35 لوگ
میرا رابطہ اقبال سے قائم رہا لیکن جن کی ذمے داری گھر کا راشن لانے کی تھی وہ دوسری دکان کی جانب لپکے
''اقبال میڈیکل اینڈ جنرل اسٹور'' سے اس وقت تعلق قائم ہوا جب چھوٹے بچوں کی خریداری کی ذمے داری آئی۔ اقبال صبح دس بجے سے رات دس بجے تک ڈیوٹی دیتا۔ چالیس سالہ دکاندار کی زندگی میں بحران اس وقت آیا جب برابر میں دو نوجوان لڑکوں نے جنرل اسٹور کے ساتھ آٹا، گھی اور دال چاول کی دکان کھول لی۔ میرا رابطہ اقبال سے قائم رہا لیکن جن کی ذمے داری گھر کا راشن لانے کی تھی وہ دوسری دکان کی جانب لپکے۔ دونوں لڑکے صبح سات بجے سے رات ایک بجے تک دکان کھلی رکھتے۔ چھوٹا جلد آجاتا اور بڑا رات گئے تک ڈیوٹی دیتا۔
شام کو رش کے وقت دونوں دکان پر ہوتے۔ اقبال اکیلا تھا اور اس کے لیے بارہ گھنٹوں سے زیادہ ڈیوٹی دینا ممکن نہ تھا۔ وہ اپنی دکان پر ایک دو گاہک اور برابر میں درجنوں لوگوں کو دیکھ کر کڑھتا۔ ایک دن اقبال اپنے پندرہ سالہ بیٹے کو دکان پر لے آیا۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ یہ اب نویں میں گیا ہے۔ وہ لڑکا مشکل سے پڑھنے والا بچہ لگتا تھا۔ اقبال سے کہا کہ وہ دیکھے کہ اس کی آمدنی میں کمی ہوئی ہے؟ تھوڑی دیر سوچ کر اس نے کہا کہ نہیں ایسی تو بات نہیں۔ گزارا ہوجاتا ہے تو اس نے کہا اللہ کا شکر ہے۔ اسے مشورہ دیا کہ پھر بیٹے کو کم ازکم دو چار سال پڑھنے کا موقع دے۔
یہ دیکھے کہ اسے کیا مل رہا ہے، یہ نہ دیکھے کہ دوسرے کو کیا مل گیا ہے۔ ایک دن ہڑتال کی وجہ سے تمام دکانیں بند تھیں۔ اقبال کا میڈیکل اسٹور کھلا تھا۔ فرصت میں اقبال نے کہا کہ آپ سے دو باتیں پوچھنی ہیں۔ پہلی یہ کہ میری آمدنی میں بظاہر کمی لگ رہی تھی کہ گاہک دوسری طرف چلے گئے۔ حساب لگایا تو کمائی دس بیس فیصد بڑھ گئی ہے۔ یہ کیوں؟ اس کا سبب یہ ہے کہ کچھ نئے لوگ یہاں خریداری کرنے آنے لگے ہیں۔ جب وہ جنرل آئٹم کی خریداری کے لیے برابر کی دکان پر بھیڑ دیکھتے ہیں تو آپ کی طرف آجاتے ہیں۔ اگر انھیں دوا کہیں اور سے لینی ہو تو وہ لگے ہاتھوں آپ کی دکان سے خرید لیتے ہیں۔
اقبال اس جواب سے مطمئن تھا کہ یہ اسی کا مشاہدہ تھا۔ دوسرا سوال تھا کہ میں یہ کیوں نہ دیکھوں کہ میرا پڑوسی دکاندار زیادہ کیوں کما رہا ہے؟ کوشش ضرور کرو لیکن ایک بات بتاؤ کہ تمہارے گھر میں شادی کب ہوگی؟ اقبال شرما گیا، میں اس کی دوسری شادی کی بات کر رہا ہوں۔ میں نے کہا کہ میں آپ کے بچے کے نکاح کا ذکر کر رہا ہوں۔ اقبال نے کہا کہ ابھی چھوٹا ہے۔ آپ کے برابر کے دونوں لڑکے تو شادی کی عمر کے ہیں۔
انھیں لاکھوں روپے چاہئیں شادیوں کے لیے۔ اس بات پر اقبال کے چہرے پر اطمینان دیکھا گیا۔ اس سے پوچھا کہ گھر تمہارا اپنا ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ اب اگر آپ کے پڑوسی کے دکاندار لڑکے اپنی اپنی شادیاں کرنا چاہیں تو نہ جانے ان کے اپنے گھر ہیں یا نہیں۔ اس کام کے لیے بھی انھیں لاکھوں چاہئیں۔ اب اقبال کے چہرے پر سکون کی کیفیت دیکھی گئی۔ اس کی الجھن بڑی حد تک ختم ہوچکی تھی کہ وہ رب کی رضا پر راضی نظر آرہا تھا کہ اسے خالق کی حکمتیں سمجھ میں آ رہی تھیں۔
بلاول بھٹو زرداری، مریم نواز، مونس الٰہی، قاسم عمران اور افضا الطاف کے تذکرے کے لیے اقبال کا ذکر ضروری تھا۔ سیاست دانوں کی آنے والی نسل کی بات کرنے سے پہلے دو ڈاکٹروں کی کہانی بھی لازمی ہے۔ نانی کے گھر کے قریب ایک ڈاکٹر تھے جنھیں کیپٹن کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ شاید کچھ عرصہ فوج میں خدمات انجام دی ہوں۔ ان کے کلینک کے باہر اتنا رش ہوتا کہ چیزیں بیچنے والے وہاں آنے لگے تھے۔ نمبر جاری کرنے کے باوجود بھی تل دھرنے کی جگہ نہ ہوتی۔ جب ہم بچوں کو اگر صرف نزلہ زکام یا کھانسی ہوتی تو ماموں دوسرے ڈاکٹر کے پاس لے جاتے۔ کوئی پیچیدہ معاملہ ہو تو ڈاکٹر کیپٹن کے پاس حاضری لگتی۔
دوسرے ڈاکٹر بالکل فارغ بیٹھے ہوتے۔ وہ بڑی تفصیل سے معائنہ کرتے اور بہت ساری باتیں پوچھتے۔ ہم پندرہ بیس منٹ میں فارغ ہوجاتے۔ ماموں کہتے کہ چھوٹی بیماریاں خود بخود بھی ٹھیک ہوجاتی ہیں لیکن گھر کی خواتین فکرمندی سے دوا کے لیے ڈاکٹر کی جانب دوڑتی ہیں۔ ماموں یہ بھی کہتے کہ اگر گھر کا مرد کہے کہ ایک آدھ دن میں بچہ ٹھک ہوجائے گا تو ماں سمجھتی ہے کہ اس کا شوہر کنجوسی کر رہا ہے۔ اس الزام سے بچنے کے لیے بھی بچوں کو اس ڈاکٹر سے دوا دلواتے جس کے پاس بھیڑ تو نہ ہوتی لیکن علاج ہوجاتا۔ پہلے اقبال کی کہانی نے 35 فیصد کالم کی جگہ گھیری اور پھر دو ڈاکٹروں کے ذکر نے آدھے سے زیادہ وقت گزار دیا۔ اس میں سیاست دان اور ان کے بچے کہاں ہیں؟
نواز شریف، آصف زرداری، عمران خان، چوہدری شجاعت اور الطاف حسین کے حامی 85 فیصد سے زیادہ ہوں گے۔ 10 فیصد جماعت اسلامی، جمعیت علما اسلام اور اے این پی کو سمجھ لیا جائے تو بات کرنے میں آسانی ہوگی۔ اب دکانداروں اور ڈاکٹروں کے تذکرے میں سیاستدان کہاں سما رہے ہیں؟ پانچ جمع تین سیاست دانوں کے حامی یعنی تقریباً 100 فیصد قارئین دکانداروں و ڈاکٹروں سے اپنے محبوب سیاسی قائد کا موازنہ کریں۔
دیکھیں کہ چھوٹے کاروباری اور عام ڈاکٹر کیا کرتے ہیں؟ اگر وہی کچھ ہمارے یہ آٹھ سیاستدان کرنے کو راضی ہوجائیں تو نہ ملک میں کوئی احتجاج ہو نہ کوئی مارچ، نہ دھاندلی کا الزام ہو نہ پنکچر لگانے کا طعنہ۔ نہ اسلام آباد کی جانب کوئی دھرنا ہو اور نہ تصادم کا خطرہ۔ کاروباری حضرات، معالجین، انجینئر، وکلا اور اکاؤنٹینٹ کیا کرتے ہیں؟ وہ جو ہمارے سیاستدان نہیں کرتے۔ اگر سیاسی رہنما 10x10 کی دکان، دفتر اور کلینک میں بیٹھنے والوں کے نقش قدم پر نہ چلے تو بلاول، مونس اور قاسم کے ساتھ پاکستان کے تمام نوجوانوں کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔
اقبال کے برابر میں دکان کھل گئی اور خوب چلنے لگی تو کیا دکاندار نے اپنے حریفوں کے خلاف کوئی پروپیگنڈہ کیا؟ الزام لگایا کہ وہ گھٹیا مال بیچتے ہیں؟ کوئی دھونس و دھاندلی کی یا غنڈہ گردی دکھائی؟ یہ صرف اقبال کی کہانی نہیں بلکہ کارزار حیات میں آنے والا ہر شخص یہی کرتا ہے۔ ناکام کارخانوں، بیمار صنعتوں اور اجڑے کاروبار کے مالکان جائز ذرایع سے جدوجہد کرتے ہیں۔ دنیا بھر کے سیاستدان اپنے حریفوں کا مقابلہ دیانت سے کرتے ہیں۔ عوام کسی اور پارٹی کو پذیرائی بخشیں تو خوش دلی سے گھر چلے جاتے ہیں۔ ہمارے لیڈر کیوں زبردستی عوام کے سروں پر مسلط رہنے کی کوشش کرتے ہیں؟
ایک مرتبہ ان کو ووٹ دے کر اقتدار دے دیا تو کیا وہ اس جمع کی ہوئی طاقت سے عوام کو آزادانہ انتخاب کا موقع نہیں دیں گے؟ جب اقبال جیسا عام دکاندار مطمئن رہا اور جب ایک ڈاکٹر کے مقابل دوسرے ڈاکٹر نے کوئی فضول بات یا گھٹیا حرکت نہیں کی تو ہماری قیادت کے دعویدار اعلیٰ معیار کیوں پیش نہیں کرتے ہیں؟ ووٹ صرف انھیں ہی تو نہیں مانگنے ہوتے؟ آدھی سے زیادہ دنیا بیلٹ کے ذریعے اپنے حکمران چن کر جمہوریت اور خوشحالی کی شاہراہ پر سفر کر رہی ہے۔ اس کا راستہ روکنا بلٹ کو دعوت دیتا ہے۔
بلاول کے بابا، مونس کے پاپا اور قاسم کے ڈیڈ اگر طے کرلیں کہ ہم عوام کے فیصلے کو قبول کریں گے تو کسی قانون سازی کی ضرورت نہیں۔ سراج الحق، فضل الرحمن اور اسفند یار کہہ دیں کہ وہ ووٹ کا تقدس برقرار رکھیں گے تو کوئی انتخابی اصلاحات کمیٹی نہ بنانی پڑے۔ اگر یہ طے ہوجائے کہ دکاندار نہ ہو تب بھی کوئی مال نہیں چرائے گا تو تالے اور چوکیدار کی حاجت نہ ہو۔ لاکھوں کروڑوں لوگوں کے کردار کی گارنٹی کوئی نہیں دے سکتا۔ اگر صرف پانچ جمع تین لوگ طے کرلیں کہ وہ کچھ غلط نہیں کریں گے اور نہ ہونے دیں گے تو ملک ترقی و جمہوریت کی شاہراہ پر دوڑ سکتا ہے۔ کیا اعتماد و بھروسہ ایک دوسرے پر کریں گے یہ 3+5 لوگ؟
شام کو رش کے وقت دونوں دکان پر ہوتے۔ اقبال اکیلا تھا اور اس کے لیے بارہ گھنٹوں سے زیادہ ڈیوٹی دینا ممکن نہ تھا۔ وہ اپنی دکان پر ایک دو گاہک اور برابر میں درجنوں لوگوں کو دیکھ کر کڑھتا۔ ایک دن اقبال اپنے پندرہ سالہ بیٹے کو دکان پر لے آیا۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ یہ اب نویں میں گیا ہے۔ وہ لڑکا مشکل سے پڑھنے والا بچہ لگتا تھا۔ اقبال سے کہا کہ وہ دیکھے کہ اس کی آمدنی میں کمی ہوئی ہے؟ تھوڑی دیر سوچ کر اس نے کہا کہ نہیں ایسی تو بات نہیں۔ گزارا ہوجاتا ہے تو اس نے کہا اللہ کا شکر ہے۔ اسے مشورہ دیا کہ پھر بیٹے کو کم ازکم دو چار سال پڑھنے کا موقع دے۔
یہ دیکھے کہ اسے کیا مل رہا ہے، یہ نہ دیکھے کہ دوسرے کو کیا مل گیا ہے۔ ایک دن ہڑتال کی وجہ سے تمام دکانیں بند تھیں۔ اقبال کا میڈیکل اسٹور کھلا تھا۔ فرصت میں اقبال نے کہا کہ آپ سے دو باتیں پوچھنی ہیں۔ پہلی یہ کہ میری آمدنی میں بظاہر کمی لگ رہی تھی کہ گاہک دوسری طرف چلے گئے۔ حساب لگایا تو کمائی دس بیس فیصد بڑھ گئی ہے۔ یہ کیوں؟ اس کا سبب یہ ہے کہ کچھ نئے لوگ یہاں خریداری کرنے آنے لگے ہیں۔ جب وہ جنرل آئٹم کی خریداری کے لیے برابر کی دکان پر بھیڑ دیکھتے ہیں تو آپ کی طرف آجاتے ہیں۔ اگر انھیں دوا کہیں اور سے لینی ہو تو وہ لگے ہاتھوں آپ کی دکان سے خرید لیتے ہیں۔
اقبال اس جواب سے مطمئن تھا کہ یہ اسی کا مشاہدہ تھا۔ دوسرا سوال تھا کہ میں یہ کیوں نہ دیکھوں کہ میرا پڑوسی دکاندار زیادہ کیوں کما رہا ہے؟ کوشش ضرور کرو لیکن ایک بات بتاؤ کہ تمہارے گھر میں شادی کب ہوگی؟ اقبال شرما گیا، میں اس کی دوسری شادی کی بات کر رہا ہوں۔ میں نے کہا کہ میں آپ کے بچے کے نکاح کا ذکر کر رہا ہوں۔ اقبال نے کہا کہ ابھی چھوٹا ہے۔ آپ کے برابر کے دونوں لڑکے تو شادی کی عمر کے ہیں۔
انھیں لاکھوں روپے چاہئیں شادیوں کے لیے۔ اس بات پر اقبال کے چہرے پر اطمینان دیکھا گیا۔ اس سے پوچھا کہ گھر تمہارا اپنا ہے؟ اس نے کہا ہاں۔ اب اگر آپ کے پڑوسی کے دکاندار لڑکے اپنی اپنی شادیاں کرنا چاہیں تو نہ جانے ان کے اپنے گھر ہیں یا نہیں۔ اس کام کے لیے بھی انھیں لاکھوں چاہئیں۔ اب اقبال کے چہرے پر سکون کی کیفیت دیکھی گئی۔ اس کی الجھن بڑی حد تک ختم ہوچکی تھی کہ وہ رب کی رضا پر راضی نظر آرہا تھا کہ اسے خالق کی حکمتیں سمجھ میں آ رہی تھیں۔
بلاول بھٹو زرداری، مریم نواز، مونس الٰہی، قاسم عمران اور افضا الطاف کے تذکرے کے لیے اقبال کا ذکر ضروری تھا۔ سیاست دانوں کی آنے والی نسل کی بات کرنے سے پہلے دو ڈاکٹروں کی کہانی بھی لازمی ہے۔ نانی کے گھر کے قریب ایک ڈاکٹر تھے جنھیں کیپٹن کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ شاید کچھ عرصہ فوج میں خدمات انجام دی ہوں۔ ان کے کلینک کے باہر اتنا رش ہوتا کہ چیزیں بیچنے والے وہاں آنے لگے تھے۔ نمبر جاری کرنے کے باوجود بھی تل دھرنے کی جگہ نہ ہوتی۔ جب ہم بچوں کو اگر صرف نزلہ زکام یا کھانسی ہوتی تو ماموں دوسرے ڈاکٹر کے پاس لے جاتے۔ کوئی پیچیدہ معاملہ ہو تو ڈاکٹر کیپٹن کے پاس حاضری لگتی۔
دوسرے ڈاکٹر بالکل فارغ بیٹھے ہوتے۔ وہ بڑی تفصیل سے معائنہ کرتے اور بہت ساری باتیں پوچھتے۔ ہم پندرہ بیس منٹ میں فارغ ہوجاتے۔ ماموں کہتے کہ چھوٹی بیماریاں خود بخود بھی ٹھیک ہوجاتی ہیں لیکن گھر کی خواتین فکرمندی سے دوا کے لیے ڈاکٹر کی جانب دوڑتی ہیں۔ ماموں یہ بھی کہتے کہ اگر گھر کا مرد کہے کہ ایک آدھ دن میں بچہ ٹھک ہوجائے گا تو ماں سمجھتی ہے کہ اس کا شوہر کنجوسی کر رہا ہے۔ اس الزام سے بچنے کے لیے بھی بچوں کو اس ڈاکٹر سے دوا دلواتے جس کے پاس بھیڑ تو نہ ہوتی لیکن علاج ہوجاتا۔ پہلے اقبال کی کہانی نے 35 فیصد کالم کی جگہ گھیری اور پھر دو ڈاکٹروں کے ذکر نے آدھے سے زیادہ وقت گزار دیا۔ اس میں سیاست دان اور ان کے بچے کہاں ہیں؟
نواز شریف، آصف زرداری، عمران خان، چوہدری شجاعت اور الطاف حسین کے حامی 85 فیصد سے زیادہ ہوں گے۔ 10 فیصد جماعت اسلامی، جمعیت علما اسلام اور اے این پی کو سمجھ لیا جائے تو بات کرنے میں آسانی ہوگی۔ اب دکانداروں اور ڈاکٹروں کے تذکرے میں سیاستدان کہاں سما رہے ہیں؟ پانچ جمع تین سیاست دانوں کے حامی یعنی تقریباً 100 فیصد قارئین دکانداروں و ڈاکٹروں سے اپنے محبوب سیاسی قائد کا موازنہ کریں۔
دیکھیں کہ چھوٹے کاروباری اور عام ڈاکٹر کیا کرتے ہیں؟ اگر وہی کچھ ہمارے یہ آٹھ سیاستدان کرنے کو راضی ہوجائیں تو نہ ملک میں کوئی احتجاج ہو نہ کوئی مارچ، نہ دھاندلی کا الزام ہو نہ پنکچر لگانے کا طعنہ۔ نہ اسلام آباد کی جانب کوئی دھرنا ہو اور نہ تصادم کا خطرہ۔ کاروباری حضرات، معالجین، انجینئر، وکلا اور اکاؤنٹینٹ کیا کرتے ہیں؟ وہ جو ہمارے سیاستدان نہیں کرتے۔ اگر سیاسی رہنما 10x10 کی دکان، دفتر اور کلینک میں بیٹھنے والوں کے نقش قدم پر نہ چلے تو بلاول، مونس اور قاسم کے ساتھ پاکستان کے تمام نوجوانوں کا مستقبل خطرے میں پڑ جائے گا۔
اقبال کے برابر میں دکان کھل گئی اور خوب چلنے لگی تو کیا دکاندار نے اپنے حریفوں کے خلاف کوئی پروپیگنڈہ کیا؟ الزام لگایا کہ وہ گھٹیا مال بیچتے ہیں؟ کوئی دھونس و دھاندلی کی یا غنڈہ گردی دکھائی؟ یہ صرف اقبال کی کہانی نہیں بلکہ کارزار حیات میں آنے والا ہر شخص یہی کرتا ہے۔ ناکام کارخانوں، بیمار صنعتوں اور اجڑے کاروبار کے مالکان جائز ذرایع سے جدوجہد کرتے ہیں۔ دنیا بھر کے سیاستدان اپنے حریفوں کا مقابلہ دیانت سے کرتے ہیں۔ عوام کسی اور پارٹی کو پذیرائی بخشیں تو خوش دلی سے گھر چلے جاتے ہیں۔ ہمارے لیڈر کیوں زبردستی عوام کے سروں پر مسلط رہنے کی کوشش کرتے ہیں؟
ایک مرتبہ ان کو ووٹ دے کر اقتدار دے دیا تو کیا وہ اس جمع کی ہوئی طاقت سے عوام کو آزادانہ انتخاب کا موقع نہیں دیں گے؟ جب اقبال جیسا عام دکاندار مطمئن رہا اور جب ایک ڈاکٹر کے مقابل دوسرے ڈاکٹر نے کوئی فضول بات یا گھٹیا حرکت نہیں کی تو ہماری قیادت کے دعویدار اعلیٰ معیار کیوں پیش نہیں کرتے ہیں؟ ووٹ صرف انھیں ہی تو نہیں مانگنے ہوتے؟ آدھی سے زیادہ دنیا بیلٹ کے ذریعے اپنے حکمران چن کر جمہوریت اور خوشحالی کی شاہراہ پر سفر کر رہی ہے۔ اس کا راستہ روکنا بلٹ کو دعوت دیتا ہے۔
بلاول کے بابا، مونس کے پاپا اور قاسم کے ڈیڈ اگر طے کرلیں کہ ہم عوام کے فیصلے کو قبول کریں گے تو کسی قانون سازی کی ضرورت نہیں۔ سراج الحق، فضل الرحمن اور اسفند یار کہہ دیں کہ وہ ووٹ کا تقدس برقرار رکھیں گے تو کوئی انتخابی اصلاحات کمیٹی نہ بنانی پڑے۔ اگر یہ طے ہوجائے کہ دکاندار نہ ہو تب بھی کوئی مال نہیں چرائے گا تو تالے اور چوکیدار کی حاجت نہ ہو۔ لاکھوں کروڑوں لوگوں کے کردار کی گارنٹی کوئی نہیں دے سکتا۔ اگر صرف پانچ جمع تین لوگ طے کرلیں کہ وہ کچھ غلط نہیں کریں گے اور نہ ہونے دیں گے تو ملک ترقی و جمہوریت کی شاہراہ پر دوڑ سکتا ہے۔ کیا اعتماد و بھروسہ ایک دوسرے پر کریں گے یہ 3+5 لوگ؟