بارے آموں کا کچھ بیاں ہو جائے
موسم نہیں بلکہ کہئے کہ فطرت اتنی بے حس نہیں ہوتی جتنا ہم اسے سمجھتے ہیں۔
ہم نے یاروں کو کہتے سنا کہ ارے اب کے ساون کو کیا ہو گیا۔ اس کا طور بے طور نظر آ رہا ہے۔ دن گزرے جا رہے ہیں اور ساون نے اپنا رنگ نہیں دکھایا ہے۔ ابتک نہ کوئی جھڑی لگی ہے نہ ندی نالے ابلے ہیں۔ جتنی بارش ہوئی ہے وہ ساون کے شایان شان نہیں ہے۔
ہم نے کہا کہ ساون کے رویے کی شکایت کرتے وقت خود ہمیں بھی اپنے رویے پر غور کر لینا چاہیے۔ موسم نہیں بلکہ کہئے کہ فطرت اتنی بے حس نہیں ہوتی جتنا ہم اسے سمجھتے ہیں۔ فطرت کے عمل سے جتنا ہم متاثر ہوتے ہیں، فطرت بھی ہمارے عمل سے متاثر ہوتی ہے۔ ہم جب براہ راست فطرت کے عمل میں کھنڈت ڈالتے ہیں اس وقت تو خیر فطرت برا مانتی ہی ہے اور اپنی برہمی کا اظہار کرتی ہے مگر اس سے قطع نظر بھی جب ہمارے بیچ کوئی فساد برپا ہوتا ہے تو ایسا نہیں ہے کہ فطرت اس سے بے تعلق رہے۔ جس طرح فطرت کا خوشگوار عمل ہمارے مزاجوں پر اثر انداز ہوتا ہے اور ہم ایک نئی ترنگ محسوس کرتے ہیں۔
ایک خوش گوار کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ موسم کی اچھی اداؤں کو دیکھ کر ہم خوش ہوتے ہیں' گنگناتے ہیں' گیت گاتے ہیں' کوئل اور پپیہے کی کو کو اور پی کہاں پی کہاں کے سروں میں سر ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح کا ردعمل انسانی زندگی کی خوش گواری سے ہمارے ارد گرد فطرت کے یہاں بھی نظر آتا ہے۔ مگر جب انسانی زندگی کا طور بے طور ہوتا ہے تو اس کا ناخوشگوار اثر فطرت پر بھی پڑتا ہے۔ اس کے مزاج میں درہمی پیدا ہوتی ہے۔ اسے غصہ بھی آتا ہے اور وہ جو اقبال نے کہا ہے کہ ع
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
تو پھر فطرت کی ایسی برہمی بھی دیکھنے میں آتی ہے لیکن خیر فی الحال ذکر اس وقت فطرت کے اس منکھر کا ہے جسے ساون کہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک مہینہ اور جڑا ہوا ہے۔ کہہ لیجیے ساون بھادوں۔ واہ کیا بات ہے ان دو مہینوں کی۔ سال کے باقی مہینے ایک طرف اور ساون بھادوں ایک طرف۔
ان مہینوں کے پھل بھی نرالے ہیں۔ نیم کی بنولی تو کڑوی ہوتی ہے مگر گیت نگاروں نے اس کڑوے پھل کو بھی کیا سے کیا بنا دیا ہے ع
نیم کی بنولی پکی ساون کب کب آوے گا
مگر سب سے بڑھ کر وہ کھٹا میٹھا پھل ہے جسے آم کہتے ہیں۔ آم ع
زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا
ارے پھل تو اور بھی ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک۔ سیب' انار' انگور مگر آم کی شان نرالی ہے۔ اور پھر آموں کا باغ۔ جسے امرئیاں کہتے ہیں یا کہتے تھے۔ امرئیوں میں پڑے جھولے۔ بوندا باندی کا سماں ہے۔ امرئیوں میں کھٹے میٹھے آم ٹپ ٹپ گر رہے ہیں۔ کتنے پتوں میں چھپے ہوئے ہیں اور گرنے سے انکاری ہیں لیکن کب تک گرنا تو انھیں بھی ہے۔ آم چوسنے والوں کا جمگھٹا ہے۔ چوس بھی رہے ہیں۔ ایک دوسرے پر پھینک بھی رہے ہیں۔ ارے یہ تو ایک اچھا خاصا کلچر تیوہار ہے۔ آم کی انفرادیت تو اسی میں ہے کہ وہ پھل بھی ہے اور اپنی جگہ ایک کلچر بھی۔ ارے جب ہی تو شاعروں نے جی بھر کر اس پر گلکاری کی ہے۔ سب سے بڑھ کر غالب نے ؎
نظر آتا ہے یوں مجھے یہ ثمر
کہ دوا خانہ ازل میں مگر
آتش گل پہ قند کا ہے قوام
شیرہ کے تار کا ہے ریشہ نام
یا یہ ہو گا کہ فرط رافت سے
باغبانوں نے باغ جنت سے
انگبیں کے بہ حکم رب الناس
بھر کے بھیجے ہیں سر بمہر گلاس
ارے نہیں۔ بہشت سے بس ایک آم کی قسم کو البتہ رہنے دو۔ ثمر بہشت باقی اس کی زمینی مہک کاجواب نہیں۔ زمینی ہی اس کے نام ہیں۔ لنگڑا' چونسہ' سندھڑی' انور رٹول' مالدہ'طوطا پری۔ دسہری۔ سفیدہ
غالب سے قطع نظر ہمارے زمانے کے ایک شاعر نے بھی تو آم پر خامہ فرسائی کی ہے اور اس کی کمال کے ساتھ غالب کو بھی اپنا ہمنوا بنا لیا ہے۔ یہ ہیں سید محمد جعفری۔ ان کی ایک نظم ہمیں ملی ہے جو ان کے مطبوعہ کلام میں نہیں ہے۔ ملاحظہ کیجیے ؎
خدا کا شکر کہ احباب کا پیام آیا
کہ قتل آم میں شرکت کا اذن عام آیا
یہ سن کے ہونٹوں کے بوسے مری زباں کے لیے
''صلائے آم ہے یاران نکتہ داں کے لیے
اٹھا کے رکھ دیے سب آم مہماں کے لیے
نہیں بچے تو تجمل حسیں خاں کے لیے
کہو یہ لنگڑے سے چل کر نہ کوئی زحمت لے
بنائے جائیں گے تیرے تو کاٹ کر قتلے
یہی حلاوت کام و دہن سے ہے مطلوب
''یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخ مطلوب''
وہ بولا جس کو نہ کھٹا ملا نہ میٹھا آم
''جہاں میں ہو غم و شادی بہم ہمیں کیا کام''
یہ سندھڑی آم سمجھئے جسے عوام کی ناک
یہاں کا طوطا پری ہے کہ جس کی نسل ہے پاک
وہ دیکھو سامنے انور رٹول رکھا ہے
اور اگلے شعر میں غالب کا تول رکھا ہے
کہ آم میٹھا ہو' تعداد میں زیادہ ملے
کبھی تو اس دل شوریدہ کی بھی داد ملے
نہیں کترنے کو یہ چوسنے کو ہے چونسا
ہرا بھرا ہے یہ ساون سا اور بھادوں سا
یہ کیا ہے دیکھئے کہتے ہیں یہ دسہری ہے
ذرا سی گٹھلی ہے' گودے کی تہہ بھی گہری ہے
وہ آم رکھ کے مرے سامنے جو بھول گئے
''اسد خوشی سے مرے ہاتھ پاؤں پھول گئے''
یہ آم ہیں کہ جسے جعفری سے نسبت سے
''پلا دے اوک سے ساقی جو ہم سے نفرت ہے''۔
ہم نے کہا کہ ساون کے رویے کی شکایت کرتے وقت خود ہمیں بھی اپنے رویے پر غور کر لینا چاہیے۔ موسم نہیں بلکہ کہئے کہ فطرت اتنی بے حس نہیں ہوتی جتنا ہم اسے سمجھتے ہیں۔ فطرت کے عمل سے جتنا ہم متاثر ہوتے ہیں، فطرت بھی ہمارے عمل سے متاثر ہوتی ہے۔ ہم جب براہ راست فطرت کے عمل میں کھنڈت ڈالتے ہیں اس وقت تو خیر فطرت برا مانتی ہی ہے اور اپنی برہمی کا اظہار کرتی ہے مگر اس سے قطع نظر بھی جب ہمارے بیچ کوئی فساد برپا ہوتا ہے تو ایسا نہیں ہے کہ فطرت اس سے بے تعلق رہے۔ جس طرح فطرت کا خوشگوار عمل ہمارے مزاجوں پر اثر انداز ہوتا ہے اور ہم ایک نئی ترنگ محسوس کرتے ہیں۔
ایک خوش گوار کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ موسم کی اچھی اداؤں کو دیکھ کر ہم خوش ہوتے ہیں' گنگناتے ہیں' گیت گاتے ہیں' کوئل اور پپیہے کی کو کو اور پی کہاں پی کہاں کے سروں میں سر ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح کا ردعمل انسانی زندگی کی خوش گواری سے ہمارے ارد گرد فطرت کے یہاں بھی نظر آتا ہے۔ مگر جب انسانی زندگی کا طور بے طور ہوتا ہے تو اس کا ناخوشگوار اثر فطرت پر بھی پڑتا ہے۔ اس کے مزاج میں درہمی پیدا ہوتی ہے۔ اسے غصہ بھی آتا ہے اور وہ جو اقبال نے کہا ہے کہ ع
حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں
تو پھر فطرت کی ایسی برہمی بھی دیکھنے میں آتی ہے لیکن خیر فی الحال ذکر اس وقت فطرت کے اس منکھر کا ہے جسے ساون کہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ایک مہینہ اور جڑا ہوا ہے۔ کہہ لیجیے ساون بھادوں۔ واہ کیا بات ہے ان دو مہینوں کی۔ سال کے باقی مہینے ایک طرف اور ساون بھادوں ایک طرف۔
ان مہینوں کے پھل بھی نرالے ہیں۔ نیم کی بنولی تو کڑوی ہوتی ہے مگر گیت نگاروں نے اس کڑوے پھل کو بھی کیا سے کیا بنا دیا ہے ع
نیم کی بنولی پکی ساون کب کب آوے گا
مگر سب سے بڑھ کر وہ کھٹا میٹھا پھل ہے جسے آم کہتے ہیں۔ آم ع
زباں پہ بار خدایا یہ کس کا نام آیا
ارے پھل تو اور بھی ہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک۔ سیب' انار' انگور مگر آم کی شان نرالی ہے۔ اور پھر آموں کا باغ۔ جسے امرئیاں کہتے ہیں یا کہتے تھے۔ امرئیوں میں پڑے جھولے۔ بوندا باندی کا سماں ہے۔ امرئیوں میں کھٹے میٹھے آم ٹپ ٹپ گر رہے ہیں۔ کتنے پتوں میں چھپے ہوئے ہیں اور گرنے سے انکاری ہیں لیکن کب تک گرنا تو انھیں بھی ہے۔ آم چوسنے والوں کا جمگھٹا ہے۔ چوس بھی رہے ہیں۔ ایک دوسرے پر پھینک بھی رہے ہیں۔ ارے یہ تو ایک اچھا خاصا کلچر تیوہار ہے۔ آم کی انفرادیت تو اسی میں ہے کہ وہ پھل بھی ہے اور اپنی جگہ ایک کلچر بھی۔ ارے جب ہی تو شاعروں نے جی بھر کر اس پر گلکاری کی ہے۔ سب سے بڑھ کر غالب نے ؎
نظر آتا ہے یوں مجھے یہ ثمر
کہ دوا خانہ ازل میں مگر
آتش گل پہ قند کا ہے قوام
شیرہ کے تار کا ہے ریشہ نام
یا یہ ہو گا کہ فرط رافت سے
باغبانوں نے باغ جنت سے
انگبیں کے بہ حکم رب الناس
بھر کے بھیجے ہیں سر بمہر گلاس
ارے نہیں۔ بہشت سے بس ایک آم کی قسم کو البتہ رہنے دو۔ ثمر بہشت باقی اس کی زمینی مہک کاجواب نہیں۔ زمینی ہی اس کے نام ہیں۔ لنگڑا' چونسہ' سندھڑی' انور رٹول' مالدہ'طوطا پری۔ دسہری۔ سفیدہ
غالب سے قطع نظر ہمارے زمانے کے ایک شاعر نے بھی تو آم پر خامہ فرسائی کی ہے اور اس کی کمال کے ساتھ غالب کو بھی اپنا ہمنوا بنا لیا ہے۔ یہ ہیں سید محمد جعفری۔ ان کی ایک نظم ہمیں ملی ہے جو ان کے مطبوعہ کلام میں نہیں ہے۔ ملاحظہ کیجیے ؎
خدا کا شکر کہ احباب کا پیام آیا
کہ قتل آم میں شرکت کا اذن عام آیا
یہ سن کے ہونٹوں کے بوسے مری زباں کے لیے
''صلائے آم ہے یاران نکتہ داں کے لیے
اٹھا کے رکھ دیے سب آم مہماں کے لیے
نہیں بچے تو تجمل حسیں خاں کے لیے
کہو یہ لنگڑے سے چل کر نہ کوئی زحمت لے
بنائے جائیں گے تیرے تو کاٹ کر قتلے
یہی حلاوت کام و دہن سے ہے مطلوب
''یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخ مطلوب''
وہ بولا جس کو نہ کھٹا ملا نہ میٹھا آم
''جہاں میں ہو غم و شادی بہم ہمیں کیا کام''
یہ سندھڑی آم سمجھئے جسے عوام کی ناک
یہاں کا طوطا پری ہے کہ جس کی نسل ہے پاک
وہ دیکھو سامنے انور رٹول رکھا ہے
اور اگلے شعر میں غالب کا تول رکھا ہے
کہ آم میٹھا ہو' تعداد میں زیادہ ملے
کبھی تو اس دل شوریدہ کی بھی داد ملے
نہیں کترنے کو یہ چوسنے کو ہے چونسا
ہرا بھرا ہے یہ ساون سا اور بھادوں سا
یہ کیا ہے دیکھئے کہتے ہیں یہ دسہری ہے
ذرا سی گٹھلی ہے' گودے کی تہہ بھی گہری ہے
وہ آم رکھ کے مرے سامنے جو بھول گئے
''اسد خوشی سے مرے ہاتھ پاؤں پھول گئے''
یہ آم ہیں کہ جسے جعفری سے نسبت سے
''پلا دے اوک سے ساقی جو ہم سے نفرت ہے''۔