شام کے وقت ان کے دوست اور برادر ہتھکڑیوں میں میرے سامنے پیش کیے گئے کہ یہ افراد جو پانچ کی تعداد میں تھے ایک موٹر سائیکل پر سوار دفعہ 144 کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ مجھے غصہ آ گیا اور پولیس افسر سے کہا کہ پھر ویگنوں، بسوں اور ٹرینوں میں سوار مسافروں کو بھی پکڑ لو۔ میں نے اسی وقت ان پانچوں کی ہتھکڑیاں کھلوا دیں۔
اس وقت طاہر القادری انقلاب کی شعلہ بیانی کر رہے ہیں جب کہ عمران خان محتاط ہیں۔ جہاں تک طاہر القادری صاحب کی زبان و بیان پر قدرت اور گرفت کا تعلق ہے اور حکمرانوں پر الزامات کا تعلق ہے انھیں داد دینے پر کسی کو اختلاف نہ ہو گا ان کی طرف سے آنے والے ہر لفظ کی صحت مسلمہ ہے۔ اختلاف صرف وہاں پیدا ہوتا ہے جب انھیں سننے والا سوچتا ہے کہ ان کا لائحہ عمل کیا ہو گا۔ ہمیں عمران خاں کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے کہ وہ بادشاہت ختم کرنا چاہتے ہیں۔
حکومت عمران سے خوفزدہ ہے اسے عمران کے مطالبات پر خلوص دل سے فوری طور پر جمہوری راستہ اپناتے ہوئے بات چیت کر کے چودہ اگست سے پہلے محمد علی جناح کی تقاریر کی روشنی میں اس پاکستان کے از سر نو قیام کا عہد کرنا چاہیے جس سے روگردانی کی انتہا ہو چکی ہے۔ قائد اعظم آج کا پاکستان دیکھ لیں تو اپنے کیے پر شرمندہ ہو جائیں۔ آئیے ہم انھیں شرمندگی سے بچانے کے لیے خود کو راہ راست پر لے آئیں۔ دوسروں کو نہیں خود کو ٹھیک کر لیں باقی سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ہم بھی خوب لوگ ہیں۔ دوسروں کو ٹھیک کرنا جہاد سمجھتے ہیں اپنے گریبان میں جھانکنا گوارا نہیں کرتے۔