غزہ کتنی بار اجڑے گا
عراق، شام، لیبیا اس کی مثال ہیں اور اسلام کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے اس میں بھی ہمارے ہی کرم فرماؤں کا دخل ہے۔
فلسطین کی آزادی کا خواب میں نے بچپن ہی سے اپنی آنکھوں میں سجایا تھا۔ اس خواب کو بارہا ٹوٹتے، بکھرتے دیکھا ہے مگر تج دینے کو جی نہیں مانتا۔ دلی سات بار اجڑ کر پھر بس سکتی ہے تو غزہ کیوں نہیں دوبارہ آباد ہوسکتا ہے۔ اسی طرح اپنے دل کو بہلاتی ہوں۔
یہ شاید دل بہلانا نہیں ہے اپنے نظریے کو آنسوؤں سے تازہ کرنا ہے کہ جس زمین کے دلیر سپوت اور معصوم بچے اپنی قربانیوں سے مادر وطن کو نمو دیتے ہیں وہاں ایک نہ ایک دن بہار ضرور آتی ہے۔ غزہ کے مٹ کر ابھرنے پر یقین تجدید عہد ہے کہ فلسطین کو آزاد کروانا ہے۔ دکھ ہے، بے بسی ہے لیکن امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹتا۔ شرم آتی ہے تو اپنوں کی بے حسی پر۔ اٹھارہ سو سے زائد بے گناہ اپنی آخری نیند سوچکے ہیں لیکن مسلم امہ جاگی ہی نہیں۔ ویسے تو ہر وقت مسلم امہ اور او آئی سی (O.I.C) کا بڑا چرچا ہوتا ہے اب تو OIC کے پروجیکٹ بھی پاکستان میں شروع ہوگئے ہیں لیکن جب فلسطینیوں کا خون بہتا ہے تو OIC دیکھتی ہی نہیں۔
اس کی آنکھوں پر مصلحت کے پردے پڑ جاتے ہیں کیوں کہ اپنے قبلے سے کیوں کر منہ موڑیں۔ ہمارا قبلہ و کعبہ، اقتدار کا سرچشمہ ہی تو اسرائیل کی طاقت کا منبع ہے۔ اگر داتا کو ناراض کردیں تو Regime Change کا نعرہ لگاکر کئی حکمرانوں کی بساط الٹ دے گا اور جمہوریت لے آئے گا۔ شاہی بے چارگی میں بدل جائے گی۔ لیکن لوگوں کا بھی کوئی بھلا نہیں ہوگا۔ تباہی ان کا مقدر ہوگی، معلوم نہیں یہ کونسی جمہوریت ہے جس میں عوام پس کر رہ جاتے ہیں۔ انسانی حقوق کی دھجیاں بکھرجاتی ہیں اور انسانی حقوق کے علمبردار اپنا کام کرکے وہاں سے رخصت ہوجاتے ہیں کہ ہم نے جو یہ مصیبتیں مسلط کردی ہیں اب تم ہی ان سے نبٹو ہمارا کام تو ہوگیا۔
عراق، شام، لیبیا اس کی مثال ہیں اور اسلام کے نام پر جو کچھ ہورہا ہے اس میں بھی ہمارے ہی کرم فرماؤں کا دخل ہے۔ ہم وہ ہیں جنھیں غیروں کا ساتھ دے کر اپنوں نے مارا۔ پی ایل او کو ختم کرکے اس کی جگہ حماس کو دلوانے میں بھی ان کا بڑا ہاتھ ہے، صدام بہت برا ہوگا۔ معمر قذافی نے آمریت برقرار رکھی لیکن انقلاب تو لوگ لایا کرتے ہیں باہر سے امپورٹ نہیں ہوتا اور جو بیرونی طاقت سے مسلط کیے جاتے ہیں تو وہ سارے معاشرے کا تار و پود بکھیر دیتے ہیں۔ تحریکیں تو اندر سے جنم لیتی ہیں، طاقت سے نہ کسی کا دل جیتا جاسکتا ہے اور نہ کسی کے ذہن تسخیر کیے جاسکتے ہیں۔
2008 میں یہی غزہ تھا جہاں ہونے والی تباہی نے ہمیں خون کے آنسو رلایا تھا۔ 2005 میں بھی یہی کچھ ہوا تھا۔ ہم زندہ تو تھے بولے تو تھے۔ شور مچایا تھا۔ روئے تھے، اپنے زندہ ہونے کا ثبوت دیا تھا، بے حسی کا یہ عالم تو نہیں تھا ایک رویہ یہ ہے کہ بھئی ہمارے ملک میں ہی اتنا سب کچھ ہورہا ہے، انتہا پسندی ہے، درندگی ہے،خون ریزی ہے تو ہم غزہ کا کیا کریں۔ یہ کیا بات ہوئی۔ ہمیں کون روکتا ہے کہ اپنے مسائل پر احتجاج نہ کریں زبانوں پر تالے لگادیں۔ لیکن تشدد تو تشدد ہے۔
چاہے قومی ہو یا بین الاقوامی اس کے درمیان ایک رشتہ ہے۔ اگر ہم ملک میں یا بین الاقوامی سیاست میں تشدد کو برداشت کرتے ہیں تو دونوں کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں۔ ہر کام پروجیکٹ نہیں کرتے کچھ اخلاقی جرأت اور قدریں بھی ہوتی ہیں۔ یہ تنقید میں اپنے اوپر بھی کررہی ہوں۔ ہم سب نے مل کر اس معاشرے کو اتنا بے حس بنایا ہے۔
ہماری پالیسیاں بدل گئیں لیکن جو دوسری طرف وہ بغیر جھجک اور شرم کے اپنی پالیسیوں میں سخت گیر ہوگئے ہیں کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ ہمیں مصلحت پسند بناچکے ہیں۔ ہم سب نے دیکھا کہ کتنی ڈھٹائی سے امریکا اور یورپی یونین نے اقوام متحدہ کا بائیکاٹ کیا۔ کل ہی کی خبر ہے کہ امریکا نے اسرائیل کو مزید 225 ملین ڈالر دینے کا اعلان کردیا تاکہ وہ فلسطین کے راکٹوں کے خلاف اپنے مزاحمتی نظام کو مزید بہتر بناسکے۔ واہ یہ بات ہوتی ہے ناکہ زبردست مارے اور رونے بھی نہ دے۔ ذرا اس تین ہفتے کی جنگ میں فریقین کی تباہی پر ایک نظر ڈالیں:
اسرائیلی فوجی (64) سویلین (3)
غزہ کے شہید ( 17757)
غزہ میں نہ پانی ہے نہ بجلی، عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں، اسپتال تباہ ہوچکے ہیں، پناہ گزینوں کے کیمپ، اسپتال، مسجد، اسکول کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں روز اسرائیل کئی بار بمباری کرتا ہے۔ آگ کے شعلوں اور افراتفری میں لاشوں اور زخمیوں کو لے کر بھاگتے ہوئے لوگ۔ آہ و بکا کرتی ہوئی عورتیں، اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں تشدد اور بے عزتی کا شانہ بنتے ہوئے بچے اور جوان اور کھنڈرات کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ دوسری طرف اسرائیل میں زندگی پرسکون ہے، رواں دواں ہے، پھر بھی انھیں اپنا دفاع مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہمیں آج فلسفہ مافوق البشر Survival of the fittest پر ہی چلنا ہے تو یہ انسانی حقوق کی گردان کس منہ سے کرتے ہیں۔
دنیا بھر میں شکر ہے اب بھی لوگوں کے ضمیر زندہ ہیں، ہر ملک میں ہزاروں لوگ خود یہودی بھی اسرائیلی ظلم کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کا نمائندہ وہاں کی صورت حال بیان کرتے ہوئے رو پڑا لیکن ان ملکوں کی حکومتیں جنھیں جمہوری ہونے کا دعویٰ ہے اپنے ہی عوام کی خواہشات کا کوئی احترام نہیں کرتیں۔ ساری دنیا کہتی رہی کہ عراق کے پاس شدید تباہی پھیلانے والے خطرناک ہتھیار نہیں ہیں لیکن عراق پر امریکا چڑھ دوڑا اور برطانیہ ان کے ساتھ تھا۔ یورپ کے کئی ملکوں نے نیٹو کے حوالے سے مدد کرنا اپنا فرض سمجھا۔ عراق کو تباہ و برباد کرکے اس کے وسائل پر قبضہ کرلیا گیا۔
دنیا کے وسائل اور زمین پر قبضے کی ہوس کب ختم ہوگی؟ اب اسرائیل نے تین فوجیوں کے قتل کا بہانہ بناکر غزہ کی زمین پر قبضے کے لیے اپنی پوری قوت استعمال کر ڈالی۔ ان کا مقصد فلسطینیوں کو غزہ سے نکال کر ان کی زمین پر قبضہ کرنا ہے۔ اس ہوس کی حمایت دنیا کے بڑے سامراجی ملک شروع سے کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
ہماری مسلم امہ کیا کر رہی ہے۔ انھیں تو آپس میں لڑنے ہی سے فرصت نہیں ہے۔ آپس کے بکھیڑوں میں الجھے ہوئے فرقے، مدرسے جانے والے، اسکول جانے والے ان میں کون مسلمان ہے کون نہیں ہے فیصلہ کرنا کتنا مشکل اور ضروری کام ہے۔ اس سے فرصت ملے تو سر اٹھاکر کچھ دیکھیں۔ ابھی ابھی یہ نئی Figures آئی ہیں۔
غزہ کے شہید1787 بچے، 378 خواتین، 207 بزرگ، 74 اور میڈیکل اسٹاف 19۔
زخمی 9078، بچے 2744، خواتین 1750 اور 343 بزرگ۔ اس یک طرفہ جنگ کو ہم کیا نام دیں گے؟
اب تک یہ غزہ کے شہیدوں کی تعداد 1850 ہوچکی ہے۔ اگر مستقل جنگ بندی نہ ہوئی تو یہ اعداد و شمار بڑھتے ہی جائیں گے۔ بات اعداد و شمار کی بھی نہیں گوکہ انسانی جانیں بہت اہم ہیں بات نظریات اور ذہنیت کی ہے۔ سامراجی قوتیں اپنے لوٹ کھسوٹ کے نظام سمیت ایک طرف ہیں اور دنیا کے مظلوم عوام دوسری طرف کھڑے ہیں۔ کتنی ڈھٹائی کی بات ہے یوکرین کے مسئلے کو غزہ پر ترجیح دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
گوکہ وہاں بھی انسانی جانوں کا ضیاع خصوصاً ملائیشیا کے طیارے کا گرنا اور تقریباً تین سو مسافروں کی موت ایک المناک حادثہ ہے مگر فلسطین تو ہزاروں لوگوں کی قربانیاں دے چکا ہے۔ کئی امن معاہدے اسرائیل کی ہٹ دھرمی کی بنا پر ناکام ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ بھی بڑی سامراجی طاقتوں کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ آخر غزہ کتنی بار اجڑتا رہے گا؟