عراقی صورتحال اور امریکی کردار

عراق کا ایسا کون سا علاقہ ہے جو محفوظ بچا ہو، ہر طرف آگ و خون کا دریا بہہ رہا ہے۔


Shabbir Ahmed Arman August 11, 2014
[email protected]

GUJRANWALA: عراق میں پرتشدد واقعات کا سلسلہ نہ تھم سکا ہے، ہنوز عراقی عوام متعدد بم دھماکوں، خودکش حملوں اور جھڑپوں کی زد میں ہیں۔ جون سے لے کر جولائی 2014 تک سیکڑوں افراد لقمہ اجل بن گئے ہیں اور درجنوں افراد زخمی ہوگئے ہیں، املاک اور دیگر نقصانات الگ ہیں۔

عراق کا ایسا کون سا علاقہ ہے جو محفوظ بچا ہو، ہر طرف آگ و خون کا دریا بہہ رہا ہے۔ اگرچہ عراق کی ابتر صورت حال برسوں سے ہے لیکن موجودہ شورش کا آغاز 4 جون سے اس وقت شدت اختیار کرگیا جب بغداد اور اس کے آس پاس علاقے بم دھماکوں، خودکش حملوں اور دیگر واقعات میں 21 افراد ہلاک اور 50 افراد زخمی ہوگئے تھے۔ اس کے بعد نہ رکنے والی خون ریزی کا سلسلہ جاری ہے۔

4 جون سے لے کر 12 جولائی تک کے اعداد و شمار کے مطابق کل 1093 ہلاکتیں ہوئیں جن میں سے 228 عام شہری 108 عراقی قیدی، ایک ایرانی پائلٹ، 708 داعش جنگجوؤں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں، جن میں سے 17 آپس کی لڑائی میں ہلاک ہوئے ہیں۔ ان ہلاکتوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ 259 عام شہری زخمی ہوئے۔ 184 عراقی فوجی ہلاک اور 22 زخمی ہوئے۔ اب تک 5 لاکھ افراد نے موصل اور تکریت سے 40 ہزار افراد نے نقل مکانی کی ہے۔

داعش نے اب تک جن علاقوں پر قبضہ کیا ہے ان میں موصل، تکریت، کرکوک، صوبہ دیالہ کے 2 قصبوں سعدیہ اور جلولا، شامی سرحد کے قریب تل افار، صوبہ نینوا کے شہر تل عفد، بعقوبہ شہر، صوبہ کرکوک کے گاؤں لتکا، شامی سرحد پر القائم نامی کراسنگ، شام اور عراق کے درمیان الولید سرحدی کراسنگ، صوبہ نینوا کا ایئرپورٹ، ترک سرحد کے قریب 2 کرد قصبے زرمگر اور بیادا کے علاوہ آئی ایس باغیوں نے شامی شہر رقصہ کو بھی گھیر لیا، جہاں پر عراق سے اسلحہ بھیجا جا رہا ہے جس میں میزائل بھی شامل ہیں۔

داعش نے جن تنصیبات پر قبضہ کیا ان میں بیجی آئل ریفائنری، عراقی سرحد کے قریب شام کی بڑی العمر آئل فیلڈ، شامی صوبہ دید الزود کے تیل و گیس کے اکثر ذخائر اور بہت سے علاقے شامل ہیں، اس کے علاوہ کیمیائی ہتھیار تیار کرنے والی سابق فیکٹری بھی شامل ہے۔ اس تنصیب میں سرن گیس سے لیس ڈھائی ہزار راکٹ اور اس کے علاوہ کئی دیگر اقسام کے کیمیائی ہتھیار ذخیرہ ہیں۔ عراقی سفیر کے بقول متروکہ کیمیائی ہتھیاروں کے پروگرام میں استعمال ہونے والا مواد اسی فیکٹری کے زیر زمین خفیہ خانوں میں موجود ہے جس پر مسلح جنگجو قبضہ کرسکتے ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ داعش کو اتنی کامیابی کیسے ملی؟ کہ انھوں نے اپنی ایک خودمختار حکومت بھی قائم کرلی ہے۔ آئیے گزشتہ 5 ہفتوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ نینوا شہر سے فوج اور پولیس بھاگ جاتی ہے، دکانیں بند ہوجاتی ہیں، باغی پولیس اسٹیشن کو اور سیکیورٹی فورسز کی گاڑیوں کو بھی جلا دیتے ہیں، صوبائی حکومت کے تمام ہیڈکوارٹرز، آپریشنز کمانڈ اور ایئرپورٹ پر بھی قبضہ کرلیتے ہیں، شہر سے ہزاروں خاندان گاڑیوں میں اور پیدل ہجرت کرجاتے ہیں۔

باغی لاؤڈ اسپیکر پر اعلان کرتے ہیں کہ وہ شہریوں کو آزاد کرانے آئے ہیں اور وہ ان ہی سے لڑیں گے جو ان کے ساتھ لڑائی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ عراقی وزیراعظم نوری المالکی اعلان کرتے ہیں کہ شہریوں کو جنگجوؤں کا مقابلہ کرنے کے لیے مسلح کیا جائے گا۔

ادھر امریکا کہتا ہے کہ عراقی شہر موصل پر باغیوں کا قبضہ انتہائی تشویشناک ہے اور یہ کہ باغی نہ صرف عراق کے استحکام بلکہ سارے مشرق وسطیٰ کے لیے خطرے کا باعث ہیں، واشنگٹن اور بغداد کے امریکی اہلکار القاعدہ کے دھڑے کی پیش قدمی پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور امریکا نے دونوں ملکوں کے مابین سلامتی کے سمجھوتے کے تحت عراقی حکومت کو تمام ضروری امداد فراہم کرنے کا عہد کیا، موصل کی صورتحال بہت زیادہ سنجیدہ ہے اور امریکا چاہتا ہے کہ موصل میں باغیوں کے خلاف مضبوط اور مربوط کارروائی کی جائے۔

امریکا عراقی سرزمین پر امریکی افواج کی تعیناتی کو خارج از امکان قرار دیتا ہے۔ برطانیہ بھی کہتا ہے کہ عراق میں فوج بھیجنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری کہتا ہے کہ عراق کی تمام سیاسی جماعتیں باغیوں کے خلاف متحد ہوجائیں۔ امریکی صدر بارک اوباما کہتے ہیں کہ امریکا عراق میں باغیوں سے لڑنے کے لیے زمینی فوج نہیں بھیجے گا، امریکا اس صورتحال میں عراقی حکومت کی مدد کرے گا لیکن عراق کو اپنے اندرونی اختلافات کو ختم کرنا ہوگا۔

واشنگٹن میں امریکی کانگریس کے نام صدر بارک اوباما کے ایک خط میں کہا گیا ہے کہ 275 امریکی فوجی خاص طور پر بغداد میں قائم امریکی سفارت خانے کی حفاظت کریں گے۔ امریکا نے عراقی صورتحال پر ایران کے براہ راست مذاکرات کی بھی تصدیق کی ہے۔ امریکا نے ایران سے اپیل کی ہے کہ وہ ''فرقہ واریت'' سے دور رہے۔ امریکی حکام نے خبررساں ادارے اے پی کو بتایا ہے کہ امریکا عراق میں سیکیورٹی فورسز کی تربیت کے لیے مختصر پیمانے پر اسپیشل فورسز کی چھوٹی چھوٹی کارروائیوں کے بارے میں غور کر رہا ہے۔

صدر اوباما نے وزیر خارجہ جان کیری کو یورپ اور مشرق وسطیٰ ممالک کے رہنماؤں سے ملاقات کے لیے بھیج دیا تاکہ عراق میں موجود گروپوں میں اتحاد کو برقرار رکھا جائے۔ 23 جون کو امریکی وزیر خارجہ جان کیری بغداد پہنچ گئے۔ وزیراعظم نوری المالکی نے جان کیری سے کہا کہ باغیوں کی پیش قدمی علاقے اور دنیا کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ عراقی وزیر خارجہ ہوشیا زبیری نے باضابطہ طور پر امریکی حکومت سے درخواست کی کہ وہ فضائی مدد فراہم کرے، عراق کے پاس ایک بھی جنگی طیارہ نہیں ہے۔

امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ امریکا جنگجوؤں کی پیش قدمی روکنے کے لیے عراق کو ہر طرح کی امداد فراہم کرے گا۔ انھوں نے عراقی وزیر اعظم نوری المالکی پر زور دیا کہ وہ ملک میں جاری عسکریت پسندی کے خاتمے کے لیے حکومت میں سنی نمایندگی میں اضافہ کریں۔ شیعہ رہنما مقتدیٰ الصدور نے عراق میں باغیوں سے نمٹنے کے لیے امریکی امداد کی مخالفت کی۔ 28 جون کو امریکی فوج نے بھی عراقی فورسز کی معاونت کی جب کہ امریکی جب کہ امریکی ڈرون کی بغداد پر پروازیں بھی جاری رہیں۔

امریکی اخبار نے کہا کہ سنی باغیوں کو روکنے کے لیے ایرانی حکومت عراق کو تعاون فراہم کر رہی ہے اس سلسلے میں ڈرون بھی استعمال کیے جا رہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے شامی جنگجوؤں کے لیڈر احمد جربا پر زور دیا کہ وہ اپنی جماعت کو شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف استعمال کریں۔ 29 جون کو امریکی فوج کے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی جنرل مارٹن ڈیم پسی نے عراق میں شدت پسندوں کے خلاف ٹارگٹڈ فضائی آپریشن کا منصوبہ صدر بارک اوباما کو پیش کیا۔ اے ایف پی کے مطابق عراق میں بدامنی کے باعث امریکا کی طرف سے ایف 16 جنگی طیاروں کی آمد میں تاخیر ہوسکتی ہے۔

یکم جولائی کو عراق اور شام کے شدت پسندوں کی تنظیم داعش کے سربراہ ابوبکر البغدادی نے پاکستان سمیت جنوبی ایشیا تک اپنا نیٹ ورک پھیلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان، بھارت، چین اور ایران میں بھی کارروائیاں کی جائیں گی۔ دنیا بھر کے مسلمان عراق اور شام ہجرت کرکے اسلامی ریاست کی تعمیر و تشکیل میں تعاون کریں، رمضان کے مقدس مہینے میں اللہ کے راستے میں جہاد سے بہتر کوئی اور کام نہیں ہوسکتا۔ جن ممالک میں مسلمانوں کے خلاف ظلم ہو رہے ہیں۔

اﷲ کی قسم ہم ان سے بدلہ لیں گے، دنیا بھر کے مسلمان اسلحہ اٹھالیں، اس موقع کا فائدہ اٹھائیں اور اپنے آباؤ اجداد کی راہ پر قائم رہیں۔ 4 جولائی کو امریکی فوج کے سربراہ مارٹن ڈیمپسی نے کہا کہ نوری المالکی کی فوج نے بغداد کے آس پاس کا دفاع مضبوط بنا لیا ہے تاہم اسے جنگجوؤں کے زیر قبضہ جانے والے علاقے واپس لینے کے لیے بیرونی امداد کی ضرورت ہوگی، امریکا عراق میں سرگرم عمل اسلامی ریاست تنظیم (داعش) کے خلاف کارروائی کا فی الحال کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں