وہ لاگ بک کہاں گئی
ساحل سمندر کی موجوں کا انسانوں سے ناتا پرانا ہے ،کوئی نیا نہیں ۔۔۔
آپ میں سے کتنوں کو عین خوشی کے موقعے پر انتہائی غم سہنے کا تجربہ ہوا ہے ۔خدا یہ وقت کسی کو نہ دکھائے اور نہ کسی پر لائے ۔ایسے وقت کا دکھ زیادہ المناک اور قلب پاش ہوتا ہے خونی رشتے بھائی، شوہر، باپ نہ ہوں تو ان کی کمی عید جیسے تہوار پر اور زیادہ درد کے ساتھ محسوس ہوتی ہے مگر یہ بھی کیا اندوہناک المیہ ہے کہ عین عیدالفطر جیسی خوشی ومسرت کے دنوں میں بہنیں اپنے بھائی،بیوی اپنے شوہر اور بچے اپنے باپ کی ہلاکت کی روح فرسا خبریں سنیں ۔پیروں سے زمین کیسے نکلتی ہے، کوئی ذرا اس سے پوچھے جس کا دل کا ٹکڑا،آنکھوں کی ٹھنڈک اور زندگی کا سہارا سمندر کی لہروں نے نگل لیا ہو اور تلاش بسیار کے باوجود نہ ملتا ہو۔
ساحل سمندر کی موجوں کا انسانوں سے ناتا پرانا ہے ،کوئی نیا نہیں البتہ تاریخ کلاچی کو کھنگالیں تو قیام پاکستان کے بعد 20 سے25برسوں میں سمندر میں ڈوب کرمرنے والوں کا کوئی واقعہ خال خال ہی ملتا ہے۔ انگریز کے دور حکومت میں جب مخصوص موسم میں سمندر کے جوار بھاٹے بے قابو ہوتے تھے تواس وقت بھی قانونی دفعات لگا کر عوام الناس کو خطرات سے آگاہ کر دیا جاتا تھا۔ مزید یہ کہ تقریباً ہر چند میل کے فاصلے پر سنتری پہریداری کرتے تھے تاکہ مچھیروں سمیت دیگر شہریوں کو ساحلی پٹی سے دور رکھا جائے۔بلدیاتی انتظامات اور امورکی نگرانی کے لیے کمشنر جیسا منصب اور نگراں وقت کی ضرورت تھا۔
اس وقت کراچی شہر کی آبادی زیادہ سے زیا دہ لاکھوں کے نفوس پر مشتمل تھی انتظامی امور با آسانی نمٹائے جاتے تھے بلکہ ایک روایت کے مطابق کراچی کے قدیم اور نو آبادیوں کا ریکارڈ بھی ایک لاگ بک میں رکھا جاتا تھا تاکہ کسی بھی غیر متوقع صورتحال میں فوری رد عمل کر کے نقصان پر قابو یا اسے کم سے کم کیا جا سکے۔ میرا مقصد یہاںانگریزوں کی مدح سرائی نہیں بلکہ ایک تقابلی نظر ثانی کے تحت اپنے انتظامی، فکری ٹھیٹ پن کو سامنے لانا ہے۔
انگریز دور اور حکومت جاتے وقت بہت سی عادتیں، خصلتیں اور سب سے بڑھ کرغلامانہ طرز سوچ ہمیں ودیعت کر کے گیا۔یہ غلامانہ طرز سوچ اور آج کے دور میںبد عنوانی اور نا جائزکمائی کے حصول کی بے لگام روش ہے جو آج بھی ہمیں کمشنری نظام کو سینے سے لگانے پر مجبور کیے ہوئے ہے۔اپنے پیشے کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہفتے میں کئی بارکمشنر کراچی کی زیارت کا موقع ملتا رہتا ہے۔کمشنر صاحبان کے دفاتر میں اگر کبھی انتظار کرنا پڑجائے تو بہت سے پہلوؤں پر بنظر غائر مشاہدہ کرنے کا موقع میسر آجاتا ہے۔
کمشنر صاحبان سے ملنے والے افراد کسی نہ کسی جماعت ، انجمنوں ، سماجی گروپوں کے نمایندگان ہی ہوتے ہیں جو بہرحال معاشرے میں کسی نہ کسی قد کاٹھ کے مالک ہوتے ہیں جو اپنے مسائل کے حل یا کسی جانب توجہ دلانے کے لیے کمشنر کے پاس قدم رنجہ فرماتے ہیں اس کے علاوہ کمشنر حضرات کی مصروفیت میں سماجی تقریبات میں شرکت بھی شامل ہوتی ہے۔ اعلیٰ سطحی اجلاس اور وزیراعلیٰ سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے وفود سے ملاقاتیں بھی ان کے فرائض منصبی میں شامل ہیں۔ایسے میں یہ بات شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ عام آدمی کی زندگی میں پیش آنیوالے واقعات اور مسائل تو کمشنر سے تو بہت دور ہوتے ہیں۔
ایک عام آدمی کی زندگی کیسے گزرتی ہے ، اس کے کیا دکھ ، درد اور مسائل ہیں، کمشنر ان سے یکسر لاعلم ہوتا ہے۔ایسے میں عام آدمی کی سوسائٹی پر اچانک پڑنے والی افتاد سے کیسے نمٹا جائے،کمشنر اس فن سے مکمل طور سے بے بہرہ ہوتا ہے۔عام لوگوں کے مسائل سے لاعلم شخص ان کے حل کے لیے کر بھی کیا سکتا ہے۔انگریز دور میں کمشنریٹ ایک اعلیٰ سطحی منصب تھا جس کے احکامات پر بلا تعمل عمل درآمد ہوتا تھا۔بلا تعامل عمل درآمد یا کارروائی کی کامیاب تکمیل کی وجہ یہ تھی کہ کراچی شہر کی آبادی محض چند لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔
تمام علاقوں کی مفصل معلومات ہونے کے سبب کمشنر بہتر حل تلاش کر کے متعلقہ اداروں کو قابل عمل اور منطقی ہدایت دینے کے قابل تھا تاہم آج کے دور میں جہاں کراچی کی آبادی کروڑ سے زائد ہے اور مسائل کا عفریت معاشرے کو کھا رہا ہے، وہاں کمشنر کی صلاحیت ناکافی اور اس کی ہدایت غیر موثر ہوجاتی ہیں۔گزشتہ رمضان میں اشیائے صرف کے معیار اور قیمتوں پر کنٹرول میں ناکامی اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ دوسری جانب چونکہ پولیس اور بلدیاتی انتظامی ادارے خود ہی اندرونی مسائل اور فنڈز کی قلت یا خورد برد کا شکار ہیں، اس لیے وہ کمشنر کی ہدایت پر کہاں توجہ دے سکتے ہیں۔
جب شہر میں بلدیہ عظمیٰ جیسے ادارے بنیادی ذمے داریاں جیسے صفائی ستھرائی،نقل و حمل، ٹرانسپورٹ،اور صحت عامہ کی فراہمی میں ناکام ہوں تو ایسے میں ساحل سمندر پر کون توجہ دیتا ہے۔پنجاب ہو یا سندھ کی مثال۔ایک بات واضح طور پر محسوس ہوتی ہے کہ جتنے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل،بلدیاتی انتظامی مسائل کے حل،اور عام آدمی کی حالت زار کی درستگی اور اس پر توجہ ناظمین کے دور میں ملی ہے،اتنی کمشنری نظام میں ملنا تو دور کی بات، اس کی بو تک تلاش نہیں کی جاسکتی۔
ناظمین کا دور وہ دور تھا جس میں ایک محلے، ضلع،علاقے یا گوٹھ اور گائوں میں رہنے والے عام لوگوں کے درمیان رہنے والا فرد ایک ایسے منصب پر فائز تھا جو ان کے مسائل اور ان کی طرز زندگی کے بارے میں بہتر علم رکھتا تھا اور اسی لیے وہ ان کے حل پر توجہ دیتا تھا۔بلدیہ عظمیٰ وفاق سے ملنے والے فنڈز کی خورد برد میں ملوث نہیں تھی بلکہ یہ رقم شہری تعمیر و ترقی میں صرف ہوتا تھا ۔ آج کراچی اور بالخصوص اولڈ سٹی ایریاز پر نظر ڈالیں، آپ کو خود اس بات کا اندازہ ہو جائے گا کہ یہ بات کہاں تک درست ہے۔
کراچی گزشتہ آٹھ سالوں سے لسانیت، فرقہ واریت، ٹارگٹ کلنگ اورقبضوں کی جنگ کے باعث جلتا رہا ہے،گزشتہ تین سالوں سے اب یہ ابل بھی رہا ہے۔ لاشیںٕ مسلسل گر رہی ہیں ۔ کون کس لیے مارا جارا ہے کسی کو دلچسپی نہیں، آپریشن جاری ہے ۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی کارکردگی سمجھنے کے لیے شہرکے اسی فیصد علاقوں میں ابلتے ہوئے گندے اور غلیظ ترین پانی کے گٹر کافی ہیں ۔ڈھٹائی کا یہ حال ہے کہ واٹر بورڈ یہ ذمے داری بلدیہ عظمیٰ پر جب کہ بلدیہ عظمیٰ خراب انفرا اسٹرکچر کی ذمے داری واٹر بورڈ پر عائد کرتی ہے۔
ذرا کراچی شہر کی خستہ حال سڑکوں، بے ہنگم ٹریفک، مکانات کی غیر قانونی تعمیرات، ساحل سمندر پر حفاظتی اقدامات کرنے جیسی ذمے داریوں پر غور کریں، بلدیہ عظمیٰ ان سے بھی دامن چھڑاتی نظر آتی ہے۔ بلدیہ عظمیٰ سمیت کسی ادارے کے پاس شہریوں کے مسائل اور اپنے وسائل کا کوئی ریکارڈ تک موجود نہیں ہے۔ وہ ریکارڈ جسے اپ ڈیٹ رکھنا کامیاب انتظامی امور اور اس پر قدرت رکھنے کی ضمانت ہے۔
سی ویو پر تیس سے زائد لوگوں کی ہلاکت پر افسوس اور اپنی غفلت کا اعتراف کرنے کے بجائے ایڈمنسٹریٹر کراچی نے کیا دلفریب بیان دیا ۔ انھوں نے کہا کہ مون سون کی پہلی بارش میں بلدیہ عظمیٰ کے پیشگی اقدامات سے کوئی جانی و مالی نقصان نہیں ہوا۔یہ وہ بیان تھا جسے سن اور پڑھ کر دماغ کی رگیں پھٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں ۔ ایڈمنسٹریٹر کراچی کو سی ویو پر ہلاکتوں کا گویا علم ہی نہیںہے ۔
مون سون کی پہلی بارش جو محض آدھے گھنٹے سے زائد بھی نہیں تھی، اس کی وجہ سے شہر کے رہے سہے گٹر بھی ابل پڑے۔حال یہ ہے کہ برساتی اور عام نالوں کا گندا پانی گویا صرف چند منٹ کی مزید تیز بارش کا منتظر ہے کہ یہ بارش ہو اور یہ باہر نکل کر تباہی پھیلائے۔پھر جس طرح سی ویو پر انسانی جانیں ضایع ہوئیں ویسے ہی نہ جانے کتنی جانیں ان نالوں اور گٹر وں کی نذر ہو جائیں گی۔
یہ بے لاگ تجزیہ پیشہ ورانہ مشاہدے کا نتیجہ ہے، اس لیے اگر کسی کی دل آزاری ہوتی ہو تو انتہائی معذرت مگر...کمشنر، اور ایڈمنسٹریٹربلدیہ عظمیٰ کو شہریوں کے مسائل اور درد کا احساس ہونا چاہیے اور اس کے حل کے لیے بہترین آغاز اپنے گردو پیش اور موجودہ مسائل کا علم رکھنے سے ہی ہوگا۔اس لیے بہتر ہے کہ شہری علم کو کسی لاگ بک میں محفوظ کریں، بالکل اسی طرح جیسے کلاچی کے دور میں انگریز سرکار کرتا تھا۔
ساحل سمندر کی موجوں کا انسانوں سے ناتا پرانا ہے ،کوئی نیا نہیں البتہ تاریخ کلاچی کو کھنگالیں تو قیام پاکستان کے بعد 20 سے25برسوں میں سمندر میں ڈوب کرمرنے والوں کا کوئی واقعہ خال خال ہی ملتا ہے۔ انگریز کے دور حکومت میں جب مخصوص موسم میں سمندر کے جوار بھاٹے بے قابو ہوتے تھے تواس وقت بھی قانونی دفعات لگا کر عوام الناس کو خطرات سے آگاہ کر دیا جاتا تھا۔ مزید یہ کہ تقریباً ہر چند میل کے فاصلے پر سنتری پہریداری کرتے تھے تاکہ مچھیروں سمیت دیگر شہریوں کو ساحلی پٹی سے دور رکھا جائے۔بلدیاتی انتظامات اور امورکی نگرانی کے لیے کمشنر جیسا منصب اور نگراں وقت کی ضرورت تھا۔
اس وقت کراچی شہر کی آبادی زیادہ سے زیا دہ لاکھوں کے نفوس پر مشتمل تھی انتظامی امور با آسانی نمٹائے جاتے تھے بلکہ ایک روایت کے مطابق کراچی کے قدیم اور نو آبادیوں کا ریکارڈ بھی ایک لاگ بک میں رکھا جاتا تھا تاکہ کسی بھی غیر متوقع صورتحال میں فوری رد عمل کر کے نقصان پر قابو یا اسے کم سے کم کیا جا سکے۔ میرا مقصد یہاںانگریزوں کی مدح سرائی نہیں بلکہ ایک تقابلی نظر ثانی کے تحت اپنے انتظامی، فکری ٹھیٹ پن کو سامنے لانا ہے۔
انگریز دور اور حکومت جاتے وقت بہت سی عادتیں، خصلتیں اور سب سے بڑھ کرغلامانہ طرز سوچ ہمیں ودیعت کر کے گیا۔یہ غلامانہ طرز سوچ اور آج کے دور میںبد عنوانی اور نا جائزکمائی کے حصول کی بے لگام روش ہے جو آج بھی ہمیں کمشنری نظام کو سینے سے لگانے پر مجبور کیے ہوئے ہے۔اپنے پیشے کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہفتے میں کئی بارکمشنر کراچی کی زیارت کا موقع ملتا رہتا ہے۔کمشنر صاحبان کے دفاتر میں اگر کبھی انتظار کرنا پڑجائے تو بہت سے پہلوؤں پر بنظر غائر مشاہدہ کرنے کا موقع میسر آجاتا ہے۔
کمشنر صاحبان سے ملنے والے افراد کسی نہ کسی جماعت ، انجمنوں ، سماجی گروپوں کے نمایندگان ہی ہوتے ہیں جو بہرحال معاشرے میں کسی نہ کسی قد کاٹھ کے مالک ہوتے ہیں جو اپنے مسائل کے حل یا کسی جانب توجہ دلانے کے لیے کمشنر کے پاس قدم رنجہ فرماتے ہیں اس کے علاوہ کمشنر حضرات کی مصروفیت میں سماجی تقریبات میں شرکت بھی شامل ہوتی ہے۔ اعلیٰ سطحی اجلاس اور وزیراعلیٰ سمیت دیگر سیاسی جماعتوں کے وفود سے ملاقاتیں بھی ان کے فرائض منصبی میں شامل ہیں۔ایسے میں یہ بات شدت سے محسوس ہوتی ہے کہ عام آدمی کی زندگی میں پیش آنیوالے واقعات اور مسائل تو کمشنر سے تو بہت دور ہوتے ہیں۔
ایک عام آدمی کی زندگی کیسے گزرتی ہے ، اس کے کیا دکھ ، درد اور مسائل ہیں، کمشنر ان سے یکسر لاعلم ہوتا ہے۔ایسے میں عام آدمی کی سوسائٹی پر اچانک پڑنے والی افتاد سے کیسے نمٹا جائے،کمشنر اس فن سے مکمل طور سے بے بہرہ ہوتا ہے۔عام لوگوں کے مسائل سے لاعلم شخص ان کے حل کے لیے کر بھی کیا سکتا ہے۔انگریز دور میں کمشنریٹ ایک اعلیٰ سطحی منصب تھا جس کے احکامات پر بلا تعمل عمل درآمد ہوتا تھا۔بلا تعامل عمل درآمد یا کارروائی کی کامیاب تکمیل کی وجہ یہ تھی کہ کراچی شہر کی آبادی محض چند لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔
تمام علاقوں کی مفصل معلومات ہونے کے سبب کمشنر بہتر حل تلاش کر کے متعلقہ اداروں کو قابل عمل اور منطقی ہدایت دینے کے قابل تھا تاہم آج کے دور میں جہاں کراچی کی آبادی کروڑ سے زائد ہے اور مسائل کا عفریت معاشرے کو کھا رہا ہے، وہاں کمشنر کی صلاحیت ناکافی اور اس کی ہدایت غیر موثر ہوجاتی ہیں۔گزشتہ رمضان میں اشیائے صرف کے معیار اور قیمتوں پر کنٹرول میں ناکامی اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ دوسری جانب چونکہ پولیس اور بلدیاتی انتظامی ادارے خود ہی اندرونی مسائل اور فنڈز کی قلت یا خورد برد کا شکار ہیں، اس لیے وہ کمشنر کی ہدایت پر کہاں توجہ دے سکتے ہیں۔
جب شہر میں بلدیہ عظمیٰ جیسے ادارے بنیادی ذمے داریاں جیسے صفائی ستھرائی،نقل و حمل، ٹرانسپورٹ،اور صحت عامہ کی فراہمی میں ناکام ہوں تو ایسے میں ساحل سمندر پر کون توجہ دیتا ہے۔پنجاب ہو یا سندھ کی مثال۔ایک بات واضح طور پر محسوس ہوتی ہے کہ جتنے ترقیاتی منصوبوں کی تکمیل،بلدیاتی انتظامی مسائل کے حل،اور عام آدمی کی حالت زار کی درستگی اور اس پر توجہ ناظمین کے دور میں ملی ہے،اتنی کمشنری نظام میں ملنا تو دور کی بات، اس کی بو تک تلاش نہیں کی جاسکتی۔
ناظمین کا دور وہ دور تھا جس میں ایک محلے، ضلع،علاقے یا گوٹھ اور گائوں میں رہنے والے عام لوگوں کے درمیان رہنے والا فرد ایک ایسے منصب پر فائز تھا جو ان کے مسائل اور ان کی طرز زندگی کے بارے میں بہتر علم رکھتا تھا اور اسی لیے وہ ان کے حل پر توجہ دیتا تھا۔بلدیہ عظمیٰ وفاق سے ملنے والے فنڈز کی خورد برد میں ملوث نہیں تھی بلکہ یہ رقم شہری تعمیر و ترقی میں صرف ہوتا تھا ۔ آج کراچی اور بالخصوص اولڈ سٹی ایریاز پر نظر ڈالیں، آپ کو خود اس بات کا اندازہ ہو جائے گا کہ یہ بات کہاں تک درست ہے۔
کراچی گزشتہ آٹھ سالوں سے لسانیت، فرقہ واریت، ٹارگٹ کلنگ اورقبضوں کی جنگ کے باعث جلتا رہا ہے،گزشتہ تین سالوں سے اب یہ ابل بھی رہا ہے۔ لاشیںٕ مسلسل گر رہی ہیں ۔ کون کس لیے مارا جارا ہے کسی کو دلچسپی نہیں، آپریشن جاری ہے ۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی کارکردگی سمجھنے کے لیے شہرکے اسی فیصد علاقوں میں ابلتے ہوئے گندے اور غلیظ ترین پانی کے گٹر کافی ہیں ۔ڈھٹائی کا یہ حال ہے کہ واٹر بورڈ یہ ذمے داری بلدیہ عظمیٰ پر جب کہ بلدیہ عظمیٰ خراب انفرا اسٹرکچر کی ذمے داری واٹر بورڈ پر عائد کرتی ہے۔
ذرا کراچی شہر کی خستہ حال سڑکوں، بے ہنگم ٹریفک، مکانات کی غیر قانونی تعمیرات، ساحل سمندر پر حفاظتی اقدامات کرنے جیسی ذمے داریوں پر غور کریں، بلدیہ عظمیٰ ان سے بھی دامن چھڑاتی نظر آتی ہے۔ بلدیہ عظمیٰ سمیت کسی ادارے کے پاس شہریوں کے مسائل اور اپنے وسائل کا کوئی ریکارڈ تک موجود نہیں ہے۔ وہ ریکارڈ جسے اپ ڈیٹ رکھنا کامیاب انتظامی امور اور اس پر قدرت رکھنے کی ضمانت ہے۔
سی ویو پر تیس سے زائد لوگوں کی ہلاکت پر افسوس اور اپنی غفلت کا اعتراف کرنے کے بجائے ایڈمنسٹریٹر کراچی نے کیا دلفریب بیان دیا ۔ انھوں نے کہا کہ مون سون کی پہلی بارش میں بلدیہ عظمیٰ کے پیشگی اقدامات سے کوئی جانی و مالی نقصان نہیں ہوا۔یہ وہ بیان تھا جسے سن اور پڑھ کر دماغ کی رگیں پھٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں ۔ ایڈمنسٹریٹر کراچی کو سی ویو پر ہلاکتوں کا گویا علم ہی نہیںہے ۔
مون سون کی پہلی بارش جو محض آدھے گھنٹے سے زائد بھی نہیں تھی، اس کی وجہ سے شہر کے رہے سہے گٹر بھی ابل پڑے۔حال یہ ہے کہ برساتی اور عام نالوں کا گندا پانی گویا صرف چند منٹ کی مزید تیز بارش کا منتظر ہے کہ یہ بارش ہو اور یہ باہر نکل کر تباہی پھیلائے۔پھر جس طرح سی ویو پر انسانی جانیں ضایع ہوئیں ویسے ہی نہ جانے کتنی جانیں ان نالوں اور گٹر وں کی نذر ہو جائیں گی۔
یہ بے لاگ تجزیہ پیشہ ورانہ مشاہدے کا نتیجہ ہے، اس لیے اگر کسی کی دل آزاری ہوتی ہو تو انتہائی معذرت مگر...کمشنر، اور ایڈمنسٹریٹربلدیہ عظمیٰ کو شہریوں کے مسائل اور درد کا احساس ہونا چاہیے اور اس کے حل کے لیے بہترین آغاز اپنے گردو پیش اور موجودہ مسائل کا علم رکھنے سے ہی ہوگا۔اس لیے بہتر ہے کہ شہری علم کو کسی لاگ بک میں محفوظ کریں، بالکل اسی طرح جیسے کلاچی کے دور میں انگریز سرکار کرتا تھا۔