رینگتے ہوئے لوگ
ہماری کوئی بھی قیادت تقابلی جائزے میں اس فکری اورسیاسی پختگی پر کھڑی نظر نہیں آتی کہ ان کے نزدیک عام آدمیوں کی۔۔۔
انسان اپنے اردگرد کے حالات سے لاتعلق نہیںرہ سکتا۔ وہ جتنا مرضی غیر جانبدار ہو،شہر کے خوف اوربے بسی کو محسوس کر سکتاہے۔میں ان تین چار دنوں کے واقعات کا جائزہ لوں،تو مجھے لفظ "جمہوریت" بے معنی نظر آتا ہے۔ میری دانست میں تو جمہوریت،کسی بھی حکومت کا ایک ایسا رویہ ہے جس میں تمام لوگ مل کر ساتھ چلتے ہیں۔
یہ اپنی ذات سے بالاتر ہوکر لوگوں میں سہولتیں بانٹنے کا نام ہے۔مگر مجھے اپنے موجودہ نظام میں کوئی بھی ایسا سیاسی عنصر نظر نہیں آرہا جسے میں جمہوریت کے ترازو میں تول کرآپکو بتاسکوں،کہ یہ چیز بالکل مناسب اورٹھیک ہے۔ہمارا سیاسی نظام کسی آسیب کا شکار ہوچکاہے۔ ہم صرف دائرے میں گھوم رہے ہیں۔اب دائرے اوربھنور کے مسائل ہم تمام لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔ہم عملی طورپر سول وار کے پہلے زینہ پر قدم رکھ چکے ہیں۔
مجھے آج کی قیادت سے کوئی سروکار نہیں۔ ہماری کوئی بھی قیادت تقابلی جائزے میں اس فکری اورسیاسی پختگی پر کھڑی نظر نہیں آتی کہ ان کے نزدیک عام آدمیوں کی کوئی سنجیدہ حیثیت ہو۔ہمارے پورے ملک کے وسائل پر بیس یا پچیس لوگ قابض ہو چکے ہیں۔اگر آپ بہت زیادہ فراخ دلی سے کام لیں،تو ان کی تعداد پچاس سے زیادہ نہیں ہے۔ان لوگوں کا اپنی رعایا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ لاتعلقی مجھے اب ایک کھائی کی طرح گہری ہوتی محسوس ہورہی ہے۔اس وقت ہرطرف گرداوردھول ہے۔عام لوگ مقتدر حلقوں کی کسی بات پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ہمارے اقتدار میں مستقل قیام پذیر لوگوں میں دیانت،خلوص نیت اورذاتی فائدہ سے بالاتر ہونے کی مثالیں تشویش ناک حد تک کم ہوچکی ہیں۔
جوسی موجیقا کورڈانو(Juse Mujjica Cordano) یوراگوئے(Uruguay) کا موجودہ صدر ہے۔ اس کی عمر اسی سال ہے۔ اس کی زندگی پر نظر ڈالیے توآپ حیران ہو جاتے ہیں کہ دنیا میں ایسے قدآورسیاسی رہنما بھی ہیں۔جوسی ایک انتہائی غریب گھر میں پیدا ہوا۔اس کے والدین کے پاس صرف پانچ ایکڑ زمین تھی۔ تیرہ سے سترہ برس کی عمر میں کوئی ایسا عامیانہ کام نہیں تھا،جو جوسی نے نہ کیاہو۔وہ زمین پر جھاڑو لگاتارہا۔ کمروں کی جھاڑپونچھ کرتارہا۔ مزدوری کرتارہا۔لوگوں کا سامان ڈھوتارہا۔
وہ لمبے سفر بھی سائیکل پر کرتارہا کیونکہ اس کے پاس بس کا کرایہ نہیں ہوتاتھا۔ساٹھ کی دہائی میں اس نے ایک سیاسی پارٹی کا عسکری ونگ سنبھال لیا۔اس پارٹی کا نام ایم ایل این ٹیوپا ماروس تھا۔ جوسی نے اس وقت کی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کردی۔ ایک جھڑپ میں اسکوچھ گولیاں لگیں۔وہ مرنے سے صرف اس لیے بچ گیا کہ اسے جس سرکاری اسپتال میں علاج کے لیے داخل کروایاگیا،اس کا سرجن بھی اس کی سیاسی جماعت کا خفیہ ممبر تھا۔وہ حکومتی ناانصافی کو مسلح جدوجہد کے ذریعے ختم کرنا چاہتاتھا۔جوسی پندرہ سے بیس سال تک اس جدوجہد کا حصہ رہا۔
اس اثناء میں چار بار گرفتار بھی ہوا۔مجموعی طور پر انتہائی سخت حالات میں چودہ برس جیل میں قید رہا۔اس میں چند سال قید تنہائی بھی شامل تھی۔یوراگوئے کی فوج اس کے سخت خلاف تھی۔اسکو سرکاری جیل میں تشدد سے لے کر ہرطرح کی ذہنی اذیت کا سامنا کرناپڑا۔ جیل میں فوج نے گھوڑوں کو پانی پلانے کے لیے تالاب کے نیچے تہہ خانہ میں موجیقا کو دوسال کے لیے قید کردیا۔
اس تہہ خانے میں گھوڑوں کا فضلہ باقاعدگی سے پھینکا جاتا تھا۔ان غیر انسانی حالات سے وہ اورمضبوط ہوکر باہر آیا۔مگر چودہ سال کی طویل نظر بندی نے اس کی صحت کو بہت نقصان پہنچایا تھا۔ جیل میں بہت سی ذہنی بیماریاں شروع ہوگئیں۔اسے اپنے ہر طرف بولتے ہوئے بے نام لوگ اور پرچھائیاں نظر آتے تھے۔وہ ہر وقت ان کی آواز کا جواب دیتا تھا۔اس سے پہلے کہ پاگل ہوجاتا،یوراگوئے میں جمہوریت آگئی ۔ملک میں آئین اور قانون کی حکومت شروع ہوگئی۔
1985 میں حکومت نے عام معافی کا اعلان کردیا۔ موجیقا کے تمام جرائم معاف کردیے گئے۔ بیس سال کی مسلح جدوجہد نے اسے ایک پُر امن ملک کی قدر سکھادی تھی۔اس نے زندگی میں تمام تلخیاں بھلانے کا عظیم فیصلہ کرلیا۔سب سے پہلے اس نے تمام شدت پسند اورمختلف جنگی گروہوں سے لاتعلقی کا اعلان کرڈالا۔وہ اب قومی سیاست کے میدان میں داخل ہوچکاتھا۔اس نے ایک نئی عوامی سیاسی پارٹی بنالی۔ اس کا نام Movement of popular participation تھا۔وسائل کی قلت کی بدولت ایک مخلوط سیاسی فرنٹ میں شامل ہوگیا۔قلیل عرصے میں وہ اس فرنٹ کا سب سے مقبول رہنما بن چکا تھا۔
مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک ایماندار سیاستدان کے طور پر ابھراتھا۔اپنے سیاسی سفر میں دوبار سینیٹ کا ممبر بنا۔ 2005 میں اسے زراعت کا وزیر بنادیا گیا۔ اس وقت کا صدر تبارے وازقز (Tabare Vazquez) اس کی مقبولیت سے بہت خائف تھا۔چنانچہ موجیقا کو ان تمام مشکلات میں سے گزرنا پڑا جو ایک ترقی پذیر ملک کی سیاست میں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ موجیقا نے اپنے نظریات کو اپنے سینے سے لگا کر رکھا۔
وہ عوام میں اس درجہ مقبول تھا کہ لوگ اسکو صرف دیکھنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوجاتے تھے۔عام لوگ اسکو دیکھ کر خوشی سے ناچنا شروع کردیتے تھے۔ بنیادی وجہ صرف یہ تھی کہ عام شہری اسے بالکل اپنے جیسا سمجھتے تھے۔طاقتور حلقوں کی شدید مخالفت کے باوجود 2009 میں وہ اپنے ملک کا صدر بن گیا۔یہ ایک جمہوری انقلاب کا آغاز تھا۔ موجیقا نے صرف اورصرف عام آدمی کی بہتری کے لیے کام کرنا شروع کردیا۔
موجیقا نے اپنے صدارتی انتخاب میں ایک نعرہ بلند کیاتھا۔وہ تھا "ایماندار حکومت اورایک اول درجہ کا ملک"۔ نعرے سے ملک کی کرپٹ اشرافیہ بہت زیادہ گھبرا گئی تھی۔ لوگوں نے موجیقا کو تاریخی کامیابی سے ہمکنار کروادیا۔ صدر بننے کے بعد موجیقا نے ایک نایاب تقریر کی۔اس نے کہا کہ" الیکشن کے بعد کوئی ہار اورجیت نہیں ہوتی۔اس کا کوئی بھی سیاسی دشمن نہیں ہے"۔اس نے ایک جگہ کہا کہ" سیاست میں سب سے بڑی غلطی ہے کہ یہ گمان کیاجائے کہ طاقت کہیں اوپر سے آتی ہے۔
اصل طاقت تو لوگوں کے دل جیتنے سے پیدا ہوتی ہے"۔ وہ کہتا تھا کہ "اس نے صلح کا سبق مسلسل جنگ لڑکر سیکھا ہے۔ نیز کوئی بھی جنگ شریفانہ اورمعقول نہیں ہوتی۔لہذا سیاست میں ہر معاملہ مذاکرات اورافہام وتفہیم سے طے کرنا چاہیے"۔وہ کہتاتھا کہ "سیاسی لڑائی انسانوں کو تشدد کی طرف لیجاتی ہے۔اس سے ہر قیمت پر پرہیز کرنا چاہیے"۔
جوسی موجیقا نے صدر بننے کے بعد حیرت انگیز فیصلے کیے۔اس نے صدارتی محل میں منتقل ہونے سے انکار کردیا۔ دار الحکومت مونٹی ویڈیو(Montevideo) سے کچھ فاصلے پر اس کی اہلیہ کا ایک چھوٹا سا فارم ہے۔جس میں صرف ایک بیڈ روم ہے۔موجیقا نے صدارتی محل سے زیادہ اپنے اس ایک کمرے کے گھر کو ترجیح دی۔اس فارم کے چھوٹے سے کھیت میں صدر کی اہلیہ پھول اگاتی ہے۔یہ پھول خود جاکر، بازار میں ایک تاجر کے حوالے کردیتی ہے۔ دونوں میاں بیوی کا زندہ رہنے کے لیے ایک مختصر سا کاروبار ہے۔
موجیقا نے دوسرا کام یہ کیا کہ کوئی محافظ یا پروٹوکول لینے سے انکار کردیا۔وہ سارے کام اپنے ہاتھ سے کرتا ہے۔ گھر سے صدارتی دفتر تک پرانی ذاتی گاڑی خود چلاتاہے۔ یہ1987 ماڈل کی ووکس ویگن ہے۔اس کی موجودہ قیمت چار پانچ ہزار سے زیادہ نہیں۔ بطور صدر اس کی ماہانہ تنخواہ 12000 یوایس ڈالر ہے۔یہ تنخواہ پاکستانی بارہ لاکھ روپے کے برابر بنتی ہے۔وہ ماہانہ تنخواہ کا نوے فیصد حصہ غریب لوگوں میں تقسیم کردیتا ہے۔ اپنے پاس صرف کھانے پینے اورپٹرول کے پیسہ رکھتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ" غریب وہ نہیں جس کے پاس کم پیسے ہیں۔دراصل غریب وہ ہے جسے اپنی زندگی کے لیے ہروقت زیادہ سے زیادہ پیسے کی ضرورت ہے"۔
چار سال کے عرصے میں اس نے اپنے ملک میں غربت پر مکمل قابو پالیا ے۔ایک ملک جس میں ہرطرف غربت کا راج تھا۔اب اس کی شرح صرف11%رہ گئی ہے۔پوری دنیا کے ماہرین معیشت اس کے معاشی انقلاب کو ایک بے مثال ماڈل گردانتی ہے۔وہ لوگوںکوبتاتاہے کہ" حکومت کا اصل کام اپنے تمام وسائل کو عام آدمی کی فلاح وبہبود کے لیے استعمال کرنا ہے"۔
گواٹنوما بے(Guantanama) جیل میں صرف مسلمان قیدی رہتے ہیں۔وہ ان مسلمان قیدیوں کو آزادی کے بعد اپنے ملک میں تمام شہری سہولتیں بلا معاوضہ فراہم کرتاہے۔اس کے بقول کیونکہ وہ خود چودہ برس جیل میں رہاہے۔لہذا ان مسلمانوں قیدیوں کی ذہنی اورجسمانی حالت کو عام لوگوں سے بہت بہتر طور پرسمجھتا ہے۔موجیقا نے اپنے ملک میں اپنی ذاتی مثال قائم کرنے سے ایک انقلاب برپا کردیا ہے۔اسے صدر بنے صرف چار سال ہوئے ہیں۔
مجھے اپنے ملک کے سیاسی میدان میں موجیقاجیسا ایک بھی باکردار لیڈر نظر نہیں آتا۔شائد ہماری سیاسی سر زمین بانجھ ہوچکی ہے!ہر طرف جمہوری انقلاب کا شور ہے مگر اِس انقلاب کو تو سب سے پہلے اپنے اوپر لاگو کرنا ہوتا ہے۔اپنی اَنا اورذاتی دولت کی ہوس کو ختم کر کے لوگوں کی بلامعاوضہ خدمت کرنی ہوتی ہے۔ چاردنوں میں آپ نے میڈیا پرنفرت اور رسوائی کے بہت سے واقعات دیکھے ہونگے!مجبور خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو کنٹینرز کے نیچے کی خلا میں رینگتے ہوئے بھی دیکھا ہوگا!یہ کیڑوں کی طرح سفر طے کررہے تھے! یہ ذلت آمیز مناظر ہمارے جبر پر قائم نظام کے انمٹ نقوش ہیں!انکو ہمیشہ یادرکھنا چاہیے! مگر جس دن ان رینگتے ہوئے لوگوں نے کھڑا ہو کر چلنا سیکھ لیا،اس دن ہماری شفاف جمہوریت کا کیا حشر ہوگا؟
یہ اپنی ذات سے بالاتر ہوکر لوگوں میں سہولتیں بانٹنے کا نام ہے۔مگر مجھے اپنے موجودہ نظام میں کوئی بھی ایسا سیاسی عنصر نظر نہیں آرہا جسے میں جمہوریت کے ترازو میں تول کرآپکو بتاسکوں،کہ یہ چیز بالکل مناسب اورٹھیک ہے۔ہمارا سیاسی نظام کسی آسیب کا شکار ہوچکاہے۔ ہم صرف دائرے میں گھوم رہے ہیں۔اب دائرے اوربھنور کے مسائل ہم تمام لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔ہم عملی طورپر سول وار کے پہلے زینہ پر قدم رکھ چکے ہیں۔
مجھے آج کی قیادت سے کوئی سروکار نہیں۔ ہماری کوئی بھی قیادت تقابلی جائزے میں اس فکری اورسیاسی پختگی پر کھڑی نظر نہیں آتی کہ ان کے نزدیک عام آدمیوں کی کوئی سنجیدہ حیثیت ہو۔ہمارے پورے ملک کے وسائل پر بیس یا پچیس لوگ قابض ہو چکے ہیں۔اگر آپ بہت زیادہ فراخ دلی سے کام لیں،تو ان کی تعداد پچاس سے زیادہ نہیں ہے۔ان لوگوں کا اپنی رعایا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ لاتعلقی مجھے اب ایک کھائی کی طرح گہری ہوتی محسوس ہورہی ہے۔اس وقت ہرطرف گرداوردھول ہے۔عام لوگ مقتدر حلقوں کی کسی بات پر اعتبار کرنے کے لیے تیار نہیں۔ہمارے اقتدار میں مستقل قیام پذیر لوگوں میں دیانت،خلوص نیت اورذاتی فائدہ سے بالاتر ہونے کی مثالیں تشویش ناک حد تک کم ہوچکی ہیں۔
جوسی موجیقا کورڈانو(Juse Mujjica Cordano) یوراگوئے(Uruguay) کا موجودہ صدر ہے۔ اس کی عمر اسی سال ہے۔ اس کی زندگی پر نظر ڈالیے توآپ حیران ہو جاتے ہیں کہ دنیا میں ایسے قدآورسیاسی رہنما بھی ہیں۔جوسی ایک انتہائی غریب گھر میں پیدا ہوا۔اس کے والدین کے پاس صرف پانچ ایکڑ زمین تھی۔ تیرہ سے سترہ برس کی عمر میں کوئی ایسا عامیانہ کام نہیں تھا،جو جوسی نے نہ کیاہو۔وہ زمین پر جھاڑو لگاتارہا۔ کمروں کی جھاڑپونچھ کرتارہا۔ مزدوری کرتارہا۔لوگوں کا سامان ڈھوتارہا۔
وہ لمبے سفر بھی سائیکل پر کرتارہا کیونکہ اس کے پاس بس کا کرایہ نہیں ہوتاتھا۔ساٹھ کی دہائی میں اس نے ایک سیاسی پارٹی کا عسکری ونگ سنبھال لیا۔اس پارٹی کا نام ایم ایل این ٹیوپا ماروس تھا۔ جوسی نے اس وقت کی حکومت کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کردی۔ ایک جھڑپ میں اسکوچھ گولیاں لگیں۔وہ مرنے سے صرف اس لیے بچ گیا کہ اسے جس سرکاری اسپتال میں علاج کے لیے داخل کروایاگیا،اس کا سرجن بھی اس کی سیاسی جماعت کا خفیہ ممبر تھا۔وہ حکومتی ناانصافی کو مسلح جدوجہد کے ذریعے ختم کرنا چاہتاتھا۔جوسی پندرہ سے بیس سال تک اس جدوجہد کا حصہ رہا۔
اس اثناء میں چار بار گرفتار بھی ہوا۔مجموعی طور پر انتہائی سخت حالات میں چودہ برس جیل میں قید رہا۔اس میں چند سال قید تنہائی بھی شامل تھی۔یوراگوئے کی فوج اس کے سخت خلاف تھی۔اسکو سرکاری جیل میں تشدد سے لے کر ہرطرح کی ذہنی اذیت کا سامنا کرناپڑا۔ جیل میں فوج نے گھوڑوں کو پانی پلانے کے لیے تالاب کے نیچے تہہ خانہ میں موجیقا کو دوسال کے لیے قید کردیا۔
اس تہہ خانے میں گھوڑوں کا فضلہ باقاعدگی سے پھینکا جاتا تھا۔ان غیر انسانی حالات سے وہ اورمضبوط ہوکر باہر آیا۔مگر چودہ سال کی طویل نظر بندی نے اس کی صحت کو بہت نقصان پہنچایا تھا۔ جیل میں بہت سی ذہنی بیماریاں شروع ہوگئیں۔اسے اپنے ہر طرف بولتے ہوئے بے نام لوگ اور پرچھائیاں نظر آتے تھے۔وہ ہر وقت ان کی آواز کا جواب دیتا تھا۔اس سے پہلے کہ پاگل ہوجاتا،یوراگوئے میں جمہوریت آگئی ۔ملک میں آئین اور قانون کی حکومت شروع ہوگئی۔
1985 میں حکومت نے عام معافی کا اعلان کردیا۔ موجیقا کے تمام جرائم معاف کردیے گئے۔ بیس سال کی مسلح جدوجہد نے اسے ایک پُر امن ملک کی قدر سکھادی تھی۔اس نے زندگی میں تمام تلخیاں بھلانے کا عظیم فیصلہ کرلیا۔سب سے پہلے اس نے تمام شدت پسند اورمختلف جنگی گروہوں سے لاتعلقی کا اعلان کرڈالا۔وہ اب قومی سیاست کے میدان میں داخل ہوچکاتھا۔اس نے ایک نئی عوامی سیاسی پارٹی بنالی۔ اس کا نام Movement of popular participation تھا۔وسائل کی قلت کی بدولت ایک مخلوط سیاسی فرنٹ میں شامل ہوگیا۔قلیل عرصے میں وہ اس فرنٹ کا سب سے مقبول رہنما بن چکا تھا۔
مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ وہ ایک ایماندار سیاستدان کے طور پر ابھراتھا۔اپنے سیاسی سفر میں دوبار سینیٹ کا ممبر بنا۔ 2005 میں اسے زراعت کا وزیر بنادیا گیا۔ اس وقت کا صدر تبارے وازقز (Tabare Vazquez) اس کی مقبولیت سے بہت خائف تھا۔چنانچہ موجیقا کو ان تمام مشکلات میں سے گزرنا پڑا جو ایک ترقی پذیر ملک کی سیاست میں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ موجیقا نے اپنے نظریات کو اپنے سینے سے لگا کر رکھا۔
وہ عوام میں اس درجہ مقبول تھا کہ لوگ اسکو صرف دیکھنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں جمع ہوجاتے تھے۔عام لوگ اسکو دیکھ کر خوشی سے ناچنا شروع کردیتے تھے۔ بنیادی وجہ صرف یہ تھی کہ عام شہری اسے بالکل اپنے جیسا سمجھتے تھے۔طاقتور حلقوں کی شدید مخالفت کے باوجود 2009 میں وہ اپنے ملک کا صدر بن گیا۔یہ ایک جمہوری انقلاب کا آغاز تھا۔ موجیقا نے صرف اورصرف عام آدمی کی بہتری کے لیے کام کرنا شروع کردیا۔
موجیقا نے اپنے صدارتی انتخاب میں ایک نعرہ بلند کیاتھا۔وہ تھا "ایماندار حکومت اورایک اول درجہ کا ملک"۔ نعرے سے ملک کی کرپٹ اشرافیہ بہت زیادہ گھبرا گئی تھی۔ لوگوں نے موجیقا کو تاریخی کامیابی سے ہمکنار کروادیا۔ صدر بننے کے بعد موجیقا نے ایک نایاب تقریر کی۔اس نے کہا کہ" الیکشن کے بعد کوئی ہار اورجیت نہیں ہوتی۔اس کا کوئی بھی سیاسی دشمن نہیں ہے"۔اس نے ایک جگہ کہا کہ" سیاست میں سب سے بڑی غلطی ہے کہ یہ گمان کیاجائے کہ طاقت کہیں اوپر سے آتی ہے۔
اصل طاقت تو لوگوں کے دل جیتنے سے پیدا ہوتی ہے"۔ وہ کہتا تھا کہ "اس نے صلح کا سبق مسلسل جنگ لڑکر سیکھا ہے۔ نیز کوئی بھی جنگ شریفانہ اورمعقول نہیں ہوتی۔لہذا سیاست میں ہر معاملہ مذاکرات اورافہام وتفہیم سے طے کرنا چاہیے"۔وہ کہتاتھا کہ "سیاسی لڑائی انسانوں کو تشدد کی طرف لیجاتی ہے۔اس سے ہر قیمت پر پرہیز کرنا چاہیے"۔
جوسی موجیقا نے صدر بننے کے بعد حیرت انگیز فیصلے کیے۔اس نے صدارتی محل میں منتقل ہونے سے انکار کردیا۔ دار الحکومت مونٹی ویڈیو(Montevideo) سے کچھ فاصلے پر اس کی اہلیہ کا ایک چھوٹا سا فارم ہے۔جس میں صرف ایک بیڈ روم ہے۔موجیقا نے صدارتی محل سے زیادہ اپنے اس ایک کمرے کے گھر کو ترجیح دی۔اس فارم کے چھوٹے سے کھیت میں صدر کی اہلیہ پھول اگاتی ہے۔یہ پھول خود جاکر، بازار میں ایک تاجر کے حوالے کردیتی ہے۔ دونوں میاں بیوی کا زندہ رہنے کے لیے ایک مختصر سا کاروبار ہے۔
موجیقا نے دوسرا کام یہ کیا کہ کوئی محافظ یا پروٹوکول لینے سے انکار کردیا۔وہ سارے کام اپنے ہاتھ سے کرتا ہے۔ گھر سے صدارتی دفتر تک پرانی ذاتی گاڑی خود چلاتاہے۔ یہ1987 ماڈل کی ووکس ویگن ہے۔اس کی موجودہ قیمت چار پانچ ہزار سے زیادہ نہیں۔ بطور صدر اس کی ماہانہ تنخواہ 12000 یوایس ڈالر ہے۔یہ تنخواہ پاکستانی بارہ لاکھ روپے کے برابر بنتی ہے۔وہ ماہانہ تنخواہ کا نوے فیصد حصہ غریب لوگوں میں تقسیم کردیتا ہے۔ اپنے پاس صرف کھانے پینے اورپٹرول کے پیسہ رکھتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ" غریب وہ نہیں جس کے پاس کم پیسے ہیں۔دراصل غریب وہ ہے جسے اپنی زندگی کے لیے ہروقت زیادہ سے زیادہ پیسے کی ضرورت ہے"۔
چار سال کے عرصے میں اس نے اپنے ملک میں غربت پر مکمل قابو پالیا ے۔ایک ملک جس میں ہرطرف غربت کا راج تھا۔اب اس کی شرح صرف11%رہ گئی ہے۔پوری دنیا کے ماہرین معیشت اس کے معاشی انقلاب کو ایک بے مثال ماڈل گردانتی ہے۔وہ لوگوںکوبتاتاہے کہ" حکومت کا اصل کام اپنے تمام وسائل کو عام آدمی کی فلاح وبہبود کے لیے استعمال کرنا ہے"۔
گواٹنوما بے(Guantanama) جیل میں صرف مسلمان قیدی رہتے ہیں۔وہ ان مسلمان قیدیوں کو آزادی کے بعد اپنے ملک میں تمام شہری سہولتیں بلا معاوضہ فراہم کرتاہے۔اس کے بقول کیونکہ وہ خود چودہ برس جیل میں رہاہے۔لہذا ان مسلمانوں قیدیوں کی ذہنی اورجسمانی حالت کو عام لوگوں سے بہت بہتر طور پرسمجھتا ہے۔موجیقا نے اپنے ملک میں اپنی ذاتی مثال قائم کرنے سے ایک انقلاب برپا کردیا ہے۔اسے صدر بنے صرف چار سال ہوئے ہیں۔
مجھے اپنے ملک کے سیاسی میدان میں موجیقاجیسا ایک بھی باکردار لیڈر نظر نہیں آتا۔شائد ہماری سیاسی سر زمین بانجھ ہوچکی ہے!ہر طرف جمہوری انقلاب کا شور ہے مگر اِس انقلاب کو تو سب سے پہلے اپنے اوپر لاگو کرنا ہوتا ہے۔اپنی اَنا اورذاتی دولت کی ہوس کو ختم کر کے لوگوں کی بلامعاوضہ خدمت کرنی ہوتی ہے۔ چاردنوں میں آپ نے میڈیا پرنفرت اور رسوائی کے بہت سے واقعات دیکھے ہونگے!مجبور خواتین، بچوں اور بوڑھوں کو کنٹینرز کے نیچے کی خلا میں رینگتے ہوئے بھی دیکھا ہوگا!یہ کیڑوں کی طرح سفر طے کررہے تھے! یہ ذلت آمیز مناظر ہمارے جبر پر قائم نظام کے انمٹ نقوش ہیں!انکو ہمیشہ یادرکھنا چاہیے! مگر جس دن ان رینگتے ہوئے لوگوں نے کھڑا ہو کر چلنا سیکھ لیا،اس دن ہماری شفاف جمہوریت کا کیا حشر ہوگا؟