خونریزی کا اصل ذمے دار کون تھا
یوم آزادی کے وقت سرحد کی نئی لکیر کے آر پار مظالم کی کہانیوں کا ذکر چھڑا ہے تو مجھے جناب جعفر قاسمی مرحوم و۔۔۔
ISLAMABAD:
چودہ اگست، یومِ آزادی کی آمد آمد ہے۔ پاکستان کے بیس کروڑ عوام اپنے انداز میں جشن آزادی منانے جا رہے ہیں اور ڈاکٹر طاہرالقادری وعمران خان اپنے منفرد اسلوب سے یومِ آزادی منانے کا دعویٰ رکھتے ہیں۔
گذشتہ چھ دہائیوں سے زائد عرصے سے یومِ آزادی آتے ہی یہ بحث پھر چھڑ جاتی ہے کہ تشکیلِ پاکستان کے وقت نئی بننے والی سرحدوں کے آر پار جو بے پناہ قتلِ عام ہوا اور مذہب کی بنیاد پر آبادی کے انخلاء کا جو خوں رنگ سانحہ پیش آیا، اس کا اصل ذمے دار کون تھا؟ ہم پاکستانی دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ہندو اور سکھ تھے جنہوں نے دو قومی نظریے کے حاملین کو پاکستان بنانے کی سزا یوں دی کہ لاکھوں مسلمانوں کا خون بہادیا۔ جو لاتعداد مسلمان خواتین اغواء ہوئیں اور عصمت دری کا شکار بنا دی گئیں، وہ اس اشکبار کہانی کا ایک علیحدہ باب ہے۔
اگر ہم قدرت اللہ شہاب کا ناولٹ ''یا خدا'' پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ چودہ اگست 47ء کے نتیجے میں جو مسلمان مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے مملکتِ خداداد کی جانب کشاں کشاں چلے آرہے تھے، ان پر ہندوؤں اور سکھوں نے تو ظلم کیا ہی تھا، پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھنے کے بعد یہاں بھی ایسے درندے تھے جنہوں نے مجبور مہاجرین کا بہت استحصال کیا۔ 47ء کی ہجرت کے پس منظر میں لکھا گیا کرشن چندر کا معرکہ آرا ناول ''غدار'' یہ کہتا ہے کہ ہندوؤں اور سکھوں نے مسلمانوں پر مظالم ڈھائے اور مسلمانوں نے بھی، جہاں ان کا زور چلتا تھا، ہندوؤں اور سکھوں سے بہت زیادتیاں کیں۔
اس سلسلے میں Road to Kashmir نامی کتاب، جس کے مصنف A De Mhaffe ہیں، ایک حیرت انگیز کہانی سناتے ہیں۔ یہ کتاب 1950ء میں شایع ہوئی تھی۔ چودہ اگست 47ء کے یوم آزادی کے پس منظر اور پیش منظر میں ''روڈ ٹو کشمیر'' کے اس غیر ملکی مصنف نے جو حقائق بیان کیے ہیں، ان کا زیادہ تر تعلق راولپنڈی شہر اور ضلع راولپنڈی سے ہے۔ وہ لکھتے ہیں: ''راولپنڈی شہر اور مضافاتی علاقوں میں پانچ اگست ہی کو فسادات اور خونریزی کا آغاز ہوگیا تھا۔
راولپنڈی شہر اور ضلع راولپنڈی میں سکھوں اور ہندوؤں کی اکثریت تھی اور یہ بات میرے لیے بڑی حیرت کا موجب ہے کہ راولپنڈی میں خونریزی کی شروعات سکھوں اور ہندوؤں نے کی۔ راولپنڈی کی کل آبادی ایک لاکھ بیس ہزار کے لگ بھگ تھی جس میں مسلمان پچاس ہزار تھے۔ راولپنڈی میں خدمت گزار لوگوں کا تعلق مسلمانوں سے تھا۔ ایک روز صبح ہی صبح ایک مسلمان دودھ فروش راولپنڈی کے ایک ہندو محلے میں گیا تو اسے نامعلوم افراد نے قتل کردیا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا چلا گیا۔''
مصنف مزید لکھتا ہے: ''ایک کوچوان میرا شناسا تھا۔ اکثر اوقات اس کا تانگہ میرے زیرِ استعمال رہتا تھا۔ ایک روز وہ صبح صبح گھبرایا ہوا میرے گھر آیا اور کہا کہ وہ پنڈی چھوڑ کر لاہور جارہا ہے۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا راولپنڈی مسلمانوں کے لیے محفوظ نہیں رہا۔ اس خراب ہوتی صورتحال کے پیشِ نظر راولپنڈی میں مسلمانوں کا ایک وفد ڈپٹی کمشنر صاحب سے ملا اور گزارش کی کہ ہندوؤں اور سکھوں کی مسلمانوں کے خلاف دست درازیاں رکوائی جائیں۔
میرے علم میں ہے کہ اس کے فوراً بعد ڈی سی صاحب نے پنڈی کے ہندوؤں اور سکھوں کے بااثر اور دولتمند افراد سے فرداً فرداً ملاقاتیں کیں، انھیں انتباہ بھی کیا لیکن حالات سنبھل نہ سکے۔ راولپنڈی پولیس میں زیادہ تر سکھ اور ہندو ڈوگرہ جوان تھے۔ ان پولیس جوانوں کو مسلمان محلوں میں متعین کیا جاتا تو مسلمان ان کے عدم تعاون کی بار بار شکایت کرتے۔ ضلع راولپنڈی میں سواچار لاکھ سے اوپر ہندو اور تقریباً ڈھائی لاکھ سکھ بستے تھے اور انھیں اپنی دولت، اثرورسوخ اور عددی برتری پر بڑا ناز اور زعم تھا؛ چنانچہ یہی وجہ تھی کہ ڈپٹی کمشنر کی تنبیہات کے باوجود وہ مسلمانوں کی خونریزی سے باز نہ آرہے تھے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ چودہ اگست کے آس پاس راولپنڈی کے مضافات میں رہنے والے مسلمان بھی پنڈی شہر میں آکر گھاتیں لگا کر بیٹھ گئے۔ حالات سنگین اور مزید خونی ہونے لگے تو پھر راولپنڈی سے سکھوں اور ہندوؤں کا انخلا تیزی سے شروع ہوگیا۔ اس افراتفری میں چار ہزار کے قریب ہندوؤں اور سکھوں کا قتل ہوا۔'' میرے والد صاحب مرحوم و مغفور، جن کا انتقال ابھی چار ماہ قبل ہوا ہے۔ انھوں نے بھی فریقین کے قتل، ڈاکہ زنی، عصمت دری اور لوٹ مار کے اَن گنت واقعات وقوع پذیر ہوتے دیکھے۔
وہ اپنے گاؤں اور ارد گرد کے دیہات کے کئی لوگوں کا نام لے لے کر ہمیں بتاتے کہ ان لوگوں نے کس درندگی اور وحشت کے ساتھ آس پاس کے ہندو اکثریتی والے دیہاتوں میں لوٹ مار کی، ان کے گھروں کو نذرآتش کیا اور کسی نے مزاحمت کی تو اسے وہیں تہ تیغ کر ڈالا۔ اور کچھ نہ ہوسکا تو یہ نوجوان ہندوؤں کے گھر میں موجود گھی اور اچار کی چاٹیاں ہی اٹھا کر لے آئے۔ یہ الفاظ لکھتے وقت میری آنکھوں کے سامنے گاؤں کے ''مشترکہ چاچا'' کا ہیولا رقص کناں ہے۔ یہ چاچا ہمارے گاؤں کا ایک عجب کردار تھا۔ پیشہ زمین داری۔ عیال دار تھا۔ ابتدا میں مالی حالات مناسب نہ تھے۔ بچے جوان ہوکر دساور گئے۔
محنت مزدوری سے کمایا گیا روپیہ گھر واپس آیا تو خوشحالی بھی عود کر آئی۔ پھر چاچا کے تہمد کے ڈَب میں بھی ہزاروں کے نوٹ نظر آنے لگے لیکن ان کے تہمد کی مَیل گئی نہ ان کے پاؤں میں جوتا نظر آیا۔ میری ان سے خاصی دوستی تھی۔ وہ اس امر کی تصدیق کیا کرتے تھے کہ تقسیم کے وقت جتنا ظلم ہندوؤں اور سکھوں نے مسلمانوں پر کیا، اتنا ہی مسلمانوں نے ہندوؤں اور سکھوں پر زیادتیاں کیں۔ پھر انھوں نے سپاٹ چہرے کے ساتھ اپنے اور دیگر دو گاؤں، جو ہمارے گاؤں کے دائیں بائیں واقع ہیں، کے بعض لوگوں کے نام لے کر مجھے بتایا تھا کہ کس طرح ہم لوگوں نے مل کر ہندو لڑکیاں اٹھائیں۔
یوم آزادی کے وقت سرحد کی نئی لکیر کے آر پار مظالم کی کہانیوں کا ذکر چھڑا ہے تو مجھے جناب جعفر قاسمی مرحوم و مغفور یاد آنے لگے ہیں۔ ممتاز اور منفرد عالم اور صاحبِ اسلوب مضمون نگار جعفر قاسمی صاحب پنجاب کے ایک تاریخی قصبے چنیوٹ سے تعلق رکھتے تھے۔ تقسیمِ ہند کے حوالے سے جعفر قاسمی صاحب لکھتے ہیں: ''پاکستان بن گیا تھا اور چنیوٹ میں بھی دین کے نام پر غارتگری اور آدم کشی کا سلسلہ چل نکلا۔ ایک ہندو نوجوان خاتون ناقابلِ فراموش ہے جس نے اپنے آپ کو مسلمان ''مجاہدین'' کے حوالے کرنے کے بجائے اپنے جلتے ہوئے گھر میں جل مرنے کو ترجیح دی۔
چنیوٹ کے ہندو بہت خوشحال اور زندگی کے ہر میدان میں کامیاب تھے۔ مسلمان جاگیرداروں اور وڈیروں نے ان کا سونا چاندی لوٹا۔ غریب کسانوں نے (بھاگنے والے ہندوؤں کی) دوسری چیزیں سمیٹیں۔ ہمارے جاننے والے دیہاتی بہت سا ''مالِ غنیمت'' (جو ہندوؤں کے گھروں سے لوٹا گیا تھا) ہمارے ہاں لے آئے۔ قریب تھا کہ حویلی بھر جاتی۔ ''آدھا ہمارا، آدھا آپ کا'' کی پیشکش والد صاحب نے قبول فرمالی تو میں پھٹ پڑا: یہ مالِ حرام ہے، اسے فوراً یہاں سے اٹھائیے۔ یہ واویلا کار گر ثابت ہوا۔ سب کچھ وہاں سے اٹھوا دیا گیا۔ والد صاحب بعد میں اعتراف کرتے تھے کہ تم نے مجھے نارِ جہنم سے بچا لیا۔''