حکومت سرپرستی کرے تو مزید کامیابیاں حاصل کرسکتے ہیں محمد وسیم
سلور میڈل حاصل کرنے والے قومی ہیرو محمد وسیم کی ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو
کامن ویلتھ گیمز میں باکسنگ کے 52 کلو فلائی ویٹ کیٹیگری کے فائنل میں آسٹریلوی باکسر ایندرے مولینے نے پاکستانی باکسر محمد وسیم کو ہرا کر طلائی تمغہ جیت لیا جبکہ محمدوسیم نے چاندی کا تمغہ حاصل کیا۔
محمد وسیم
میرا تعلق بلوچستان کے علاقے مستونگ سے ہے۔ میں نے گورنمنٹ اسپیشل ہائی سکول کوئٹہ سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد ایف ایس سی کی، ہم چھ بھائی ہیں اور فیملی میں میرا دوسرا نمبر ہے۔، بچپن میں گلی کے بچوں سے لڑتا جھگڑتا رہتا تھا جس کے باعث والد صاحب سے ڈانٹ ڈپٹ پڑتی رہتی تھی۔
مجھے شروع میں باکسنگ کے کھیل سے کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن ایک دن میرے بچپن کے دوست مشتاق نے میری حوصلہ افزائی کی اور مجھے کہا کہ تم باکسنگ کے اچھے کھلاڑی بن سکتے ہو۔ چنانچہ میں نے اپنے دوست کے کہنے پر یوتھ باکسنگ کلب کوئٹہ میں بطور ممبر داخلہ لیا اور باکسنگ کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنا شروع کردی، میرے کوچ عطا محمد نے میری حوصلہ افزائی کی ۔
ایک دن کلب میں ایک لڑکا آیا جس نے مجھے دوران ٹریننگ فائٹ کا چیلنج کیا۔میں نے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کرکے اس کا چیلنج قبول کرلیااور اس کو میچ میں شکست دی۔ 1998 میں پاکستان باکسنگ فیڈریشن و بلوچستان باکسنگ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام لوچستان باکسنگ چیمپئن شپ کا انعقاد ہوا۔میں نے اس میں گولڈ میڈل حاصل کیا اور یوں میں باکسنگ کی دنیا میں قدم رکھ دیا ۔ جب میں پہلی فائیٹ ہارا تو میرے کوچ نے میری حوصلہ افزائی کی پھر میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور گولڈ میڈل جیت کر دم لیا۔
میں نے 2009 کیڈیٹ کپ ترکی میں برونز میڈل، 2010 سیف گیمزبنگلہ دیش میں سلور میڈل، 2011 میں بے نظیر بھٹوانٹرنیشنل باکسنگ چیمپئن شپ کراچی میں برانز میڈل، کامن ویلتھ گیمزبھارت میں برانزمیڈل حاصل کیے۔ پاکستان سپورٹس بورڈ کے زیر اہتمام جناح اسٹیڈیم اسلام آبادمیں منعقد ہونے والی بے نظیربھٹوانٹرنیشنل باکسنگ چیمپئن شپ میں بہترین باکسر کا اعزاز اپنے نام کیا۔ میری کارکردگی میں کوچ محمد طارق کی تربیت کا بہت اثر ہے۔ گلاسکو جانے سے قبل میرے کوچ محمد طارق نے اپنی ایک لاکھ روپے کی جمع پونجھی مجھے دے دی۔ جس کے بعد میں نے اپنی خوراک پر توجہ دینی شروع کی اور اپنا ڈائیٹ پلان تیار کیا۔میرے کوچ نے بہت محنت کی وہ دن رات میری ٹریننگ کرتے رہے۔
بعد ازاں وفاقی وزیر کھیل ریاض حسین پیرزادہ اورپاکستان سپورٹس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل ٹیکنیکل اینڈ ٹریننگ اخترنواز نے باکسنگ کے تربیتی کیمپ کو اسلام آباد منتقل کرنے کا کہا۔ وفاقی وزیر اور ڈی جی نے مجھے قیمتی باکسنگ گلوز دئیے اورمکمل رہنمائی کا یقین بھی دلایا۔ ماں باپ کی دعاؤں سے دل میں ایک ہی لگن اور جذبہ تھا کہ اپنے وطن کا نام روشن کروں اور ملک کے لیے میڈل حاصل کروں۔ گلاسکو میں عالمی شہرت یافتہ اور میرے فیورٹ باکسر عامر خان میری حوصلہ افزائی کے لئے موجود رہتے تھے۔
عامرخان کے والدین کا دل پاکستان کے لیے دھڑکتا ہے ۔کیونکہ عامر کے والدین کا خون پاکستانی ہے۔ فائنل فائٹ میں میرے خلاف غلط فیصلے دیے گئے ۔ اگرمیرے خلاف غلط فیصلے نہ دیے جاتے تو قوم کو گولڈ میڈل کا تحفہ دیتا۔ گلاسکو میں رہائش پذیر پاکستانیوں اور ایشیائی لوگوں نے ہمیں بہت سپورٹ کیا۔ میں نے باکسنگ کی باقاعدہ تربیت یوتھ باکسنگ کلب کوئٹہ سے حاصل کی اورانٹرسکول باکسنگ چیمپئین شپ میں اپنی زندگی کاپہلا میڈل حاصل کیا۔ 1998 میں نیشنل باکسنگ چیمپئین شپ میں اپنی قسمت آزمائی کے بعدمتعددملکی اورغیر ملکی ایونٹس میں حصہ لے کر کامیابی کی منازل طے کیں۔
میری کارکردگی کودیکھتے ہوئے میرے والدین اور کوچز نے میری بڑی حوصلہ افزائی کی جس سے میرے اعتماد میں بے پناہ اضافہ ہوا۔جس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ میں باکسنگ میں عالمی شہرت یافتہ قومی کھلاڑیوں کی صف میں شامل ہوں جاؤں۔میں بھی ملک اورقوم کانام روشن کرسکوں ۔میں نے باکسنگ کے کئی غیر ملکی مقابلوں میں حصہ لیا ہے۔میں اب تک انگلینڈ، اٹلی،،فلپائن، کوریا، چین ، بنگلہ دیش ، باکو ، قازقستان ، فرانس اور بھارت میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل کر چکا ہوں۔ اور میری کارکردگی میں نمایاں اضافہ ہورہا ہے۔ میں نے اﷲ تعالی کی رحمت سے گلاسکو میں منعقد ہونے والی کامن ویلتھ گیمز میں سلور میڈل حاصل کیا ہے۔
میں یہ میڈل اپنی والدہ کے نام کرتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ بچوں کی تربیت میں ماں کے کردار کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ جب بھی میں قومی اور انٹر نیشنل مقابلوں میں حصہ لیتاہوں تو میری والدہ میری لیے دعا کرتی ہیں ۔ گلاسکو جانے سے پہلے میں ان فٹ تھا ۔ فلائٹ سے قبل میری نانی کا انتقال ہوگیا، یہ میرے لیے ایک بہت افسوس ناک خبر تھی لیکن میری والدہ نے کہا تم قوم کے لئے کھیلو ۔ ملک کا نام روشن کرنا تمہارا اولین مشن ہوناچائیے۔ یہ الفاظ میرے لئے یادگار تھے ۔آئندہ آنے والے ایشین مقابلوں میں میڈل کے حصول کے لیے اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لاؤں گا۔ انٹر نیشنل مقابلوں میںاپنے پیارے وطن پاکستان کا سبز حلالی پرچم بلند کروں گا۔ پاکستان باکسنگ فیڈریشن، باکسنگ کے کھیل کی پرموشن اور ڈویلپمنٹ کے لیے لاہور، کراچی، فیصل آباد، ملتان،پشاور، کوئٹہ میں اکیڈیموں کا قیام عمل میں لائے تاکہ جونیئر کھلاڑیوں کو جدید قوانین سے آگا ہی حاصل ہوسکے۔
ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ۔لیکن وسائل کا فقدان ہے۔اسلام آباد، کراچی،اور لاہور کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میںکھیلوں کے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پاکستان میںباکسنگ کے کوالیفائیڈ کوچز کی کمی ہے۔ جس کی وجہ سے کھلاڑیوں کی کارکردگی میں کوئی واضح بہتری نہیں آتی۔ باکسنگ فیڈریشن کے موجودہ صدر دودا خان بھٹو کی کاوشوں سے باکسنگ کے کھیل اور کھلاڑیوں کا مستقبل روشن ہوگیا ہے ۔ وہ نوجوان کھلاڑیوں کو ہر قسم کی مراعات فراہم کرتے ہیں۔
اگر فیڈریشن مضبوط ہوگی تو کھلاڑی رنگ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں گے۔ پاکستان سپورٹس بورڈکے زیر اہتمام جناح اسٹیڈیم میں لگائے جانے والے تربیتی کیمپس کا ماحول گھر کی طرح ہے۔ کیونکہ یہاں آنے والے کھلاڑی ملک کے وقار کے لئے اکھٹے ہوتے ہیں ۔ہمارا مشن پاکستان کا پرچم بلند کرنا ہے۔پاکستانی باکسرز غیر معمولی صلاحیتیوں کے مالک ہیں۔ اور زندگی کے ہر شعبے میں نمایاںمقام حاصل کرسکتے ہیں ۔میرے دوست کامران خان مندوخیل میرا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔
بطور باکسر مجھے اپنی فٹنس کا خصوصی خیال رکھنا پڑتا ہے ۔ اس کے لئے ویٹ ٹرینگ ، فزیکل فٹنس اور غیر ملکی باکسرز کی ویڈیوز دیکھ کر اپنا مضبوط پلان تیار کرتا ہوں۔ میرے لیے وزیر اعلیٰ بلوچستان نے پانچ لاکھ روپے کی انعامی رقم کا اعلان کیا ہے ۔ وزیر اعظم نواز شریف کو بھی کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چائیے۔ کھلاڑی امن، محنت اور اخوت کے سفیر ہوتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کو درپیش مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے تاکہ کھلاڑی انٹر نیشنل مقابلوں میں حصہ لے سکیں اور پاکستان کا نام روشن کرسکیں ۔ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کی بدانتظامی کی وجہ سے پاکستان میں کھیل اور کھلاڑیوں کا نقصان ہورہا ہے۔
شاہ حسین شاہ
گلاسگو کامن ویلتھ گیمز میں نوجوان کھلاڑی شاہ حسین شاہ نے پاکستان کے لیے جوڈوکراٹے میں سلور میڈل حاصل کرکے ملک وقوم کا نام بلند کیا۔ وہ مستقل کے عالمی مقابلوں میں پاکستان کی امید ہیں، ان کے والد حسین شاہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے اولمپکس میں پاکستان کو باکسنگ کے کھیل میں پہلا میڈل دلوایا۔ حسین شاہ نے 1988ء میں جنوبی کوریا کے شہر سیول میں ہونے والے اولمپکس میں برانز میڈل جیت کر پوری قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا تھا۔ آج ان کے بڑے بیٹے شاہ حسین شاہ اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کا نام روشن کررہے ہیں۔
8 جون 1993ء کو برطانیہ کے شہر لندن میں جنم لینے والے 21 سالہ شاہ حسین شاہ ان دنوں اپنے والد کے ہمراہ جاپان کے شہر اوساکا میں قیام پذیر ہیں اور ان کی زیر نگرانی اپنے چھوٹے بھائی شاہ زیب حسن کے ہمراہ دن رات پریکٹس میں مصروف رہتے ہیں، 2010 ء سے انٹر نیشنل ایونٹس میں شرکت کرنے والے شاہ حسین شاہ نے ایشین جونیئر چیمپئن شپ میں برانز میڈل جیت کر اپنی فتوحات کا سفر شروع کیا۔
2014ء کامن ویلتھ گیمز میں شاہ حسین شاہ نے ایونٹ کے ابتدائی راؤنڈ میں ٹرینیڈاڈ کے سی جارج کو آسان مقابلے کے بعد ہرا کر کوارٹر فائنل میں مضبوط آسٹریلوی حریف کو شکست دی۔ سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے سیلی فیلڈ کو قابو کرکے کم از کم برانز میڈل کا حصول یقینی بنا لیا لیکن بدقسمتی سے وہ فائنل میں اسکاٹ لینڈ کے اون برٹون سے مات کھاکر گولڈ میڈل سے محروم ہوگئے اور ان کو سلور میڈل پر اکتفا کرنا پڑا۔
کراچی کے قدیم اور پسماندہ علاقہ لیاری سے تعلق رکھنے والے شاہ حسین شاہ کے والد شاہ حسین نے انتہائی گربت اور افلاس کے دنوں میں بھی محنت کو اپناشعار بنائے رکھا اور آخر کار اولمپکس میں میڈل جیتا اور آج کا بیٹا بھی اسی طرح محنت اور لگن کے ساتھ جدوجہد میں مصروف ہے۔
محمد وسیم
میرا تعلق بلوچستان کے علاقے مستونگ سے ہے۔ میں نے گورنمنٹ اسپیشل ہائی سکول کوئٹہ سے میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد ایف ایس سی کی، ہم چھ بھائی ہیں اور فیملی میں میرا دوسرا نمبر ہے۔، بچپن میں گلی کے بچوں سے لڑتا جھگڑتا رہتا تھا جس کے باعث والد صاحب سے ڈانٹ ڈپٹ پڑتی رہتی تھی۔
مجھے شروع میں باکسنگ کے کھیل سے کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن ایک دن میرے بچپن کے دوست مشتاق نے میری حوصلہ افزائی کی اور مجھے کہا کہ تم باکسنگ کے اچھے کھلاڑی بن سکتے ہو۔ چنانچہ میں نے اپنے دوست کے کہنے پر یوتھ باکسنگ کلب کوئٹہ میں بطور ممبر داخلہ لیا اور باکسنگ کی باقاعدہ تربیت حاصل کرنا شروع کردی، میرے کوچ عطا محمد نے میری حوصلہ افزائی کی ۔
ایک دن کلب میں ایک لڑکا آیا جس نے مجھے دوران ٹریننگ فائٹ کا چیلنج کیا۔میں نے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کرکے اس کا چیلنج قبول کرلیااور اس کو میچ میں شکست دی۔ 1998 میں پاکستان باکسنگ فیڈریشن و بلوچستان باکسنگ ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام لوچستان باکسنگ چیمپئن شپ کا انعقاد ہوا۔میں نے اس میں گولڈ میڈل حاصل کیا اور یوں میں باکسنگ کی دنیا میں قدم رکھ دیا ۔ جب میں پہلی فائیٹ ہارا تو میرے کوچ نے میری حوصلہ افزائی کی پھر میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا اور گولڈ میڈل جیت کر دم لیا۔
میں نے 2009 کیڈیٹ کپ ترکی میں برونز میڈل، 2010 سیف گیمزبنگلہ دیش میں سلور میڈل، 2011 میں بے نظیر بھٹوانٹرنیشنل باکسنگ چیمپئن شپ کراچی میں برانز میڈل، کامن ویلتھ گیمزبھارت میں برانزمیڈل حاصل کیے۔ پاکستان سپورٹس بورڈ کے زیر اہتمام جناح اسٹیڈیم اسلام آبادمیں منعقد ہونے والی بے نظیربھٹوانٹرنیشنل باکسنگ چیمپئن شپ میں بہترین باکسر کا اعزاز اپنے نام کیا۔ میری کارکردگی میں کوچ محمد طارق کی تربیت کا بہت اثر ہے۔ گلاسکو جانے سے قبل میرے کوچ محمد طارق نے اپنی ایک لاکھ روپے کی جمع پونجھی مجھے دے دی۔ جس کے بعد میں نے اپنی خوراک پر توجہ دینی شروع کی اور اپنا ڈائیٹ پلان تیار کیا۔میرے کوچ نے بہت محنت کی وہ دن رات میری ٹریننگ کرتے رہے۔
بعد ازاں وفاقی وزیر کھیل ریاض حسین پیرزادہ اورپاکستان سپورٹس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل ٹیکنیکل اینڈ ٹریننگ اخترنواز نے باکسنگ کے تربیتی کیمپ کو اسلام آباد منتقل کرنے کا کہا۔ وفاقی وزیر اور ڈی جی نے مجھے قیمتی باکسنگ گلوز دئیے اورمکمل رہنمائی کا یقین بھی دلایا۔ ماں باپ کی دعاؤں سے دل میں ایک ہی لگن اور جذبہ تھا کہ اپنے وطن کا نام روشن کروں اور ملک کے لیے میڈل حاصل کروں۔ گلاسکو میں عالمی شہرت یافتہ اور میرے فیورٹ باکسر عامر خان میری حوصلہ افزائی کے لئے موجود رہتے تھے۔
عامرخان کے والدین کا دل پاکستان کے لیے دھڑکتا ہے ۔کیونکہ عامر کے والدین کا خون پاکستانی ہے۔ فائنل فائٹ میں میرے خلاف غلط فیصلے دیے گئے ۔ اگرمیرے خلاف غلط فیصلے نہ دیے جاتے تو قوم کو گولڈ میڈل کا تحفہ دیتا۔ گلاسکو میں رہائش پذیر پاکستانیوں اور ایشیائی لوگوں نے ہمیں بہت سپورٹ کیا۔ میں نے باکسنگ کی باقاعدہ تربیت یوتھ باکسنگ کلب کوئٹہ سے حاصل کی اورانٹرسکول باکسنگ چیمپئین شپ میں اپنی زندگی کاپہلا میڈل حاصل کیا۔ 1998 میں نیشنل باکسنگ چیمپئین شپ میں اپنی قسمت آزمائی کے بعدمتعددملکی اورغیر ملکی ایونٹس میں حصہ لے کر کامیابی کی منازل طے کیں۔
میری کارکردگی کودیکھتے ہوئے میرے والدین اور کوچز نے میری بڑی حوصلہ افزائی کی جس سے میرے اعتماد میں بے پناہ اضافہ ہوا۔جس کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ میں باکسنگ میں عالمی شہرت یافتہ قومی کھلاڑیوں کی صف میں شامل ہوں جاؤں۔میں بھی ملک اورقوم کانام روشن کرسکوں ۔میں نے باکسنگ کے کئی غیر ملکی مقابلوں میں حصہ لیا ہے۔میں اب تک انگلینڈ، اٹلی،،فلپائن، کوریا، چین ، بنگلہ دیش ، باکو ، قازقستان ، فرانس اور بھارت میں پاکستان کی نمائندگی کا اعزاز حاصل کر چکا ہوں۔ اور میری کارکردگی میں نمایاں اضافہ ہورہا ہے۔ میں نے اﷲ تعالی کی رحمت سے گلاسکو میں منعقد ہونے والی کامن ویلتھ گیمز میں سلور میڈل حاصل کیا ہے۔
میں یہ میڈل اپنی والدہ کے نام کرتا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ بچوں کی تربیت میں ماں کے کردار کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ جب بھی میں قومی اور انٹر نیشنل مقابلوں میں حصہ لیتاہوں تو میری والدہ میری لیے دعا کرتی ہیں ۔ گلاسکو جانے سے پہلے میں ان فٹ تھا ۔ فلائٹ سے قبل میری نانی کا انتقال ہوگیا، یہ میرے لیے ایک بہت افسوس ناک خبر تھی لیکن میری والدہ نے کہا تم قوم کے لئے کھیلو ۔ ملک کا نام روشن کرنا تمہارا اولین مشن ہوناچائیے۔ یہ الفاظ میرے لئے یادگار تھے ۔آئندہ آنے والے ایشین مقابلوں میں میڈل کے حصول کے لیے اپنی تمام تر توانائیوں کو بروئے کار لاؤں گا۔ انٹر نیشنل مقابلوں میںاپنے پیارے وطن پاکستان کا سبز حلالی پرچم بلند کروں گا۔ پاکستان باکسنگ فیڈریشن، باکسنگ کے کھیل کی پرموشن اور ڈویلپمنٹ کے لیے لاہور، کراچی، فیصل آباد، ملتان،پشاور، کوئٹہ میں اکیڈیموں کا قیام عمل میں لائے تاکہ جونیئر کھلاڑیوں کو جدید قوانین سے آگا ہی حاصل ہوسکے۔
ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں ۔لیکن وسائل کا فقدان ہے۔اسلام آباد، کراچی،اور لاہور کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میںکھیلوں کے وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پاکستان میںباکسنگ کے کوالیفائیڈ کوچز کی کمی ہے۔ جس کی وجہ سے کھلاڑیوں کی کارکردگی میں کوئی واضح بہتری نہیں آتی۔ باکسنگ فیڈریشن کے موجودہ صدر دودا خان بھٹو کی کاوشوں سے باکسنگ کے کھیل اور کھلاڑیوں کا مستقبل روشن ہوگیا ہے ۔ وہ نوجوان کھلاڑیوں کو ہر قسم کی مراعات فراہم کرتے ہیں۔
اگر فیڈریشن مضبوط ہوگی تو کھلاڑی رنگ میں شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرسکیں گے۔ پاکستان سپورٹس بورڈکے زیر اہتمام جناح اسٹیڈیم میں لگائے جانے والے تربیتی کیمپس کا ماحول گھر کی طرح ہے۔ کیونکہ یہاں آنے والے کھلاڑی ملک کے وقار کے لئے اکھٹے ہوتے ہیں ۔ہمارا مشن پاکستان کا پرچم بلند کرنا ہے۔پاکستانی باکسرز غیر معمولی صلاحیتیوں کے مالک ہیں۔ اور زندگی کے ہر شعبے میں نمایاںمقام حاصل کرسکتے ہیں ۔میرے دوست کامران خان مندوخیل میرا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔
بطور باکسر مجھے اپنی فٹنس کا خصوصی خیال رکھنا پڑتا ہے ۔ اس کے لئے ویٹ ٹرینگ ، فزیکل فٹنس اور غیر ملکی باکسرز کی ویڈیوز دیکھ کر اپنا مضبوط پلان تیار کرتا ہوں۔ میرے لیے وزیر اعلیٰ بلوچستان نے پانچ لاکھ روپے کی انعامی رقم کا اعلان کیا ہے ۔ وزیر اعظم نواز شریف کو بھی کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چائیے۔ کھلاڑی امن، محنت اور اخوت کے سفیر ہوتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کو درپیش مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے تاکہ کھلاڑی انٹر نیشنل مقابلوں میں حصہ لے سکیں اور پاکستان کا نام روشن کرسکیں ۔ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کی بدانتظامی کی وجہ سے پاکستان میں کھیل اور کھلاڑیوں کا نقصان ہورہا ہے۔
شاہ حسین شاہ
گلاسگو کامن ویلتھ گیمز میں نوجوان کھلاڑی شاہ حسین شاہ نے پاکستان کے لیے جوڈوکراٹے میں سلور میڈل حاصل کرکے ملک وقوم کا نام بلند کیا۔ وہ مستقل کے عالمی مقابلوں میں پاکستان کی امید ہیں، ان کے والد حسین شاہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے اولمپکس میں پاکستان کو باکسنگ کے کھیل میں پہلا میڈل دلوایا۔ حسین شاہ نے 1988ء میں جنوبی کوریا کے شہر سیول میں ہونے والے اولمپکس میں برانز میڈل جیت کر پوری قوم کا سر فخر سے بلند کر دیا تھا۔ آج ان کے بڑے بیٹے شاہ حسین شاہ اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بین الاقوامی مقابلوں میں پاکستان کا نام روشن کررہے ہیں۔
8 جون 1993ء کو برطانیہ کے شہر لندن میں جنم لینے والے 21 سالہ شاہ حسین شاہ ان دنوں اپنے والد کے ہمراہ جاپان کے شہر اوساکا میں قیام پذیر ہیں اور ان کی زیر نگرانی اپنے چھوٹے بھائی شاہ زیب حسن کے ہمراہ دن رات پریکٹس میں مصروف رہتے ہیں، 2010 ء سے انٹر نیشنل ایونٹس میں شرکت کرنے والے شاہ حسین شاہ نے ایشین جونیئر چیمپئن شپ میں برانز میڈل جیت کر اپنی فتوحات کا سفر شروع کیا۔
2014ء کامن ویلتھ گیمز میں شاہ حسین شاہ نے ایونٹ کے ابتدائی راؤنڈ میں ٹرینیڈاڈ کے سی جارج کو آسان مقابلے کے بعد ہرا کر کوارٹر فائنل میں مضبوط آسٹریلوی حریف کو شکست دی۔ سیمی فائنل میں نیوزی لینڈ کے سیلی فیلڈ کو قابو کرکے کم از کم برانز میڈل کا حصول یقینی بنا لیا لیکن بدقسمتی سے وہ فائنل میں اسکاٹ لینڈ کے اون برٹون سے مات کھاکر گولڈ میڈل سے محروم ہوگئے اور ان کو سلور میڈل پر اکتفا کرنا پڑا۔
کراچی کے قدیم اور پسماندہ علاقہ لیاری سے تعلق رکھنے والے شاہ حسین شاہ کے والد شاہ حسین نے انتہائی گربت اور افلاس کے دنوں میں بھی محنت کو اپناشعار بنائے رکھا اور آخر کار اولمپکس میں میڈل جیتا اور آج کا بیٹا بھی اسی طرح محنت اور لگن کے ساتھ جدوجہد میں مصروف ہے۔