بات چل نکلی ہے

پاکستان میں لفظ ’’انقلاب‘‘ کے متعارف کرانے والوں کا تعلق بائیں بازو کی سیاسی طاقتوں سے ہے ۔۔۔


Zaheer Akhter Bedari August 12, 2014
[email protected]

UNITED NATIONS: کسی طبقاتی نظام کے حامل ملک میں انقلابی قوتیں کمزور منتشر اور موقع پرستی کا شکار ہوتی ہیں اور عوامی انقلاب کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں تو ایسے ملک میں قدم قدم انقلاب کی طرف پیش قدمی کی ضرورت ہوتی ہے۔

پاکستان میں کوئی ایسی سیاسی جماعت موجود نہیں جو انقلاب کی سمت پیش رفت کے لیے عوام کی رہنمائی کرسکے جب ایسی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے تو اصلاحی انقلاب کے حامی سامنے آتے ہیں اور اپنے اپنے وژن کے مطابق انقلاب کے نعرے بلند کرتے ہیں لیکن چوں کہ وژن اور انقلابی منصوبہ بندی کے حوالے سے ایسی قوتیں ناپختہ اور کنفیوزڈ ہوتی ہیں اور عوام کو ساتھ چلائے بغیر محض اپنی پارٹی کی قیادت میں پارٹی کے کارکنوں کی طاقت کے ساتھ تبدیلیوں اور انقلاب کی باتیں کرتی ہیں جس کی وجہ سے عوام کی اکثریت ذہنی اور نظریاتی انتشار کا شکار ہوکر اس قسم کے نیم پختہ انقلاب کی حمایت میں متذبذب ہوتی ہے اس صورت حال میں اہل فکر، اہل دانش اور اہل قلم کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اس نازک وقت میں عوام کی درست سمت میں رہنمائی کریں۔

اس سے قبل کہ میں موجودہ سیاسی محاذ آرائی کے حوالے سے عوام کے کنفیوژن کو دور کرنے کی کوشش کروں پہلے اس بات کا مختصراً جائزہ لوں کہ آج ہر طرف نا پختہ اور پرفریب انقلابی نعروں کی جو گونج سنائی دے رہی ہے کیا یہ اچانک یا حادثاتی طور پر ابھرنے والی کوئی آوازیں ہیں یا ماضی کی کوششوں اور قربانیوں کا حاصل ہیں۔؟

پاکستان میں لفظ ''انقلاب'' کے متعارف کرانے والوں کا تعلق بائیں بازو کی سیاسی طاقتوں سے ہے اگرچہ بائیں بازو کے اس انقلاب کا تعلق ملک کے معروضی حالات سے نہیں رہا بلکہ روس اور چین کے انقلابات کی اندھی پیروکاری سے رہا لیکن اس کے باوجود پاکستان میں انقلاب کے تصور کی تشہیر کا کریڈٹ بائیں بازو اور ان کی قربانیوں کو جاتا ہے۔ روس، چین نظریاتی اختلافات روس چین کا مسئلہ تھا لیکن ان اختلافات میں پاکستان سمیت دنیا بھر کے بائیں بازو کی طاقتوں نے اپنے آپ کو ملوث کرکے ایک انتشار برپا کردیا۔

اس مختصر وضاحت کے بعد ہم جب موجودہ خطرناک حالات کی طرف آے ہیں تو ایک بھیانک تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے رہنما علامہ طاہر القادری اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان انقلاب اور نئے پاکستان کے نام پر جس طرح حکومت برسر پیکار ہیں اس کی وجہ سے ملک ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہوگیا ہے۔ حکومت جمہوریت کی بقا کے نام پر طاہر القادری اور عمران خان کی تحریکوں کو ریاستی طاقت سے جس بربریت کے ساتھ کچلنے کی کو شش کررہی ہے پاکستان کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

دفعہ 144 نافذ کی گئی، بڑے شہروں لاہور اور اسلام آباد کی تمام اہم سڑکوں کو کنٹینرز لگاکر بند کردینا، پٹرول اور سی این جی اسٹیشن بند کرنا، موبائل کے استعمال پر پابندی، احتجاجی قافلوں کو لاہور اور اسلام آباد آنے سے روکنے کے لیے ریاستی طاقت کا بے دریغ استعمال آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج کا سیاسی مقاصدکے لیے استعمال طاہر القادری کے خلاف تعاون اور عوام کو حکومت کے خلاف اکسانے کے بے شمار مقدمات منہاج القرآن سیکریٹریٹ پر دھاوا بولنے کی تیاریاں، یہ وہ اقدامات ہیں جو حکمران اپنی حکومت بچانے کے لیے کررہے ہیں جن کی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔

پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کی بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ، کارکنوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاری، کارکنوں پر ریاستی طاقت کے بہیمانہ استعمال کی وجہ سے علامہ طاہر القادری نے 10 اگست کو منہاج القرآن کے مرکز پر یوم شہداء منانے کا جو اعلان کیا تھا اسے واپس لے کر علامہ نے اپنے کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں یوم شہداء منائیں۔

یہ صورتحال جذباتی تقاریر کا نتیجہ ہے لیکن اس موقع پر علامہ کے کارکنوں نے اپنی طاقت کا جو مظاہرہ کیا اس نے ریاستی طاقت کے غبارے سے ہوا نکال دی اب تک 22 کارکن ریاستی طاقت کی نذر ہوچکے ہیں، ہزاروں زخمی بتائے جارہے ہیں۔ اس پر عمران خان کے ہر حال میں 14 اگست کو اسلام آباد پہنچنے کے اعلان نے خطرناک صورت حال پیدا کردی ہے۔ پورا ملک ایک سخت ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہوگیا ہے۔

نواز شریف نے اس صورت حال سے گھبراکر سیاست دانوں کا جو اجلاس بلایا تھا اس میں ملک کے ''نامور'' سیاست دانوں نے شرکت کی اور نواز شریف کو یقین دلایا کہ وہ کسی قیمت پر ''جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے'' عوام کا کہناہے کہ جس ملک میں جمہوریت نام کی کسی چیز کا وجود ہی نہیں اس کے ڈی ریل ہونے کی بات کرنا بڑی حماقت اور موقع پرستی کے علاوہ کیا ہوسکتی ہے۔ عوام میں یہ تاثر بھی موجود ہے کہ جو لوگ جمہوریت کے نام پر حکومت کو بچانے کی کوشش کررہے ہیں ان کے دامن جمہوریت کے ثمرات سے بھرے ہوئے ہیں اور ان ثمرات کے تحفظ کے لیے ہی یہ محترم سیاست دان اور ان کے ہمنوا جمہوریت کی ہر قیمت پر حفاظت کا یقین دلارہے ہیں۔

کسی بھی ملک میں طبقاتی انقلاب کے امکانات معدوم ہوجاتے ہیں تو اہل دانش ہر اس تحریک کی حمایت کرتے ہیں جو انقلاب کی سمت دو قدم آگے جاتی نظر آتی ہے۔ انقلاب کی سمت میں پیش رفت کی راہ میں ہر جگہ ریاستی طاقت سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے لیکن کچھ ایسی بھی رکاوٹیں ہوتی ہیں جو معا شرے کو تبدیلیوں کی طرف پیش قدمی سے روکتی ہیں۔ ان رکاوٹوں میں سب سے بڑی رکاوٹ جاگیردارانہ نظام ہے جو 66 سال سے ملک کو حقیقی جمہوریت کی طرف بھی جانے نہیں دیتا۔ تبدیلیوں کی سمت میں مثبت پیش رفت کے لیے زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ شرط اول ہے۔

ہمارے ملک میں جمہوریت کے نام پر مغل دور کی جو بادشاہتیں قائم کردی گئی ہیں ان کا خاتمہ دوسری اہم شرط ہے۔ جمہوری ملک میں نچلی سطح سے سیاسی قیادت پیدا کرنے اور عوام کو انتظامی اور مالی امور میں با اختیار بنانے کے لیے بلدیاتی نظام ضروری ہے۔ بامعنی تبدیلیوں کی سمت میں پیش رفت کے لیے بلدیاتی نظام کا احیا تیسری شرط ہے۔ ہمارا انتخابی نظام نہ صرف بے ایمانیوں، دھاندلیوں کا مرکز ہے بلکہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکتا ہے۔ اس نظام میں صرف ارب پتی، سرمایہ کار حصہ لے سکتے ہیں اس نظام میں بامعنی تبدیلی، انقلاب کی سمت آگے بڑھنے کی چوتھی شرط ہے۔

چوں کہ ہمارے ملک میں طبقاتی انقلاب کے بوجوہ امکانات معدوم ہیں اور عوام میں نہ انقلابی ذہن پیدا ہوسکا ہے نہ ملک میں عوامی اور طبقاتی انقلاب کی قیادت کرنے والی کوئی سیاسی جماعت موجود ہے اس لیے اس سمت میں دو قدم آگے جانے کے لیے یہ چار شرطیں پوری ہونا ضروری ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ چار شرطیں پوری کرنے کے دعوے اور ان پر عمل درآمد کا اعلان کون سی جماعتیں کررہی ہیں۔؟ پاکستان عوامی تحریک یہ چاروں اقدامات کا اعلان کررہی ہے۔ عمران خان کی تحریک انصاف ''خاندانی بادشاہت'' کو ختم کرنے کے لیے پر عزم نظر آتی ہے، ان دو جماعتوں کے علاوہ باقی تمام بڑی اور چھوٹی جماعتیں ''جمہوریت'' کا پرچم بلند کیے ہوئے ہیں جس کا اس ملک میں کوئی وجود ہی نہیں۔

ماضی کے تجربات حال کے حالات کے پس منظر میں ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اس غیر یقینی صورت حال اور ہیجانی کیفیت کا نتیجہ مارشل لاء ہی کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ بلا شبہ مارشل لاء اور فوجی حکومتیں اس ملک کے عوام کے مسائل کا حل ہیں نہ اس ملک کے مستقبل کے لیے نیک شگون۔ اس حوالے سے عوام کی اجتماعی طاقت کو اس قدر موثر ہونا چاہیے کہ کوئی حکومت، کوئی اپوزیشن کسی فوجی حکومت کو اس وقت تک قبول نہ کیا جائے اس وقت تک اس کی حمایت نہ کی جائے جب تک وہ ان چار شرائط کو پورا کرنے کی ضمانت فراہم نہیں کرتی۔

اگر یہ چار شرائط نواز شریف کی حکومت بھی پوری کرنے کے لیے تیار ہو تو عوام نواز حکومت کی حمایت کرنے کے لیے تیار ہوجائیںگے۔ کیوں کہ آگے بڑھنے کے لیے ان چار رکاوٹوں کو دور کرنا ضروری ہے اور عوام اپنی حمایت سے ان چار شرائط کو مشروط کریں۔ ''بات چل نکلی ہے اب دیکھیں کہاں تک پہنچتے''روایتی انقلاب کا راگ ملہار گانے والوں کو بھی ان چا شرائط کے ساتھ اپنی حمایت کو مشروط کرنا چاہیے اور اپنی نظریاتی کھوکھوں سے باہر نکل کر تبدیلیوں کے اس عمل کا حصہ بننا چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں