پاکستان ایک نظر میں انقلاب نہیں ارتقاء کی ضرورت ہے

انقلاب لوگوں کی مرضی ومنشاء کے تحت آتا ہے، کسی خود ساختہ قومی لیڈر کی خوائش پر نہیں۔

معاشرہ تو ہے ہی ارتقاء۔ تو پھر کیوں یہ لوگ اس کے در پے ہیں۔ معاشرے انقلابوں سے نہیں،ارتقاء کے زینوں سے بلندی حاصل کرتے ہیں۔

انقلاب کیا ہے؟ تباہی ہے،بربادی ہے۔ خون ریزی ،قتل و غارت ،مار دھاڑ،پورا نظام تلپٹ۔۔۔ اور اس سب کے بعد اُمید رکھنا کہ حالات بلکل ٹھیک ہو جائیں گے، ہر طرف دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی،ہر معاشرتی برائی کا قلع قمع ہو جائے گا اور یک دم ترقی و کامرانی ہمارا مقدر بن جائے گی، یہ کہاں کی دانش مندی ہے؟

انقلاب تو بڑے ظالم ہوا کرتے ہیں اور جب یہ آوارہ ہوں تو پھر کوئی فرق نہیں رہتا،نیک و بد کا،حاکم و محکوم کا ۔ بس ایک عذاب ہوتا ہے جو قدرت لے کر وارد ہوتی ہے۔کوئی آتش فشاں یک دم نہیں پھوٹتا، کوئی کلی دفعتاً پھول نہیں بنتی۔ شباب کو آنے میں کئی موسم لگتے ہیں، فصل کو پکنے میں وقت لگتا ہے، پھل کو لگنے میں صبر چاہیے۔ اور پھر معاشرہ ۔۔۔۔ معاشرہ تو ہے ہی ارتقاء۔ تو پھر کیوں یہ لوگ اس کے در پے ہیں۔ معاشرے انقلابوں سے نہیں،ارتقاء کے زینوں سے بلندی حاصل کرتے ہیں۔ جناب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ و علیہ وسلم اس کائنات کے سب سے بڑے اصلاح کار ہیں۔ آپﷺ نے عرب کی جاہل اور وحشی قوم کو دنیا کے بہترین لوگوں میں بدلا۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ یہ سب ایک ارتقاء کے زریعے ہوا، دھیرے دھیرے، رفتہ رفتہ۔ یہ نہیں کہ دفعتاً سب جڑ سے اُکھاڑ دیا ہو۔

انقلاب لوگوں کی مرضی ومنشاء کے تحت آتا ہے، کسی خود ساختہ قومی لیڈر کی خوائش پر نہیں۔ انقلا ب ہمیشہ مڈل کلاس کے لوگوں کے باعث آتا ہے۔جو پڑھے لکھے ہوں،با شعور ہوں،جنہیں اپنے اور اپنے بچوں کا مستقبل عزیز ہو۔ مگر ہمارے ہاں تو اکثریت سطحِ غربت سے بھی نیچے زندگی گزار رہی ہے، جہاں بھوک اور ذلت زندگی کو اجیرن کر دیتی ہے۔ اور یہ لوگ گردشِ ایام میں غرق دنیا سے بے خبر اپنے پیٹ کی آگ کو کم کرنے میں مگن ہے، ان کی بلا سے کہ کس کی حکومت ہے، کون ان کا نگہبان ہے۔ ان کے لئے کچھ معنی نہیں رکھتا کہ ریاست کہاں جا رہی ہے،معاشرہ کیوں انحطاط پذیر ہے یا اس میں بہتری کیسے لائی جا سکتی ہے۔ ہمارے ہاں مڈل کلاس تو دن بدن گھٹتی جا رہی ہے، عمومی طور پر لوگوں کا معیارِ زندگی کم سے کم ہوتا جا رہا ہے اور ایسے میں جب انسان کی تمام تر نفسیات پر فکرِمعاش پنجے گاڑے بیٹھی ہو،زندگی کی ترجیحات بنیادی سہولتوں کی دستیابی تک محدود ہو جائیں تو صاحب کسی کو کیا فکر کہ ملک کہاں جا رہا ہے۔


اگر ذرا ماضی میں نظر دوڑائیں اور تیونس کی تحریک یاد کریں تو آپ کے پردہ فکر پر یہ بات آشکار ہوگی کہ وہاں ایک نوجوان، محمد باو عزیزی نے آگ لگا کر خود سوزی کی تھی اور پورا تیونس جاگ اُٹھا تھا اور پھر وطنِ عزیز کی حالت ملاحظہ ہو کہ یہاں روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ خود کشی کرتے ہیں یہ قتل کر دیے جاتے ہیں۔ آئے دن مائیں اپنے بچوں سمیت اپنی زندگی کے چراغ گل کر رہی ہیں۔یہ وہی ملک ہے جس کے ایوانِ اعلیٰ کے سامنے سندھ کے رہائشی، راجہ خان نے حالات سے تنگ آکر خود کو جلا کر خود سوزی کر لی تھی او رروزانہ یہاں لوگوں کہ کیڑے مکوڑوں کی طرح مسلا جا رہا ہے، کیا ان حالات کی سنگینی کسی بھی طرح تیونس سے کم ہے، نہیں۔ مگر کیا ہوا، میں خاموش،آپ خاموش۔کوئنیں کے سارے مینڈک خاموش۔اور پھر دعوے انقلاب کے۔ کوئی شرم،غیرت،حمیت،ندامت نہیں۔ ضمیر ہیں جو مر چکے۔

انقلاب ایسے طوفان کی مانند ہے جو ایک پورے نظامِ حیات کو جڑ سے نکال پھینکتا ہے اور اس کی جگہ پھر نئی زندگی جنم لیتی ہے۔ انقلاب ایک متبادل اور موثر آلٹر نیٹو لاتا ہے جو نظام کو دوبارہ سے استوار کر سکیں اور فرض کیجیے کہ اگر یہاں ایسا کچھ ہو بھی گیا تو کیا ہمارے پاس وہ متبادل اور موثر آلٹر نیٹ موجود ہے جو اس نظام کو ٹھیک کر سکے؟ بلکل نہیں کیونکہ اگر ہم اتنے ہی قابل اور مخلص ہوتے تو کبھی ہماری یہ حالت نہ ہوتی۔ جب باغبان ہی نکما ہو تو چمن کی ویرانی کا گلہ کیا ؟

پاکستان جیسے ملک میں ایسے آفاقی انقلاب کم ہی آتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ جس ڈگر پر گامزن ہے اسے خلوص، محبت اور محنت سے سنوارنے کی ضرورت ہے اس کی خوبصورتی اور جانداری کو واپس لانے کے لئے بڑی تندہی اور دیانت داری سے کام کرنا ہوگا، اسے ارتقاء کے رستے پر گامزن کرنا ہوگا۔ اور یہ صرف خوائش سے نہیں بلکہ سخت اقدامات سے ہی ہو پائے گا۔اپنی اصلاح کر کے، اپنے آس پاس کے لوگوں کی اصلاح کر کے۔ ظلم اور غلامی کے طوق توڑ کر،ایک پاک اور آزاد انسان کی طرح ۔ایک پاکستانی کی طرح۔ یہ چمن آپ کا منتظر ہے،اس کی مٹی کا آپ پر قرض ہے۔ اپنے حصے کا چراغ جلاتے جائیے،اپنے حصے کی ذمہ داری نبھاتے جائیے تاکہ آپ کو نہ سہی آپ کے بچوں کو ایک پُر امن اور مستحکم پاکستان مل سکے۔ توکل رکھیے آپ کہ محنت رائے گاں نہیں جا ئے گی، قدرت بڑی ہی منصف ہے۔ یہ جزا و سزا کے معاملات میں کوئی قرض باقی نہیں رکھتی۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔
Load Next Story