دینے والا ہاتھ
آپ تاریخ کا مطالعہ کیجیے، آپ دیکھیں گے کہ کبھی،کہیں،کسی تہذیب میں، قرضوں پر مبنی نظام زندگی موجود نہیں رہا۔
تاریخ انسانی میں کبھی انسان نے اپنے تعیشات کے لیے ادارتی صف بندی کے ذریعے قرضوں کا نظام قائم نہیں کیا ۔ہم یہ نہیں کہتے کہ پچھلے وقتوں میں قرض لیا جاتا تھا،لیکن انفرادی سطح پر ۔لوگ انتہائی مجبوری میں قرض لیتے تھے۔یہ قرض زندگی کی انتہائی مجبوریوں کے لیے لیا جاتا تھا نہ کہ اسراف ،دکھاوے ،نمود و نمائش،یا تعیش کے لیے۔مزید یہ کہ قرض لینے کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ شدید بنیادی ضروریات کے لیے بھی لوگ روایتی تہذیبوں میں اپنے عصبہ، اہل خاندان، مخیر حضرات سے قرض حسنہ کے لیے خال خال ہی طالب ہوتے تھے۔
آپ تاریخ کا مطالعہ کیجیے، آپ دیکھیں گے کہ کبھی،کہیں،کسی تہذیب میں، قرضوں پر مبنی نظام زندگی موجود نہیں رہا۔ قرض لینا ہر تہذیب میں معیوب،برا بلکہ قابل نفرت رویہ سمجھا گیا۔دوسری جانب کسی مجبور محتاج ضرورت مند کو قرض حسنہ دینا، اس کی مدد کرنا ہر تہذیب میں اعلیٰ ترین نیکی تصور کیا گیا۔کبھی کہیں ایسا نہیں ہوا کہ کسی تہذیب کے امراء نے عیش و عشرت کی زندگی کے لیے یا اپنے اثاثوں میں اضافوں اور دولت کے انبار میں رکنے والے مسلسل اضافے کے لیے قرضوں کا عظیم الشان نظام قائم کیا ہو۔
لوگوں کو اشتہارات کے ذریعے حرص میں مبتلا کر کے ان میں اشتہا کی آگ لگا دی گئی ہو،پھر اس آگ کو بجھانے کے لیے قرضوں کا جال ہو۔روایتی تہذیبوں میں یہ ممکن ہی نہ تھاکہ آپ غرباء کے لیے قرضوں کی ادارتی سطح پر فراہمی کا تصور بھی کر سکیں۔
مغربی تہذیب تاریخ انسانی کی واحد تہذیب ہے جس نے قرض لینے اوردینے کو ایک حُسن، ایک کمال، ایک عام رویہ، ایک طرز زندگی یہاں تک کہ ایک قابل فخر شے بنا دیا ہے۔ جو سب سے زیادہ مقروض ہے وہی سب سے زیادہ طاقت ور قابل عزت، قابل تکریم۔ جیسے دنیا کا مقروض ترین ملک امریکا۔دنیا کا سب سے طاقت ور اور امیر ترین ملک امریکا سب سے زیادہ مقروض کیوں ہے؟ امریکا کوآج 17601 ٹریلین ڈالر کے خسارے کا سامنا ہے۔ عصر حاضر میں قرض کے بغیر معیشت کا پہیہ چل ہی نہیں سکتا تو کیا یہ طرز عمل درست قرار پا سکتا ہے؟ اس نظام کی بنیاد اس نفس، اس فرد، اس مزاج اور اس ذہن کے ذریعے رکھی گئی جو اٹھارہویں صدی میں جدید فلسفے کے زیر اثر تعمیر تخلیق اور تشکیل پایا۔
ڈیکارٹ کے الفاظ میں ''میں سوچتا ہوں اس لیے میں ہوں۔'' لہٰذا میں،''آئی'' ہی اصل مرکز کائنات قرار پایا اور سرمایہ دارانہ ذہنیت کے باعث ایک حاسد، حریص، ہوس سے لبریز فرد روئے زمین پر وجود پذیر ہوا ۔جس کے یہاں نفس مطمئنہ کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔جس کی ہوس اور خواہشات لامحدود ہیں۔ اس غیر مطمئن نفس کے لیے قرضوں کا نیا نظام متعارف کرایا گیا تاکہ وہ اپنی لامحدود خواہشات کو قرضوں کے ذریعے پورا کرسکے۔ ''اسکیر سٹی''کا حل ظاہر ہے یہ ہی ہے۔
اس فلسفے اور تہذیب کے نتیجے میں نفس مطمئنہ اور رزق کفاف کی تہذیب، تاریخ، رویہ، اسلوب ہی ختم ہوگیا۔ تھوڑے سے رزق پر راضی رہنا کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا، دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے افضل ہے، کا فلسفہ بھی رخصت ہوگیا۔ قرض کو کمائی کا آخری ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ عہد حاضر میں یہ کمائی کا اول ذریعہ قرار پایا، اس کے بغیر فیکٹری،کاروبار، صنعت، تعیش، سیاحت کچھ ممکن نہیں۔
کیا دنیا میں اس وقت کوئی ایسی بڑی صنعت ہے جو قرضے کے بغیر لگتی ہو؟کیا دنیا میں کوئی ایسا ملک ہے جو قرضے کے بغیر کام کرتا ہو؟دنیا میں تمام امیر ممالک50سے 55فی صد ٹیکس لوگوں سے وصول کرتے ہیں اور اس کے عوض سہولیات روڈ، پل، اسپتال، اسکول دیتے ہیں کیا یہ جائز ہے؟ دنیا میں عموماً کسی بھی ملک کی معیشت قرضے کے بغیر نہیں چلتی۔کیوں؟ کیوں کہ معیارات زندگی قرضے کے بغیر حاصل ہی نہیں ہوسکتے۔ بڑے بڑے بحری جہاز جن کی مالیت اربوں روپے ہے، جن پر عہد حاضر کی معیشت کا انحصار ہے وہ صرف سود اور انشورنس پر چلتے ہیں۔
اور تو اور حج اور عمرہ بھی اقساط پر، قرضوں پر اوراُدھار پر شروع ہوگیا ہے۔ قربانی کے بکروں اور گایوں کی بھی بکنگ ہو رہی ہے، اقساط ادا کیجیے عید پر بکرا تیار ملے گا۔نیزکریڈٹ کارڈ پر بھی قربانی کا جانور لیا جا سکتاہے۔ برطانیہ میں تو تدفین کی رسومات کے لیے انشورنس موجود ہے۔ آپ قسطیں دے کر مرنے کے بعد اپنے اعزہ کو تدفین کے بھاری اخراجات سے بچا سکتے ہیں کہ وہاں مرنا بہت مہنگا کام ہے۔ تدفین پرکئی ہزار پونڈ خرچ ہوتے ہیں۔ جس تہذیب نے انسان کا مرنا تک دشوار کر دیا ہے اس کی حقیقت سے ہم واقف نہیں۔ عہد حاضر میں وہ انسان ہی مار دیا گیا جو ''عزت نفس'' اور'' نفس مطمئنہ'' کو اپنا اثاثہ سمجھتا تھا۔
بینکاری، قرضے سود کے ذریعے ایک ایسا مصنوعی نظامِ زندگی ایک فطری نظام زندگی کے طور پر مسلط کر دیا گیا جہاں سات سال کا بچہ بھی موبائل فون کمپنی سے پندرہ روپے کا قرض فخر سے حاصل کر رہا ہے اور لایعنی کاموں میں اس قرض کو استعمال کر کے خوش ہو رہا ہے۔ اپنے نفس کی تسکین کے لیے، لذتوں کے لیے، معیار زندگی کو بلند کرنے کے لیے معیار کو مسلسل بلند کرتے رہنے کے لیے تعیشات کے حصول کے لیے۔ نفس غیر مطمئنہ کے عدم اطمینان میں مسلسل اضافہ کرتے رہنے کے لیے ''کنزیومر فائنینسنگ'' کا نیا سودی جال اسلامی وسودی بینکوں کے ذریعے عام کر دیا گیا ہے تاکہ ہر فرد اپنے نفس کی تسکین کرسکے۔
تزکیۂ نفس کو اس جدید بینکاری نظام نے ناممکن بنا دیا ہے۔ جدیدیت کے نظام زندگی کی ہرکل اور ہر پرزہ محض خواہشات و مطالبات نفس کی تسکین کو ممکن بنانے کے لیے مصروف عمل ہے۔ لوگوں کو آخرت طلبی کے بجائے دنیا کے طلبی کے جدید نظام میں جکڑ دیا گیا ہے۔ ایک حاسد حریص وجود کو تخلیق کیا جارہا ہے جو لذتوں کے خوشے چننے میں مصروف رہے جدیدیت رزق کفاف اور نفس مطمئنہ کی موت کا اعلان ہے۔
اب یہاں ایک طرفہ تماشا دیکھیے ۔آج کے قریباً ہر انسان کو میسر تمام ذرائع وسائل بہت کم نظر آنے لگے ہیں۔یہاں تک کہ صاحبِ ثروت بھی اس فریب نظر اور سراب نظر کے باعث اپنے آپ کو غریب، حقیر، کم تر، درماندہ، پسماندہ، تصور کرنے لگے۔ اس کے نتیجے میں معاشرے میں جدید بھکاریوں، سوالیوں، فقیروں کی نئی کھیپ نے جنم لیا۔ یہ امیر بھکاری دستیاب وسائل اور رزق پر قانع نہیں۔ ان کی ضروریات کا دائرہ اشتہارات کے ذریعے وسیع سے وسیع کر دیا گیا ۔
ایسے حاسد حریص نفس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جدید بینکاری نظام کے ذریعے قرض، کریڈٹ کارڈز، اوور ڈرافٹ، کنزیومر فنانسنگ کا جعلی نظام کھڑا کر دیا گیا ۔جو شخص امیر ہونے کے باوجود خود کو بینکوں کے سامنے ایک حاجت مند، ضرورت مند، سائل، فقیر، بھکاری طالب فرض کے طور پر بہ خوشی پیش کرتا ہے وہ کسی دوسرے کی کیا مدد کرسکتا ہے۔ لہٰذا اس دنیا میں دینے والے ہاتھ سکڑتے سمٹتے اور کم ہوتے جا رہے ہیں اور لینے والے مانگنے والے ہاتھ مسلسل بڑھتے چلے جا رہے ہیں کیا یہ نقطۂ نظر درست ہے؟