بُک شیلف
میرپور خاص، سندھ کا ایک چھوٹا سا مگر ادبی لحاظ سے بہت زرخیز شہر ہے۔
ہم نشینی
شاعر: نوید سروش
ناشر ... رنگ ادب پبلی کیشنز5 کتاب مارکیٹ اردو بازار کراچی
صفحات:192،قیمت ... 400 روپے
میرپور خاص، سندھ کا ایک چھوٹا سا مگر ادبی لحاظ سے بہت زرخیز شہر ہے۔ کوئی شک نہیں کہ تاج قائم خانی، یعقوب خاور، رفیق احمد نقش، ڈاکٹر سید رضی محمد، میرپورخاص کے نمایاں اور معتبر نام ہیں جن کی ادبی حیثیت سے انکار ممکن نہیں۔ تاہم پچھلے چند سال سے جواں سال نوید سروش نے بہت تیزی سے میرپورخاص میں اہم مقام حاصل کیا ہے۔
انہوں نے ادب کی ترقی و ترویج کے لیے نہ صرف ادبی پرچے ''پہچان'' کا اجراء کیا بلکہ مشاعرے کراکے شعراء کو ایک جگہ اکٹھا بھی کیا۔ ''ہم نشینی'' نوید سروش کا پہلا شعری مجموعہ ہے، جو اہتمام سے شائع کیا گیا ہے۔
نوید سروش بنیادی طور پر روایتی اور جدید شاعری کے سنگم پر کھڑا شاعر ہے جسے اپنی روایت بھی عزیز ہے اور وہ جدید عہد کے تقاضوں کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اس کی شاعری کے مختلف رنگ ہیں جن میں رومانوی رنگ بھی ہے تاہم وطن سے محبت، دوستوں سے محبت اس کے شعروں میں جا بہ بجا جھلکتی ہے، وہ بنیادی طور پر حساس طبیعت کا مالک ہے اور محبتوں کے گل دستے تقسیم کرنے کا قائل ہے۔
چل دیے ساتھ ترے پھول ستارے جگنو
راہ الفت میں ترا ساتھ نبھانے کے لیے
۔۔۔۔۔
گھر بھی ہے کتابیں بھی ہیں احباب بھی لیکن
محسوس کیوں ہوتی ہے مجھے تیری کمی روز
۔۔۔۔۔
جو آتے نہیں ملنے ان دوستوں سے
گھروں پر میں خود جاکے ملتا رہا ہوں
نوید سروش کی غزلوں کی طرح ان کی نظمیں بھی پڑھنے والے کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتیں۔ یہ نظمیں بھی بنیادی طور پر ایک حساس فطرت طبیعت کی غماز ہیں۔ ان نظموں میں ''ہم دوست کیوں نہیں بنا پاتے، انفرادیت، کسی بھی طرح ذلیل کیا جاسکتا ہے اور ذی شان ساحل کے لیے لکھی گئی نظم عرض داشت شامل ہے۔ ان نظموں میں طنز کا عنصر بھی کمال مہارت سے ملتا ہے۔ شعری مجموعے ''ہم نشینی'' میں غزلیں، نظمیں، نعت، حمد، ہائیکو، قطعات سمیت مختلف شعری پیراہن پر طبع آزمائی ملتی ہے۔ نوید سروش کے فن کے حوالے سے سید مشکور حسین یاد، شبنم شکیل (مرحومہ) ڈاکٹر انور سدید، شہناز شورو، ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش اور خود نوید سروش کا مضمون شامل کتاب ہے۔ ڈاکٹر انورسدید نے لکھا ہے،''میرپورخاص کے گردونواح میں دور دور تک جو دودھیا روشنی نظر آتی ہے اس کے فروغ میں نوید سروش کا حصہ نمایاں ہے۔ شہناز شورو نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے،''اس کی شاعری میں ایک باوقار ٹھہراؤ ہے، تھر کی تپتی ریت پہ اپنے پنجے گاڑے آنے والے مسافر کے لیے زمین و آسمان کے درمیان اپنی شاخیں پھیلائے ہوئے درخت ایسا ٹھہراؤ۔ وہ گر شدت کی آندھی سے دولخت ہوتا بھی ہے تو اپنا منصب نہیں بھولتا جو سرتا سر محبت ہے۔''
اعجاز سخن
شاعر: اعجاز رضوی
ناشر: کمبائن گرافک، 444 سنی پلازہ، حسرت موہانی روڈ، کراچی
صفحات:144،قیمت: 200 روپے
اس شعری مجموعے ''اعجاز سخن'' میں اولین صفحات فرید بلگرامی، امجد اسلام امجد، فراست رضوی، ڈاکٹر جاوید منظر، عارف شفیق، عبدالرؤف صدیقی، شاہین بیگم شاہین، ناصر سوری، وقار مانوی دہلوی، ڈاکٹر عفت زریں، سید حسن احمد رضوی خیرآبادی، سید برکت علی ہاشمی، سارہ کنول اور سید اعجاز احمد رضوی کی آراء پر مشتمل ہیں۔ ان میں سے کچھ کا تعلق پاکستان سے تو کچھ کا بھارت سے خاص کر خیر آباد سے ہے۔ خیر آباد (بھارت) اردو شاعری کے حوالے سے ایک مقام رکھتا ہے۔
اعجاز رضوی کا بھی خیر آباد سے تعلق ہے۔ فاطمہ ثریا بجیا اور ڈاکٹر یونس حسنی کی آراء بھی کتاب میں شامل ہیں۔ کچھ آراء کے اقتباسات ملاحظہ ہوں، امجد اسلام امجد لکھتے ہیں،''سید اعجاز رضوی شاعر کی حد تک ایک بے نیاز اور گوشہ نشین قسم کے انسان ہیں۔ اس مجموعہ کلام کی اشاعت بھی ان سے زیادہ ان کے عزیزوں کی محبت اور خواہش کا عکس کہی جاسکتی ہے۔ سو اس کا ادبی مرتبہ متعین کرتے ہوئے اسے اسی محبت اور شاعر کے انسان دوست اور اقدار پسند رویے کے حوالے سے دیکھنا چاہیے کہ یہی اس کے مرکزی اور بنیادی محرک ہیں۔''
فاطمہ ثریا بجیا نے اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا ہے،''اعجاز رضوی کی شاعری میں سب سے زیادہ جو بات ان کے اشعار کو پرکشش بنارہی ہے وہ ان کی لفظیات اور بیان کی سادگی ہی ہے جس کو انھوں نے سیدھی سادھی عام سی زبان میں ڈھال کر بڑی بڑی باتیں اور مضامین آسانی سے بیان کردیے ہیں۔
قائد کی کرن، معمار قوم، عصر نو اور سانپ اس کی زندہ مثالیں ہیں۔'' اعجاز رضوی نے لکھا ہے،''اس شعری مجموعے کی کمپوزنگ کے بعد جب اسے طباعت کے لیے بھیجا جائے گا تو یہ سوچ کر میرے دل و دماغ کی حالت ناگفتہ بہ ہورہی تھی کہ کیا یہ کتاب اسی کتب خانے اور لائبریری میں رکھی جائے گی جہاں میر تقی میر، استاد ذوق، داغ دہلوی، غالب اور اقبال کی کتابیں رکھی ہوں گی۔ اس خیال کے آتے ہی مجھے اپنی کم مائیگی کا احساس شدت سے ہوا۔''
اس شعری مجموعے کی اشاعت کا سہرا اعجاز رضوی کی بہو سارہ کنول کے سر ہے، جنھوں نے بکھری ہوئی شاعری یک جا کی، اس پر مختلف جگہ سے آراء اکٹھی کیں اور اسے کتابی شکل دی۔ سارہ کنول مبارکباد کی لائق ہیں۔ یقیناً کئی اور شاعروں کی طرح اعجاز رضوی کا کلام بھی ضائع ہوجاتا ہے۔ خدا ایسی بہو یا بیوی ہر ادیب شاعر، افسانہ نگار کو دے۔ اعجاز رضوی کی شاعری جدید و قدیم دونوں رنگوں سے مزین ملتی ہے اور یہ ساری شاعری ان کے احساسات کی ترجمانی کرتی ہے۔ کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
ساقی یہ روک ٹوک بری ہے شراب پر
بگڑے گی محتسب سے کسی دن حساب پر
۔۔۔۔۔
دیدۂ قلب سے رضوی یہ جہاں دیکھتے ہیں
چشم ظاہر سے ہم اتنا بھی کہاں دیکھتے ہیں
کتاب مناسب طور پر شائع کی گئی ہے۔ قیمت بھی مناسب ہے۔
میں حاضر ہوں
مصنف: ڈاکٹر عبدالحق
قیمت: 200 روپے
ناشر: مثال پبلشرز رحیم سینٹر پریس مارکیٹ امین پور بازار فیصل آباد
حج، ایک مقدس و معتبر اسلامی رکن ہے جسے ادا کرنے کی ہر مسلمان دلی خواہش رکھتا ہے، مگر اسے اتنا منہگا کردیا گیا ہے کہ ہر چاہنے والے کی حسرت پوری نہیں ہوسکتی۔ صاحب استطاعت لوگ اس فرض کو ادا کرنے کے بعد اپنے ملنے والوں سے اپنے الفاظ میں اپنے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہیں جو لکھنے کا شوق اور اسے کتابی شکل میں شائع کرنے کی توفیق رکھتے ہیں وہ اسے کتابی صورت دے دیتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالحق نے حج کی سعادت 2010 میں حاصل کی۔
پھر 2013 میں عمرہ کیا اور اس دوران لیے گئے نوٹس کو احاطہ تحریر میں لاکر ''میں حاضر ہوں'' تخلیق کی۔ میں حاضر ہوں روایتی لگے بندھے جذبات اور جذباتی کیفیت کو سمیٹنے کے ساتھ ساتھ منصف پر گزرنے والے ذاتی مشاہدے، تکالیف، سعودی رعایا کے رویے پر مبنی واقعات سے پر ملتی ہے اور مصنف نے بے تکلفی، سادگی سے اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کیا ہے۔ بعض جگہ ان کا لہجہ استعجابیہ بھی ہوجاتا ہے۔
اس کتاب کے ذریعے ڈاکٹر عبدالحق نے خود پر گزرنے والے حالات اختصار کے ساتھ لکھے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ ''ایں سعادت بزور بازو نیست'' قسمت والے ہی اس در پر پہنچتے ہیں اور کم کم ہی وہاں پہنچ کر حج کی حقیقی معراج کو پاتے ہیں، زیادہ تر رقم خرچ کرکے کھجوریں، آب زم زم، تسبیح، ٹوپیاں لے کر پلٹ آتے ہیں۔ مصنف کی یہ ایک اچھی کاوش ہے مگر اسے ہم صرف اظہار عقیدت کہہ سکتے ہیں کہ اس حوالے سے لکھی گئی کتابوں میں ایک کتاب کا اضافہ ''میں حاضر ہوں'' کی شکل میں ہوا ہے۔ کتاب معیاری انداز میں شائع کی گئی۔
گل ہائے سخن
مرتب: علی جان سخن
ناشر: ارتقائے ادب، قدیر پلازہ مین بازار، دیونہ منڈی، گجرات
صفحات:152،قیمت: 350 روپے
علی جان سخن، گجرات کے نوجوان شاعر ہیں۔ ''گل ہائے سخن'' ان کا پاکستان کے مختلف علاقوں اور بیرون ملک سے منتخب کردہ 60 شعرا کے کلام کی اشاعت کا نام ہے۔ گو یہ کوئی نئی روایت نہیں، کتنے ہی افراد اور ادارے شاعری اور افسانوں کے انتخاب مرتب کرتے رہے ہیں جو بازار میں دستیاب ہیں۔
یہ کتاب بھی اسی تسلسل کا ایک حصہ ہے۔ علی جان سخن نے یہ خصوصی اہتمام ضرور کیا ہے کہ انتخاب میں شامل شعرا کے کلام و تصویر کے ساتھ اس کے فن پر کسی دیگر ادبی شخصیت کی رائے بھی شامل کرتے ہوئے اسے ایک عنوان کے تحت دیا ہے، مثلاً معروف شاعر و صحافی جاوید صبا پر خالد معین، جو خود بھی معروف شاعر صحافی ہیں، کی تعارفی سطور بہ عنوان ''دشت حیراں کا مسافر'' شامل کی گئی ہیں۔ اسی طرح نداعلی کی تعارفی سطور مختصر مضمون علی جان سخن کی شاعری پر بہ عنوان ''در خدائے مست درویش است'' شامل ہوا ہے۔
کتاب کا انتساب علی جان سخن نے ''بابا جان کی شفقت اور ماں جی کی دعاؤں کے نام'' کرکے اپنے والدین سے محبت کا اظہار کیا ہے۔ کتاب میں شامل شاعری پر ڈاکٹر محمد امین (ملتا) ظہور احمد فاتح (تونسہ شریف) اور شہناز نور (کراچی) کے مضامین شامل ہیں۔
علی جان سخن نے ''گل ہائے سخن '' محنت سے مرتب کی ہے اور بڑے اہتمام سے شائع کی ہے، تاہم مجھے اس کی قیمت 350 روپے زیادہ لگی۔ علی جان سخن نے کتاب میں شامل شعراء کی تصاویر پر مبنی تعارفی پمفلٹ بھی نکالا ہے جو کتاب کی فروخت میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک معیاری کتاب ہے جسے ہر لائبریری میں ہونا چاہیے کہ اس کتاب کی مدد سے بیک وقت آپ 60 شعراء کے کلام سے متعارف ہوجاتے ہیں۔
ریکی (شفا بخش توانائی)
مصنف: عبدالحسیب خان
ناشر ... امپریٹن پرنٹنگ ہاؤس، کورنگی انڈسٹریل ایریا، کراچی
صفحات:122،قیمت: 500 روپے
عبدالحسیب خان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ ایک دوا ساز ادارے کے سربراہ کے ساتھ ساتھ ادبی حلقوں میں دل چسپی بھی ان کی پہچان ہے۔ پھر ایک سیاسی جماعت سے وابستگی اور سینیٹر منتخب ہونے کے بعد ان کی مصروفیات کا دائرہ مزید وسیع ہوا ہے۔
ریکی ماسٹر کی حیثیت سے ان کی جو بھی شناخت ہے، کم از کم میں اس کتاب کی توسط ہی سے ان کے اس سے مطلع ہوپایا ہوں۔ عبدالحسیب خان نے ریکی جیسے طریقۂ علاج کے حوالے سے یہ معیاری کتاب تحریر کی ہے اور ریکی کیا ہے؟ ریکی کی خصوصیات کیا ہیں، ریکی کے درجات اور علاج کے راہ نما اصول سمیت مختلف موضوعات کو تحریری اور تصویری شکل میں یک جا کیا ہے۔ انھوں نے ریکی سیکھنے میں جو مشکلات سہیں کتاب میں ان کا بھی ذکر ملتا ہے۔
اس کے ساتھ ریکی ماسٹرز کی تصاویر اور ان کا تعارف بھی کافی معلومات افزا ہے۔ ریکی ایک جاپانی لفظ ہے جس کے معانی قوت حیات کی روحانی رہبری بتایا گیا ہے، ریکی قوت جسمانی، ذہنی، جذباتی اور روحانی تکالیف دور کرنے اور سکون پہنچانے میں موثر تھراپی سمجھی جاتی ہے۔ عبدالحسیب خان نے ریکی کے راہ نما اصول، ضوابط و طریقہ کار کے متعلق تفصیل سے لکھنے کے ساتھ تصویری اور گرافیکل جسمانی ڈھانچے کو بھی قاری کے سامنے واضح کیا ہے۔
ریکی کے عمل کی کام یابی کو ذہنی سکون سے مشروط کیا گیا ہے۔ اگر ذہن بے سکون اور پریشان ہو تو ریکی کی لہریں نہ کوئی ارتعاش پیدا کرسکتی ہیں اور نہ ہی تکلیف دہ جگہ پر پوری طرح اثر انداز ہوسکتی ہیں۔
اس کتاب میں مراقبے پر بھی مضمون شامل ہے جو اس کی افادیت کو واضح کرتا ہے، نیند کی اہمیت، دماغی قوت، موٹاپا، امراض قلب، ذیابیطس، چہل قدمی کے فوائد، ایکو پنکچر، جیسے موضوعات پر بھی عبدالحسیب خان نے دل چسپ معلومات اور حفاظتی تدابیر بیان کی ہیں۔ یہ کتاب عمدہ کاغذ پر بڑے اہتمام سے خوب صورتی کے ساتھ شایع کی گئی ہے اور ریکی کے حوالے سے یہ ایک اہم دستاویز ہے، جو علم میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔
شان حسنین کریمینؓ بِلسانِ سید الکونینؐ
مصنف: علامہ قاری گلزار احمد انڑ
تصدیق و نظر ثانی: علامہ پروفیسر مفتی رضا محمد انڑ غفاری
ناشر: خدیجہ پبلی کیشن، نواب شاہ۔ حیدرآباد
صفحات:92 ،قیمت 200 روپے
یہ تالیف خالصتاً مذہبی موضوع کی کتاب ہے، جس میں ہمارے مذہبی لٹریچر کی مختلف کتابوں میں موجود ان روایات کو ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو رسول اکرمؐؐ کے نواسوں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کی توصیف پر مبنی ہیں۔ قاری گلزار احمد انڑ نے بڑی محنت سے مختلف ضخیم کتابوں میں موجود ان روایات کو جمع کرکے انھیں کتابی شکل دی ہے۔ کتاب میں مولف نے منقبتیں بھی شامل کی ہیں۔ کتاب کا ہر ہر لفظ مولف کی حسنین کریمینؓ سے محبت کا عکاس ہے۔
سائنسی حقیقتیں اور فسانے
مصنف: پروفیسر احمد نسیم سندیلوی
ناشر ... الجلیس پاکستانی بکس پبلیشنگ سروسز، کراچی
صفحات:152،قیمت: 300 روپے
پروفیسر احمد نسیم سندیلوی، سنیئر صحافی ہیں اور سائنس اور صحافت کے موضوعات پر تواتر سے لکھتے رہے ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب ''سائنسی حقیقتیں اور فسانے'' میں بھی مجموعی طور پر وہ مضامین شامل ہیں جو مختلف رسائل و جرائد کے لیے نسیم صاحب نے لکھے۔ کچھ موضوعات ملاحظہ ہوں ''نظام شمسی کے سیاروں پر موسموں کا ارتقا، سائنس کے پراسرار گوشے، ٹیسٹ ٹیوب بے بی، درد کی رنگین تصویریں، جین کی جلوہ گری، چاند کے دل چسپ حقائق۔ حقیقت تو یہی ہے کہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد سائنسی معلومات میں خاطر خواہ حد تک اضافہ ہوتا ہے اور سائنسی ترقی و کمال سے آگاہی کے ساتھ انسانی زندگی کو کریدنے کا عمل بہت سفاکی سے عمل پذیر ہوتا ہے۔
نسیم صاحب نے اردو میں یہ کتاب لکھ کر بہت سی معلومات عام افراد کی رسائی تک پہنچائی ہیں۔ اس کتاب کے مطالعے سے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ سائنس کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرلے بعض مقامات پر قدرت اسے اس کی مقررہ حد سے آگے نہیں بڑھنے دیتی۔
پروفیسر احمد نسیم سندیلوی حساس طبیعت کے باعث اپنے مضمون ''جین کی جلوہ گری'' اپنے پاکستانی سائنس دانوں سے جو کہ جین پر تحقیق کررہے ہیں یا کریں گے ایک گزارش کی ہے کہ وہ ایسے جین کی دریافت پر پوری توجہ دیں جو انسان میں شعور انسانیت اور محبت و اخوت کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ ایسے جین دریافت کریں اور ان کو ابھاریں کہ ہمارے جسم بے شک سرطان میں مبتلا ہوں لیکن ہم سر تان کر چلیں، سر جھکا کر نہیں۔ کتاب میں نام ور پاکستانی سائنس داں ڈاکٹر سعید اختر درانی کا ایک انٹرویو اور ان کی ایک غزل بھی شامل کی گئی ہے، اس غزل میں بھی سائنسی رنگ نمایاں ملتا ہے۔
152 صفحات پر مشتمل کتاب ''سائنسی حقیقتیں اور فسانے'' عام کاغذ پر شائع کی گئی ہے اور چھپائی کی بہت سی خامیاں اس میں ملتی ہیں۔ کئی جگہ حروف مٹے ہوئے ملتے ہیں ایک صفحہ بھی غلط پیسٹ ہوگیا ہے۔ ان خامیوں سے ہٹ کر دیکھا جائے تو یہ کتاب ہر پڑھنے والے کو کچھ نہ کچھ معلومات ضرور فراہم کردیتی ہے۔
شاعر: نوید سروش
ناشر ... رنگ ادب پبلی کیشنز5 کتاب مارکیٹ اردو بازار کراچی
صفحات:192،قیمت ... 400 روپے
میرپور خاص، سندھ کا ایک چھوٹا سا مگر ادبی لحاظ سے بہت زرخیز شہر ہے۔ کوئی شک نہیں کہ تاج قائم خانی، یعقوب خاور، رفیق احمد نقش، ڈاکٹر سید رضی محمد، میرپورخاص کے نمایاں اور معتبر نام ہیں جن کی ادبی حیثیت سے انکار ممکن نہیں۔ تاہم پچھلے چند سال سے جواں سال نوید سروش نے بہت تیزی سے میرپورخاص میں اہم مقام حاصل کیا ہے۔
انہوں نے ادب کی ترقی و ترویج کے لیے نہ صرف ادبی پرچے ''پہچان'' کا اجراء کیا بلکہ مشاعرے کراکے شعراء کو ایک جگہ اکٹھا بھی کیا۔ ''ہم نشینی'' نوید سروش کا پہلا شعری مجموعہ ہے، جو اہتمام سے شائع کیا گیا ہے۔
نوید سروش بنیادی طور پر روایتی اور جدید شاعری کے سنگم پر کھڑا شاعر ہے جسے اپنی روایت بھی عزیز ہے اور وہ جدید عہد کے تقاضوں کو بھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ اس کی شاعری کے مختلف رنگ ہیں جن میں رومانوی رنگ بھی ہے تاہم وطن سے محبت، دوستوں سے محبت اس کے شعروں میں جا بہ بجا جھلکتی ہے، وہ بنیادی طور پر حساس طبیعت کا مالک ہے اور محبتوں کے گل دستے تقسیم کرنے کا قائل ہے۔
چل دیے ساتھ ترے پھول ستارے جگنو
راہ الفت میں ترا ساتھ نبھانے کے لیے
۔۔۔۔۔
گھر بھی ہے کتابیں بھی ہیں احباب بھی لیکن
محسوس کیوں ہوتی ہے مجھے تیری کمی روز
۔۔۔۔۔
جو آتے نہیں ملنے ان دوستوں سے
گھروں پر میں خود جاکے ملتا رہا ہوں
نوید سروش کی غزلوں کی طرح ان کی نظمیں بھی پڑھنے والے کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتیں۔ یہ نظمیں بھی بنیادی طور پر ایک حساس فطرت طبیعت کی غماز ہیں۔ ان نظموں میں ''ہم دوست کیوں نہیں بنا پاتے، انفرادیت، کسی بھی طرح ذلیل کیا جاسکتا ہے اور ذی شان ساحل کے لیے لکھی گئی نظم عرض داشت شامل ہے۔ ان نظموں میں طنز کا عنصر بھی کمال مہارت سے ملتا ہے۔ شعری مجموعے ''ہم نشینی'' میں غزلیں، نظمیں، نعت، حمد، ہائیکو، قطعات سمیت مختلف شعری پیراہن پر طبع آزمائی ملتی ہے۔ نوید سروش کے فن کے حوالے سے سید مشکور حسین یاد، شبنم شکیل (مرحومہ) ڈاکٹر انور سدید، شہناز شورو، ڈاکٹر ذوالفقار علی دانش اور خود نوید سروش کا مضمون شامل کتاب ہے۔ ڈاکٹر انورسدید نے لکھا ہے،''میرپورخاص کے گردونواح میں دور دور تک جو دودھیا روشنی نظر آتی ہے اس کے فروغ میں نوید سروش کا حصہ نمایاں ہے۔ شہناز شورو نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے،''اس کی شاعری میں ایک باوقار ٹھہراؤ ہے، تھر کی تپتی ریت پہ اپنے پنجے گاڑے آنے والے مسافر کے لیے زمین و آسمان کے درمیان اپنی شاخیں پھیلائے ہوئے درخت ایسا ٹھہراؤ۔ وہ گر شدت کی آندھی سے دولخت ہوتا بھی ہے تو اپنا منصب نہیں بھولتا جو سرتا سر محبت ہے۔''
اعجاز سخن
شاعر: اعجاز رضوی
ناشر: کمبائن گرافک، 444 سنی پلازہ، حسرت موہانی روڈ، کراچی
صفحات:144،قیمت: 200 روپے
اس شعری مجموعے ''اعجاز سخن'' میں اولین صفحات فرید بلگرامی، امجد اسلام امجد، فراست رضوی، ڈاکٹر جاوید منظر، عارف شفیق، عبدالرؤف صدیقی، شاہین بیگم شاہین، ناصر سوری، وقار مانوی دہلوی، ڈاکٹر عفت زریں، سید حسن احمد رضوی خیرآبادی، سید برکت علی ہاشمی، سارہ کنول اور سید اعجاز احمد رضوی کی آراء پر مشتمل ہیں۔ ان میں سے کچھ کا تعلق پاکستان سے تو کچھ کا بھارت سے خاص کر خیر آباد سے ہے۔ خیر آباد (بھارت) اردو شاعری کے حوالے سے ایک مقام رکھتا ہے۔
اعجاز رضوی کا بھی خیر آباد سے تعلق ہے۔ فاطمہ ثریا بجیا اور ڈاکٹر یونس حسنی کی آراء بھی کتاب میں شامل ہیں۔ کچھ آراء کے اقتباسات ملاحظہ ہوں، امجد اسلام امجد لکھتے ہیں،''سید اعجاز رضوی شاعر کی حد تک ایک بے نیاز اور گوشہ نشین قسم کے انسان ہیں۔ اس مجموعہ کلام کی اشاعت بھی ان سے زیادہ ان کے عزیزوں کی محبت اور خواہش کا عکس کہی جاسکتی ہے۔ سو اس کا ادبی مرتبہ متعین کرتے ہوئے اسے اسی محبت اور شاعر کے انسان دوست اور اقدار پسند رویے کے حوالے سے دیکھنا چاہیے کہ یہی اس کے مرکزی اور بنیادی محرک ہیں۔''
فاطمہ ثریا بجیا نے اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا ہے،''اعجاز رضوی کی شاعری میں سب سے زیادہ جو بات ان کے اشعار کو پرکشش بنارہی ہے وہ ان کی لفظیات اور بیان کی سادگی ہی ہے جس کو انھوں نے سیدھی سادھی عام سی زبان میں ڈھال کر بڑی بڑی باتیں اور مضامین آسانی سے بیان کردیے ہیں۔
قائد کی کرن، معمار قوم، عصر نو اور سانپ اس کی زندہ مثالیں ہیں۔'' اعجاز رضوی نے لکھا ہے،''اس شعری مجموعے کی کمپوزنگ کے بعد جب اسے طباعت کے لیے بھیجا جائے گا تو یہ سوچ کر میرے دل و دماغ کی حالت ناگفتہ بہ ہورہی تھی کہ کیا یہ کتاب اسی کتب خانے اور لائبریری میں رکھی جائے گی جہاں میر تقی میر، استاد ذوق، داغ دہلوی، غالب اور اقبال کی کتابیں رکھی ہوں گی۔ اس خیال کے آتے ہی مجھے اپنی کم مائیگی کا احساس شدت سے ہوا۔''
اس شعری مجموعے کی اشاعت کا سہرا اعجاز رضوی کی بہو سارہ کنول کے سر ہے، جنھوں نے بکھری ہوئی شاعری یک جا کی، اس پر مختلف جگہ سے آراء اکٹھی کیں اور اسے کتابی شکل دی۔ سارہ کنول مبارکباد کی لائق ہیں۔ یقیناً کئی اور شاعروں کی طرح اعجاز رضوی کا کلام بھی ضائع ہوجاتا ہے۔ خدا ایسی بہو یا بیوی ہر ادیب شاعر، افسانہ نگار کو دے۔ اعجاز رضوی کی شاعری جدید و قدیم دونوں رنگوں سے مزین ملتی ہے اور یہ ساری شاعری ان کے احساسات کی ترجمانی کرتی ہے۔ کچھ اشعار ملاحظہ ہوں:
ساقی یہ روک ٹوک بری ہے شراب پر
بگڑے گی محتسب سے کسی دن حساب پر
۔۔۔۔۔
دیدۂ قلب سے رضوی یہ جہاں دیکھتے ہیں
چشم ظاہر سے ہم اتنا بھی کہاں دیکھتے ہیں
کتاب مناسب طور پر شائع کی گئی ہے۔ قیمت بھی مناسب ہے۔
میں حاضر ہوں
مصنف: ڈاکٹر عبدالحق
قیمت: 200 روپے
ناشر: مثال پبلشرز رحیم سینٹر پریس مارکیٹ امین پور بازار فیصل آباد
حج، ایک مقدس و معتبر اسلامی رکن ہے جسے ادا کرنے کی ہر مسلمان دلی خواہش رکھتا ہے، مگر اسے اتنا منہگا کردیا گیا ہے کہ ہر چاہنے والے کی حسرت پوری نہیں ہوسکتی۔ صاحب استطاعت لوگ اس فرض کو ادا کرنے کے بعد اپنے ملنے والوں سے اپنے الفاظ میں اپنے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہیں جو لکھنے کا شوق اور اسے کتابی شکل میں شائع کرنے کی توفیق رکھتے ہیں وہ اسے کتابی صورت دے دیتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالحق نے حج کی سعادت 2010 میں حاصل کی۔
پھر 2013 میں عمرہ کیا اور اس دوران لیے گئے نوٹس کو احاطہ تحریر میں لاکر ''میں حاضر ہوں'' تخلیق کی۔ میں حاضر ہوں روایتی لگے بندھے جذبات اور جذباتی کیفیت کو سمیٹنے کے ساتھ ساتھ منصف پر گزرنے والے ذاتی مشاہدے، تکالیف، سعودی رعایا کے رویے پر مبنی واقعات سے پر ملتی ہے اور مصنف نے بے تکلفی، سادگی سے اپنے خیالات و جذبات کا اظہار کیا ہے۔ بعض جگہ ان کا لہجہ استعجابیہ بھی ہوجاتا ہے۔
اس کتاب کے ذریعے ڈاکٹر عبدالحق نے خود پر گزرنے والے حالات اختصار کے ساتھ لکھے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ ''ایں سعادت بزور بازو نیست'' قسمت والے ہی اس در پر پہنچتے ہیں اور کم کم ہی وہاں پہنچ کر حج کی حقیقی معراج کو پاتے ہیں، زیادہ تر رقم خرچ کرکے کھجوریں، آب زم زم، تسبیح، ٹوپیاں لے کر پلٹ آتے ہیں۔ مصنف کی یہ ایک اچھی کاوش ہے مگر اسے ہم صرف اظہار عقیدت کہہ سکتے ہیں کہ اس حوالے سے لکھی گئی کتابوں میں ایک کتاب کا اضافہ ''میں حاضر ہوں'' کی شکل میں ہوا ہے۔ کتاب معیاری انداز میں شائع کی گئی۔
گل ہائے سخن
مرتب: علی جان سخن
ناشر: ارتقائے ادب، قدیر پلازہ مین بازار، دیونہ منڈی، گجرات
صفحات:152،قیمت: 350 روپے
علی جان سخن، گجرات کے نوجوان شاعر ہیں۔ ''گل ہائے سخن'' ان کا پاکستان کے مختلف علاقوں اور بیرون ملک سے منتخب کردہ 60 شعرا کے کلام کی اشاعت کا نام ہے۔ گو یہ کوئی نئی روایت نہیں، کتنے ہی افراد اور ادارے شاعری اور افسانوں کے انتخاب مرتب کرتے رہے ہیں جو بازار میں دستیاب ہیں۔
یہ کتاب بھی اسی تسلسل کا ایک حصہ ہے۔ علی جان سخن نے یہ خصوصی اہتمام ضرور کیا ہے کہ انتخاب میں شامل شعرا کے کلام و تصویر کے ساتھ اس کے فن پر کسی دیگر ادبی شخصیت کی رائے بھی شامل کرتے ہوئے اسے ایک عنوان کے تحت دیا ہے، مثلاً معروف شاعر و صحافی جاوید صبا پر خالد معین، جو خود بھی معروف شاعر صحافی ہیں، کی تعارفی سطور بہ عنوان ''دشت حیراں کا مسافر'' شامل کی گئی ہیں۔ اسی طرح نداعلی کی تعارفی سطور مختصر مضمون علی جان سخن کی شاعری پر بہ عنوان ''در خدائے مست درویش است'' شامل ہوا ہے۔
کتاب کا انتساب علی جان سخن نے ''بابا جان کی شفقت اور ماں جی کی دعاؤں کے نام'' کرکے اپنے والدین سے محبت کا اظہار کیا ہے۔ کتاب میں شامل شاعری پر ڈاکٹر محمد امین (ملتا) ظہور احمد فاتح (تونسہ شریف) اور شہناز نور (کراچی) کے مضامین شامل ہیں۔
علی جان سخن نے ''گل ہائے سخن '' محنت سے مرتب کی ہے اور بڑے اہتمام سے شائع کی ہے، تاہم مجھے اس کی قیمت 350 روپے زیادہ لگی۔ علی جان سخن نے کتاب میں شامل شعراء کی تصاویر پر مبنی تعارفی پمفلٹ بھی نکالا ہے جو کتاب کی فروخت میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ ایک معیاری کتاب ہے جسے ہر لائبریری میں ہونا چاہیے کہ اس کتاب کی مدد سے بیک وقت آپ 60 شعراء کے کلام سے متعارف ہوجاتے ہیں۔
ریکی (شفا بخش توانائی)
مصنف: عبدالحسیب خان
ناشر ... امپریٹن پرنٹنگ ہاؤس، کورنگی انڈسٹریل ایریا، کراچی
صفحات:122،قیمت: 500 روپے
عبدالحسیب خان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ ایک دوا ساز ادارے کے سربراہ کے ساتھ ساتھ ادبی حلقوں میں دل چسپی بھی ان کی پہچان ہے۔ پھر ایک سیاسی جماعت سے وابستگی اور سینیٹر منتخب ہونے کے بعد ان کی مصروفیات کا دائرہ مزید وسیع ہوا ہے۔
ریکی ماسٹر کی حیثیت سے ان کی جو بھی شناخت ہے، کم از کم میں اس کتاب کی توسط ہی سے ان کے اس سے مطلع ہوپایا ہوں۔ عبدالحسیب خان نے ریکی جیسے طریقۂ علاج کے حوالے سے یہ معیاری کتاب تحریر کی ہے اور ریکی کیا ہے؟ ریکی کی خصوصیات کیا ہیں، ریکی کے درجات اور علاج کے راہ نما اصول سمیت مختلف موضوعات کو تحریری اور تصویری شکل میں یک جا کیا ہے۔ انھوں نے ریکی سیکھنے میں جو مشکلات سہیں کتاب میں ان کا بھی ذکر ملتا ہے۔
اس کے ساتھ ریکی ماسٹرز کی تصاویر اور ان کا تعارف بھی کافی معلومات افزا ہے۔ ریکی ایک جاپانی لفظ ہے جس کے معانی قوت حیات کی روحانی رہبری بتایا گیا ہے، ریکی قوت جسمانی، ذہنی، جذباتی اور روحانی تکالیف دور کرنے اور سکون پہنچانے میں موثر تھراپی سمجھی جاتی ہے۔ عبدالحسیب خان نے ریکی کے راہ نما اصول، ضوابط و طریقہ کار کے متعلق تفصیل سے لکھنے کے ساتھ تصویری اور گرافیکل جسمانی ڈھانچے کو بھی قاری کے سامنے واضح کیا ہے۔
ریکی کے عمل کی کام یابی کو ذہنی سکون سے مشروط کیا گیا ہے۔ اگر ذہن بے سکون اور پریشان ہو تو ریکی کی لہریں نہ کوئی ارتعاش پیدا کرسکتی ہیں اور نہ ہی تکلیف دہ جگہ پر پوری طرح اثر انداز ہوسکتی ہیں۔
اس کتاب میں مراقبے پر بھی مضمون شامل ہے جو اس کی افادیت کو واضح کرتا ہے، نیند کی اہمیت، دماغی قوت، موٹاپا، امراض قلب، ذیابیطس، چہل قدمی کے فوائد، ایکو پنکچر، جیسے موضوعات پر بھی عبدالحسیب خان نے دل چسپ معلومات اور حفاظتی تدابیر بیان کی ہیں۔ یہ کتاب عمدہ کاغذ پر بڑے اہتمام سے خوب صورتی کے ساتھ شایع کی گئی ہے اور ریکی کے حوالے سے یہ ایک اہم دستاویز ہے، جو علم میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔
شان حسنین کریمینؓ بِلسانِ سید الکونینؐ
مصنف: علامہ قاری گلزار احمد انڑ
تصدیق و نظر ثانی: علامہ پروفیسر مفتی رضا محمد انڑ غفاری
ناشر: خدیجہ پبلی کیشن، نواب شاہ۔ حیدرآباد
صفحات:92 ،قیمت 200 روپے
یہ تالیف خالصتاً مذہبی موضوع کی کتاب ہے، جس میں ہمارے مذہبی لٹریچر کی مختلف کتابوں میں موجود ان روایات کو ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو رسول اکرمؐؐ کے نواسوں حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کی توصیف پر مبنی ہیں۔ قاری گلزار احمد انڑ نے بڑی محنت سے مختلف ضخیم کتابوں میں موجود ان روایات کو جمع کرکے انھیں کتابی شکل دی ہے۔ کتاب میں مولف نے منقبتیں بھی شامل کی ہیں۔ کتاب کا ہر ہر لفظ مولف کی حسنین کریمینؓ سے محبت کا عکاس ہے۔
سائنسی حقیقتیں اور فسانے
مصنف: پروفیسر احمد نسیم سندیلوی
ناشر ... الجلیس پاکستانی بکس پبلیشنگ سروسز، کراچی
صفحات:152،قیمت: 300 روپے
پروفیسر احمد نسیم سندیلوی، سنیئر صحافی ہیں اور سائنس اور صحافت کے موضوعات پر تواتر سے لکھتے رہے ہیں۔ زیرتبصرہ کتاب ''سائنسی حقیقتیں اور فسانے'' میں بھی مجموعی طور پر وہ مضامین شامل ہیں جو مختلف رسائل و جرائد کے لیے نسیم صاحب نے لکھے۔ کچھ موضوعات ملاحظہ ہوں ''نظام شمسی کے سیاروں پر موسموں کا ارتقا، سائنس کے پراسرار گوشے، ٹیسٹ ٹیوب بے بی، درد کی رنگین تصویریں، جین کی جلوہ گری، چاند کے دل چسپ حقائق۔ حقیقت تو یہی ہے کہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد سائنسی معلومات میں خاطر خواہ حد تک اضافہ ہوتا ہے اور سائنسی ترقی و کمال سے آگاہی کے ساتھ انسانی زندگی کو کریدنے کا عمل بہت سفاکی سے عمل پذیر ہوتا ہے۔
نسیم صاحب نے اردو میں یہ کتاب لکھ کر بہت سی معلومات عام افراد کی رسائی تک پہنچائی ہیں۔ اس کتاب کے مطالعے سے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ سائنس کتنی ہی ترقی کیوں نہ کرلے بعض مقامات پر قدرت اسے اس کی مقررہ حد سے آگے نہیں بڑھنے دیتی۔
پروفیسر احمد نسیم سندیلوی حساس طبیعت کے باعث اپنے مضمون ''جین کی جلوہ گری'' اپنے پاکستانی سائنس دانوں سے جو کہ جین پر تحقیق کررہے ہیں یا کریں گے ایک گزارش کی ہے کہ وہ ایسے جین کی دریافت پر پوری توجہ دیں جو انسان میں شعور انسانیت اور محبت و اخوت کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ ایسے جین دریافت کریں اور ان کو ابھاریں کہ ہمارے جسم بے شک سرطان میں مبتلا ہوں لیکن ہم سر تان کر چلیں، سر جھکا کر نہیں۔ کتاب میں نام ور پاکستانی سائنس داں ڈاکٹر سعید اختر درانی کا ایک انٹرویو اور ان کی ایک غزل بھی شامل کی گئی ہے، اس غزل میں بھی سائنسی رنگ نمایاں ملتا ہے۔
152 صفحات پر مشتمل کتاب ''سائنسی حقیقتیں اور فسانے'' عام کاغذ پر شائع کی گئی ہے اور چھپائی کی بہت سی خامیاں اس میں ملتی ہیں۔ کئی جگہ حروف مٹے ہوئے ملتے ہیں ایک صفحہ بھی غلط پیسٹ ہوگیا ہے۔ ان خامیوں سے ہٹ کر دیکھا جائے تو یہ کتاب ہر پڑھنے والے کو کچھ نہ کچھ معلومات ضرور فراہم کردیتی ہے۔